کیچ چھوڑنا ریت ہے پرانی

وقار حسن کے کیچ گرانے سے محمود حسین کیریئر کی پہلی گیند پر وکٹ نہ لے سکے

ماضی میں پاکستانی فیلڈروں کے کیچ چھوڑنے سے جڑی چند یادیں۔ فوٹو: فائل

پاکستانی معاشرے میں کچھ خرابیاں ایسی ہیں جو قیام پاکستان سے اس کے ساتھ چمٹی چلی آرہی ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ کرکٹ کا ہے، پاکستانی ٹیم میں کچھ خامیاں روز اول سے ہیںاور ہنوز دور نہیں ہوئیں۔

ایک بڑی خرابی فیلڈنگ کا پست معیار ہے، حالیہ دورۂ انگلینڈ میں ہمارے کھلاڑیوں نے جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہیں۔1954ء میں اپنے پہلے دورۂ انگلینڈ میں ہماری ٹیم نے اوول میں تاریخی فتح حاصل کرکے ملک کا نام اونچا کیا۔ اس وقت بھی فیلڈروں نے کیچ چھوڑ چھوڑ کر میچ ہروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔

اوول کے ہیرو فضل محمود سے ایک دفعہ ٹی وی انٹرویو میں پوچھا گیا کہ ٹیسٹ میں ان کی کتنی وکٹیں ہیں، تو انھوں نے کہا کہ '34ٹیسٹ میچوں میں 139 لیکن اگر اس زمانے میں پاکستان ٹیم میں کیچ پکڑنے کا رواج ہوتا تو وکٹوں کی تعدادکہیں زیادہ ہوتی۔'

اوول ٹیسٹ میں وکٹ کیپر امتیاز احمد نے ہمیں ایک ملاقات میں بتایا کہ جب میچ نازک مرحلے میں داخل ہوا تو کامپٹن نے شاٹ کھیلا تو گیند فضا میں بلند ہوئی، فیلڈر کے پاس اسے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کے واسطے مناسب وقت تھا ، وزیرمحمد کیچ پکڑنے کے لیے حرکت میں آئے تو ساتھی کھلاڑی کہنے لگے کہ' وزیر!خدا کا واسطہ ہے،کیچ پکڑ لینا ، ملک کی عزت کا سوال ہے،' ان جناب نے کیچ تو خیر کیا پکڑنا تھا ،گیند ہاتھوں میں ٹھہرنے کے بجائے ماتھے سے جاٹکرائی۔



فضل محمود نے اپنی آپ بیتی "From Dusk To Dawn" میں وزیر محمد کی ناقص فیلڈنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ جب بھی اس بارے میں سوچتے ہیں، انھیں ہنسی آتی ہے۔ انگلینڈ کے دورے سے بھی آپ کو پیچھے لے چلتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی کامیابی کا جس کا حصول بھی ہمارے فیلڈروں نے مشکل بنائے رکھا۔

1952ء میں لکھنؤ ٹیسٹ میں لالہ امر ناتھ اپنی مزاحمتی اننگز سے پاکستان ٹیم کی راہ میں دیوار بنے۔ موصوف پرانے لاہوریے تھے، اس لیے بعض پاکستانی کھلاڑیوں سے ان کی بے تکلفی تھی، وہ بیٹنگ کرنے کے لیے آئے تو محمود حسین کااوورچل رہا تھا ، سلپ میں کھڑے فضل محمود پنجابی میں بولے 'مودے ایہدا سر پاڑ دے (اس کا سر (باؤنسر سے) پھاڑ دو۔''

فضل محمود بولنگ کرنے آئے تو انھوں نے سکوئر لیگ پر موجود ذوالفقار احمد کوکیچ کے لیے تیار رہنے کا اشارہ کیا۔ بولر نے منصوبے کے مطابق باؤنسر کرایا ،لالہ امر ناتھ نے اس سے پہلوتہی کی تو ایک حلوہ ساکیچ ذوالفقار احمد کی طرف اچھلا جسے انھوں نے ڈراپ کردیا تو بجائے نادم ہونے کے، اپنی عادت کے عین مطابق فضل محمود پر برس پڑے کہ ابھی میں کھڑا بھی نہیں ہوا تھا اور تم نے گیند کرادی۔

ذوالفقار احمد کے اس عذرِلنگ پر جہاں پاکستانی کھلاڑی ہنسے بغیرنہ رہ سکے وہیں امرناتھ بھی محظوظ ہوئے اور ذوالفقار احمد سے کہا کہ ' یار ! یہ تو اتنا آسان کیچ تھا کہ میری بیوی بھی اسے پکڑ لیتی۔' اس وقت امرناتھ نے 6رنزبنائے تھے۔

میچ پاکستان جیت گیا مگر لالہ امرناتھ نے پھر پکڑائی نہ دی ، 61 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔ نذرمحمد نے اس میچ میں پاکستان کی طرف سے پہلی سنچری اسکور کی۔بیٹ کیری کیا۔ اچھے فیلڈروں کے کال میں نذر محمد کا دم غنیمت تھا۔ وہ گلی کے بہت عمدہ فیلڈر تھے اور گیند ان کے ہاتھوں میں جاتی شرماتی نہ تھی۔



1959 میں انتخاب عالم ،آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں ٹیسٹ کریئرکی پہلی گیند پر کولن میکڈونلڈ کو بولڈ کرکے منفرد ریکارڈ کا حصہ بنے۔ ان سے پہلے پاکستانی بولر محمود حسین بھی یہ کارنامہ انجام دے لیتے اگر لکھنؤ ٹیسٹ میں لیگ سلپ میں کھڑے وقارحسن ان کی گیند پرکیچ نہ گراتے۔ پنکج رائے کے کیچ ڈراپ ہونے پر مایوسی میں محمود حسین نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ لیا تھا۔

وقار حسن اس دورے میں ان کے روم میٹ بھی تھے اور دونوں میں پاکستان ٹیم کا حصہ بننے سے قبل اس زمانے سے دوستی چلی آتی تھی، جب وہ گورنمنٹ کالج کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے۔ وقار حسن کے بقول، میرا مزاج نرم ، محمود حسین کا گرم، مگر طبیعتوں کے اس اختلاف کے باوجود دوستی رہی۔

1958ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف حنیف محمد نے 337رنز بنائے ، اسے ٹیسٹ میچ بچانے کے لیے کھیلی جانے والی عظیم ترین اننگز قرار دیا جاتا ہے۔ لٹل ماسٹر 970منٹ وکٹ پر رہے۔ اس میچ میں ویسٹ انڈیز کے بھاری مجموعے تلے دبنے کے قصوروار بھی فیلڈر حضرات تھے۔ معروف جریدے ''لیل ونہار ''میں ظہیر بابر نے اس میچ پر اپنے مضمون میں لکھا '' پہلے دن پاکستان دو ہی کھلاڑی اس لیے آؤٹ کرسکا کہ فیلڈروں نے بے شمار کیچ نظر انداز کئے۔ ''



اس تحریرمیں انھوں نے چراغ حسن حسرت کا حوالہ بھی دیا ہے جنھوں نے کہہ رکھا تھا کہ ''ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے تو گیند طشتری میں سجا کر پیش کرنا چاہیے کہ حضور اٹھا کر کیچ کر لیجیے۔''

حنیف محمد نے پاکستان کو ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے کے چھ برس بعد ٹرپل سنچری بناڈالی۔ انڈین ٹیم کو 1932میں ٹیسٹ اسٹیٹس ملا،76برس گزرگئے،کوئی انڈین ٹرپل سنچری نہ کر سکا ، لیکن پھر 2004ء میں وریندر سہواگ نے پاکستانی فیلڈروں کی اعانت سے 300 بنا ہی لیے۔ ان کی اننگز میں دو بار گیند فیلڈروں کے ہاتھ میں اور دو ہی بار وکٹ کیپرکے گلوز میں نہ سما سکی۔

یہ تو پرانے زمانے کے قصے ہیں، جب جدید ٹریننگ کا تصور تھا نہ ہی کرکٹ میں پیسا تھا اور نہ ہی الگ سے فیلڈنگ کوچ ہوتا۔ اب یہ سب ہے مگر ہمارے کھلاڑیوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دور جدید میں ناقص فیلڈنگ کی ایک جھلک تو آپ نے دورۂ انگلینڈ میں ملاحظہ کرہی لی۔


بڑے فارمیٹ میںبھی ناقص فیلڈنگ نقصان سے دوچار کرتی ہے لیکن چھوٹے فارمیٹ میں تو یہ بعضے کباڑہ کردیتی ہے۔صرف آخری دو ورلڈ کپ مقابلوں کے ان میچوں کی مثال سے بات واضح ہوجائے گی، جن میں ہار سے ہم ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہرہوئے ۔

ورلڈ کپ2015ء میں آسٹریلیا کے خلاف وہاب ریاض کے تاریخی اسپیل کو راحت علی نے فائن لیگ پر شین واٹسن کا آسان کیچ چھوڑ کر غارت کردیا ، وہ گیند تھام لیتے تو میچ پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوجاتی اور عین ممکن تھا ہم میچ جیت جاتے۔

2011ء ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کے خلاف سچن ٹنڈولکرکے ایک دو نہیں ، چار کیچ چھوڑے گئے۔ سچن ٹنڈولکر نے 85رنز بنائے اور مین آف دی میچ قرار پائے اور وہاب ریاض کا آدھی ٹیم کو آؤٹ کرنا ٹیم کے کسی کام نہ آسکا۔

جب وسیم اکرم کو عمران خان پرغصہ آیا

دسمبر 1990ء میں لاہور ٹیسٹ میں وسیم اکرم نے ویسٹ انڈیز کی دوسری ا ننگز میں کمال کا اوور کیا۔ پانچ گیندوں پرچار کھلاڑی پویلین بھیج دیے ۔ وسیم اکرم پانچ گیندوں پرپانچ وکٹیں لے سکتے تھے اگرعمران خان ان کی گیند پر بشپ کا آسان کیچ نہ چھوڑ دیتے۔

اس سے پہلے وسیم اکرم نے دو گیندوں پر ڈو جون اور مارشل کو آؤٹ کیا، اوربعد میں دو گیندوں پرامبروز اور والش کو، کیچ نہ گرتا تو وہ ہیٹ ٹرک بھی کرلیتے اور متواتر پانچ گیندوں پر وکٹیں لینے کا اعزاز بھی ان کے نام ہو جاتا، جو اس وقت ان سے پہلے ایم ۔جے۔ سی ۔ ایلوم اور سی ایم اولڈ کے پاس تھا۔



وسیم اکرم نے اپنی آپ بیتی میں عمران خان کے کیچ چھوڑنے پراپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔ ان کے بقول، وہ عمران خان کو غصے سے گھورتے ضرور رہے لیکن انھوں نے خود کو کپتان پرگرجنے برسنے سے بڑی مشکل سے باز رکھا کیونکہ عمران خان نے کرکٹ میں ان کے لیے بہت کچھ کیا تھا ۔عظیم بولر نے لکھا ہے کہ اگر عمران کی جگہ کوئی اور کھلاڑی کیچ گراتا تو وہ اس کی خوب خبر لیتے۔

اس بے نتیجہ میچ میں سلیم ملک نے 31کے اسکور پر کارل ہوپر کا سلپ میں کیچ چھوڑا جس کے بعد وہ سنچری کرگئے اور مین آف دی میچ ہوئے ۔ یہ برائن لارا کا پہلا ٹیسٹ تھا ، پہلی اننگز میں وہ 44رنز بناکر عبدالقادر اور دوسری اننگز میں پانچ رنز بناکر عمران خان کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔

عمدہ فیلڈنگ کی بنیاد پر ٹیم کا حصہ بننے والے کھلاڑی

والس میتھائس پاکستان کے غالباً وہ واحد ٹیسٹ کرکٹرتھے، جن کے انتخاب کی بنیادی وجہ فیلڈنگ میں مہارت تھی ۔ اس دورمیں پاکستانی فاسٹ بولر فیلڈروں کے ہاتھوں بہت تنگ تھے، خاص طور سے سلپ میں تو صورت حال بہت ہی دگرگوں تھی۔

وکٹ کیپر امتیاز احمد کو میتھائس کی صورت میں اپنے دائیں طرف پہلی بار قابل اعتماد رفیق ملا، امتیاز احمد کے بقول، 'والس میتھائس سلپ کے پہلے اچھے فیلڈر تھے، ان سے پہلے سلپ ان کھلاڑیوں کا ٹھکانہ تھی، جو دوڑنے سے بچنا چاہتے۔'

فیلڈرکی حیثیت سے انتخاب کو میتھائس نے درست کردکھایا۔ 1956 میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم نے فتح حاصل کی تواس میں فضل محمود کی عمدہ بولنگ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آسٹریلوی اوپنر جم برک دونوں اننگز میں انھی کی گیند پر میتھائس کے عمدہ کیچوں کے ذریعے آؤٹ ہوئے تو اخبارات میں ان کی فیلڈنگ کا خوب چرچا ہوا۔



میتھائس کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ وہ مشکل کیچ بھی لیتے تو یوں لگتا جیسے انھیں کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑا۔ گیند ان کے ہاتھوں میں جاکر جم جاتی۔ 1957-58ء کے دورۂ ویسٹ انڈیز میں بھی وہ ٹیم کا حصہ تھے۔پہلے ٹیسٹ میں انھوں نے گیری سوبرز، والکاٹ، روہن کہنائی اور کولی سمتھ کے کیچ پکڑے۔ 1955سے 1962تک اکیس ٹیسٹ میچوں میں وہ بہترین فیلڈنگ کے جوہر دکھاتے رہے۔

چند موقعوں پر انھوں نے ٹیم کو اپنی بیٹنگ کے ذریعے بڑی تباہی سے بچایا۔ 1959 میں ویسٹ انڈیزکے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ کی دونوں اننگزمیں میتھائس نے سب سے زیادہ رنز بنائے۔ پہلی اننگز میں 145میں سے 64اور دوسری میں 144میں سے 45 رنز ان کے بلے نے اگلے۔ اس میچ میں نصف سنچری بنانے والے بھی وہ واحد کھلاڑی تھے، جب کہ مخالف ٹیم میں گیری سوبرز اور روہن کہنائی جیسے عظیم بیٹسمین شامل تھے۔

1958 میں دورۂ ویسٹ انڈیز میں انھوں نے پورٹ آف اسپین ٹیسٹ میں 73اور کنگسٹن میں 77رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ میتھائس پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے غیر مسلم تھے ۔پاکستان کے دوسرے غیر مسلم کھلاڑی ڈنکن شارپ 1959 میں آسٹریلیا کے خلاف پہلاٹیسٹ کھیلے تو میتھائس نے ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی، انھیں کھیلنے کے لیے بیٹ اور بوٹ دیے۔

میتھائس کے والد، کراچی جم خانہ کرکٹ کلب میں گیٹ کیپر تھے ۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ کھیل میں آگے بڑھے۔ بین الاقوامی کرکٹ سے الگ ہونے کے بعد کئی برس تک وہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے اور نیشنل بینک آف پاکستان کی ٹیم کے پہلے کپتان بنے۔
Load Next Story