اسکولوں کی خستہ حالی اساتذہ کی نااہلی

تعلیمی اداروں کے انفرا اسٹریکچر سے تعلیم پر حکومت کی ترجیحات کا درست اندازہ ہو جاتا ہے۔

تعلیمی ادارے ایک طرف اہل اساتذہ سے محروم ہیں تو ساتھ ہی ان کی خستہ حالی انتظامیہ کی غفلت کا نوحہ کہہ رہی ہے۔ فوٹو : فائل

کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے، تعلیم کے لیے جہاں نصاب اور نظام کی اہمیت مسلمہ ہے وہیں اساتذہ اور تعلیمی ادارے بھی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

حصول تعلیم کے لیے اگرچہ چار دیواری اور چھت کو ثانوی حیثیت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن تعلیمی اداروں کے انفرا اسٹریکچر سے حقیقتاً تعلیم پر حکومت کی ترجیحات کا درست اندازہ ہو جاتا ہے کہ انتظامیہ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ دوسری طرف قابل اور اہل اساتذہ کے بغیر تعلیم کے حصول کا تصور ہی گویا ناممکن سی بات ہے۔ ضلع سکھر کے متعدد تعلیمی ادارے ایک طرف اہل اساتذہ کی خدمات سے محروم ہیں تو ساتھ ہی ان کی خستہ حالی انتظامیہ کی غفلت کا نوحہ کہہ رہی ہے۔

سکھر سمیت مضافاتی علاقوں میں موجود سیکڑوں سرکاری اور نجی درس گاہوں کے معیارِ تعلیم میں واضح فرق موجود ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ضلع میں قائم سرکاری درس گاہوں کو قابل اور اہل اساتذہ میسر نہیں۔ سرکاری درس گاہوں کے زیادہ تر اساتذہ اعلا تعلیم کی اسناد رکھنے کے باوجود مطلوبہ اہلیت سے محروم ہیں اور جدید طریقۂ ہائے تعلیم سے ناواقف ہیں۔ پی ایس ٹی، بی ایڈ، ایم ایڈ، ڈپلومہ فزیکل ایجو کیشن، ملکی اور غیر ملکی سرکاری تنظیموں کی جانب سے دی جانے والی تربیت سمیت دیگر کورسز کی بدولت مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں، لیکن معیاری تعلیم دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ بدقسمتی سے تعلیم کے شعبے پر توجہ نہ ہونے کے باعث سکھر، روہڑی، پنو عاقل، صالح پٹ، گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، اوباڑو، ڈہرکی، شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ، خیرپور سمیت بالائی سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہر میں قائم ہزاروں سرکاری درس گاہوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔

ان علاقوں کے اسکولوں میں معلم اور متعلم دونوں ہی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ اپنے فرائض انجام دیے بغیر ہی تن خواہ وصول کر رہے ہیں۔ بعض درس گاہوں کے منتظمین فقط اسکول میں بچوں کی زیادہ سے زیادہ حاضری دکھانے کے لیے ہی بچوں کو رجسٹر کرتے ہیں۔ طالب علموں کی بڑی تعداد غیر حاضری کے باوجود امتحانات میں کام یاب قرار دی جاتی ہے، اس کا مقصد اسکولوں میں زیادہ سے زیادہ داخلے بتانا اور بدنامی سے بچانا ہے۔

سرکاری درس گاہوں میں گرتے ہوئے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر میں موجود نجی درس گاہوں، جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات کو نتائج آنے سے قبل ہی ملکی و غیرملکی بڑی اور نام ور کمپنیوں میں اچھی تن خواہوں پر ملازمت مل جاتی ہے جب کہ سرکاری اسکول اور کالجوں سے تعلیم مکمل کرنے والے ہزاروں نوجوان روزگار کے لیے سرکاری اور نجی اداروں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ مایوسی کا شکار نوجوانوں کی بڑی تعداد پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اب محنت مزدوری کرتے ہوئے کم اجرت پر کام کر رہی ہے۔




ورکس اینڈ سروسز ایجوکیشن کے زیر نگرانی تعمیرکردہ اسکول اور کالجوں کی تعمیر کے دوران ناقص مٹیریل کا استعمال ان میں ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا سبب بن رہا ہے۔ جب کہ متعدد عمارتوں کا تعمیراتی کام طویل عرصے سے رکا ہوا ہے۔

سکھرکے گنجان آباد علاقوں میں طویل عرصے سے التوا کی شکار اسکول بلڈنگ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اسکولوں کی خستہ حالی کی وجہ سے کسی بھی وقت کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ محکمہ تعلیم نے اس سنگین صورت حال کے باوجود فنڈز کی عدم دستیابی کا جواز پیش کر کے گویا اپنی ذمہ داری پوری کردی۔

سکھر کے گورنمنٹ گرلز، بوائز پرائمری اسکول، جنات بلڈنگ، گورنمنٹ ہائی اسکول نیو پنڈ، گورنمنٹ پرائمری اسکول بہار کالونی سمیت دیگر درس گاہوں میں التوا کا شکار ترقیاتی کاموں کے باعث بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ درس گاہوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے شہریوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے نجی اسکولو ں کا رخ کر رہے ہیں۔ نجی درس گاہوں میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ سے انتہائی کم تن خواہ حاصل کرتے ہیں مگر نتائج سرکاری اسکولوں سے کئی گنا بہتر ہوتے ہیں۔

حکومت اگر صوبے میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ٹھوس اقدام کرے، سیاسی اثرات سے پاک خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر اساتذہ متعین کیے جائیں۔ دوسری طرف اسکولوں کی خستہ حالی کی طرف بھی توجہ دی جائے تاکہ کسی ناخوش گوار واقعے سے بچا جا سکے۔ اہل اساتذہ کے ساتھ اسکولوں کا بہتر انفرا اسٹریکچر پست ہوتے تعلیمی معیار کو بحال کرنے کے ساتھ صوبے میں تعلیم کی شرح میں بھی اضافہ کرے گا۔
Load Next Story