پنجاب کا ضمنی الیکشن…کون کہاں کھڑا ہے
موجودہ دور حکومت میں ن لیگ پنجاب میں برسراقتدار ہونے کے باوجود ضمنی الیکشن ہاری ہے۔
عام انتخابات سے پہلے ہونے والے آخری ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی کامیابی نے نواز شریف کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب میاں صاحب اپنے بیانات اور تقریروں میں یہ کہا کرتے تھے کہ ان کی سیاسی جدوجہد اقتدار کے لیے نہیں ہے۔ ان کا یہ اظہار خیال بھی ریکارڈ پر ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی تنہا اب یہ ملک نہیں چلا سکتی۔ اس طرح کی باتیں ن لیگ کے قائد حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج آنے سے پہلے تک تواتر سے کیا کرتے تھے۔ اپنے حق میں نتائج آنے کے بعد ان کا لہجہ یکسر بدل چکا ہے۔ اچانک ان کی امیدیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں کلین سویپ اور دو تہائی اکثریت کی خواہش کرنے لگے ہیں۔ ان کی اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی اور ق لیگ دھوکہ دہی سے ضمنی الیکشن جیتنے کا الزام لگائیں یا پٹواریوں کے ذریعے ووٹ ڈلوانے کا دعویٰ کریں' اصل بات یہ ہے کہ ن لیگ نے یہ الیکشن جیت لیے ہیں۔ ویسے بھی دھاندلی کے الزامات تو ہر الیکشن کے بعد لگتے ہی ہیں، ان میں کوئی نئی بات نہیں۔کرکٹ میچ میں اگر کوئی بیٹسمین چانس لے کر سنچری بنائے تو ریکارڈ بکس میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ اس نے تین کیچ چھوٹنے کے بعد یا دو بار رن آئوٹ ہونے سے بچتے ہوئے سنچری بنائی ہے۔ اس کے نام کے سامنے صرف سنچری لکھی جاتی ہے اور اس کے ریکارڈ میں ایک سنچری کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ن لیگ کے مخالفوں کا یہ استدلال تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ضمنی انتخاب صرف حکومت وقت ہی جیتا کرتی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ن لیگ پنجاب میں برسراقتدار ہونے کے باوجود ضمنی الیکشن ہاری ہے۔ پیپلز پارٹی اور ق لیگ دونوں نے ہی اپ سیٹ کیے ہیں۔ حالیہ نتائج سے واضح ہے کہ ن لیگ نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ مخالف یہ بھی کہتے ہیں کہ ن لیگ نے اپنی ہی سیٹیں جیت کر کون سا معرکہ مار لیا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ ساہیوال سے قومی اسمبلی کی نشست تو پیپلز پارٹی کے امیدوار نے خالی کی تھی۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں جہاں تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار ہار گیا وہاں ق لیگ اور منظور وٹو کو بھی سیٹ بیک ہوا۔ گجرات میں گجر اور جاٹ دو بڑی برادریاں ہیں۔ یہاں سے ق لیگ کے امیدوار رحمان نصیر گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں جب چوہدری صاحبان نے نامزد کیا تو اس کا مطلب ہے دونوں بڑی برادریوں کی حمایت انھیں مل گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ق لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بھی ان کے حق میں تھا۔ گجرات سے ق لیگ کے امیدوار کی ناکامی ایسے ہی ہے جیسے شریف برادران کا کوئی امیدوار لاہور سے الیکشن ہار جائے۔دوسری طرف منظور وٹو ہیں جنھیں پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب ...!معاف کیجیے گا پنجاب کا صدر بنایا ہے، دراصل منظور وٹو مائنڈ کرتے ہیں اگر انھیں سینٹرل پنجاب کا صدر کہا جائے۔ انھیں پورے پنجاب کا صدر کہلوانا پسند ہے۔ ضمنی انتخابات کا نیٹ رزلٹ یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہار یا ناکامی کچھ سبق بھی دیتی ہے۔ ق لیگ کے لیے یہ سبق ہے کہ کہیں ان کے ووٹر پیپلز پارٹی کے ساتھ چوہدری برادران کے اتحاد سے ناخوش تو نہیں؟ دوسرا سبق وٹو کے لیے نہیں بذات خود پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے ہے کہ کیا جیالے وٹو کو جیالا مان لیں گے؟ منظور وٹو دائو پیچ کے ماہر ہوں گے جس کا ایک مظاہرہ وہ ماضی میں محض 18نشستوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر کے دے چکے ہیں، یہ وزارت اعلیٰ انھوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے ہی لی تھی۔ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بے نظیر ان سے کتنی''خوش'' تھیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میرے ذہن میں البتہ وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دور کی اس رات کی یاد ابھی تک تازہ ہے جب بے نظیر کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اچانک لاہور آنا پڑا تھا۔
تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار بھی اس الیکشن میں ہارا ہے لیکن اس ہار کو اس لیے زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں کہ کپتان صرف فائنل یعنی جنرل الیکشن میں ہی کلین سویپ کرنا چاہتے ہیں۔ ضمنی الیکشن ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو البتہ یہ مشورہ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس غلط فہمی سے اپنی جان چھڑا لے کہ عوام دونوں بڑی پارٹیوں کی کارکردگی سے تنگ آ چکے ہیں اور الیکشن میں صرف عمران خان کے امیدواروں کو ہی ووٹ ملیں گے۔ پی ٹی آئی کے بعض لیڈر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ لاہور میں عمران نے کھمبے کو ٹکٹ دیا تو وہ بھی جیت جائے گا۔ وفاقی حکومت کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ابھی تین ساڑھے تین ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ مہنگائی' بیروزگاری' اور توانائی کا بحران ضرور موجود ہے لیکن ڈھائی تین سال پہلے کی طرح آٹا' چینی اور چاول کا بحران نہیں ہے۔ اور پھر ضمنی الیکشن سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ خاص طور پر دیہی علاقوں کے ووٹر آج بھی تھانیدار اور پٹواری کو ہی ووٹ دے رہے ہیں یعنی وہی امیدوار جیتے گا جو تھانے' کچہری کے مسائل حل کرنے کا اہل ہو گا۔ تحریک انصاف کے خیال میں عوام ن لیگ کی کارکردگی سے بھی مایوس ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔ غیر ملکی سفارتکار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں صرف ایک وزیر اعلیٰ کام کر رہا ہے۔ ایک دو سفارتکاروں سے تو میری ذاتی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں جنہوں نے شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت گزشتہ سال ڈینگی پر قابو پانے میں ناکام رہی تھی تب میں نے اس پر کھل کر تنقید بھی کی تھی لیکن اس سال ڈینگی سے پورے پنجاب میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اگر سنجیدگی سے کوششیں نہ کی جاتیں تو کیا یہ ممکن تھا کہ اس قاتل وبا پر قابو پا لیا جاتا۔ پنجاب حکومت کے مقابلے میں دیگر صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بہت زیادہ خوش کن اطلاعات نہیں ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت کراچی میں امن قائم نہیں کر سکی،اب خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں ترقیاتی کام کتنے ہوئے ہوں گے۔اندرون سندھ کی حالت یہ ہے کہ ضلع جیکب آباد میں سیلاب کا پانی مہینوں گزرنے کے بعد بھی موجود ہے اور غریب سندھی حسرت ناک نگاہوں سے اپنی زمینوں کو دیکھ رہا ہے،کیا یہ سندھ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کی زندہ مثال نہیں ہے۔ یہی حال بلوچستان میں نصیر آباد سمیت کئی علاقوں کا ہے۔خیر وہاں کی تو بات ہی کیا کرنی، سردار جو چاہیں کریں۔ خیبر پختونخوا میں خیر سے خدائی خدمت گاروں کی حکومت ہے،اس کی کارکردگی اتنی''مثالی ہے'' کہ بے چارے اجمل خٹک کی قبر پر بھی بم چلا دیا گیا۔ اس''لبرل''اور'' ترقی پسند'' جماعت کے لیڈروں کا ''کارنامہ'' ہے کہ وہ عید کے چاند پر بھی حق بات کہنے سے نہیں چوکتے اور مولانا فضل الرحمن منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پشاورمیں ترقیاتی کاموں کے بارے میں کسی پشاوری سے پوچھ لیں تو وہ حکومت کے حق میں دونوں ہاتھ اٹھا کر'' دعائیں'' کرتا نظر آئے گا۔ہندکو،گوجری اور کھوار بیلٹ والے تو خدائی خدمت گاروں سے اتنے خوش ہیں کہ ہری پور سے مانسہرہ اور کوہستان سے چترال تک محترم اسفندیار کے لیے تعریفی بینززکی قطاریں نظر آتی ہیں۔شاید انھی کارناموں کا کمال ہے کہ اسفند یار ولی نے اکیلے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پنجاب حکومت پر تبرا کرنے کے بھی جواز موجود ہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اگر کوئی حکومت کام کررہی تو وہ پنجاب حکومت ہی ہے' دیگر صوبوں میں تو کوئی کوشش بھی نہیں کرتا۔اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں صرف پنجاب ہی ہے جہاں کسی حد تک امن بھی ہے، کاروبار بھی ہے اور ترقیاتی کام بھی ہورہے ہیں۔ایسا میں ہی نہیں لاہور میں مقیم غیر ملکی سفارتکار بھی کہہ رہے ہیں۔ لہٰذا میرے خیال میںضمنی الیکشن جنرل الیکشن کی مکمل تصویر تو قرار نہیںدیئے جا سکتے' ہاں البتہ اسے جنرل الیکشن کی ایک واضح جھلک ضرور کہا جا سکتا ہے۔
ن لیگ کے مخالفوں کا یہ استدلال تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ضمنی انتخاب صرف حکومت وقت ہی جیتا کرتی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ن لیگ پنجاب میں برسراقتدار ہونے کے باوجود ضمنی الیکشن ہاری ہے۔ پیپلز پارٹی اور ق لیگ دونوں نے ہی اپ سیٹ کیے ہیں۔ حالیہ نتائج سے واضح ہے کہ ن لیگ نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ مخالف یہ بھی کہتے ہیں کہ ن لیگ نے اپنی ہی سیٹیں جیت کر کون سا معرکہ مار لیا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ ساہیوال سے قومی اسمبلی کی نشست تو پیپلز پارٹی کے امیدوار نے خالی کی تھی۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں جہاں تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار ہار گیا وہاں ق لیگ اور منظور وٹو کو بھی سیٹ بیک ہوا۔ گجرات میں گجر اور جاٹ دو بڑی برادریاں ہیں۔ یہاں سے ق لیگ کے امیدوار رحمان نصیر گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں جب چوہدری صاحبان نے نامزد کیا تو اس کا مطلب ہے دونوں بڑی برادریوں کی حمایت انھیں مل گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ق لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بھی ان کے حق میں تھا۔ گجرات سے ق لیگ کے امیدوار کی ناکامی ایسے ہی ہے جیسے شریف برادران کا کوئی امیدوار لاہور سے الیکشن ہار جائے۔دوسری طرف منظور وٹو ہیں جنھیں پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب ...!معاف کیجیے گا پنجاب کا صدر بنایا ہے، دراصل منظور وٹو مائنڈ کرتے ہیں اگر انھیں سینٹرل پنجاب کا صدر کہا جائے۔ انھیں پورے پنجاب کا صدر کہلوانا پسند ہے۔ ضمنی انتخابات کا نیٹ رزلٹ یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہار یا ناکامی کچھ سبق بھی دیتی ہے۔ ق لیگ کے لیے یہ سبق ہے کہ کہیں ان کے ووٹر پیپلز پارٹی کے ساتھ چوہدری برادران کے اتحاد سے ناخوش تو نہیں؟ دوسرا سبق وٹو کے لیے نہیں بذات خود پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے ہے کہ کیا جیالے وٹو کو جیالا مان لیں گے؟ منظور وٹو دائو پیچ کے ماہر ہوں گے جس کا ایک مظاہرہ وہ ماضی میں محض 18نشستوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر کے دے چکے ہیں، یہ وزارت اعلیٰ انھوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے ہی لی تھی۔ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بے نظیر ان سے کتنی''خوش'' تھیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میرے ذہن میں البتہ وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دور کی اس رات کی یاد ابھی تک تازہ ہے جب بے نظیر کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اچانک لاہور آنا پڑا تھا۔
تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار بھی اس الیکشن میں ہارا ہے لیکن اس ہار کو اس لیے زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں کہ کپتان صرف فائنل یعنی جنرل الیکشن میں ہی کلین سویپ کرنا چاہتے ہیں۔ ضمنی الیکشن ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو البتہ یہ مشورہ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس غلط فہمی سے اپنی جان چھڑا لے کہ عوام دونوں بڑی پارٹیوں کی کارکردگی سے تنگ آ چکے ہیں اور الیکشن میں صرف عمران خان کے امیدواروں کو ہی ووٹ ملیں گے۔ پی ٹی آئی کے بعض لیڈر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ لاہور میں عمران نے کھمبے کو ٹکٹ دیا تو وہ بھی جیت جائے گا۔ وفاقی حکومت کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ابھی تین ساڑھے تین ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ مہنگائی' بیروزگاری' اور توانائی کا بحران ضرور موجود ہے لیکن ڈھائی تین سال پہلے کی طرح آٹا' چینی اور چاول کا بحران نہیں ہے۔ اور پھر ضمنی الیکشن سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ خاص طور پر دیہی علاقوں کے ووٹر آج بھی تھانیدار اور پٹواری کو ہی ووٹ دے رہے ہیں یعنی وہی امیدوار جیتے گا جو تھانے' کچہری کے مسائل حل کرنے کا اہل ہو گا۔ تحریک انصاف کے خیال میں عوام ن لیگ کی کارکردگی سے بھی مایوس ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔ غیر ملکی سفارتکار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں صرف ایک وزیر اعلیٰ کام کر رہا ہے۔ ایک دو سفارتکاروں سے تو میری ذاتی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں جنہوں نے شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت گزشتہ سال ڈینگی پر قابو پانے میں ناکام رہی تھی تب میں نے اس پر کھل کر تنقید بھی کی تھی لیکن اس سال ڈینگی سے پورے پنجاب میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اگر سنجیدگی سے کوششیں نہ کی جاتیں تو کیا یہ ممکن تھا کہ اس قاتل وبا پر قابو پا لیا جاتا۔ پنجاب حکومت کے مقابلے میں دیگر صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بہت زیادہ خوش کن اطلاعات نہیں ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت کراچی میں امن قائم نہیں کر سکی،اب خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں ترقیاتی کام کتنے ہوئے ہوں گے۔اندرون سندھ کی حالت یہ ہے کہ ضلع جیکب آباد میں سیلاب کا پانی مہینوں گزرنے کے بعد بھی موجود ہے اور غریب سندھی حسرت ناک نگاہوں سے اپنی زمینوں کو دیکھ رہا ہے،کیا یہ سندھ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کی زندہ مثال نہیں ہے۔ یہی حال بلوچستان میں نصیر آباد سمیت کئی علاقوں کا ہے۔خیر وہاں کی تو بات ہی کیا کرنی، سردار جو چاہیں کریں۔ خیبر پختونخوا میں خیر سے خدائی خدمت گاروں کی حکومت ہے،اس کی کارکردگی اتنی''مثالی ہے'' کہ بے چارے اجمل خٹک کی قبر پر بھی بم چلا دیا گیا۔ اس''لبرل''اور'' ترقی پسند'' جماعت کے لیڈروں کا ''کارنامہ'' ہے کہ وہ عید کے چاند پر بھی حق بات کہنے سے نہیں چوکتے اور مولانا فضل الرحمن منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پشاورمیں ترقیاتی کاموں کے بارے میں کسی پشاوری سے پوچھ لیں تو وہ حکومت کے حق میں دونوں ہاتھ اٹھا کر'' دعائیں'' کرتا نظر آئے گا۔ہندکو،گوجری اور کھوار بیلٹ والے تو خدائی خدمت گاروں سے اتنے خوش ہیں کہ ہری پور سے مانسہرہ اور کوہستان سے چترال تک محترم اسفندیار کے لیے تعریفی بینززکی قطاریں نظر آتی ہیں۔شاید انھی کارناموں کا کمال ہے کہ اسفند یار ولی نے اکیلے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پنجاب حکومت پر تبرا کرنے کے بھی جواز موجود ہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اگر کوئی حکومت کام کررہی تو وہ پنجاب حکومت ہی ہے' دیگر صوبوں میں تو کوئی کوشش بھی نہیں کرتا۔اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں صرف پنجاب ہی ہے جہاں کسی حد تک امن بھی ہے، کاروبار بھی ہے اور ترقیاتی کام بھی ہورہے ہیں۔ایسا میں ہی نہیں لاہور میں مقیم غیر ملکی سفارتکار بھی کہہ رہے ہیں۔ لہٰذا میرے خیال میںضمنی الیکشن جنرل الیکشن کی مکمل تصویر تو قرار نہیںدیئے جا سکتے' ہاں البتہ اسے جنرل الیکشن کی ایک واضح جھلک ضرور کہا جا سکتا ہے۔