وہ وجوہات جن کی بناء پر کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک ممکن ہی نہیں
یہ پاکستان آرمی کی فتح ہے اور انڈین آرمی کی بوکھلاہٹ ہے جس نے بغیر سوچے سمجھے ایسا بچکانہ بیان جاری کیا۔
KARACHI:
ضلع حویلی آزاد کشمیر کی یونین کونسل بھیڈی اور اس کا ایک گاؤں سرجیواڑ ہے جس کا نصف حصہ آزاد کشمیر جبکہ باقی ماندہ بھارتی قبضے میں ہے۔ اس گاؤں کے باسی اکثر و بیشتر بھارتی فوج کے گولوں کی زد میں رہتے ہیں جبکہ ضلع حویلی کے باقی علاقے بھی انڈین آرمی کے مارٹر کے گولوں کا نشانہ بنتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کا جب جی چاہتا ہے گاؤں کے کسی بھی فرد کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
گزشتہ برس مجھے اسی گاؤں میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ میری رہائش ایسے گھر میں تھی جو اس گاؤں کا پاکستانی علاقے میں موجود آخری گھر تھا۔ اس گھر سے 20 گز کے فاصلے پر انڈین آرمی کی چوکی تھی۔ میزبانوں کی جانب سے بہت سی احتیاطی تدابیر بتائیں گئیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ گھر کی بالکونی پر نہ کھڑے رہنا۔ خیر طبعیت میں موجود ایڈونچر کی خاصیت مجھے بار بار بالکونی پر لے جاتی۔ اس دوران بھارتی فوج کے روز مرہ کے معمولات دیکھنے کا موقع بھی ملتا اور ان کے کیمپ اور میری رہائش کے درمیان حائل کئی فٹ اونچی خاردار باڑ کے نظارے سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا۔
اس ساری تمہید کا مقصد قارئین کے سامنے بھارتی فوج کے اس بیان کی حقیقت واضح کرنا ہے جس میں انہوں نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا ہے۔ سرجیکل اسڑائیک اصل میں اس جنگی کارروائی کو کہا جاتا ہے جس کے دوران دشمن کے علاقے میں گھس کر اس کے ٹھکانے تباہ کئے جاتے ہیں۔ عموماً ایسی کارروائی جنگی طیاروں کے ذریعے کی جاتی ہیں اور اس میں ایک بڑے علاقے میں موجود اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انڈین آرمی کی جانب سے جن سیکٹرز کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا ہے ان میں کیل، بھمبر، دھدھنیال، تتہ پانی اور لیپہ سیکٹر قابل ذکر ہیں۔ جناب ذرا انڈین آرمی کے ان سیکٹرز پر حملہ کے دعوے کو ایک وقت کے لئے تسلیم کرلیتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک نام کی کوئی چیز ہوئی ہوگی۔ مگر کیسے؟۔
میرے ذاتی روابط اور اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ فائرنگ لیپہ سیکٹر میں ہوئی، انڈین بری فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹینٹ جنرل رنبیر سنگھ کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ کنٹرول لائن پر آزاد کشمیر کے 5 کلومیٹر تک کے علاقے میں کیا گیا۔ لیکن لیپہ سیکٹر کو جتنا میں جانتا ہوں یہ گھنے جنگلات، بلند و بالا برفانی چوٹیوں پر مشتمل ہے جبکہ اس علاقے میں بدھ کی شب شدید بارش اور گھنے بادل تھے جس کی وجہ سے فضائی حملہ کرنا تو ناممکن تھا۔
اب یہ تصور کرلیتے ہیں کہ اگر فضائی حملہ نہیں تھا تو شاید ٹینکوں اور آرٹلری کی مدد سے حملہ کیا ہوگا۔ لائن آف کنٹرول کو جس فرد نے بھی دیکھا ہے تو اسے بخوبی علم ہے کہ لائن آف کنٹرول پر دشوار گزار راستے، برفانی تودے اور سنگلاخ پہاڑ ہیں جن پر انسان کے لئے پیدل چلنا ناممکن ہے تو ٹینک اور بھاری گاڑیاں کیسے پہنچی ہوں گی۔ اب ہمارے پاس آخری آپشن بچتا ہے وہ شب خون مارنے کا ہے۔ یعنی فوجی دستے اپنے چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ آئے ہوں گے اور پاکستانی چوکیوں پر حملہ آور ہوئے ہوں گے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب مائنز بچھائے ہوئے ہیں جن پر سے چھوٹے سے چھوٹے چوپائے کا گزرنا ناممکن ہے۔ اکثر جنگلی جانور جن میں ہرن، جنگلی بکریاں، خرگوش اور گیدڑوں کے گزرنے سے لائن آف کنٹرول پر بچھائے گئے مائن پھٹ چکے ہیں اور ایسے درجنوں واقعات ہیں۔ مائنز کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر انڈین آرمی نے خاردار تاروں کی مدد سے بلند و بالا دیوار بنا رکھی ہے، جس میں کرنٹ چھوڑا گیا ہے۔ اس بلند و بالا (پندرہ فٹ بلند) دیوار کو پار کرنا بھی ناممکن ہے۔
یہاں ایک نقطہ اور اٹھایا جاسکتا ہے کہ انڈیا نے مائن سے بچنے کا انتظام کرلیا، جہاں جہاں سے پاکستان کے علاقوں میں گھسنا تھا وہاں وہاں سے تار بھی کاٹ دی تھی۔ لیکن صاحبان اگلا مرحلہ آتا ہے لائن آف کنٹرول کراس کرنے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ کیل سیکٹر اور دودھنیال سیکٹر میں کارروائی کرنے کی تو انڈین آرمی کو سفید جھوٹ بولنے سے قبل علاقے کے محل وقوع کے بارے میں معلومات جمع کرلینی چاہیں تھیں۔ اس سیکٹر میں دریائے نیلم طغیانی اور اپنے پورے زور کے ساتھ بہہ رہا ہے جس کو کراس کرنا انڈیا تو کیا دنیا کی کسی فوج کے لئے رات کے اندھیرا تو درکنار دن کے اجالے میں بھی ناممکن ہے۔ دوسری جانب لیپہ سیکٹر میں دریائے جہلم دشمن کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق لائن آف کنٹرول پر سرجیکل اسٹرائیک کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
لائن آف کنٹرول کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنا بچپن انڈین آرمی کے مارٹرز گولوں کی گھن گرج سننے میں گزارا ہے، اس لئے انڈین آرمی کے اس پروپیگنڈے کو کم از کم میں تو تسلیم نہیں کرسکتا۔ میرے نزدیک یہ پاکستان آرمی کی فتح ہے اور انڈین آرمی کی بوکھلاہٹ ہے جس نے بغیر سوچے سمجھے ایسا بچکانہ بیان جاری کردیا۔ عموماً ایسا پروپیگنڈا اپنی افواج کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں جھوٹ پکڑنا بہت آسان ہوگیا ہے، اور آپ دیکھئے گا کہ بھارتی فوج کا بھی یہ جھوٹ جلد پکڑا جائے گا اور اُن کی فورسز کا ہی نہیں بلکہ عوام کا مورال بھی زمین بوس ہوجائے گا۔
مذکورہ سیکٹرز میں موجود افراد سے جب میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ بدھ کی شب ان علاقوں میں معمول کے مطابق ہندوستانی فوج نے اندھا دھند مارٹرز گولے فائر کئے لیکن پاکستان کی بروقت کارروائی اور انڈین چوکیوں کی تباہی کے بعد انڈین مورچوں میں تاحال خاموشی ہے۔ لیپہ سیکٹر میں موجود طالب علم کفایت کاظمی سے جب رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر گھاس کی کٹائی میں مصروف افراد پر انڈین آرمی نے فائرنگ کی ہے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بدھ کو رات گئے تک پاکستان آرمی کی جانب سے جوابی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور انڈین آرمی کے مورچوں سے دھویں کے بادل اور شعلے نظر آرہے تھے۔ تاہم جمعرات کو سورج طلوع ہونے کے بعد انڈین آرمی کی جانب سے سفید جھنڈے مورچوں پر بلند کرنے کے بعد پاکستان نے کارروائی روک دی۔ فائرنگ تھمنے کے بعد انڈین آرمی کے ہیلی کاپٹرز مورچوں سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں اٹھاتے رہے۔ اریج فاطمہ تتہ پانی کی رہائشی ہیں ان کے مطابق رات گئے انڈین آرمی نے شہری آبادی پر فائرنگ کی۔ پاکستان آرمی کی بھرپور کارروائی کے بعد انڈین آرمی کی چیک پوسٹس تباہ ہوگئی ہیں اور علاقے میں ان کے زخمی فوجی اور ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں جبکہ جمعرات کو سارا دن لاشوں کو اٹھانے انڈین حکام میں سے کوئی نہیں آیا۔ اسی طرح پانڈو، چکوٹھی، نیزہ پیر، حاجی پیر، پیر پنجال، اڑی سیکٹرز میں بھی انڈین آرمی کی جانب سے معمولی گولا باری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاہم پاکستان آرمی کے نوجوانوں نے دشمن کی توپوں کو خاموش کروادیا۔
لائن آف کنٹرول کے باسی پُرامید ہیں کہ پاکستانی افواج اس ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا رہی ہیں اور بھارت سرکار بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے ایک جانب ملک کی جگ ہنسائی کی وجہ بن رہی ہے تو دوسری جانب اپنی ہی فوج کے مورال کو گرا رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ضلع حویلی آزاد کشمیر کی یونین کونسل بھیڈی اور اس کا ایک گاؤں سرجیواڑ ہے جس کا نصف حصہ آزاد کشمیر جبکہ باقی ماندہ بھارتی قبضے میں ہے۔ اس گاؤں کے باسی اکثر و بیشتر بھارتی فوج کے گولوں کی زد میں رہتے ہیں جبکہ ضلع حویلی کے باقی علاقے بھی انڈین آرمی کے مارٹر کے گولوں کا نشانہ بنتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کا جب جی چاہتا ہے گاؤں کے کسی بھی فرد کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
گزشتہ برس مجھے اسی گاؤں میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ میری رہائش ایسے گھر میں تھی جو اس گاؤں کا پاکستانی علاقے میں موجود آخری گھر تھا۔ اس گھر سے 20 گز کے فاصلے پر انڈین آرمی کی چوکی تھی۔ میزبانوں کی جانب سے بہت سی احتیاطی تدابیر بتائیں گئیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ گھر کی بالکونی پر نہ کھڑے رہنا۔ خیر طبعیت میں موجود ایڈونچر کی خاصیت مجھے بار بار بالکونی پر لے جاتی۔ اس دوران بھارتی فوج کے روز مرہ کے معمولات دیکھنے کا موقع بھی ملتا اور ان کے کیمپ اور میری رہائش کے درمیان حائل کئی فٹ اونچی خاردار باڑ کے نظارے سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا۔
اس ساری تمہید کا مقصد قارئین کے سامنے بھارتی فوج کے اس بیان کی حقیقت واضح کرنا ہے جس میں انہوں نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا ہے۔ سرجیکل اسڑائیک اصل میں اس جنگی کارروائی کو کہا جاتا ہے جس کے دوران دشمن کے علاقے میں گھس کر اس کے ٹھکانے تباہ کئے جاتے ہیں۔ عموماً ایسی کارروائی جنگی طیاروں کے ذریعے کی جاتی ہیں اور اس میں ایک بڑے علاقے میں موجود اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انڈین آرمی کی جانب سے جن سیکٹرز کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا ہے ان میں کیل، بھمبر، دھدھنیال، تتہ پانی اور لیپہ سیکٹر قابل ذکر ہیں۔ جناب ذرا انڈین آرمی کے ان سیکٹرز پر حملہ کے دعوے کو ایک وقت کے لئے تسلیم کرلیتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک نام کی کوئی چیز ہوئی ہوگی۔ مگر کیسے؟۔
میرے ذاتی روابط اور اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ فائرنگ لیپہ سیکٹر میں ہوئی، انڈین بری فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹینٹ جنرل رنبیر سنگھ کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ کنٹرول لائن پر آزاد کشمیر کے 5 کلومیٹر تک کے علاقے میں کیا گیا۔ لیکن لیپہ سیکٹر کو جتنا میں جانتا ہوں یہ گھنے جنگلات، بلند و بالا برفانی چوٹیوں پر مشتمل ہے جبکہ اس علاقے میں بدھ کی شب شدید بارش اور گھنے بادل تھے جس کی وجہ سے فضائی حملہ کرنا تو ناممکن تھا۔
اب یہ تصور کرلیتے ہیں کہ اگر فضائی حملہ نہیں تھا تو شاید ٹینکوں اور آرٹلری کی مدد سے حملہ کیا ہوگا۔ لائن آف کنٹرول کو جس فرد نے بھی دیکھا ہے تو اسے بخوبی علم ہے کہ لائن آف کنٹرول پر دشوار گزار راستے، برفانی تودے اور سنگلاخ پہاڑ ہیں جن پر انسان کے لئے پیدل چلنا ناممکن ہے تو ٹینک اور بھاری گاڑیاں کیسے پہنچی ہوں گی۔ اب ہمارے پاس آخری آپشن بچتا ہے وہ شب خون مارنے کا ہے۔ یعنی فوجی دستے اپنے چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ آئے ہوں گے اور پاکستانی چوکیوں پر حملہ آور ہوئے ہوں گے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب مائنز بچھائے ہوئے ہیں جن پر سے چھوٹے سے چھوٹے چوپائے کا گزرنا ناممکن ہے۔ اکثر جنگلی جانور جن میں ہرن، جنگلی بکریاں، خرگوش اور گیدڑوں کے گزرنے سے لائن آف کنٹرول پر بچھائے گئے مائن پھٹ چکے ہیں اور ایسے درجنوں واقعات ہیں۔ مائنز کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر انڈین آرمی نے خاردار تاروں کی مدد سے بلند و بالا دیوار بنا رکھی ہے، جس میں کرنٹ چھوڑا گیا ہے۔ اس بلند و بالا (پندرہ فٹ بلند) دیوار کو پار کرنا بھی ناممکن ہے۔
یہاں ایک نقطہ اور اٹھایا جاسکتا ہے کہ انڈیا نے مائن سے بچنے کا انتظام کرلیا، جہاں جہاں سے پاکستان کے علاقوں میں گھسنا تھا وہاں وہاں سے تار بھی کاٹ دی تھی۔ لیکن صاحبان اگلا مرحلہ آتا ہے لائن آف کنٹرول کراس کرنے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ کیل سیکٹر اور دودھنیال سیکٹر میں کارروائی کرنے کی تو انڈین آرمی کو سفید جھوٹ بولنے سے قبل علاقے کے محل وقوع کے بارے میں معلومات جمع کرلینی چاہیں تھیں۔ اس سیکٹر میں دریائے نیلم طغیانی اور اپنے پورے زور کے ساتھ بہہ رہا ہے جس کو کراس کرنا انڈیا تو کیا دنیا کی کسی فوج کے لئے رات کے اندھیرا تو درکنار دن کے اجالے میں بھی ناممکن ہے۔ دوسری جانب لیپہ سیکٹر میں دریائے جہلم دشمن کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق لائن آف کنٹرول پر سرجیکل اسٹرائیک کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
لائن آف کنٹرول کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنا بچپن انڈین آرمی کے مارٹرز گولوں کی گھن گرج سننے میں گزارا ہے، اس لئے انڈین آرمی کے اس پروپیگنڈے کو کم از کم میں تو تسلیم نہیں کرسکتا۔ میرے نزدیک یہ پاکستان آرمی کی فتح ہے اور انڈین آرمی کی بوکھلاہٹ ہے جس نے بغیر سوچے سمجھے ایسا بچکانہ بیان جاری کردیا۔ عموماً ایسا پروپیگنڈا اپنی افواج کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں جھوٹ پکڑنا بہت آسان ہوگیا ہے، اور آپ دیکھئے گا کہ بھارتی فوج کا بھی یہ جھوٹ جلد پکڑا جائے گا اور اُن کی فورسز کا ہی نہیں بلکہ عوام کا مورال بھی زمین بوس ہوجائے گا۔
مذکورہ سیکٹرز میں موجود افراد سے جب میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ بدھ کی شب ان علاقوں میں معمول کے مطابق ہندوستانی فوج نے اندھا دھند مارٹرز گولے فائر کئے لیکن پاکستان کی بروقت کارروائی اور انڈین چوکیوں کی تباہی کے بعد انڈین مورچوں میں تاحال خاموشی ہے۔ لیپہ سیکٹر میں موجود طالب علم کفایت کاظمی سے جب رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر گھاس کی کٹائی میں مصروف افراد پر انڈین آرمی نے فائرنگ کی ہے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بدھ کو رات گئے تک پاکستان آرمی کی جانب سے جوابی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور انڈین آرمی کے مورچوں سے دھویں کے بادل اور شعلے نظر آرہے تھے۔ تاہم جمعرات کو سورج طلوع ہونے کے بعد انڈین آرمی کی جانب سے سفید جھنڈے مورچوں پر بلند کرنے کے بعد پاکستان نے کارروائی روک دی۔ فائرنگ تھمنے کے بعد انڈین آرمی کے ہیلی کاپٹرز مورچوں سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں اٹھاتے رہے۔ اریج فاطمہ تتہ پانی کی رہائشی ہیں ان کے مطابق رات گئے انڈین آرمی نے شہری آبادی پر فائرنگ کی۔ پاکستان آرمی کی بھرپور کارروائی کے بعد انڈین آرمی کی چیک پوسٹس تباہ ہوگئی ہیں اور علاقے میں ان کے زخمی فوجی اور ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں جبکہ جمعرات کو سارا دن لاشوں کو اٹھانے انڈین حکام میں سے کوئی نہیں آیا۔ اسی طرح پانڈو، چکوٹھی، نیزہ پیر، حاجی پیر، پیر پنجال، اڑی سیکٹرز میں بھی انڈین آرمی کی جانب سے معمولی گولا باری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاہم پاکستان آرمی کے نوجوانوں نے دشمن کی توپوں کو خاموش کروادیا۔
لائن آف کنٹرول کے باسی پُرامید ہیں کہ پاکستانی افواج اس ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا رہی ہیں اور بھارت سرکار بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے ایک جانب ملک کی جگ ہنسائی کی وجہ بن رہی ہے تو دوسری جانب اپنی ہی فوج کے مورال کو گرا رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔