خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے تازہ واقعات
فاٹا کے جو حالات سامنے آرہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیاں اور قبائلی علاقوں میں امریکا کے ڈرون طیاروں کے حملے اب کوئی نئی بات نہیں رہے۔یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، اس کے بارے میں بھی ارباب اختیار خاصی حد تک آگاہ ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے جن انتظامی،قانونی اور آئینی اقدامات کی ضرورت ہے، وہ نہیں ہورہے ۔دہشت گردوں ، ان کے سرپرستوں ، پشت پناہوں اور حامیوں کو گرفتار کرنے اورانھیں سزا دلوانے کے لیے تاحال کوئی انقلابی نوعیت کی قانونی سازی نہیں کی گئی۔سرکاری اداروں میں ان سے ہمدردی رکھنے والوں کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے پر بھی توجہ نہیں دی گئی البتہ صوبائی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت ،سب کا نعرہ یہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑیں گے لیکن آئے روز ہونے والے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے ان نعروں کی حقیقت کھل جاتی ہے۔دہشت گرد ہمارے فوجی جوانوں،پولیس اہلکاروں اور عوام کو شہید کررہے ہیں لیکن سیاستدانوں اور اعلیٰ حکومتیں ایوانوں میں سوائے بیانات کی بھرمار کے کچھ نظر نہیں آتا۔
خیبر پختون خوا میں گزشتہ روز بنوں میں دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی جب کہ چارسدہ میں بم دھماکے میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ میڈیا کی اطلاعا ت کے مطابق بنوں کی حدود میں تھانہ ککی پر علی الصبح پانچ خودکش بمباروں نے حملہ کیا، اس وقت تھانے سے ملحق مسجد میں نماز فجر ادا کی جارہی تھی۔ تقریباً 20 پولیس اہل کاروں نے حملہ آوروں کا گھیراو کیا، اس دوران تین پولیس اہل کاروں اور ایک فوجی جوان سمیت 9 افراد شہید ہوئے جب کہ چار خودکش حملہ آور بھی مارے گئے جب کہ ایک کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی سال اپریل میں بنوں سینٹرل جیل پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا اور متعدد خطرناک قیدیوں کو چھڑا لے گئے تھے۔یہ انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔خیبر پختونخوا کے اسٹیلڈ ایریاز میں دہشت گردوں کا اس طرح پولیس تھانوں پر حملہ آور ہونا، بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
بنوں سینٹرل جیل پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے کیا حفاظتی اقدامات کیے ، اس کا پول بنوں ہی میں حالیہ حملے سے کھل جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے تقریباً ہربڑے شہر کے ساتھ کسی نہ کسی قبائلی علاقے کی حدود ملتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فاٹا انتظامیہ اور صوبائی انتظامیہ کا باہمی انٹیلی جنس رابطہ نہیں ہے، اگر ہے تو یہ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا رہا۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کی صورت میں یلغار کرتے ہیںاور بے گناہوں کا خون بہا نے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعد میں طالبان اسے قبول بھی کرلیتے ہیں۔سوات سے ملحقہ اضلاع دیر اور بونیر وغیرہ میں مولوی فضل اﷲ کے دہشت گرد درجنوں اور بیسیوں کی تعداد میں جمع ہوکر عوام اور سیکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اس صورتحال کے باوجود اگر کوئی حکومت کہے کہ وہ دہشت گردوں سے لڑ رہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے۔
بنوں کے علاوہ چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے جلسہ گاہ کی پارکنگ کے قریب ایک دھماکا ہوا جس میں 8 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔اس جلسے میں پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی سمیت دیگر قائدین نے شرکت کرنا تھی۔ پولیس ذرایع کے مطابق عبدالولی خان اسپورٹس کمپلیکس کی پارکنگ میں لوگ گاڑیاں پارک کر کے وہاں سے جلسہ گاہ میں پیدل جارہے تھے کہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہو گیا۔ بم سڑک کے کنارے بجری کے ڈھیر میں چھپایا گیا تھا ، اگر ایک طرف 24 گھنٹے میں یکے بعد دیگرے واقعات نے عوام کو خوف و ہراس اور مایوسی میں مبتلا کر دیا تو دوسری جانب حکومت، انتظامیہ اور سیکیورٹی دیگر اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے کہ شدت پسند کس دلیری سے حکومتی رٹ چیلنج کررہے ہیں۔ یہ تو سیٹلڈ ایریاز کی صورتحال ہے۔
فاٹا کے جو حالات میڈیا کے ذریعے سامنے آرہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔اگلے روز شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ سے 14 کلو میٹر دور واقع تبی گاؤں میں ایک مکان پر امریکا کے جاسوس طیارے کے میزائل حملے میں القاعدہ کے ایک اہم کمانڈر محمد احمد المنصور سمیت 4 افراد کی ہلاکت کی خبریں ہیں اور جس کے بعد پولیٹکل انتظامیہ نے علاقے میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا۔قبائلی علاقوں میں تواتر سے ڈرون حملے ہورہے ہیں اور ان میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔پاکستان میںعموماً یہ تاثر ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی کھلی خلاف ورزی ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں اور انتقاماً پاکستان کے شہروں میں خود کش حملے ہوتے ہیں۔تحریک انصاف نے گزشتہ دنوں ڈرون حملوں کے خلاف مارچ بھی کیا تھا۔
حکومت پاکستان بھی غالباً ایسا ہی موقف رکھتی ہے اور وہ ہر ڈرون حملے کے بعد امریکا سے احتجاج بھی کرتی ہے ، یہ سب باتیں درست ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم میں کیا کمزوریاں اور خامیاں ہیں۔دہشت گرد امریکا کو نقصان نہیں پہنچا رہے، وہ پاکستان کو تباہ کررہے ہیں۔کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ملک دشمنوں کے ہاتھ توڑنے کے اقدامات کریں۔اس مقصد کے لیے جن آئینی یا قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے، انھیں بروئے کار لایا جائے ۔جو عناصر چھپ کر پاکستان کی تباہی کا سامان کررہے ہیں، انھیں بے نقاب کیا جائے۔سیاستدانوں کو وقتی مفادات کے حصول کے لیے صوبائی، لسانی، نسلی اور مسلکی منافرتیں پھیلانے کے بجائے اصل دشمن کو ٹارگٹ کرنا چاہیے، اسی طریقے سے دہشت گردوںکو شکست دی جاسکتی ہے۔
خیبر پختون خوا میں گزشتہ روز بنوں میں دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی جب کہ چارسدہ میں بم دھماکے میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ میڈیا کی اطلاعا ت کے مطابق بنوں کی حدود میں تھانہ ککی پر علی الصبح پانچ خودکش بمباروں نے حملہ کیا، اس وقت تھانے سے ملحق مسجد میں نماز فجر ادا کی جارہی تھی۔ تقریباً 20 پولیس اہل کاروں نے حملہ آوروں کا گھیراو کیا، اس دوران تین پولیس اہل کاروں اور ایک فوجی جوان سمیت 9 افراد شہید ہوئے جب کہ چار خودکش حملہ آور بھی مارے گئے جب کہ ایک کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی سال اپریل میں بنوں سینٹرل جیل پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا اور متعدد خطرناک قیدیوں کو چھڑا لے گئے تھے۔یہ انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔خیبر پختونخوا کے اسٹیلڈ ایریاز میں دہشت گردوں کا اس طرح پولیس تھانوں پر حملہ آور ہونا، بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
بنوں سینٹرل جیل پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے کیا حفاظتی اقدامات کیے ، اس کا پول بنوں ہی میں حالیہ حملے سے کھل جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے تقریباً ہربڑے شہر کے ساتھ کسی نہ کسی قبائلی علاقے کی حدود ملتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فاٹا انتظامیہ اور صوبائی انتظامیہ کا باہمی انٹیلی جنس رابطہ نہیں ہے، اگر ہے تو یہ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا رہا۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کی صورت میں یلغار کرتے ہیںاور بے گناہوں کا خون بہا نے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعد میں طالبان اسے قبول بھی کرلیتے ہیں۔سوات سے ملحقہ اضلاع دیر اور بونیر وغیرہ میں مولوی فضل اﷲ کے دہشت گرد درجنوں اور بیسیوں کی تعداد میں جمع ہوکر عوام اور سیکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اس صورتحال کے باوجود اگر کوئی حکومت کہے کہ وہ دہشت گردوں سے لڑ رہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے۔
بنوں کے علاوہ چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے جلسہ گاہ کی پارکنگ کے قریب ایک دھماکا ہوا جس میں 8 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔اس جلسے میں پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی سمیت دیگر قائدین نے شرکت کرنا تھی۔ پولیس ذرایع کے مطابق عبدالولی خان اسپورٹس کمپلیکس کی پارکنگ میں لوگ گاڑیاں پارک کر کے وہاں سے جلسہ گاہ میں پیدل جارہے تھے کہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہو گیا۔ بم سڑک کے کنارے بجری کے ڈھیر میں چھپایا گیا تھا ، اگر ایک طرف 24 گھنٹے میں یکے بعد دیگرے واقعات نے عوام کو خوف و ہراس اور مایوسی میں مبتلا کر دیا تو دوسری جانب حکومت، انتظامیہ اور سیکیورٹی دیگر اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے کہ شدت پسند کس دلیری سے حکومتی رٹ چیلنج کررہے ہیں۔ یہ تو سیٹلڈ ایریاز کی صورتحال ہے۔
فاٹا کے جو حالات میڈیا کے ذریعے سامنے آرہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔اگلے روز شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ سے 14 کلو میٹر دور واقع تبی گاؤں میں ایک مکان پر امریکا کے جاسوس طیارے کے میزائل حملے میں القاعدہ کے ایک اہم کمانڈر محمد احمد المنصور سمیت 4 افراد کی ہلاکت کی خبریں ہیں اور جس کے بعد پولیٹکل انتظامیہ نے علاقے میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا۔قبائلی علاقوں میں تواتر سے ڈرون حملے ہورہے ہیں اور ان میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔پاکستان میںعموماً یہ تاثر ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی کھلی خلاف ورزی ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں اور انتقاماً پاکستان کے شہروں میں خود کش حملے ہوتے ہیں۔تحریک انصاف نے گزشتہ دنوں ڈرون حملوں کے خلاف مارچ بھی کیا تھا۔
حکومت پاکستان بھی غالباً ایسا ہی موقف رکھتی ہے اور وہ ہر ڈرون حملے کے بعد امریکا سے احتجاج بھی کرتی ہے ، یہ سب باتیں درست ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم میں کیا کمزوریاں اور خامیاں ہیں۔دہشت گرد امریکا کو نقصان نہیں پہنچا رہے، وہ پاکستان کو تباہ کررہے ہیں۔کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ملک دشمنوں کے ہاتھ توڑنے کے اقدامات کریں۔اس مقصد کے لیے جن آئینی یا قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے، انھیں بروئے کار لایا جائے ۔جو عناصر چھپ کر پاکستان کی تباہی کا سامان کررہے ہیں، انھیں بے نقاب کیا جائے۔سیاستدانوں کو وقتی مفادات کے حصول کے لیے صوبائی، لسانی، نسلی اور مسلکی منافرتیں پھیلانے کے بجائے اصل دشمن کو ٹارگٹ کرنا چاہیے، اسی طریقے سے دہشت گردوںکو شکست دی جاسکتی ہے۔