بشارالاسد کا شامِ خون آشام
حرمین شریفین کے بعد اگر کسی شہر کو اپنا محبوب ترین شہر کہہ سکتا ہوں تو وہ دمشق ہی ہے۔
یہ رجب 13 ہجری کا ذکر ہے۔ صحابی رسول حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اسلامی افواج نے دمشق کے چاروںطرف محاصرہ ڈال دیا۔ یہ محاصرہ رجب 13 ہجری سے16 محرم 14 ہجری تک 6 مہینے جاری رہا۔ اسی دوران دمشق کے بطریق کے گھر بچے کی ولادت ہوئی اور اسی خوشی میں اہل شہر نے خوب جشن منایا اور ایسے بدمست ہوکر سوئے کہ کسی بات کا ہوش نہ رہا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ راتوں کو سوتے نہ تھے بلکہ گھوم پھر کر خبریں لیا کرتے تھے اسی لیے انھیں اس بات کی اطلاع ہوگئی۔
وہ کمند لگا کر مع چند جانبازوں کے شہر کی دیوار پر چڑھ کر اندر اتر گئے اور پھاٹک کے محافظوں کو قتل کرکے پھاٹک کھول دیے۔ مسلمان باہر منتظر تھے اور پھاٹک کھلتے ہی اندر داخل ہوگئے، اہل شہر اس ناگہانی مصیبت سے گھبرا گئے اور سیدھے حضرت ابوعبیدہ ؓکے پاس پہنچے جو دوسری سمت متعین تھے اور صلح کی درخواست کی، انھیں صورت حال کا پوری طرح علم نہیں تھا اس لیے صلح قبول کرلی۔ اب شہر کی ایک سمت سے خالد بن ولیدؓ فاتحانہ داخل ہوئے اور دوسری طرف سے ابوعبیدہؓ مصالحانہ۔ لیکن سپہ سالار ابوعبیدہ ؓچونکہ مصالحت کرچکے تھے اسی لیے دمشق کی فتح مصالحانہ قرار دی گئی اور نہ مال غنیمت حاصل کیا گیا اور نہ کسی کو لونڈی غلام بنایا گیا۔
اسلامی خلافت کا مدینے کے بعد دوسرا دارالخلافہ دمشق تھا، صلیبی حملہ آوروں کے خلاف مدافعت کا مرکز یہی خطہ تھا۔ اسلامی دنیا میں دارالحدیث کے نام سے پہلی عمارت بھی شام میں تعمیر کی گئی۔ شام کی خاک میں کئی جلیل القدر صحابہ دفن ہیں، جن میں حضرت بلالؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور سیف الاسلام حضرت خالد بن ولیدؓ اور دیگر اصحاب شامل ہیں۔ حضرت سیدہ زینبؓ کا مزار بھی یہیں ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل جامع مسجد اموی آج بھی اموی دور کی یاد دلاتی ہے۔ جامع مسجد اموی کے نزدیک ہی عظیم جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی مدفون ہیں۔ 20 ویں صدی میں ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرنیوالی چند عظیم شخصیات جیسے علامہ رشید رضا اور مصطفی سباعی کا تعلق بھی شام سے ہی تھا۔ علامہ شکیب ارسلان بھی شام سے عثمانی پارلیمنٹ کے رکن رہے۔
دمشق ہمیشہ ہی سے مسلمانان عالم کے لیے ایک خاص کشش رکھتا آیا ہے۔ معروف نومسلم اور عظیم اسکالر علامہ محمد اسد اپنی کتاب روڈ ٹو مکہ میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''اہل دمشق کی زندگی میں مجھے ایک روحانی سکون نظر آیا، باہم ایک دوسرے کے ساتھ ان کا جو رویہ اور معاملہ کرنے کا طریقہ تھا اس میں یہ روحانی سکون اور باطنی طمانیت بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔''معروف بھارتی عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اپنے سفرنامے 'دریائے کابل سے دریائے یرموک' تک میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حرمین شریفین کے بعد اگر کسی شہر کو اپنا محبوب ترین شہر کہہ سکتا ہوں تو وہ دمشق ہی ہے، میں اس کے بہت سے محلوں، سڑکوں اور باغات و مناظر سے واقف ہوں، دمشق میں میرے عزیز ترین دوست و احباب تھے جن سے خاص فکری اتحاد اور مناسبت تھی، اور دمشق کا قیام ہمیشہ میر ے لیے خوشگوار اور مسرت بخش ثابت ہوا، دل کو سکوں اور روح کو راحت نصیب ہوئی، میں جب شوقی کا یہ شعر پڑھتا تو اس میں کوئی مبالغہ نظر نہ آتا، اللہ تعالیٰ پر میرا ایمان ہے، میں اس کی جنت کو مستثنیٰ قرار دے کر کہتا ہوں کہ دمشق سراپا باغ و بہار اور روح و ریحان ہے۔'' تاہم بعث پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ دوبارہ 70ء کی دہائی میں شام گئے تو منظر کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا اور اب سرکاری سرپرستی میں آزاد خیالی اور لادین نظریات کو فروغ دیا جارہا تھا۔
شام میں بعث پارٹی کی بنیاد ایک عیسائی مائیکل عفلق نے 1940 میں رکھی اور نصیری اور دروزی حامیوں کے ذریعے شامی فوج کے اندر اپنے خفیہ حلقے قائم کرلیے۔ عیسائیوں میں بھی اس کے نظریات کو پسند کیا گیا۔ اس طرح بعث پارٹی نصیریوں، دروزیوں اور عیسائیوں اور فوج کی مدد سے جس میں فرانسیسی دور سے ان فرقوں کی اکثریت چلی آرہی تھی، 1963 میں شام پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ بعث پارٹی دراصل عرب قوم پرستی اور سوشلزم کی داعی تھی۔ بظاہر اسرائیل کی مخالفت کرنیوالی بعث پارٹی صہیونیت نواز ملک روس کی مسلم دنیا میں سب سے چہیتی جماعت ہے۔ بعث پارٹی دراصل سنی اکثریتی ملک پر اقلیتی فرقوں اور سیکولر عناصر کی حکومت ہے۔80ء کی دہائی کے آغاز میں جب شام کے مسلمانوں نے بعث پارٹی کے مظالم سے تنگ آکر اس کے ناجائز اقتدار کے خلاف بغاوت کی تو شامی افواج نے طاقت کا اس قدر وحشیانہ استعمال کیا کہ اس کی مثال جدید مشرقی وسطیٰ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ گولہ باری کرکے پورے شہر کو کھنڈرات اور قبروں کا ڈھیر بنادیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت مآب بہنوں کی عصمت دری کی اور انھیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا، جیلوں میں ان پاکباز خواتین پر ہولناک مظالم ڈھائے گئے۔
2000ء میں حافظ الاسد کا انتقال ہوا تو اقتدار ان کے صاحبزادے نے سنبھالا۔ 2011ء میں جب تیونس سے بیداری کی لہر کا آغاز ہوا تو شامی مسلمانوں نے ایک بار پھر ظالم حکومت کے خلاف پرامن مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں کا آغاز ہونا تھا کہ ایک بار پھر شام کی ظالم افواج حرکت میں آئیں اور قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ اب تک شام میں بیس ماہ سے جاری خانہ جنگی میں چالیس ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ شام کی مساجد میتوں کے شناختی مرکز میں تبدیل ہوچکی ہیں اور لاکھوں افراد ترکی اور اردن ہجرت کرچکے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف مسلح جدوجہد اب زوروں پر ہے۔ شامی حکومت کیمطابق مزاحمت کاروں کو قطر، ترکی اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب روس، ایران اور لبنانی تنظیم حزب اﷲ شامی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس اور چین دو مرتبہ سلامتی کونسل میں شام کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرچکے ہیں۔
خطے کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے توشامی تنازعہ میں کودنے کے بعد ترکی کے ایران اور شامی حکومت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی در آئی ہے۔ ترکی نے اپنی سرحد پر پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اپنی انتہا پر ہے، روس اور ایران بھی اس تُرک فیصلے پر ناخوش ہیں مگر ترک حکومت کا موقف ہے کہ پیٹریاٹ میزائل خالصتاً دفاعی ضروریات کے پیش نظر نصب کیے جارہے ہیں۔ شامی حکومت کی جانب سے مزاحمت کاروں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس اور دمشق کے درمیان ماضی میں خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ شامی حکومت نے حماس کی قیادت کو ایک عرصے تک اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دیے رکھی بلکہ حماس رہنماؤں کو شام میں خصوصی مراعات بھی حاصل تھیں۔ مگر شام میں جیسے ہی حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہوا تو حماس کے رہنماؤں کے لیے دمشق میں مزید قیام ناممکن ہوگیا اور انھوں نے دمشق سے نکل کر مصر اور قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ حماس نے موقف اختیار کیا کہ شام کی داخلی صورتحال کے پیش نظر حماس کے لیے موثر طریقے سے کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ادھر، مصری حکومت اول روز سے ہی شامی عوام کی جدوجہد کی حمایت کرتی آرہی ہے۔شام میں گزشتہ 20 ماہ سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے میں بین الاقوامی برادری کا رویہ اور کردار خاصا حیران کن ہے۔ امریکا اور نیٹو نے افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ و برباد کرنے میں بڑی پھرتیاں دکھائی تھیں مگر شام کے معاملے میں یہ 'دیکھو اور انتظار کرو' کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ منٹوں اور سیکنڈوں میں افغانستان، لیبیا اور عراق کو تاراج کرنیوالے ان عناصر کو شام کے معاملے میں بہت زیادہ جلدی نہیں ہے۔ دراصل اوباما انتظامیہ شام میں اپوزیشن گروپوں کی حمایت تو کررہی ہے تاہم اسرائیل کی طرح یہ بھی اس پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ بشار الاسد کے بعد شام میں بھی کہیں فلسطین، تیونس، مراکش اور مصر کی طرح اسلام پسند حکومت میں نہ آجائیں۔ کوفی عنان نے شام کے مسئلے کے حل کے لیے امن منصوبہ ضرور پیش کیا تھا تاہم یہ مکمل ناکامی سے دوچار ہوا اور اب ان کی جگہ لخدر ابراہیمی لے چکے ہیں۔
شام کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ایک طرف شامی عوام، ترکی اور عرب ممالک ہیں، دوسری طرف بشارالاسد کی ظالم حکومت اور اس کے ساتھ ایران اور روس کھڑے ہیں۔ شام کو مکمل تباہی اور غیرملکی مداخلت سے بچانے کی بہتر صورت یہی ہے کہ ایران، ترکی، مصر اور عرب ممالک زمینی حقائق اور خطے کی نازک صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متفقہ حل پر پہنچیں جو تمام شامی گروپوں کے لیے قابل قبول ہو۔ شام میں جاری انقلابی تحریک میں یہ سبق بھی ہے کہ عوامی حمایت کے بغیر جبر و تشدد کے سہارے زیادہ عرصے تک کسی قوم پر حکومت نہیں کی جاسکتی۔
وہ کمند لگا کر مع چند جانبازوں کے شہر کی دیوار پر چڑھ کر اندر اتر گئے اور پھاٹک کے محافظوں کو قتل کرکے پھاٹک کھول دیے۔ مسلمان باہر منتظر تھے اور پھاٹک کھلتے ہی اندر داخل ہوگئے، اہل شہر اس ناگہانی مصیبت سے گھبرا گئے اور سیدھے حضرت ابوعبیدہ ؓکے پاس پہنچے جو دوسری سمت متعین تھے اور صلح کی درخواست کی، انھیں صورت حال کا پوری طرح علم نہیں تھا اس لیے صلح قبول کرلی۔ اب شہر کی ایک سمت سے خالد بن ولیدؓ فاتحانہ داخل ہوئے اور دوسری طرف سے ابوعبیدہؓ مصالحانہ۔ لیکن سپہ سالار ابوعبیدہ ؓچونکہ مصالحت کرچکے تھے اسی لیے دمشق کی فتح مصالحانہ قرار دی گئی اور نہ مال غنیمت حاصل کیا گیا اور نہ کسی کو لونڈی غلام بنایا گیا۔
اسلامی خلافت کا مدینے کے بعد دوسرا دارالخلافہ دمشق تھا، صلیبی حملہ آوروں کے خلاف مدافعت کا مرکز یہی خطہ تھا۔ اسلامی دنیا میں دارالحدیث کے نام سے پہلی عمارت بھی شام میں تعمیر کی گئی۔ شام کی خاک میں کئی جلیل القدر صحابہ دفن ہیں، جن میں حضرت بلالؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور سیف الاسلام حضرت خالد بن ولیدؓ اور دیگر اصحاب شامل ہیں۔ حضرت سیدہ زینبؓ کا مزار بھی یہیں ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل جامع مسجد اموی آج بھی اموی دور کی یاد دلاتی ہے۔ جامع مسجد اموی کے نزدیک ہی عظیم جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی مدفون ہیں۔ 20 ویں صدی میں ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرنیوالی چند عظیم شخصیات جیسے علامہ رشید رضا اور مصطفی سباعی کا تعلق بھی شام سے ہی تھا۔ علامہ شکیب ارسلان بھی شام سے عثمانی پارلیمنٹ کے رکن رہے۔
دمشق ہمیشہ ہی سے مسلمانان عالم کے لیے ایک خاص کشش رکھتا آیا ہے۔ معروف نومسلم اور عظیم اسکالر علامہ محمد اسد اپنی کتاب روڈ ٹو مکہ میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''اہل دمشق کی زندگی میں مجھے ایک روحانی سکون نظر آیا، باہم ایک دوسرے کے ساتھ ان کا جو رویہ اور معاملہ کرنے کا طریقہ تھا اس میں یہ روحانی سکون اور باطنی طمانیت بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔''معروف بھارتی عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اپنے سفرنامے 'دریائے کابل سے دریائے یرموک' تک میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حرمین شریفین کے بعد اگر کسی شہر کو اپنا محبوب ترین شہر کہہ سکتا ہوں تو وہ دمشق ہی ہے، میں اس کے بہت سے محلوں، سڑکوں اور باغات و مناظر سے واقف ہوں، دمشق میں میرے عزیز ترین دوست و احباب تھے جن سے خاص فکری اتحاد اور مناسبت تھی، اور دمشق کا قیام ہمیشہ میر ے لیے خوشگوار اور مسرت بخش ثابت ہوا، دل کو سکوں اور روح کو راحت نصیب ہوئی، میں جب شوقی کا یہ شعر پڑھتا تو اس میں کوئی مبالغہ نظر نہ آتا، اللہ تعالیٰ پر میرا ایمان ہے، میں اس کی جنت کو مستثنیٰ قرار دے کر کہتا ہوں کہ دمشق سراپا باغ و بہار اور روح و ریحان ہے۔'' تاہم بعث پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ دوبارہ 70ء کی دہائی میں شام گئے تو منظر کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا اور اب سرکاری سرپرستی میں آزاد خیالی اور لادین نظریات کو فروغ دیا جارہا تھا۔
شام میں بعث پارٹی کی بنیاد ایک عیسائی مائیکل عفلق نے 1940 میں رکھی اور نصیری اور دروزی حامیوں کے ذریعے شامی فوج کے اندر اپنے خفیہ حلقے قائم کرلیے۔ عیسائیوں میں بھی اس کے نظریات کو پسند کیا گیا۔ اس طرح بعث پارٹی نصیریوں، دروزیوں اور عیسائیوں اور فوج کی مدد سے جس میں فرانسیسی دور سے ان فرقوں کی اکثریت چلی آرہی تھی، 1963 میں شام پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ بعث پارٹی دراصل عرب قوم پرستی اور سوشلزم کی داعی تھی۔ بظاہر اسرائیل کی مخالفت کرنیوالی بعث پارٹی صہیونیت نواز ملک روس کی مسلم دنیا میں سب سے چہیتی جماعت ہے۔ بعث پارٹی دراصل سنی اکثریتی ملک پر اقلیتی فرقوں اور سیکولر عناصر کی حکومت ہے۔80ء کی دہائی کے آغاز میں جب شام کے مسلمانوں نے بعث پارٹی کے مظالم سے تنگ آکر اس کے ناجائز اقتدار کے خلاف بغاوت کی تو شامی افواج نے طاقت کا اس قدر وحشیانہ استعمال کیا کہ اس کی مثال جدید مشرقی وسطیٰ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ گولہ باری کرکے پورے شہر کو کھنڈرات اور قبروں کا ڈھیر بنادیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت مآب بہنوں کی عصمت دری کی اور انھیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا، جیلوں میں ان پاکباز خواتین پر ہولناک مظالم ڈھائے گئے۔
2000ء میں حافظ الاسد کا انتقال ہوا تو اقتدار ان کے صاحبزادے نے سنبھالا۔ 2011ء میں جب تیونس سے بیداری کی لہر کا آغاز ہوا تو شامی مسلمانوں نے ایک بار پھر ظالم حکومت کے خلاف پرامن مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں کا آغاز ہونا تھا کہ ایک بار پھر شام کی ظالم افواج حرکت میں آئیں اور قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ اب تک شام میں بیس ماہ سے جاری خانہ جنگی میں چالیس ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ شام کی مساجد میتوں کے شناختی مرکز میں تبدیل ہوچکی ہیں اور لاکھوں افراد ترکی اور اردن ہجرت کرچکے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف مسلح جدوجہد اب زوروں پر ہے۔ شامی حکومت کیمطابق مزاحمت کاروں کو قطر، ترکی اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب روس، ایران اور لبنانی تنظیم حزب اﷲ شامی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس اور چین دو مرتبہ سلامتی کونسل میں شام کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرچکے ہیں۔
خطے کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے توشامی تنازعہ میں کودنے کے بعد ترکی کے ایران اور شامی حکومت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی در آئی ہے۔ ترکی نے اپنی سرحد پر پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اپنی انتہا پر ہے، روس اور ایران بھی اس تُرک فیصلے پر ناخوش ہیں مگر ترک حکومت کا موقف ہے کہ پیٹریاٹ میزائل خالصتاً دفاعی ضروریات کے پیش نظر نصب کیے جارہے ہیں۔ شامی حکومت کی جانب سے مزاحمت کاروں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس اور دمشق کے درمیان ماضی میں خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ شامی حکومت نے حماس کی قیادت کو ایک عرصے تک اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دیے رکھی بلکہ حماس رہنماؤں کو شام میں خصوصی مراعات بھی حاصل تھیں۔ مگر شام میں جیسے ہی حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہوا تو حماس کے رہنماؤں کے لیے دمشق میں مزید قیام ناممکن ہوگیا اور انھوں نے دمشق سے نکل کر مصر اور قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ حماس نے موقف اختیار کیا کہ شام کی داخلی صورتحال کے پیش نظر حماس کے لیے موثر طریقے سے کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ادھر، مصری حکومت اول روز سے ہی شامی عوام کی جدوجہد کی حمایت کرتی آرہی ہے۔شام میں گزشتہ 20 ماہ سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے میں بین الاقوامی برادری کا رویہ اور کردار خاصا حیران کن ہے۔ امریکا اور نیٹو نے افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ و برباد کرنے میں بڑی پھرتیاں دکھائی تھیں مگر شام کے معاملے میں یہ 'دیکھو اور انتظار کرو' کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ منٹوں اور سیکنڈوں میں افغانستان، لیبیا اور عراق کو تاراج کرنیوالے ان عناصر کو شام کے معاملے میں بہت زیادہ جلدی نہیں ہے۔ دراصل اوباما انتظامیہ شام میں اپوزیشن گروپوں کی حمایت تو کررہی ہے تاہم اسرائیل کی طرح یہ بھی اس پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ بشار الاسد کے بعد شام میں بھی کہیں فلسطین، تیونس، مراکش اور مصر کی طرح اسلام پسند حکومت میں نہ آجائیں۔ کوفی عنان نے شام کے مسئلے کے حل کے لیے امن منصوبہ ضرور پیش کیا تھا تاہم یہ مکمل ناکامی سے دوچار ہوا اور اب ان کی جگہ لخدر ابراہیمی لے چکے ہیں۔
شام کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ایک طرف شامی عوام، ترکی اور عرب ممالک ہیں، دوسری طرف بشارالاسد کی ظالم حکومت اور اس کے ساتھ ایران اور روس کھڑے ہیں۔ شام کو مکمل تباہی اور غیرملکی مداخلت سے بچانے کی بہتر صورت یہی ہے کہ ایران، ترکی، مصر اور عرب ممالک زمینی حقائق اور خطے کی نازک صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متفقہ حل پر پہنچیں جو تمام شامی گروپوں کے لیے قابل قبول ہو۔ شام میں جاری انقلابی تحریک میں یہ سبق بھی ہے کہ عوامی حمایت کے بغیر جبر و تشدد کے سہارے زیادہ عرصے تک کسی قوم پر حکومت نہیں کی جاسکتی۔