موثر خارجہ پالیسی کی ضرورت
خارجہ پالیسی ملکی و سیاسی استحکام اور بیرونی قوتوں سے تحفظ کے لیے بنیادی ضرورت ہے
خارجہ پالیسی قومی حکمت عملی کے اس حصے کو کہتے ہیں جس میں گرد و پیش کے ممالک سے روابط کے انداز، مفادات کا تحفظ اور ریاست کو محفوظ رکھنے کے طریقے شامل ہوتے ہیں۔
یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کے تحت ایک قوم دوسری اقوام سے تعلقات استوار کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا طریق بھی ہے جو دیگر ممالک سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنایاجاتا ہے۔ خارجہ پالیسی ان اصولوں و قواعد کا مجموعہ ہے کہ جن پر عمل پیرا ہوکر کوئی آزاد مملکت دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرتی ہے۔
اگرچہ خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط مستحکم اور اٹل نہیں ہوتے لیکن کچھ امور حتمی اور بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو مملکت کے حالات و ضروریات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ بنیادی اصول بنیادی نظریات اور مفادات تبدیل نہیں ہوتے جب کہ خارجہ پالیسی پر خارجی حالات کا اثر بھی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں نہ تو کوئی دوست مستقل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دشمن ہمیشہ دشمن رہتا ہے، اگرچہ قومی مفاد ہر قسم کے حالات میں دائمی رہتا ہے۔
خارجہ پالیسی نہ صرف ہمسایہ ممالک پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ ان ہمسایہ ممالک سے منسلک دوسرے ممالک بھی اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں جب کہ فاصلے سمٹ گئے ہیں اور دنیا ایک دائرے کی شکل اختیار کر گئی ہے، ایک ملک میں تبدیلی تمام دیگر ممالک میں تغیر و تبدل کا باعث بنتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ تبدیلی کسی ملک میں کم اور کسی ملک میں زیادہ ہوتی ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم خارجہ پالیسی کے مفہوم کو یوں بیان کرسکتے ہیں کہ ریاست اپنے مخصوص حالات میں اپنے قومی مفادات و مقاصد کے حصول کے لیے دوسری ریاستوں سے تعلقات قائم کرنے کے لیے جو طرز عمل اور رویہ اختیار کرتی ہیں انھیں ریاست کی خارجہ پالیسی کہا جاتا ہے۔
کسی ریاست کے بیرونی انتظام کی بنیادی ضرورت وہ اصول و قواعد ہوتے ہیں جن کے تحت وہ دوسری ریاستوں سے سلوک کرتی ہے یہ اصول خارجہ پالیسی کہلاتے ہیں۔ ان اصولوں کی جامعیت مثبت اور مقصدی کردار اس ریاست کی ترقی و استحکام کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں قومی مفادات کے پیش نظر مقاصد کے حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس کے لیے ضروری طریقے و راستے نہ اپنائے جائیں اور ایک منظم ٹھوس و قابل عمل پالیسی اختیار نہ کی جائے۔
ملکی خارجہ پالیسی جن بنیادی عوامل کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے ان عوامل کی ترویج و ترقی کے لیے خارجہ پالیسی کی اہمیت صرف دو چند ہی نہیں ہوجاتی بلکہ لازم ہوجاتی ہے اور اس کے بغیر ان عوامل کی اشاعت نا ممکن ہوجاتی ہے۔
خارجہ پالیسی ملکی و سیاسی استحکام اور بیرونی قوتوں سے تحفظ کے لیے بنیادی ضرورت ہے اسی سے دوست ممالک کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے اور دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کی حمایت کرکے قومی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کسی ریاست کی معاشرتی، سیاسی، جغرافیائی، لسانی، معاشی اور نظریاتی ترقی کا دارومدار اس کی خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے۔
پاکستان ایک ذمے دار اور پر امن ملک ہے اور یہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے اس کی خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد یہ ہیں:(1)پاکستان کی سالمیت۔ (2) نظریاتی سرحدوں کی حفاظت۔ (3) معاشی ترقی۔ (4) قومی وقار کی سربلندی۔ (5) قومی مفادات کا تحفظ و حفاظت۔ (6) آزادی کشمیر۔ (7) بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے پرامن طریقے اختیار کرنا۔ (8) استحصال کا خاتمہ۔ (9) اسلامی مشترکہ منڈی کا قیام۔ (10) بڑی قوتوں سے تعلقات میں توازن کے قیام کا حامی۔ (11) عالم اسلام سے رشتے استوار کرنا۔ (12) بین الاقوامی امن کو فروغ دینا، اس کی خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اصول یہ ہیں:
(1) پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد و خودمختار ہوگی اور اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگی کیا جائے گا۔ (2) وطن کی سرحدوں کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے دوست ممالک سے دفاعی معاہدے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ (3) قیام امن کے لیے اقوام متحدہ سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ (4) قوموں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی جائے گی۔ (5) ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیںگے۔ (6) تیسری دنیا سے روابط قائم کیے جائیںگے۔ (7) غیر جانبدار تحریک سے وابستگی اختیار کی جائے گی۔ (8) جارحیت کی مخالفت کی جائے گی۔ (9) نسلی امتیاز کی مذمت کی جائے گی۔ (10) آزادی کشمیر کے لیے جد وجہد کی جائے گی۔ (11) نو آبادیاتی نظام کی مخالفت کی جائے گی۔ (12) عالمی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا جائے گا۔ (13) دوسرے ممالک کی آزادی کا احترام کیا جائے گا۔ (14) مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیںگے۔ (15) عالم اسلام سے برادرانہ مراسم قائم کیے جائیںگے۔
نوازشریف کے دوبارہ برسر اقتدار آنے پر گزشتہ دور حکومت کی پالیسی کا اعادہ زیادہ بہتر انداز اور بھرپور توجہ کے ساتھ کیا گیا ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ضمن میں یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہوا، جس میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کی عملی حمایت کے ساتھ ساتھ ملک پر غیر ملکی تسلط و اجارہ داری کو کم کرنے کی پر خلوص کوششیں کی گئیں۔
ملک میں جہاں اقتصادی ترقی کے لیے پالیسیاں مرتب کی گئیں، وہاں عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت میں کشمیری تحریک آزادی سے ہم آہنگ کیا گیا۔کشمیر میں آزادی کی تحریک نے پھر زور پکڑلیا اور بھارت کے گرد دائرہ روز بروز تنگ ہوتا چلا گیا۔ عالمی سطح پر غیر مسلم اقوام نے اسے اسلامی ایٹمی بم کا نام دیا اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیاجب کہ عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مسلم ممالک نے اسے طاقت کے توازن کے لیے انتہائی ضروری اور برموقع اقدام قرار دیا۔
پاکستان کے اس دور میں خارجہ معاملات کا قومی خارجہ پالیسی پر اثر ہے تو پاکستان پر یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ خارجہ معاملات میں ٹھوس، جامع اور قابل عمل پالیسی اپنائے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہو اس پالیسی پر وہ کسی قسم کا بیرونی دباؤ قبول نہ کرے۔پاکستان کو موجودہ سیاسی صورتحال میں مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف سے ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے یہ قومیں پاکستان کے مقابلے میں بھارت نواز ہیں یعنی بھارت کے حمایتی ہیں۔
پاکستان کو تسخیر کرنا ان کی اولین خواہش ہے جو انشا اﷲ کبھی پوری نہیں ہوگی۔ پاکستان نے لیاقت علی خان کے دور سے لے کر 9/11 کے واقعے سے قبل تک نسبتاً ایک متوازن پالیسی اپنائی تاہم جنرل مشرف کے دور میں اس حکومت کا جھکاؤ مکمل طور پر امریکا کی طرف رہا اور پھر 9/11 کے بعد اس کی خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلیاں بھی آئیں۔
پس ضرورت اس امر کی ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں اس میں وقت و حالات کیمطابق موثر و ٹھوس تبدیلیاں کریں امریکا پر سے اپنا انحصار کم کریں اور ان پر واضح کردیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی ضرور ہے لیکن پاکستان کی اپنی ایک پالیسی ہے، پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک ہے، اسے عراق یا افغانستان سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہمیں امریکا کو احساس دلانا ہوگا اور ایسی خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی جو پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے۔
ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوںگے جو دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہمارے دیگر مسائل کو بھی حل کرنے میں مدد دیں۔ اس وقت پاکستان کو ایک متوازن، ٹھوس و موثر خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا اور وقت ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ہمارے مسائل دھرے کے دھرے رہ جائیںگے اور ہمارا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کے تحت ایک قوم دوسری اقوام سے تعلقات استوار کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا طریق بھی ہے جو دیگر ممالک سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنایاجاتا ہے۔ خارجہ پالیسی ان اصولوں و قواعد کا مجموعہ ہے کہ جن پر عمل پیرا ہوکر کوئی آزاد مملکت دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرتی ہے۔
اگرچہ خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط مستحکم اور اٹل نہیں ہوتے لیکن کچھ امور حتمی اور بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو مملکت کے حالات و ضروریات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ بنیادی اصول بنیادی نظریات اور مفادات تبدیل نہیں ہوتے جب کہ خارجہ پالیسی پر خارجی حالات کا اثر بھی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں نہ تو کوئی دوست مستقل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دشمن ہمیشہ دشمن رہتا ہے، اگرچہ قومی مفاد ہر قسم کے حالات میں دائمی رہتا ہے۔
خارجہ پالیسی نہ صرف ہمسایہ ممالک پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ ان ہمسایہ ممالک سے منسلک دوسرے ممالک بھی اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں جب کہ فاصلے سمٹ گئے ہیں اور دنیا ایک دائرے کی شکل اختیار کر گئی ہے، ایک ملک میں تبدیلی تمام دیگر ممالک میں تغیر و تبدل کا باعث بنتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ تبدیلی کسی ملک میں کم اور کسی ملک میں زیادہ ہوتی ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم خارجہ پالیسی کے مفہوم کو یوں بیان کرسکتے ہیں کہ ریاست اپنے مخصوص حالات میں اپنے قومی مفادات و مقاصد کے حصول کے لیے دوسری ریاستوں سے تعلقات قائم کرنے کے لیے جو طرز عمل اور رویہ اختیار کرتی ہیں انھیں ریاست کی خارجہ پالیسی کہا جاتا ہے۔
کسی ریاست کے بیرونی انتظام کی بنیادی ضرورت وہ اصول و قواعد ہوتے ہیں جن کے تحت وہ دوسری ریاستوں سے سلوک کرتی ہے یہ اصول خارجہ پالیسی کہلاتے ہیں۔ ان اصولوں کی جامعیت مثبت اور مقصدی کردار اس ریاست کی ترقی و استحکام کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں قومی مفادات کے پیش نظر مقاصد کے حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس کے لیے ضروری طریقے و راستے نہ اپنائے جائیں اور ایک منظم ٹھوس و قابل عمل پالیسی اختیار نہ کی جائے۔
ملکی خارجہ پالیسی جن بنیادی عوامل کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے ان عوامل کی ترویج و ترقی کے لیے خارجہ پالیسی کی اہمیت صرف دو چند ہی نہیں ہوجاتی بلکہ لازم ہوجاتی ہے اور اس کے بغیر ان عوامل کی اشاعت نا ممکن ہوجاتی ہے۔
خارجہ پالیسی ملکی و سیاسی استحکام اور بیرونی قوتوں سے تحفظ کے لیے بنیادی ضرورت ہے اسی سے دوست ممالک کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے اور دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کی حمایت کرکے قومی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کسی ریاست کی معاشرتی، سیاسی، جغرافیائی، لسانی، معاشی اور نظریاتی ترقی کا دارومدار اس کی خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے۔
پاکستان ایک ذمے دار اور پر امن ملک ہے اور یہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے اس کی خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد یہ ہیں:(1)پاکستان کی سالمیت۔ (2) نظریاتی سرحدوں کی حفاظت۔ (3) معاشی ترقی۔ (4) قومی وقار کی سربلندی۔ (5) قومی مفادات کا تحفظ و حفاظت۔ (6) آزادی کشمیر۔ (7) بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے پرامن طریقے اختیار کرنا۔ (8) استحصال کا خاتمہ۔ (9) اسلامی مشترکہ منڈی کا قیام۔ (10) بڑی قوتوں سے تعلقات میں توازن کے قیام کا حامی۔ (11) عالم اسلام سے رشتے استوار کرنا۔ (12) بین الاقوامی امن کو فروغ دینا، اس کی خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اصول یہ ہیں:
(1) پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد و خودمختار ہوگی اور اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگی کیا جائے گا۔ (2) وطن کی سرحدوں کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے دوست ممالک سے دفاعی معاہدے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ (3) قیام امن کے لیے اقوام متحدہ سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ (4) قوموں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی جائے گی۔ (5) ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیںگے۔ (6) تیسری دنیا سے روابط قائم کیے جائیںگے۔ (7) غیر جانبدار تحریک سے وابستگی اختیار کی جائے گی۔ (8) جارحیت کی مخالفت کی جائے گی۔ (9) نسلی امتیاز کی مذمت کی جائے گی۔ (10) آزادی کشمیر کے لیے جد وجہد کی جائے گی۔ (11) نو آبادیاتی نظام کی مخالفت کی جائے گی۔ (12) عالمی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا جائے گا۔ (13) دوسرے ممالک کی آزادی کا احترام کیا جائے گا۔ (14) مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیںگے۔ (15) عالم اسلام سے برادرانہ مراسم قائم کیے جائیںگے۔
نوازشریف کے دوبارہ برسر اقتدار آنے پر گزشتہ دور حکومت کی پالیسی کا اعادہ زیادہ بہتر انداز اور بھرپور توجہ کے ساتھ کیا گیا ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ضمن میں یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہوا، جس میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کی عملی حمایت کے ساتھ ساتھ ملک پر غیر ملکی تسلط و اجارہ داری کو کم کرنے کی پر خلوص کوششیں کی گئیں۔
ملک میں جہاں اقتصادی ترقی کے لیے پالیسیاں مرتب کی گئیں، وہاں عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت میں کشمیری تحریک آزادی سے ہم آہنگ کیا گیا۔کشمیر میں آزادی کی تحریک نے پھر زور پکڑلیا اور بھارت کے گرد دائرہ روز بروز تنگ ہوتا چلا گیا۔ عالمی سطح پر غیر مسلم اقوام نے اسے اسلامی ایٹمی بم کا نام دیا اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیاجب کہ عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مسلم ممالک نے اسے طاقت کے توازن کے لیے انتہائی ضروری اور برموقع اقدام قرار دیا۔
پاکستان کے اس دور میں خارجہ معاملات کا قومی خارجہ پالیسی پر اثر ہے تو پاکستان پر یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ خارجہ معاملات میں ٹھوس، جامع اور قابل عمل پالیسی اپنائے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہو اس پالیسی پر وہ کسی قسم کا بیرونی دباؤ قبول نہ کرے۔پاکستان کو موجودہ سیاسی صورتحال میں مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف سے ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے یہ قومیں پاکستان کے مقابلے میں بھارت نواز ہیں یعنی بھارت کے حمایتی ہیں۔
پاکستان کو تسخیر کرنا ان کی اولین خواہش ہے جو انشا اﷲ کبھی پوری نہیں ہوگی۔ پاکستان نے لیاقت علی خان کے دور سے لے کر 9/11 کے واقعے سے قبل تک نسبتاً ایک متوازن پالیسی اپنائی تاہم جنرل مشرف کے دور میں اس حکومت کا جھکاؤ مکمل طور پر امریکا کی طرف رہا اور پھر 9/11 کے بعد اس کی خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلیاں بھی آئیں۔
پس ضرورت اس امر کی ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں اس میں وقت و حالات کیمطابق موثر و ٹھوس تبدیلیاں کریں امریکا پر سے اپنا انحصار کم کریں اور ان پر واضح کردیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی ضرور ہے لیکن پاکستان کی اپنی ایک پالیسی ہے، پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک ہے، اسے عراق یا افغانستان سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہمیں امریکا کو احساس دلانا ہوگا اور ایسی خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی جو پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے۔
ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوںگے جو دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہمارے دیگر مسائل کو بھی حل کرنے میں مدد دیں۔ اس وقت پاکستان کو ایک متوازن، ٹھوس و موثر خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا اور وقت ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ہمارے مسائل دھرے کے دھرے رہ جائیںگے اور ہمارا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔