ضمنی انتخابات گیلانی خاندان کیلئے خطرے کا الارم بج گیا

انتخابی نتیجہ آنے کے بعد کی گئی تقریریں سن کر شبہ ہوتا تھا کہ عبدالقادر گیلانی نے الیکشن سپریم کورٹ کے خلاف جیتا ہے

عبدالقادر گیلانی نےعوام سے پہلے خطاب میں کہا کہ 64 ہزار لوگوں کے لارجر بینچ نے فیصلہ دیا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی نااہل نہیں۔ فوٹو: اے پی پی

حلقہ 151 ملتان کے ضمنی انتخابات ہوگئے لیکن تنائو ابھی تک موجود ہے۔گیلانی خاندان نے یہ مشکل الیکشن جیت کر نئی سیاسی زندگی کا مزہ چکھا ہے۔ انتخابی نتائج کی رات یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ پر لوگوں کا اکٹھ اور انتخابی نتیجہ آجانے کے بعد وہاں ہونے والی تقریریں سن کر شبہ ہوتا تھا کہ عبدالقادر گیلانی نے الیکشن شوکت بوسن کے خلاف نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے خلاف جیتا ہے۔

عبدالقادر گیلانی نے الیکشن جیتنے کے بعد عوام سے پہلے خطاب میں کہا کہ 64 ہزار لوگوں کے لارجر بنچ نے فیصلہ دیا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی نااہل نہیں۔ ادھر سکندر حیات بوسن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ 61 ہزار لوگوں نے انہیں ووٹ ڈال کر سپریم کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی ہے۔

ملتان میں ہونے والے یہ دوسرے ضمنی انتخابات تھے جن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئے تجربات کئے۔ اس سے قبل الیکشن کمشن نے حلقہ 149 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کیا تھا۔ اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے نئے انتخابی ضابطہ اخلاق کو اس ضمنی الیکشن میں آزمایا۔ چیف الیکشن کمشنر حالات کا جائزہ لینے کے لئے خود موجود تھے۔ ویسے تو یہ نئی بات نہیں لیکن چیف الیکشن کمشنر نے اس مرتبہ بھی اپنی آنکھوں سے انتخابی ضابطوں کو تہس نہس ہوتے دیکھا۔ انتخابی فہرستوں پر بھی اعتراضات اٹھے اور پولنگ سکیم پر بھی دونوں طرف سے تنقید ہوتی رہی۔

الیکشن کمیشن نے اس تجربے کے بعد آئندہ کیلئے اصلاح کے پہلو نکالے ہوںگے۔ یقیناً اس سے اگلے قومی انتخابات میں اصلاح احوال کے مواقع میسرآئیں گے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ سے ہٹ چکے تھے لیکن ان کے رہن سہن اور انداز گفتگو میں ابھی تک وزارت عظمیٰ سمائی ہوئی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے انہیں تاحیات وزیراعظم کا خطاب دیدیا ہے یا پھر وہ اختیارات ہیں جو ابھی تک وہ بھرپور انداز سے استعمال کررہے ہیں۔ کچھ بھی ہو انتخابی نتائج نے گیلانی خاندان کے لئے وارننگ جاری کی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی میڈیا کے سامنے جو کہتے ہیں اندر سے وہ اور ان کے صاحبزادے انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں۔ یہ وہ انتخابات تھے


جن میں تمام بڑے لوگ اور بڑے دھڑے ان کے ساتھ کھڑے تھے، سب یقین دہانیاں کرا رہے تھے، بڑے بڑے دعوے کررہے تھے اور ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا تھا لیکن انتخابی نتائج میںتقریباً آدھے ووٹرز نے ان کے خلاف فیصلہ دیدیا۔ الیکشن سے پہلے گیلانی خاندان اپنے حامی گروہوں کو دیکھ کر اندازہ لگا رہا تھا کہ عبدالقادر گیلانی کو ایک لاکھ کے لگ بھگ ووٹ ملیں گے۔

قومی اسمبلی کے اس حلقے میں بیشتر انتخابات پیپلز پارٹی نے جیتے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی اس وقت بھی یہاں سے انتخاب جیتے تھے جب بحیثیت مجموعی ملک میں پیپلز پارٹی ہارگئی تھی۔ اس مرتبہ تو حلقے کے نیچے موجود تینوں ایم پی اے سید ناظم حسین شاہ' ملک عامر ڈوگر' احمد حسین ڈیہڑ بھی ساتھ تھے۔ یہی نہیں مخالفین بھی حمایت کررہے تھے۔ عباس اکبر، مونی شاہ اور ملک اسحاق بچہ بھی مخالف سیاسی جماعت کے چکر لگا کر واپس آگئے تھے۔ ملک عاشق علی شجرا مخالف جماعت میں کھڑے ہونے کے باوجود حمایت کررہے تھے۔ مقامی صنعت کار بھی ساتھ کھڑے تھے۔ مسلم لیگ (ق) اور تحریک جعفریہ بھی ساتھ تھیں۔ ان حالات میں انتخابی نتائج کسی بھی طرح گیلانی خاندان اور پیپلز پارٹی کے لئے حوصلہ افزا نہیں۔ نشست تو عبدالقادر گیلانی نے جیت لی اور سیاسی ساکھ بھی بچ گئی لیکن خطرے کی گھنٹی بج گئی۔

سکندر حیات بوسن نشست ہار جانے کے باوجود خود کو فاتح محسوس کررہے ہیں۔ وہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے پرامید ہیں۔ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوجائیں گے لیکن انہوں نے پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے واضح تردید کی ہے کہ وہ تحریک نہیں چھوڑ رہے اور ان کا مسلم لیگ (ن) سے کوئی رابطہ نہیں۔ضمنی انتخابات نے سیاسی جماعتوں کیلئے سوچ بچار کے نئے پہلو اجاگر کئے ہیں۔ گو قومی انتخابات کی سائنس قطعی مختلف ہوتی ہے لیکن حالیہ الیکشن نے ووٹروں کے رحجان اور سوچ کو منعکس کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما اور رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار نے گزشتہ ہفتے ملتان کا دورہ کیا۔ مختلف تقریبات میں شرکت کے ساتھ ساتھ وہ رابطہ کمیٹی کے ممبر افتخار اکبر رندھاوا کی دعوت پر نواحی علاقے جہانیاں بھی گئے جہاں ان کیلئے جلسے کا اہتمام کیاگیاتھا۔
Load Next Story