ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
ایک وقت وہ بھی تھا کہ بے چارے صحافی کو کوئی اپنی بیٹی دینے کے لیے بھی راضی نہیں ہوتا تھا۔
قصیدہ اور ہجو اُردو شاعری کی دو انتہائی اہم اور قدیم اصناف سخن ہیں جنہوں نے بالترتیب شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ اورمرزا محمد رفیع سوداؔ کو شہرتِ عام اور بقائے دوام بخشی ہے۔ صرف ذوقؔ ہی نہیں مرزا غالب نے بھی اس صنف سے استفادہ کیا ہے اور اعترافاً یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ
بنا ہے شہ کا مصاحب پھر سے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
اور پھر جب دربار شاہی سے مرزا کو تحفے میں آم موصول ہوئے تب بھی انھوں نے شکریہ ادا کرنے کے لیے قصیدہ گوئی کا ہی سہارا لیا تھا۔ دوسری جانب سوداؔ نے ہجو کو ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ وہ اپنے ہدف کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنے خادم کو بلند آواز میں مخاطب کرتے ''غنچہ! ذرالانا میرا قلم دان'' اس کے بعد ان کے ہدف کے پاس ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہتا۔
وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے، چنانچہ قصیدہ کوئی اور ہجو گوئی کے انداز بھی تبدیل ہوگئے اور یہ دونوں اصنافِ سخن کوچہ صحافت میں داخل ہوگئیں۔ صحافت میں ہجو سے فائدہ اٹھانے والوں میں آنجہانی دیوان سنگھ مفتونؔ کا نام ہمیشہ سر فہرست رہے گا کہ بڑے بڑے راجے اور مہاراجے سردار جی کے قلم کے وار سے پناہ مانگتے تھے۔ سردار جی کے بعد ان کے بہت سے مقتدیوں نے ان کی قائم کی ہوئی روایت سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور نام بھی کمایا اور مال بھی بنایا۔ ان ہی میں شامل تھے سردار دربتھ سنگھ۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ دلّی کی سڑکوں پر خاک چھانتے اور جوتیاں چٹخاتے ہوئے پھرا کرتے تھے۔ پھر نہ معلوم انھیں کس نے سُر دیا کہ وہ اپنا ایک اخبار نکال کر ایڈیٹر بن بیٹھے۔ موصوف کا کام تھا دن بھر مختلف اداروں میں گھومنا اور جاسوس کی طرح اسکینڈلوں کی بُو سونگھ سونگھ کر ان کی خبریں اچھالنا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ موصوف کا اخبار چل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے سردار جی کے وارے نیارے ہوگئے۔
وطن عزیز میں بھی جن لوگوں نے یہ گُر آزمایا، خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور اسی کی بدولت بہت سے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں! شعبہ طب کی طرح صحافت بھی دیکھتے دیکھتے مشن سے پروفیشن بن گیا۔ سچ پوچھیے تو عصر حاضر میں اسے ٹکسال کا درجہ حاصل ہے۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''جب لڈّو ٹوٹتا ہے تو پھورے جھڑتے ہیں'' سو اخباری صنعت کے فروغ کے نتیجے میں اخبار نویسوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے ورنہ تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ بے چارے صحافی کو کوئی اپنی بیٹی دینے کے لیے بھی راضی نہیں ہوتا تھا۔ بھلا کون باپ چاہے گا کہ اپنی نور چشمی کو کسی فقیرا خان لکیرا کے حوالے کردے۔ بھلا ہو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا کہ لفافہ جرنلزم کی ریت پڑ گئی جس کا سلسلہ جمہوری حکومتوں میں بھی جاری و ساری رہا۔ اس کے بعد پلاٹوں کی گنگا بہنا شروع ہوگئی ۔ پرنٹ میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ:
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹّی کے پر
بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور یار لوگوں کی لاٹریاں نکل آئیں۔ معمولی قسم کے چھوٹے چھوٹے اخباروں کے رپورٹر اور اسسٹنٹ ایڈیٹر تو کجا ڈاکٹری پیشے کے ناکام لوگ بھی ایک چھلانگ میں اینکروں کی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ بھائی محسن بھوپالی مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ:
نیرنگیٔ ''صحافت'' دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر تھے
اور بس جو کوئی بھی اینکر کی گدّی پر براجمان ہوگیا وہ عقل کل، جہان دانش اور میدان صحافت کا چیمپئن بن گیا۔ اب جسے بھی دیکھیے اس کا عالم یہ ہے کہ:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
بس کاتا اور لے دوڑی کا سامان ہے۔ اُردو کا لفظ نہیں ملتا تو انگریزی کا سہارا لیتے ہیں اور جب گٹ پٹ سے بات بنتی نظر نہیں آتی تو غلط سلط اُردو پر گزارا کرتے ہیں۔ کبھی اُردو کی ٹانگ توڑ رہے ہوتے ہیں تو کبھی انگریزی کی۔ کوئی ''الفاظوں'' کہہ رہا ہے تو کوئی ''جذباتوں'' کوئی ''خیالاتوں'' بول رہا ہے تو کوئی ''نظریاتوں''۔ کریلا اور نیم چڑھا کے مصداق واحد جمع کی خوفناک غلطیوں پر مستزاد لب و لہجہ اتنا غیر شائستہ کے الامان الحفیظ۔ بعض اینکرز کا تو یہ حال ہے کہ ان پر گلی کے مشہور خوانچہ فروشوں کی آوازیں لگانے کا گمان ہوتا ہے۔ انھوں نے طے کیا ہوا ہے کہ بات بات پر اپنی ہی ٹانگ اڑانا ہے اور بے چارے مہمانوں کو کچھ نہیں بولنے دینا۔ خواتین اینکرز کا تو اس سے بھی زیادہ جارحانہ انداز ہے۔ لگتا ہے لڑاکا پڑوسنیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک چینل پر جو کچھ دیکھنے کو ملا اس نے تو گویا رہا سہا بھرم بھی ختم کردیا۔ مقصد کسی کی دلآزاری کرنا نہیں ،اصلاح کی طرف توجہ دلانا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ریڈیو پاکستان میں مائیکروفون پر بولنے کی اہلیت کو جانچنے کے لیے آواز کا ایک امتحان ہوا کرتا تھا جسے براڈ کاسٹنگ کی اصطلاح میں آڈیشن کہا جاتا تھا۔ آڈیشن سننے والوں کا پینل ثقہ قسم کے ماہرین پر مشتمل ہوتا تھا جو قطعاً میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا کرتے تھے۔ اس معاملے میں رتی بھر رو رعایت کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نشرکار خواہ اناؤنسر ہو، ڈرامہ آرٹسٹ ہو یا گلوکار، کوئی بھی اس امتحان سے مبرّا نہیں تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کی بھٹی سے جو بھی نکلا وہ کندن بن کر ہی نکلا۔ اناؤنسمنٹ سے لے کر ڈراما اور گلوکاری تک ریڈیو پاکستان سے نکلا ہوا ہر فنکار اپنا ایک نام اور مقام رکھتا ہے۔ پی ٹی وی نے بھی کافی حد تک ریڈیو پاکستان کی اس عظیم روایت کی بڑی حد تک پاسداری کی ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی کی طرز پر پی ٹی وی کی بھی ایک اکیڈمی ہے جہاں نشریات کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو باقاعدہ ٹریننگ دے کر ان کی اہلیت اور صلاحیت کو نکھارا جاسکتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نجی ٹی وی چینلز نے اس چیز کا کوئی لحاظ نہیں رکھا اور جو بھی آیا اسے بھرتی کرلیا۔ جیساکہ ہم اپنے ایک گزشتہ کالم میں بھی عرض کرچکے ہیں تلفظ کی سو فیصد درستی اور pausesاور stresses کا خیال رکھنا ریڈیو پاکستان سے فارغ التحصیل ہر نشرکار اور فنکار کی گھٹی میں شامل ہوا کرتا تھا جس کا جیتا جاگتا ثبوت مرحوم مہدی حسن، غلام علی، عرفان کھوسٹ، قوی خان، طارق عزیز اور طلعت حسین سمیت تمام نامور آرٹسٹس ہیں۔ مجال نہ تھی کہ کوئی ایسا براڈ کاسٹر ریڈیو پاکستان کے مائیکرو فون تک رسائی حاصل کرلے جس کا ش ق درست نہ ہو۔ یہ نجی ٹی وی چینلز کا ہی کمال ہے کہ ''صورت حال'' کا تلفظ مسلسل اور دھڑلے کے ساتھ ''صورتے حال'' کرنے والے جیسے اینکرز ٹی وی اسکرین پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جنھیں دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر بابائے نشریات زیڈ۔اے بخاری صاحب کی روح عالم ارواح میں بری طرح تڑپ رہی ہوگی۔ نشریات کا ایک اور بنیادی اصول یا ضابطہ ہے کہ ''پہلے تولو' پھر بولو''۔ ریڈیو پاکستان نے اس کی پیروی صد فیصد اور پی ٹی وی نے بڑی حد تک کی ہے۔ مگر نجی ٹی وی چینلز میں اس کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے لائیو پروگراموں میں جو منہ میں آیا کہہ دیا کا چلن عام ہے، جس سے بسا اوقات ناظرین کا سارا مزا کِرکرا ہوجاتا ہے۔ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو جی میں آیا وہ بک دیا جائے۔ یارو! دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔
ٹاک شوز کے نام پر مختلف ٹی وی چینلز پر روزانہ جو تماشا ہوتا ہے اس میں بسا اوقات تُو تُو، میں میں ہی ہوتے ہے جسے دیکھ کر بے ساختہ غالبؔ کا یہ شعر نوک زبان پر آجاتا ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
بنا ہے شہ کا مصاحب پھر سے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
اور پھر جب دربار شاہی سے مرزا کو تحفے میں آم موصول ہوئے تب بھی انھوں نے شکریہ ادا کرنے کے لیے قصیدہ گوئی کا ہی سہارا لیا تھا۔ دوسری جانب سوداؔ نے ہجو کو ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ وہ اپنے ہدف کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنے خادم کو بلند آواز میں مخاطب کرتے ''غنچہ! ذرالانا میرا قلم دان'' اس کے بعد ان کے ہدف کے پاس ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہتا۔
وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے، چنانچہ قصیدہ کوئی اور ہجو گوئی کے انداز بھی تبدیل ہوگئے اور یہ دونوں اصنافِ سخن کوچہ صحافت میں داخل ہوگئیں۔ صحافت میں ہجو سے فائدہ اٹھانے والوں میں آنجہانی دیوان سنگھ مفتونؔ کا نام ہمیشہ سر فہرست رہے گا کہ بڑے بڑے راجے اور مہاراجے سردار جی کے قلم کے وار سے پناہ مانگتے تھے۔ سردار جی کے بعد ان کے بہت سے مقتدیوں نے ان کی قائم کی ہوئی روایت سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور نام بھی کمایا اور مال بھی بنایا۔ ان ہی میں شامل تھے سردار دربتھ سنگھ۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ دلّی کی سڑکوں پر خاک چھانتے اور جوتیاں چٹخاتے ہوئے پھرا کرتے تھے۔ پھر نہ معلوم انھیں کس نے سُر دیا کہ وہ اپنا ایک اخبار نکال کر ایڈیٹر بن بیٹھے۔ موصوف کا کام تھا دن بھر مختلف اداروں میں گھومنا اور جاسوس کی طرح اسکینڈلوں کی بُو سونگھ سونگھ کر ان کی خبریں اچھالنا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ موصوف کا اخبار چل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے سردار جی کے وارے نیارے ہوگئے۔
وطن عزیز میں بھی جن لوگوں نے یہ گُر آزمایا، خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور اسی کی بدولت بہت سے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں! شعبہ طب کی طرح صحافت بھی دیکھتے دیکھتے مشن سے پروفیشن بن گیا۔ سچ پوچھیے تو عصر حاضر میں اسے ٹکسال کا درجہ حاصل ہے۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''جب لڈّو ٹوٹتا ہے تو پھورے جھڑتے ہیں'' سو اخباری صنعت کے فروغ کے نتیجے میں اخبار نویسوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے ورنہ تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ بے چارے صحافی کو کوئی اپنی بیٹی دینے کے لیے بھی راضی نہیں ہوتا تھا۔ بھلا کون باپ چاہے گا کہ اپنی نور چشمی کو کسی فقیرا خان لکیرا کے حوالے کردے۔ بھلا ہو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا کہ لفافہ جرنلزم کی ریت پڑ گئی جس کا سلسلہ جمہوری حکومتوں میں بھی جاری و ساری رہا۔ اس کے بعد پلاٹوں کی گنگا بہنا شروع ہوگئی ۔ پرنٹ میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ:
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹّی کے پر
بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور یار لوگوں کی لاٹریاں نکل آئیں۔ معمولی قسم کے چھوٹے چھوٹے اخباروں کے رپورٹر اور اسسٹنٹ ایڈیٹر تو کجا ڈاکٹری پیشے کے ناکام لوگ بھی ایک چھلانگ میں اینکروں کی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ بھائی محسن بھوپالی مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ:
نیرنگیٔ ''صحافت'' دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر تھے
اور بس جو کوئی بھی اینکر کی گدّی پر براجمان ہوگیا وہ عقل کل، جہان دانش اور میدان صحافت کا چیمپئن بن گیا۔ اب جسے بھی دیکھیے اس کا عالم یہ ہے کہ:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
بس کاتا اور لے دوڑی کا سامان ہے۔ اُردو کا لفظ نہیں ملتا تو انگریزی کا سہارا لیتے ہیں اور جب گٹ پٹ سے بات بنتی نظر نہیں آتی تو غلط سلط اُردو پر گزارا کرتے ہیں۔ کبھی اُردو کی ٹانگ توڑ رہے ہوتے ہیں تو کبھی انگریزی کی۔ کوئی ''الفاظوں'' کہہ رہا ہے تو کوئی ''جذباتوں'' کوئی ''خیالاتوں'' بول رہا ہے تو کوئی ''نظریاتوں''۔ کریلا اور نیم چڑھا کے مصداق واحد جمع کی خوفناک غلطیوں پر مستزاد لب و لہجہ اتنا غیر شائستہ کے الامان الحفیظ۔ بعض اینکرز کا تو یہ حال ہے کہ ان پر گلی کے مشہور خوانچہ فروشوں کی آوازیں لگانے کا گمان ہوتا ہے۔ انھوں نے طے کیا ہوا ہے کہ بات بات پر اپنی ہی ٹانگ اڑانا ہے اور بے چارے مہمانوں کو کچھ نہیں بولنے دینا۔ خواتین اینکرز کا تو اس سے بھی زیادہ جارحانہ انداز ہے۔ لگتا ہے لڑاکا پڑوسنیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک چینل پر جو کچھ دیکھنے کو ملا اس نے تو گویا رہا سہا بھرم بھی ختم کردیا۔ مقصد کسی کی دلآزاری کرنا نہیں ،اصلاح کی طرف توجہ دلانا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ریڈیو پاکستان میں مائیکروفون پر بولنے کی اہلیت کو جانچنے کے لیے آواز کا ایک امتحان ہوا کرتا تھا جسے براڈ کاسٹنگ کی اصطلاح میں آڈیشن کہا جاتا تھا۔ آڈیشن سننے والوں کا پینل ثقہ قسم کے ماہرین پر مشتمل ہوتا تھا جو قطعاً میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا کرتے تھے۔ اس معاملے میں رتی بھر رو رعایت کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نشرکار خواہ اناؤنسر ہو، ڈرامہ آرٹسٹ ہو یا گلوکار، کوئی بھی اس امتحان سے مبرّا نہیں تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کی بھٹی سے جو بھی نکلا وہ کندن بن کر ہی نکلا۔ اناؤنسمنٹ سے لے کر ڈراما اور گلوکاری تک ریڈیو پاکستان سے نکلا ہوا ہر فنکار اپنا ایک نام اور مقام رکھتا ہے۔ پی ٹی وی نے بھی کافی حد تک ریڈیو پاکستان کی اس عظیم روایت کی بڑی حد تک پاسداری کی ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی کی طرز پر پی ٹی وی کی بھی ایک اکیڈمی ہے جہاں نشریات کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو باقاعدہ ٹریننگ دے کر ان کی اہلیت اور صلاحیت کو نکھارا جاسکتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نجی ٹی وی چینلز نے اس چیز کا کوئی لحاظ نہیں رکھا اور جو بھی آیا اسے بھرتی کرلیا۔ جیساکہ ہم اپنے ایک گزشتہ کالم میں بھی عرض کرچکے ہیں تلفظ کی سو فیصد درستی اور pausesاور stresses کا خیال رکھنا ریڈیو پاکستان سے فارغ التحصیل ہر نشرکار اور فنکار کی گھٹی میں شامل ہوا کرتا تھا جس کا جیتا جاگتا ثبوت مرحوم مہدی حسن، غلام علی، عرفان کھوسٹ، قوی خان، طارق عزیز اور طلعت حسین سمیت تمام نامور آرٹسٹس ہیں۔ مجال نہ تھی کہ کوئی ایسا براڈ کاسٹر ریڈیو پاکستان کے مائیکرو فون تک رسائی حاصل کرلے جس کا ش ق درست نہ ہو۔ یہ نجی ٹی وی چینلز کا ہی کمال ہے کہ ''صورت حال'' کا تلفظ مسلسل اور دھڑلے کے ساتھ ''صورتے حال'' کرنے والے جیسے اینکرز ٹی وی اسکرین پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جنھیں دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر بابائے نشریات زیڈ۔اے بخاری صاحب کی روح عالم ارواح میں بری طرح تڑپ رہی ہوگی۔ نشریات کا ایک اور بنیادی اصول یا ضابطہ ہے کہ ''پہلے تولو' پھر بولو''۔ ریڈیو پاکستان نے اس کی پیروی صد فیصد اور پی ٹی وی نے بڑی حد تک کی ہے۔ مگر نجی ٹی وی چینلز میں اس کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے لائیو پروگراموں میں جو منہ میں آیا کہہ دیا کا چلن عام ہے، جس سے بسا اوقات ناظرین کا سارا مزا کِرکرا ہوجاتا ہے۔ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو جی میں آیا وہ بک دیا جائے۔ یارو! دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔
ٹاک شوز کے نام پر مختلف ٹی وی چینلز پر روزانہ جو تماشا ہوتا ہے اس میں بسا اوقات تُو تُو، میں میں ہی ہوتے ہے جسے دیکھ کر بے ساختہ غالبؔ کا یہ شعر نوک زبان پر آجاتا ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے