یہی وقت کی پکار ہے

پاکستان سے ہندوستان کی یہ نفرت، یہ بغض یہ تعصب پاکستان کے قیام کے پہلے دن سے ہی وقفے وقفے سے کروٹیں لیتا رہتا ہے

hamdam.younus@gmail.com

لاہور:
کتنی نفرت بھری تھی ہندوستانی حکومت کی، اس خبر میں کہ وہ تمام فنکار جن میں اداکار و موسیقار اورگلوکار شامل ہیں اور ہندوستان میں کام کررہے ہیں۔ وہ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر ہندوستان کی سرزمین چھوڑ کر واپس اپنے وطن پاکستان چلے جائیں ورنہ ان کی زندگیاں ان پر تنگ ہوجائیں گی۔

پاکستان سے ہندوستان کی یہ نفرت، یہ بغض یہ تعصب پاکستان کے قیام کے پہلے دن سے ہی وقفے وقفے سے کروٹیں لیتا رہتا ہے جب کہ پاکستان نے ہر دور میں ہندوستان کی طرف دوستی، بھائی چارگی کا اور پڑوسی ملک ہونے کے ناتے محبت کا دامن پھیلایا مگر ہندوستان نے ہمیشہ پیچھے سے ہی وار کیا اور محبت کے ہر اقدام کو پاکستان کی بزدلی ہی سمجھا مگر گزشتہ چند سالوں سے تو ہندوستان کی طرف سے نفرت کا ایک الاؤ روشن ہے جو کسی صورت بھی ٹھنڈا نہیں ہوپاتا ہے۔

ہندوستان قدم قدم پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف محاذ کھولتا رہتا ہے اور پاکستان کے خلاف ہندوستان کے سارے ٹی وی چینلز اورریڈیو صبح سے شام اور رات تک نفرت کے انگارے برساتے رہتے ہیں مگر ایک ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز ہیں،کسی اپنے ملک کی سیاسی شخصیت کی کردار کشی ہو،کسی بھی سیلیربیٹی کی شادی ہو،کسی سیاسی رہنما کی ناراضگی ہو یا پھر کسی بھی سیاسی رہنما کا پھر سے کسی کے ساتھ ملاپ اور دوستی ہو تو ہمارے تمام ٹی وی چینل سارا دن ساری رات، ہندوستانی فلموں کے گیت پس منظر میں چلاتے رہتے ہیں اور ساری قوم کے ذہنوں پر ہتھوڑے مارتے رہتے ہیں۔

اس طرح انڈین فلموں کے گیتوں کے ذریعے ہندوستان کے کلچر اور ان کی فلموں کو پروموٹ کیا جاتا ہے جس کے ذمے دار آج کے ہمارے ٹی وی چینلز ہیں جو اس بات کو بالکل ہی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہندوستانی فوج ایک طویل عرصے سے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کو ظلم کا بیدردی کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ یہی ٹی وی چینلز ہندوستان آرمی کے بہیمانہ مظالم کی تصویریں بھی دکھاتے ہیں مگر پھر بھی انھیں کشمیری مسلمانوں پر انڈین آرمی کا ظلم نظر نہیں آتا ۔انڈین فلموں کے گیت ان کی زندگی پر بنے ہوئے ہیں انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نئے اور پرانے انڈین فلمی گیتوں کو تلاش کرنا یاد رہتا ہے اور کشمیری مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم یہ بھول جاتے ہیں۔

تواتر سے ظلم کے مناظر دیکھنے کے بعد بھی ہمارے چینلز کے ذمے داران آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اس طرح وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس رویے سے ہندوستانی فلمساز تو بہت خوش ہوتے ہوں گے، کہ ان گیتوں کو پاکستانی چینل خوب زندہ رکھے ہوئے ہیں مگر جن مظلوم کشمیریوں کی زندگیاں اپنی طویل جدوجہد آزادی کے سلسلے میں خوں ریزی کے سمندر پار کر رہی ہیں، ان کے جذبات کی ہمارے چینلز ہنسی اڑا رہے ہیں۔

ان کی قربانیوں کی توہین کرنے کے درپے ہیں، ہمارے چینلزہندوستانی فلموں کے بھولے بسرے گیتوں کو بھی نہ صرف پھر سے زندگی دے رہے ہیں بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ ہمارے کانوں میں یوں ٹھونس رہے ہیں جو سیسہ انڈیلنے کے مترادف ہیں۔


ہماری قوم کا اب یہ حال ہوگیا ہے کہ سیاسی پس منظر ہو یا سماجی، قومی محفل ہو یا ثقافتی ہر موقعے پر ہمارے ٹی وی چینلز منافقت کا کردار ادا کر رہے ہیں، ہماری فلمی صنعت کو کبھی کسی حکومت نے سہارا نہیں دیا، ہاں البتہ انڈین فلموں کی نمائش کے سرٹیفکیٹ بڑی رواداری اور آسانی کے ساتھ جاری کردیے جاتے ہیں ہندوستان میں ہماری فلموں کی نمائش کا چیپٹر تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے مگر انڈین فلموں کی نمائش کے لیے ہمارے سینما مالکان پیش پیش ہوتے ہیں بلکہ جتنے بھی بچے کچھے اچھے سینما ہال ہیں وہ پہلے انڈین فلموں کی نمائش کے لیے بک کیے جاتے ہیں اور پاکستانی فلمساز بعض اوقات اپنی فلموں کی نمائش کی حسرت لیے رہ جاتے ہیں۔

پھر کہیں مشکل سے کوئی سینما حاصل ہوتا ہے تو اس کا کرایہ فلمساز کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے،گزشتہ تمام حکومتوں نے ملکی فلمی صنعت کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا ہے۔ جب ملک میں جنرل ضیا الحق کی حکومت آئی تو اس نے آکر منافقت کی ایک نئی مثال قائم کی تھی، وہ حکمراں بھی دوغلا تھا اس نے آتے ہی پاکستان فلم انڈسٹری پر Ban لگاکر اس کا بیڑہ غرق کردیا تھا۔

وہ ہندوستانی فلموں اور فنکاروں کا دیوانہ بھی تھا۔ جب فلمساز و اداکار شیخ مختار پاکستان آیا تو اس کی درخواست پر ہندوستانی فلم ''نورجہاں'' کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ نمائش کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان سے انڈین فلموں کے گیتوں کی نشریات پر پابندی تھی مگر جنرل ضیا نے اپنے خصوصی قلم کے ساتھ فلم ''نورجہاں'' کے گیتوں کو سارے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر کرنے کی بھی بڑے کھلے دل سے اجازت دے کر ملکی قوانین پر اپنی پسند کا آرا چلایا تھا۔

ستم در ستم، حیف در حیف کہ ہمارے ملک میں شادی بیاہ کی تمام تقریبات میں چاہے مایوں کی رسم ہو، بارات ہو یا پھر رخصتی ہر موقع پر انڈین فلمی گیتوں کو ہی سجاوٹ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور ہر شادی بیاہ میں ہندوستانی فلمی گیتوں ہی کی گونج سنائی دیتی ہے اور اس بات میں سو فیصد سچائی ہے پاکستانی قوم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کیا اس سچائی کو جھٹلا سکتی ہے۔

ایک طرف ہماری قوم کا یہ کردار ہے دوسری طرف ہندوستانی قوم اور ہندوستان کی حکومت، ہندوستان کے سارے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پاکستان کے خلاف نفرت سے بھری خبروں اور پروگراموں سے مخالفانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے تمام ٹی وی چینلز صرف ہندوستانی فلموں کے ہی دیوانے اور پرستار کیوں ہیں ، سرحد کے اس پار قدم قدم پر نفرت اور سرحد کے اس پار بے جا پیار اور محبت، کشمیری مسلمانوں کی حق تلفی کے ساتھ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی نفرت بڑھتی جا رہی ہے ۔

آج ہندوستان آرمی جس طرح پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے، پاکستان کے وجود کے خلاف ہے ہندوستان ثقافتی طور پر پاکستان کے خلاف جو بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہا ہے انڈیا کا ہر چینل روزانہ صبح سے شام تک بس پاکستان اور پاکستان آرمی کے خلاف محاذ کھولے رہتا ہے۔ کیا ہمیں اب یہ زیب دیتا ہے کہ ہم انڈین فلموں کے گیتوں سے ہر پروگرام کو سجا کر بڑے فخر سے پیش کریں جب کہ ان دنوں کشمیر کی گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر کشمیری عوام کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔

روزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں، ہندوستانی فوجی معصوم کشمیریوں پر بیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے مظلوم شہریوں کو ان کی بینائی سے بھی محروم کر رہے ہیں اور ہمارے ٹی وی چینلز صرف دولت کمانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔

اقوام متحدہ بھی مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیے ہوئے ہے جو بڑی طاقتوں کی لے پالک ہے اور بیشتر بڑے ممالک اپنے مفادات کے پیش نظر کشمیر پر ظلم ہوتے دیکھ رہے ہیں اور ان کی آنکھیں بند اور زبانیں گنگ ہیں، لیکن پاکستان کے ٹی وی چینل کی یہ منافقت کس بات کا عندیہ ہے؟ قومی حمیت کی روزانہ دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ آج ذاتی مفاد سے زیادہ قومی مفاد کی ضرورت ہے اور یہی وقت کی پکار بھی ہے۔
Load Next Story