سندھی زبان کے لیے قرارداد۔ ڀلي ڪري آيا
سندھ اسمبلی میں منگل 27 ستمبر کو مسلم لیگ فنکشنل کے اقلیتی رکن نندکمار کی پیش کردہ ایک قرار داد منظورکی گئی
سندھ اسمبلی میں منگل 27 ستمبر کو مسلم لیگ فنکشنل کے اقلیتی رکن نندکمار کی پیش کردہ ایک قرار داد منظورکی گئی۔اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سندھی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اور سرکاری اور پرائیوٹ اسکولز میں سندھی زبان لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے۔ خوشِ آیند بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی اورایم کیو ایم سمیت سب اراکین نے اس قراردادکی حمایت کی ۔اس طرح یہ قرارداد متفقہ طور پر منظورکی گئی۔
شیریں اور باثروت سندھی زبان، برصغیر کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ کئی بڑے ادیبوں اور شعراء نے سندھی کو ذریعہ ٔ اظہار بنایا ہے۔ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒنے سندھی زبان میں شاعری کرتے ہوئے حقائق ومعرفت کے کئی راز ایسے اعلیٰ انداز میں بیان کیے ہیں کہ شاہ صاحب کو سندھی زبان کے رومی ؒ کا لقب دیا گیا۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام ''شاہ جو رسالو'' سندھ دھرتی اور سندھی زبان کی شان اورآن ہے۔ شاعر ہفت زبان حضرت سچل سرمستؒ کی سندھی زبان میں شاعری بھی وحدانیت اورانسان دوستی کا بہت بڑا پیغام ہے۔
سندھ کے مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ فخر بات یہ ہے کہ برصغیرکی زبانوں میں قرآن پاک کاسب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں ہی ہوا۔ایک حوالے کے مطابق یہ ترجمہ دوسری صدی ہجری میں ہوا تھا۔ ان مترجم کا نام ابومحشر نجیح بن عبدالرحمن السندھی ہے۔ قرآن پاک کا سندھی زبان میں ایک ترجمہ تیسری صدی ہجری میں ہوا، کئی حوالوں میں اس ترجمے کوپہلا ترجمہ قرار دیا گیاہے۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ برِصغیر میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ سندھ میں ہوا اور سندھی زبان میں ہوا۔ ماضی میں سندھ کے کئی شہر خصوصاً ٹھٹھہ،منصورہ، خیرپور میرس علم و فضل کے بڑے مراکز تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کئی قدیم شہروں کی علمی حیثیت بوجوہ ماند پڑتی گئی۔
موجودہ دور میں علم و ٹیکنالوجی میںتو تیزرفتاری سے اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال قدیم کئی زبانیں بھی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی زبانوں کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی مختلف قدیم زبانوں کا تحفظ اوران زبانوں کی ترقی پاکستان بھرکے دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں، سرکاری اورغیر سرکاری اداروں، خصوصاً جامعات اورمیڈیا کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
سندھ اسمبلی میں اقلیتی رکن نندکمارکو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے سندھی کو قومی زبان قرار دینے اور سندھ کے اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم کے لیے قرار داد پیش کی۔اس طرح درحقیقت انھوں نے ناصرف سندھی زبان بلکہ بالواسطہ طور پر پاکستان کی تمام بڑی زبانوں کے تحفظ اورترقی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ایک ملک میں ایک سے زیادہ زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں کئی ممالک میں ایک سے زیادہ زبانوں کوقومی یا سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ ان کثیراللسانی ممالک میں کینیڈا، سوئٹزر لینڈ، بیلجیم، جنوبی افریقہ،آئرلینڈ، بھارت اوردیگر ممالک شامل ہیں۔
صدیوں پر محیط اپنے علمی ورثے اور اپنی اعلیٰ روایات سے تعلق قائم رکھنے اور انھیں آیندہ نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے ہر لسانی اکائی کو اپنی زبان کی حفاظت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اپنی ثقافت کے تحفظ وترقی کے لیے ہمیں مقامی زبانوں کو تحفظ اور ترقی دینی ہوگی۔ پاکستان میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیک وقت کئی نظام ہائے تعلیم موجود ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میںاکثرگورنمنٹ اسکولزکی حالت بہت خراب ہے۔ ایسی صورت میں کئی والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔پرائیویٹ اسکولز میں ماہانہ فیسوں کے مختلف اسٹرکچرز ہیں،ان فیسوں کی ادائیگی عمومی طور پر والدین کے لیے بہت مشکل ہوتی جارہی ہے۔
اگر سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنایا جائے اور وہاں اساتذہ کو باقاعدگی کے ساتھ تعلیم دینے کا پابند کیا جائے توکئی والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز سے گورنمنٹ اسکولز میں منتقل کردیں گے۔اس طرح پاکستانیوں کے ایک بڑے طبقے پر مالی بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ پتہ نہیں کہ ہماری حکومت اس انتہائی اہم معاملے پرکب سنجیدگی سے توجہ دے گی۔
پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ہر بچے کی اسکول تک رسائی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں شرح خواندگی میں تیزرفتار اضافے کے لیے ہمیں پرائمری تعلیم بچے کی مادری زبان میں دینے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ میں نے اپنے ایک کالم بعنوان ''خود فریبی'' مورخہ 19 جولائی میں لکھا تھا کہ ''دنیا میں ہر ترقی یافتہ قوم نے اپنی نئی نسل کی تعلیم کا اہتمام اپنی قومی اور مادری زبان میں ہی کیا ہے۔
ہمارے ملک میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔ پاکستان کو ترقی دینی ہے، اسے معاشی لحاظ سے مضبوط ملک بنانا ہے، اپنے شاندار ورثے کی حفاظت کرنی ہے اور اس ورثے کی بنیاد پر اپنی شناخت بنانی ہے تو ہمیں اپنی قومی زبان اردو اور اس خطے کی دیگر زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی، کشمیری اور بلتی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔
جب ترکی میں پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کی تعلیم ترکی زبان میں ہوسکتی ہے تو پاکستان میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم اردو اور دیگر علاقائی زبانوں میں کیوں نہیں دی جاسکتی۔ رہا انگلش سیکھنے کا معاملہ تو جو طالب علم چاہیں وہ اسکول کے بعد ایک یا دو سال کے کورسز کے ذریعے انگلش سیکھ لیں۔ ہم جرمنی، فرانس، چین یا کوریا وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرنچ، جرمن، چینی یا کوریائی زبان بھی تو سیکھ ہی لیتے ہیں۔''
بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہونے والی علمی، تکنیکی، معاشی تبدیلیوں نے انسانی تمدن کو نئے نئے انداز سے متاثرکیا ہے۔ان اثرات میں دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف لوگوں کی تیز رفتاری سے منتقلی، اپنے ملک سے دوسرے ملک یا دوسرے خطوں کی طرف روانگی بھی شامل ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا تیزی سے بڑھتا ہوا استعمال بھی انسانوں کے معمولات اور طرزِ زندگی کومتاثرکررہا ہے۔ قدیم ثقافتیں اور قدیم زبانیں بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہورہی ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ ان زبانوں میں ادبی اورعلمی کام کی مقدار بہت کم ہے تاہم پاکستان کی علاقائی یا صوبائی زبانوں میں سندھی زبان، صحافت اور ادب میں دوسری زبانوں سے بہت آگے ہے۔
سندھی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات اور رسائل کی تعداد اور حلقۂ اشاعت پاکستان کی کسی بھی دوسری علاقائی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات ورسائل سے بہت زیادہ ہے۔ سندھی زبان اور دوسری علاقائی یا صوبائی زبانوں کی ترقی کے لیے اقدامات پاکستان میں شرح خواندگی بڑھانے، ثقافتی ورثے کے تحفظ اورسماجی بہتری کے لیے بہت زیادہ معاون ہوں گے۔
شیریں اور باثروت سندھی زبان، برصغیر کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ کئی بڑے ادیبوں اور شعراء نے سندھی کو ذریعہ ٔ اظہار بنایا ہے۔ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒنے سندھی زبان میں شاعری کرتے ہوئے حقائق ومعرفت کے کئی راز ایسے اعلیٰ انداز میں بیان کیے ہیں کہ شاہ صاحب کو سندھی زبان کے رومی ؒ کا لقب دیا گیا۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام ''شاہ جو رسالو'' سندھ دھرتی اور سندھی زبان کی شان اورآن ہے۔ شاعر ہفت زبان حضرت سچل سرمستؒ کی سندھی زبان میں شاعری بھی وحدانیت اورانسان دوستی کا بہت بڑا پیغام ہے۔
سندھ کے مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ فخر بات یہ ہے کہ برصغیرکی زبانوں میں قرآن پاک کاسب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں ہی ہوا۔ایک حوالے کے مطابق یہ ترجمہ دوسری صدی ہجری میں ہوا تھا۔ ان مترجم کا نام ابومحشر نجیح بن عبدالرحمن السندھی ہے۔ قرآن پاک کا سندھی زبان میں ایک ترجمہ تیسری صدی ہجری میں ہوا، کئی حوالوں میں اس ترجمے کوپہلا ترجمہ قرار دیا گیاہے۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ برِصغیر میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ سندھ میں ہوا اور سندھی زبان میں ہوا۔ ماضی میں سندھ کے کئی شہر خصوصاً ٹھٹھہ،منصورہ، خیرپور میرس علم و فضل کے بڑے مراکز تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کئی قدیم شہروں کی علمی حیثیت بوجوہ ماند پڑتی گئی۔
موجودہ دور میں علم و ٹیکنالوجی میںتو تیزرفتاری سے اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال قدیم کئی زبانیں بھی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی زبانوں کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی مختلف قدیم زبانوں کا تحفظ اوران زبانوں کی ترقی پاکستان بھرکے دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں، سرکاری اورغیر سرکاری اداروں، خصوصاً جامعات اورمیڈیا کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
سندھ اسمبلی میں اقلیتی رکن نندکمارکو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے سندھی کو قومی زبان قرار دینے اور سندھ کے اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم کے لیے قرار داد پیش کی۔اس طرح درحقیقت انھوں نے ناصرف سندھی زبان بلکہ بالواسطہ طور پر پاکستان کی تمام بڑی زبانوں کے تحفظ اورترقی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ایک ملک میں ایک سے زیادہ زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں کئی ممالک میں ایک سے زیادہ زبانوں کوقومی یا سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ ان کثیراللسانی ممالک میں کینیڈا، سوئٹزر لینڈ، بیلجیم، جنوبی افریقہ،آئرلینڈ، بھارت اوردیگر ممالک شامل ہیں۔
صدیوں پر محیط اپنے علمی ورثے اور اپنی اعلیٰ روایات سے تعلق قائم رکھنے اور انھیں آیندہ نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے ہر لسانی اکائی کو اپنی زبان کی حفاظت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اپنی ثقافت کے تحفظ وترقی کے لیے ہمیں مقامی زبانوں کو تحفظ اور ترقی دینی ہوگی۔ پاکستان میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیک وقت کئی نظام ہائے تعلیم موجود ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میںاکثرگورنمنٹ اسکولزکی حالت بہت خراب ہے۔ ایسی صورت میں کئی والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔پرائیویٹ اسکولز میں ماہانہ فیسوں کے مختلف اسٹرکچرز ہیں،ان فیسوں کی ادائیگی عمومی طور پر والدین کے لیے بہت مشکل ہوتی جارہی ہے۔
اگر سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنایا جائے اور وہاں اساتذہ کو باقاعدگی کے ساتھ تعلیم دینے کا پابند کیا جائے توکئی والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز سے گورنمنٹ اسکولز میں منتقل کردیں گے۔اس طرح پاکستانیوں کے ایک بڑے طبقے پر مالی بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ پتہ نہیں کہ ہماری حکومت اس انتہائی اہم معاملے پرکب سنجیدگی سے توجہ دے گی۔
پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ہر بچے کی اسکول تک رسائی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں شرح خواندگی میں تیزرفتار اضافے کے لیے ہمیں پرائمری تعلیم بچے کی مادری زبان میں دینے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ میں نے اپنے ایک کالم بعنوان ''خود فریبی'' مورخہ 19 جولائی میں لکھا تھا کہ ''دنیا میں ہر ترقی یافتہ قوم نے اپنی نئی نسل کی تعلیم کا اہتمام اپنی قومی اور مادری زبان میں ہی کیا ہے۔
ہمارے ملک میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔ پاکستان کو ترقی دینی ہے، اسے معاشی لحاظ سے مضبوط ملک بنانا ہے، اپنے شاندار ورثے کی حفاظت کرنی ہے اور اس ورثے کی بنیاد پر اپنی شناخت بنانی ہے تو ہمیں اپنی قومی زبان اردو اور اس خطے کی دیگر زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی، کشمیری اور بلتی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔
جب ترکی میں پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کی تعلیم ترکی زبان میں ہوسکتی ہے تو پاکستان میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم اردو اور دیگر علاقائی زبانوں میں کیوں نہیں دی جاسکتی۔ رہا انگلش سیکھنے کا معاملہ تو جو طالب علم چاہیں وہ اسکول کے بعد ایک یا دو سال کے کورسز کے ذریعے انگلش سیکھ لیں۔ ہم جرمنی، فرانس، چین یا کوریا وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرنچ، جرمن، چینی یا کوریائی زبان بھی تو سیکھ ہی لیتے ہیں۔''
بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہونے والی علمی، تکنیکی، معاشی تبدیلیوں نے انسانی تمدن کو نئے نئے انداز سے متاثرکیا ہے۔ان اثرات میں دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف لوگوں کی تیز رفتاری سے منتقلی، اپنے ملک سے دوسرے ملک یا دوسرے خطوں کی طرف روانگی بھی شامل ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا تیزی سے بڑھتا ہوا استعمال بھی انسانوں کے معمولات اور طرزِ زندگی کومتاثرکررہا ہے۔ قدیم ثقافتیں اور قدیم زبانیں بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہورہی ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ ان زبانوں میں ادبی اورعلمی کام کی مقدار بہت کم ہے تاہم پاکستان کی علاقائی یا صوبائی زبانوں میں سندھی زبان، صحافت اور ادب میں دوسری زبانوں سے بہت آگے ہے۔
سندھی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات اور رسائل کی تعداد اور حلقۂ اشاعت پاکستان کی کسی بھی دوسری علاقائی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات ورسائل سے بہت زیادہ ہے۔ سندھی زبان اور دوسری علاقائی یا صوبائی زبانوں کی ترقی کے لیے اقدامات پاکستان میں شرح خواندگی بڑھانے، ثقافتی ورثے کے تحفظ اورسماجی بہتری کے لیے بہت زیادہ معاون ہوں گے۔