بھارت نے حملہ کیا تو افغان عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے
عالمی مالیاتی اداروںکے راستے دشمن قوتوں کو پاکستان میں نیٹ ورک بنانے کا موقع ملا
مرکزی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی و سینئر سیاست دان لیاقت بلوچ 9 دسمبر 1952ء کو مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے، تاہم ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ انہوں نے 1970ء میں ہی طلباء سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی بناء پر 1976ء میں وہ پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے ناظم منتخب ہو گئے۔ بعدازاں 1977ء اور 1978ء میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم کے عہدہ پر فائز رہے۔
تعلیمی قابلیت کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی مادر علمی پنجاب یونیورسٹی سے قانون اور ماس کمیونیکیشن کی ڈگریاں حاصل کیں۔ طلباء سیاست کے بعد انہوں نے ملکی سیاست کا رخ کیا تو وہاں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے وہ پہلی بار 1985ء میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے، بعدازاں 1990ء اور 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ 2002ء کے انتخابات کے لئے بننے والے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے وہ سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
انتخابات میں متحدہ مجلس عمل دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی بنی تو لیاقت بلوچ کے کندھوں پر قومی اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری بھی آن پڑی۔ اپنی دیانت، ذہانت، ویژن، تجربہ اور قابلیت کی بناء پر انہیں نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ ملک بھر میں احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ''ایکسپریس'' نے مرکزی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان اور سینئر سیاست دان لیاقت بلوچ سے ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں وطن عزیز اور خطے کی صورت حال پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: وطن عزیز آج اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے، ایک طرف ہم بلوچستان، فاٹا کی وجہ سے پریشان ہیں تو دوسری طرف بھارت اور اب افغان بارڈر بھی محفوظ نہیں رہا، تو ایسے حالات میں بحیثیت قوم ہمارا کیا فرض بنتا ہے اور حکومت و ریاستی ادارے کہاں تک اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟
لیاقت بلوچ: بہت شکریہ! اس سوال کا جو پہلا پہلو ہے کہ پاکستان اس وقت خطرات میں گھرا ہوا ہے، تو اس میں یہ عرض ہے کہ پاکستان کی دشمن قوتوں کے اپنے اہداف ہیں اور وہ موجودہ حالات میں پاکستان پر دباؤ بڑھا رہی ہیں، ظاہر ہے ان کا جو بڑا ہدف یہی ہے کہ پاکستان کمزور ہو جائے اور خطے میں پاکستان کی اہمیت کمتر ہو جائے۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا جو منصوبہ طے ہوا ہے، اسے مکمل نہ ہونے دیا جائے اور اس مقصد کے لئے پاکستان کو اس قدر خوفزدہ کر دیا جائے کہ ہم اپنی چیزوں میں ہی الجھے رہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پارلیمنٹ، قومی قیادت اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے کہ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن قومی سلامتی کے لئے ہم سب ایک ہیں، پھر اسی طرح افواج پاکستان نے اپنے اجلاس میں بھارت کی ہرزہ سرائی کے مقابلے میں بروقت قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے فیصلوں کا اعلان کیا ہے، جس پر پوری قوم مطمئن ہے، لیکن ضرورت اس چیز کی ہے کہ کشمیر ایک فوکل پوائنٹ ہے، جہاں بھارت ہر طرح کے مظالم کر رہا ہے، لیکن کشمیری جو ہیں، وہ بھارت کی بالادستی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے جو اقوام متحدہ میں خطاب کیا ہے، اگرچہ وہ ایک معمول کا خطاب ہے، لیکن موجودہ حالات میں کشمیر کے حوالے سے جس موقف کا اظہار کیا گیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک درست فورم پر درست بات ہوئی ہے، متوازن بات ہوئی ہے، لیکن اب ضرورت اس چیز کی ہے کہ جس کا آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے کہ جب اتنے بڑے خطرات ہیں تو ان کے مقابلے میں پاکستان میں ایک قومی یک جہتی اور وحدت کی ضرورت ہے، جس کے لئے وزیر اعظم کو ہی ایک کردار ادا کرنا ہو گا۔ آج سیاست یا قومی سطح پرکوئی بہت بڑا اختلاف نہیں ہیں کہ جس کو دور نہ کیا جا سکے، صرف ایک اختلاف ہے ، اور وہ کرپشن ہے، وہ پانامہ پیپزر، عدالتی کمیشن اور ٹی او آرز کے بارے میں ہے۔ جس طرح وزیراعظم نے قوم اور پارلیمنٹ میں خطاب کیا، اگر اس کی روشنی میں عدالتی کمیشن بن جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے تو سیاست میں یہ ہنگامہ پروری نہ ہوتی، لیکن میں بطور سیاسی کارکن سمجھتا ہوں کہ حکومت سے اختلاف اپنی جگہ لیکن دشمن کے مقابلے میں پوری ملت یک جاں اور یک آواز ہے، جس میں انشاء اللہ دشمن کو ناکوں چنے چبوائیں گے اور اس کے لئے یہ لوہے کے چنے ثابت ہوں گے اور پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کا مقابلہ کرے گی۔ باقی جو بات ہے ریاستی اداروں کی تو ہمیں افواج پاکستان پر مکمل اعتماد ہے اور اس اعتماد کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
ایکسپریس: پاک بھارت حالیہ ٹینشن آپ کی نظر میں کہاں تک جائے گی؟ کیا بھارت ایک بار پھر جارحیت کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے جا رہا ہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں! تیاریاں تو بھارت پوری کر رہا ہے، میں نے جیسے پہلے کہا کہ وہ نفسیاتی دباؤ بڑھا رہا ہے، اعصاب توڑنا چاہتا ہے کہ پوری قوم کا شیرازہ بکھر جائے اور لوگ اس خوف میں آ جائیں کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک اٹامک فلیش پوائنٹ ہو گا اور بھارت کے لئے اتنا آسان نہیں کہ وہ پاکستان پرحملہ کرے، کیوں کہ پھر پاکستان بھی تنہا نہیں ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ یہی افغان عوام پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور وہ جو پندرہ سال سے امریکہ اور بھارت کی چیرہ دستیوں کا افغانستان کی سرزمین پر مقابلہ کر رہے ہیں، وہ انشاء اللہ بھارت کے مقابلے میں، جس کو امریکہ کی آشیر باد ہو گی، وہ اس خطے میں اپنی آزادی کے لئے پاکستان کا ساتھ دیں گے، اور ہمیں یقین ہیں کہ چین بھی، جس کے اس خطے میں دور رس مفادات بھی ہوں گے، لیکن اس کی اپنی سلامتی کے لئے بھی ناگزیر ہے کہ وہ اس طرح کی کسی جارحیت اور ناروا اقدام پر خاموش نہیں رہے گا، میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں ایج پاکستان کو ہوگا۔ بھارت اور اس کے حواریوں کو نقصان ہو گا۔
ایکسپریس: مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ کیا صرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے یا کوئی اپنے پرائے بھی اسے حل نہیں ہونے دے رہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں ناں جی! بھارت تو ہٹ دھرم ہے اور اٹوٹ انگ کی رٹ بھی لگاتا ہے، کشمیر پر ناجائز قابض ہے اور اس کی فوج وہاں ظلم کر رہی ہے، لیکن کشمیری دہلی کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مسئلے یہاں تین ہیں۔ ایک تو اقوام متحدہ خود ہے کہ جس کی قرارداد موجود ہے کہ کشمیریوں کو حق خود اردایت ملنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا، یہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی بہت بڑی ناکامی ہے اور ایک انسانیت کش رویہ ہے۔ محض ایک تعصب کی بنیاد پر یہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ، کیوں کہ کشمیری مسلمان ہیں اور ان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے کہ ان کے اس حق کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ دوسرا یہ ہے کہ عالم اسلام میں صرف کشمیر نہیں، افغانستان، عراق، شام، یمن، بحرین اور فلسطین کے تو بہت پرانے مسئلے موجود ہیں، انہیں حل کرنے کے لئے عالم اسلام کو جو فورم ہے، او آئی سی، وہ بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ اور تیسرا پہلو خود ہمارے ملک کے اندر ہے۔ یہاں ایک طویل مدت سے قرضوں کی جو لعنت موجود ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے راستے پاکستان کی دشمن قوتوں کو اپنا نیٹ ورک بنانے کے مواقع ملے ہیں اور بہت حد تک ان کا جو وائرس ہے وہ ہمارے پالیسی سازی کے سول اداروں تک بھی پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے دانشور تقسیم ہیں، ہماری قوم پرست جماعتیں غلط روش پر چلی جاتی ہیں اور جو سیاست پر براجمان لوگ ہیں، ان کارویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے، وہ قومی مفاد پر بھی اپنے واضح موقف کا اظہار نہیں کرتے، اس وقت بھی اگر ہم دیکھیں تو کشمیر میں کیا کیا ظلم نہیں ہو رہا، بنگلہ دیش میں بھارتی ایماء پر حسینہ واجد جو کھیل کھیل رہی ہے، یہ کھلی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ سب کچھ پاکستان کے خلاف ہی تو ہے، لیکن ہماری قومی قیادت، حکمران اور وزارت خارجہ نے وقت ضائع کیا، بروقت ان چیزوں پر کوئی حکمت عملی طے نہیں کی، محض ایک قرارداد اور بیان دینے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا۔ تو یہ جو اندرونی محاذ پر ہماری کمزوری ہے، اس کا بھی تمام تر فائدہ پاکستان کی دشمن قوتوں کو ہو رہا ہے۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی ماضی میں جہاد کشمیر میں بہت سرگرم رہی ہے کیا وہ اب بھی کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کی حامی ہے؟
لیاقت بلوچ: کشمیر میں عسکری جدوجہد یا جہاد کا جو ماحول پیدا ہوا، اس کا ذمہ دار تو بھارت ہے، جب اس کی فوج ظلم کرے گی، انسانوں کو قتل کرے گی، کشمیر اور پاکستان میں کشمیری خاندان تقسیم ہیں تو پھر کشمیری کیوں نہیں اپنا حق استعمال کریں گے، جن پر صریحاً ظلم ہو رہا ہے، ان کے بوڑھوں کو قتل کیا جاتا ہے، عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے، نوجوانوں کو اپاہج کیا جاتا ہے، انہیں اذیت خانوں کے اندر رکھا جاتا ہے، ان کی نسل کشی کی جاتی ہے تو پھر کشمیری کیوں ردعمل کا اظہار نہیں کریں گے، اس لئے وہاں اگر کوئی عسکری، سیاسی یا مقامی جدوجہد کھڑی ہوتی ہے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے، برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی بنیاد، اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے اعتبار سے بھی، صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ پاکستان کی پوری ملت کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم کشمیریوں کی ہر ہر اعتبار سے مدد کریں، اس لئے یہ کوئی ایسا راز نہیں ہے کہ بھئی کشمیریوں کی مدد کی جائے یا نہ کی جائے؟ ہاں! اگر کوئی کشمیریوں کی مدد سے پیچھے ہٹتا ہے تو وہ حقیقت میں پاکستان کے موقف سے پیچھے ہٹتا ہے۔ اگر وہ کشمیریوں کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتا تو وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتا رہا ہے۔ جماعت اسلامی یہ اپنا دینی فریضہ بھی سمجھتی ہے، انسانی فریضہ بھی سمجھتی ہے کہ آزادی اور حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے، جس کے لئے ہمیں جس محاذ پر بھی ان سے تعاون کرنا چاہیے، ہم بلا جھجھک ان سے تعاون کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
ایکسپریس: ملکی سیاست کی بات کی جائے تو کراچی میں ایم کیو ایم کے حالیہ معاملات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ پاک سر زمین پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم لندن وغیرہ وغیرہ کیا سب ایک ہی ہیں یا واقعی اب ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں جی! کراچی کے حوالے سے میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الطاف حسین نے اپنی زندگی میں اپنے زوال اور بدانجام کو دیکھ لیا ہے، کیوں کہ اس نے بہت ظلم و زیادتیاں کی ہیں، کراچی کے عوام نے اس سے بہت ٹوٹ کر محبت کی، اس کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن اس کے بدلے میں الطاف حسین نے انہیں ذلت اور بدنامی دی ہے، بوری بند نعشیں دیں، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری دی۔ کراچی ایک مہذب، غریب پرور شہر تھا، منی پاکستان تھا، لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے وہاں لوگوں کی جان و مال کے لئے خطرات پیدا کر دیئے، اب یہ بھی لوگوں نے دیکھ لیا کہ ایم کیو ایم کے اندر سے ان کی ٹاپ لیڈرشپ یہ گواہی دے رہی ہے کہ یہ بھارت سے پیسہ کھاتا ہے، یہ را کے ایجنڈ ہیں اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہی الطاف حسین ملا، مسجد، مدارس اور منبرو محراب پہ جو الزامات لگاتے تھے، اب بالکل بے نقاب ہو گئے ہیں کہ یہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کس کس طریقے سے کھیل کھیل رہے ہیں، دوسرا معاملہ یہ بن گیا کہ کراچی میں لسانی بنیادوں پر ایک تعصب کھڑا کیا گیا، وہ مہاجروں کے نام پر کھڑا کیا گیا ہے، مہاجر ہونا تو کوئی جرم نہیں، جیسے پنجابی، بلوچ، پٹھان، سندھی ہیں، تو اسی طرح مہاجر کہلوانا بھی کوئی جرم نہیں ہے، لیکن اس کی بنیاد پر جو تعصب کھڑا کر دیا گیا ہے، لوگوں کو ایک لت میں مبتلا کر دیا گیا ہے، حالاں کہ اس میں عزت نہیں بلکہ رسوائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سول و ملٹری اسٹیبلیشمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو حکمت عملی اپنائی، ایک رخ اختیار کیا، اب انہیں اپنا مائینڈ سیٹ بدلنا ہو گا، اور اس چیز کا علاج محض رینجرز اور طاقت کا استعمال نہیں ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ کراچی میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہونے چاہیں، ووٹر لسٹیں ٹھیک ہونی چاہیں، حلقہ بندیاں ٹھیک ہونی چاہیں۔ ایم کیو ایم کے گن پوائنٹ، زور اور جبر پر جو لسٹیں بنی ہیں، ان سب کو ٹھیک ہونا چاہیے۔ کراچی کے مسائل میں سب سے ضروری چیز اس کا سیاسی حل ہے اور دوسرا مسئلہ اس میں کوٹہ سسٹم ہے، جس کی آئین میں جتنی بھی توسیع کی گئی وہ ختم ہو چکی ہے، اگرچہ اس کوٹہ سسٹم کا فائدہ اندرون سندھ کو ہے نہ کراچی کو نقصان، لیکن یہ ایک ایسا سیاسی تنازع ہے، جسے قومی قیادت کو حل کر دینا چاہیے اور اس سسٹم کو ختم کر دینا چاہیے۔ کراچی کے جو ایشوز ہیں، وہ محض پاک سرزمین یا فاروق ستار کا معاملہ نہیں ہے، مجموعی طور پر کراچی کی سیاست کے بارے میں قومی قیادت کو اپنا صحیح کردار ادا کرنا ہو گا۔ اچھا جو آپ نے ایم کیو ایم سے نکلنے والی پارٹیوں کی بات کی ہے تو اس کے جواب میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ کراچی کی سیاست کے بارے میں آج ہی اخبار میں ایک کارٹون چھپا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کراچی کی سیاست کا دھڑ ایک ہے اور سر دو ہیں، جیسے دو منویں سانپ ہوتے ہیں۔
ایکسپریس: ایم کیو ایم کے حوالے سے ایک تاثر یہ ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نے جماعت اسلامی کے توڑ کے لئے ایم کیو ایم بنائی اور آج پھر خود ہی اسے توڑ رہی ہے؟ آپ کیا کہیں گے؟
لیاقت بلوچ: میرا خیال ہے کہ اُس وقت یعنی 1986-87ء کے دو ٹارگٹ تھے، ایک تو جماعت اسلامی اور دیگر دینی قوتیں، جو فوجی آمریت کے مقابلے میں ڈٹ گئی تھیں۔ عبدالستار افغانی صاحب اس وقت میئر تھے، (اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے) انہیں ہر طرح کا دباؤ دیا گیا کہ کراچی اور اندرون سندھ کی سیاست میں جو ان کا ایجنڈا ہے کہ اس کے مطابق کراچی کارپورییشن ان کے ہاتھ میں کھلونا بن جائے، لیکن جماعت اسلامی اور افغانی صاحب ڈٹ گئے کہ ہم اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے، اب اس میں ایک پہلو یہ تھا کہ جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان، مولانا نورانی صاحب کی جماعت کو ہدف بنایا گیا، اس سے بھی بڑھ کر دوسرا کھیل یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جو سندھ کی صورت حال تھی، وہ شہری اور دیہاتی سیاست کی تقسیم کر دینا چاہتے تھے اور اس مکروہ کھیل کی بنیاد پر کراچی اور حیدرآباد کو الگ کرکے اندرون سندھ کو الگ کر دیا گیا، یوں ایک طرف پیپلزپارٹی کو نقصان ہوا تو دوسری طرف کراچی اور حیدرآباد کو قومی دھارے سے کاٹ دیا گیا۔ آج پیپلزپارٹی بھی ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اس لئے محض ایسا نہیں ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کی طاقت کو توڑنا تھا بلکہ یہ ایک پورا کھیل تھا کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر مسائل سے دوچار ہوئی۔
ایکسپریس: کیا اس وقت مملکت پاکستان Soft Coup کے زیر اثر چل رہی ہے؟
لیاقت بلوچ: نہیں میں یہ نہیں سمجھتا۔ ماضی میں سیاست دانوں، فوجی مارشل لاؤں، سول اسٹیبلیمشنٹ نے بھی غلطیاں کی ہیں، ملک کے دانشور طبقہ نے بھی بے پناہ غلطیاں کی ہیں۔ جنرل کیانی کے دور میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرت کا مرحلہ آیا تو وہ مذاکرات کرنا چاہتے تھے، مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن وہ لوگ جن کے قبضے میں تھے، انہوں نے مذاکرات کامیاب نہ ہونے دیئے، پھر دہشگردی کا ظلم وسعت پکڑتا گیا، جس کے لئے پوری قومی قیادت، دینی جماعتیں، سیاسی جماعتیں، قوم پرست جماعتیں، علاقائی جماعتیں اور پارلیمنٹ کے اندر نمائندہ جماعتیں اکھٹی ہوئیں، جہاں ضرب عضب اور قوم ایکشن پلان طے ہوا، لہذا میں اس کو Soft Coup نہیں کہتا، یہ قومی قیادت کی وِل تھی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ جنرل راحیل شریف نے(میں خود تینوں اے پی سیز میں موجود تھا) بالکل واضح الفاظ میں کہا کہ پلوں کے نیچے سے پانی بہت گزر گیا ہے، اب پانی سروں کے اوپر سے گزرنا چاہتا ہے، اگر ہم سب ایک پیج پر نہیں ہوں گے تو پاکستان کی سلامتی کو حقیقی خطرات لاحق ہو جائیں گے، اس لئے قومی ایکشن پلان یا کراچی ٹارگٹڈ آپریشن یا ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے، ان سارے فیصلوں میں قومی قیادت شامل تھی اور اگر آج کوئی کراچی میں رینجرز کے حوالے سے بات کرتا ہے تو سب ریکارڈ پر موجود ہے، ایم کیو ایم نے تو فوج کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی تھیں، جنرل راحیل کے بڑے بڑے پوسٹر اور بل بورڈز لگائے تھے۔ اس وقت اگر کوئی عقل و شعور کی بات کرتا تھا تو اسے کہا جاتا تھا کہ یہ غدار ہے، اور آج جب حقیقی معنوں میں ایکشن ہوا تو پتہ چلا کہ ہر بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، بلیک میلنگ کے پیچھے ایم کیو ایم ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی Soft Coup نہیں ہے، ایکشن پلان پر پوری قومی قیادت نے اتفاق کیا ہے۔ پاکستان کو آئین اور جمہوریت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔
ایکسپریس: کیا کراچی یا دیگر صوبوں کی طرز پر پنجاب میں بھی آپریشن کی ضرورت نہیں؟
لیاقت بلوچ: Soft Coup تو پنجاب میں ہو رہا ہے، فاٹا، خیبرپختونخوا یا سندھ میں اگر کوئی ایکشن ہوتا ہے تو میڈیا اس کو بہت ابھار کر پیش کرتا ہے، حالاں کہ میری معلومات کے مطاب پنجاب میں ہزاروں لوگ گرفتار ہیں، سینکڑوں لوگوں کو فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے، ہزاروں لوگ ایجنسیوں نے اٹھا لئے ہیں، اور لوگوں کو پتہ ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ پنجاب میں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، پنجاب میں بھی کارروائی جا رہی ہے، لیکن میڈیا کا کمال ہے کہ اس کو نہیں بتاتا۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی، ن لیگ کی حکومت کی گزشتہ 3 سالہ کارکردگی سے مطمئن ہے؟
لیاقت بلوچ: مجموعی طور پر حکومتوں کی کارگردگی اور گڈر گورننس کا پیمانہ تو یہ ہے کہ لوگوں کی جان و مال و عزت کو کتنا تحفظ ملا؟، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں کتنی کمی آئی ہے، اور لوگوں کے اندر ذہنی و قلبی اطمینان کتنا پیدا ہوا ہے؟ اس اعتبار سے دیکھیں تو وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکی۔ اور جب لوگ مطمئن نہیں ہوتے تو حکومتیں جتنے بھی دعوے کرتی رہیں، وہ حقیقت میں ناکام ہوتی ہیں۔
ایکسپریس: تو پھر حکومت گرانے کے لئے آپ کھل کر تحریک انصاف کا ساتھ کیوں نہیں دیتے، کبھی آپ ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور کبھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کب حکومت گرانا چاہتی ہے؟ یہ صرف بظاہر چیزیں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تجزیے ٹھیک نہیں ہوتے۔ 2013ء کا الیکشن بذات خود جمہوریت کا محافظ ہے، دیکھیں ناں! کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بلوچستان میں مکسچر ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ اب خیبر والے کہیں کہ ہم پانچ سال پورے کریں، سندھ والے کہیں ہم پورے کریں اور بلوچستان والے کہیں کہ ہمیں کوئی پانچ سال ہاتھ نہ لگائے تو باقیوں کو تحفظ خود ہی مل جاتا ہے۔ اگر واقعتاً عمران خان مخلص ہوتے کہ اس حکومت کو گرا دینا ہے تو وہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی توڑتے اور پھر مہم چلا دیتے کہ ساری اسمبلیاں توڑو۔ یہ جو سپلٹ مینڈیٹ ہے، بذات خود سب کا محافظ ہے۔ لہذا میں یہ کہوں گا کہ جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ان نااہل، کرپٹ حکمرانوں کو گرایا جا سکتا ہے تو ضرور گرایا جائے، ہمارا پورا تعاون ہے، لیکن آئین سے بالاتر ہم کسی کام کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس لئے اگر آئین کے مطابق جس حکومت کو جس قدر مدت ملی ہے، وہ قوم کی خدمت کرے، اگر وہ نہیں کرتے تو اگلے الیکشن میں دال روٹی کا بھاؤ پتہ چل جائے گا، اس کی واضح مثال پیپلزپارٹی ہے، جو اب صاف ہو چکی ہے تو مسلم لیگ ن کو صاف ہونے میں کیا رکاوٹ ہے؟
ایکسپریس: کہا یہ جاتا ہے کہ مسلم لیگ کے پاس تو الیکشن جیتنے کے حربے ہوتے ہیں۔
لیاقت بلوچ: سب کے پاس ہوتے ہیں، جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں۔ یہی پارٹی تھی ناں جس کے پاس ٹو تھرڈ میجورٹی تھی، لیکن اگلے الیکشن میں 18 سیٹیں تھیں۔
ایکسپریس: آپ نے کرپشن کے خلاف ملک بھر میں تحریک چلا رکھی ہے، لیکن کسی جگہ پر آپ ان (مسلم لیگ ن) کے اتحادی بھی بن جاتے ہیں، جیسے آزاد کشمیر الیکشن میں ہوا۔
لیاقت بلوچ: آزاد کشمیر میں ہم دونوں (مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی) اپوزیشن میں تھے، ن لیگ کی وہاں حکومت تو نہیں تھی، اس لئے ہم وہاں اکٹھے تھے اور پیپلزپارٹی کے خلاف مہم چلا رہے تھے، تو الیکشن پہ انہوں نے الگ ہونے کے بجائے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن کا جو معاملہ ہوتا وہ الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔ پھر آپ دیکھیں کہ آزاد کشمیر میں جو جماعت اسلامی ہے، وہ بالکل آزاد ہے، اس کا اپنا دستور ہے، اپنی شوری ہے، وہ اپنے حالات کے مطابق اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، وہ ہمارے کسی فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔
ایکسپریس: کے پی کے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جس کے دعوے کئے گئے تھے؟ الٹا وزراء کے باہمی جھگڑے اور آپ کی جماعت کے ارکان اسمبلی کی کرپشن کے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں؟ تو ایسے میں عوامی خدمت کیسے ممکن ہو گی؟
لیاقت بلوچ: میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی پر کسی نے جو چیز ڈالنے کی کوشش کی تھی وہ الحمدللہ بالکل صاف ہو گئی ہے، خیبر بنک کے ایم ڈی نے معافی بھی مانگی ہے، کیبنٹ کی ایک کمیٹی بھی بنی، جو ان ممبران پر مشتمل تھی، جو عمومی طور پر جماعت اسلامی کے مخالف سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے بھی اس میں کلیئر کر دیا۔ اس لئے یہ ایک حربہ تھا کہ جماعت اسلامی جو کرپشن کے خلاف تحریک چلا رہی ہے، اس کو نقصان پہنچایا جائے، لیکن الحمداللہ جماعت اس میں سرخرو ہوئی۔ دیکھیں! جماعت نے تو کبھی قرضے لئے ہیں نہ معاف کروائے ہیں، نہ کبھی حکومتی وسائل پر ڈاکہ ڈالا ہے، ہم قوم کے سامنے سرخرو ہیں، ہم پانامہ پیپزر میں ہیں نہ دبئی پراپرٹی لیکس میں، اس لئے جماعت اسلامی کی جو کرپشن فری تحریک ہے، وہ عوام کے جذبات کی ترجمان ہے اور لوگ اس پر مطمئن ہے۔ کے پی کے حکومت کی کارگردگی کی جو آپ نے بات کی تو اس میں، میں سمجھتا ہوں کہ خیبرپختونخوا میں ماضی کی حکومتوں کی نسبت موجودہ حکومت سے لوگوں کو بہت زیادہ شکایات نہیں ہیں، سو فیصد تو چیزیں ٹھیک نہیں ہوں گی، لیکن اگر شکایات میں بھی کمی آ گئی ہے تو یہ بھی اچھی کارکردگی ہے۔
ایکسپریس: حالیہ ''بہاماس لیکس'' میں جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کا بھی نام آیا ہے، کیا کہیں گے؟
لیاقت بلوچ: پروفیسر خورشید صاحب ایک دیانت دار انسان ہیں، 20،21 سال وہ سینیٹر رہے، لیکن انہوں نے تو کبھی سینیٹ کی بھی کوئی مراعات حاصل نہیں کی، پھر وہ ایک عالمی سطح کے دانشور ہیں، محقق بھی ہیں، اقتصادی ماہر بھی ہیں۔اس وقت سعودی عرب میں کئی بنک ہیں، جن کو آج سے 40 سال پہلے پروفیسر صاحب نے تاسیسی طور پر ایک رخ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر اسلامی بینکاری کے لئے انہوں نے بہت کام کیا ہے، جس عقیدہ بنک کی بات کی جا رہی ہے، جو اس وقت وجود میں نہیں ہے، وہ بھی بنیادی طور پر اسلامی بینکاری کے لئے تھا۔ اس میں نہ تو وہ ڈائریکٹر تھے، نہ وہ حصے دار تھے، انہوں نے شریعت بورڈ کی بنیاد پر صرف ایڈوائس دی ہے، تو اس حوالے سے اگر کسی ریکارڈ میں ان کام نام ہے تو وہ صرف اس وجہ سے ہے۔ تو جتنی بات ہے اس کو اتنا ہی رکھا جائے، یہ نہیں کہ باقی سب کرپٹ مل کر کہیں کہ ان کا بھی نام آ گیا تو یہ بھی ویسے ہی ہیں۔
ایکسپریس: اسلامی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی میں قابل، دیانت دار، اہل اور قابل لیڈر موجود ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ وہ الیکشن نہیں جیت پاتے؟ آپ کے تو جلسے بھی بہت بڑے ہوتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: (ہنستے ہوئے) آپ ہی ووٹ نہیں دیتے تو ہم کیسے جیتیں گے؟ سارے ہمیں اچھا کہتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے، جب ووٹ دیں گے تو ہم جیت بھی جائیںگے۔ مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان کا ووٹر جب یہ فیصلہ کر لے گا کہ میری قیادت کا معیار کیا ہونا چاہیے، اگر وہ صلاحیت، اہلیت اور دیانت پر فیصلہ کرے گا تو انشاء اللہ جماعت اسلامی ان کے معیار پر پورا اترے گی، اسی طرح آپ دیکھیں کہ آئین کا آرٹیکل 62،63ہے، جہاں آکر سب بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں، جس دن ہم عوام میں یہ شعور پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے، انشاء اللہ ہم جیتیں گے۔ ہم مایوس نہیں ہیں، اگر الیکشن میں ہار ہی کوئی معیار ہوتا تو ہم کب کے سمٹ گئے ہوتے۔ ہمارا نظریہ ہے، جدوجہد ہے، نصب العین ہے اور ہم انشاء اللہ اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
ایکسپریس: مجموعی طور پر اسلامی جماعتوں کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: اچھا مستقبل ہے، بلکہ مستقبل ہے ہی اسلامی جماعتوں کا، اب آپ دیکھیں کہ بھئی ملّا، مولوی کو بدنام کرنا بڑا آسان ہے، ایک کلچر بن چکا ہے، ایک مرغوب غذا ہے، لیکن بنکوں کے قرضے لینے میں، سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے میں، پانامہ لیکس، دبئی پراپرٹی لیکس میں، میگاسکینڈلز میں کہیں بھی کسی مولوی کا نام تو نہیں ہے، کسی دینی قیادت کا نام نہیں ہے، لیکن یہ چیز کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ دیکھو بھائی یہ واضح فرق ہے، حالاں کہ اس میں پی پی، پی ٹی آئی، ن لیگ، ق لیگ، ساری پارٹیاں شامل ہیں، دانشور بھی، میڈیا کے ادارے بھی شامل ہیں، لیکن یہ کوئی لکھتا نہیں۔
ایکسپریس: امریکہ آج کل ہم سے تھوڑا ناراض جبکہ عرصہ دراز بعد پاکستان کے روس سے تعلقات میں بہتری آرہی ہے، اب پہلی پاکستانی اور روسی افواج کی مشترکہ مشقیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ یہ پاکستان اور روس کی ذہنی بلوغت ہے یا پھر اس کے پیچھے آپ کو کسی سازش کی بو آ رہی ہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں! ہمیشہ کی طرح امریکا ایک بار پھر بے نقاب ہو چکا ہے،ہم تو ہمیشہ سے کہہ رہے تھے، ہم نے گوامریکہ گو تحریک بھی چلائی، ہم نے دنیا کو کہا کہ یہ ناقابل اعتماد دوست ہے، جس کو بھی استعمال کرتا ہے، اس کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے، لیکن سب نے کہا کہ نہیں! ہم امریکا کا ساتھ دیں گے تو دنیا میں پتہ نہیں کیا حاصل کر لیں گے۔ ہم کشمیر کو آزاد کروا لیں گے، اٹامک کا یہ کر لیں گے، لیکن آج اسی امریکا نے بھارت کو تھپکی دے کر ہمارے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اس وجہ سے میرا خیال ہے کہ یہ جو امریکا کی یک محوری اکڑ ہے، نخوت، کبر و غرور ہے، یہ اب ٹوٹ رہا ہے، اور اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اس میں بھی پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کرے گا، اپنی جغرافیائی اور حساس حیثیت کی وجہ سے۔ آپ کے سوال کا جو دوسرا حصہ روس کے بارے میں ہیں تو اس کے حوالے سے میںکہوں گا کہ حالات نے یہ نتیجہ پیدا کیا ہے، اور اب جب امریکا ہر ایک کے لئے خطرہ بن جائے تو روس کے لئے یہ بڑا موقع ہے کہ وہ اپنا ماضی کا بدلہ لے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حالات کی بنیاد پر ہی ساری چیزیں ترتیب پاتی ہیں۔ اگر چین اور روس کے تعلقات بہتر ہیں، پاکستان اور چین کے تعلقات بہتر ہیں اور افغانستان میں امریکا بھارت کی سرپرستی کرکے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرے گا تو امریکا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مار رہا ہے، کیوں کہ یہ بات یہیں تک نہیں رکے گی، وہ امریکا کہ جس نے ایران، عراق، شام، سعودیہ، ترکی میں تعلقات کی جو کشیدگی پیدا کی ہے، یہ بازی کسی بھی وقت پلٹے گی۔
''میں منگیتر نہیں ہوں''
میں جس وقت اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کا ناظم تھا، اس وقت سعودی عرب سے ہمارے ایک ساتھی نے مجھے خط لکھا کہ حسن ابدال میں جمعیت کا یونٹ نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وہاں ہمارے فلاں عزیز ہیں، جن کا بچہ میٹرک میں پڑھتا ہے، نمازی بچہ ہے اور بہت اچھا ہے، اگر آپ لوگ رابطہ کریں تو وہاں جمعیت کا کام ہو سکتا ہے۔
میں اس خط کی روشنی میں تیار ہو گیا، کچھ کتابوں کے ساتھ اپنا بیگ اٹھایا اور جانے کے لئے بس میں جا بیٹھا اور حسن ابدال پہنچ گیا۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب گوردوارے کے قریب ہی محلہ میں ان کا گھر تھا، میں نے پوچھتے پچھاتے جب اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہی بچہ باہر آیا، لیکن مجھے دیکھ کر وہ پہلے ایک بار اندر گیا اور پھر باہر بھاگ گیا، گھر والوں نے بیٹھک کھول کر مجھے وہاں بیٹھایا، خواتین اور بچیوں کی چلت پھرت شروع ہو گئی، ہر کوئی آئے اور مجھے دیکھ کر واپس چلا جائے۔
میں پریشان ہو گیا کہ میں کہاں پھنس گیا ہوں؟ میں نے بیگ سے کتابیں نکالیں اور میز پر رکھ دیں، خیر تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا واپس آ گیا اور اس کے ساتھ اس کے والد بھی تھے، تو پھر یہ غلط فہمی دور ہوئی کہ میں ان کی بچی کا منگیتر نہیں ہوں، تو پھر وہ سارے دروازے بھی بند ہو گئے، پردے بھی گر گئے۔ تو اللہ کے راستے میں دعوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ تھا۔
تعلیمی قابلیت کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی مادر علمی پنجاب یونیورسٹی سے قانون اور ماس کمیونیکیشن کی ڈگریاں حاصل کیں۔ طلباء سیاست کے بعد انہوں نے ملکی سیاست کا رخ کیا تو وہاں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے وہ پہلی بار 1985ء میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے، بعدازاں 1990ء اور 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ 2002ء کے انتخابات کے لئے بننے والے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے وہ سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
انتخابات میں متحدہ مجلس عمل دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی بنی تو لیاقت بلوچ کے کندھوں پر قومی اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری بھی آن پڑی۔ اپنی دیانت، ذہانت، ویژن، تجربہ اور قابلیت کی بناء پر انہیں نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ ملک بھر میں احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ''ایکسپریس'' نے مرکزی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان اور سینئر سیاست دان لیاقت بلوچ سے ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں وطن عزیز اور خطے کی صورت حال پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: وطن عزیز آج اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے، ایک طرف ہم بلوچستان، فاٹا کی وجہ سے پریشان ہیں تو دوسری طرف بھارت اور اب افغان بارڈر بھی محفوظ نہیں رہا، تو ایسے حالات میں بحیثیت قوم ہمارا کیا فرض بنتا ہے اور حکومت و ریاستی ادارے کہاں تک اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟
لیاقت بلوچ: بہت شکریہ! اس سوال کا جو پہلا پہلو ہے کہ پاکستان اس وقت خطرات میں گھرا ہوا ہے، تو اس میں یہ عرض ہے کہ پاکستان کی دشمن قوتوں کے اپنے اہداف ہیں اور وہ موجودہ حالات میں پاکستان پر دباؤ بڑھا رہی ہیں، ظاہر ہے ان کا جو بڑا ہدف یہی ہے کہ پاکستان کمزور ہو جائے اور خطے میں پاکستان کی اہمیت کمتر ہو جائے۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا جو منصوبہ طے ہوا ہے، اسے مکمل نہ ہونے دیا جائے اور اس مقصد کے لئے پاکستان کو اس قدر خوفزدہ کر دیا جائے کہ ہم اپنی چیزوں میں ہی الجھے رہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پارلیمنٹ، قومی قیادت اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے کہ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن قومی سلامتی کے لئے ہم سب ایک ہیں، پھر اسی طرح افواج پاکستان نے اپنے اجلاس میں بھارت کی ہرزہ سرائی کے مقابلے میں بروقت قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے فیصلوں کا اعلان کیا ہے، جس پر پوری قوم مطمئن ہے، لیکن ضرورت اس چیز کی ہے کہ کشمیر ایک فوکل پوائنٹ ہے، جہاں بھارت ہر طرح کے مظالم کر رہا ہے، لیکن کشمیری جو ہیں، وہ بھارت کی بالادستی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے جو اقوام متحدہ میں خطاب کیا ہے، اگرچہ وہ ایک معمول کا خطاب ہے، لیکن موجودہ حالات میں کشمیر کے حوالے سے جس موقف کا اظہار کیا گیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک درست فورم پر درست بات ہوئی ہے، متوازن بات ہوئی ہے، لیکن اب ضرورت اس چیز کی ہے کہ جس کا آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے کہ جب اتنے بڑے خطرات ہیں تو ان کے مقابلے میں پاکستان میں ایک قومی یک جہتی اور وحدت کی ضرورت ہے، جس کے لئے وزیر اعظم کو ہی ایک کردار ادا کرنا ہو گا۔ آج سیاست یا قومی سطح پرکوئی بہت بڑا اختلاف نہیں ہیں کہ جس کو دور نہ کیا جا سکے، صرف ایک اختلاف ہے ، اور وہ کرپشن ہے، وہ پانامہ پیپزر، عدالتی کمیشن اور ٹی او آرز کے بارے میں ہے۔ جس طرح وزیراعظم نے قوم اور پارلیمنٹ میں خطاب کیا، اگر اس کی روشنی میں عدالتی کمیشن بن جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے تو سیاست میں یہ ہنگامہ پروری نہ ہوتی، لیکن میں بطور سیاسی کارکن سمجھتا ہوں کہ حکومت سے اختلاف اپنی جگہ لیکن دشمن کے مقابلے میں پوری ملت یک جاں اور یک آواز ہے، جس میں انشاء اللہ دشمن کو ناکوں چنے چبوائیں گے اور اس کے لئے یہ لوہے کے چنے ثابت ہوں گے اور پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کا مقابلہ کرے گی۔ باقی جو بات ہے ریاستی اداروں کی تو ہمیں افواج پاکستان پر مکمل اعتماد ہے اور اس اعتماد کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
ایکسپریس: پاک بھارت حالیہ ٹینشن آپ کی نظر میں کہاں تک جائے گی؟ کیا بھارت ایک بار پھر جارحیت کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے جا رہا ہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں! تیاریاں تو بھارت پوری کر رہا ہے، میں نے جیسے پہلے کہا کہ وہ نفسیاتی دباؤ بڑھا رہا ہے، اعصاب توڑنا چاہتا ہے کہ پوری قوم کا شیرازہ بکھر جائے اور لوگ اس خوف میں آ جائیں کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک اٹامک فلیش پوائنٹ ہو گا اور بھارت کے لئے اتنا آسان نہیں کہ وہ پاکستان پرحملہ کرے، کیوں کہ پھر پاکستان بھی تنہا نہیں ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ یہی افغان عوام پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور وہ جو پندرہ سال سے امریکہ اور بھارت کی چیرہ دستیوں کا افغانستان کی سرزمین پر مقابلہ کر رہے ہیں، وہ انشاء اللہ بھارت کے مقابلے میں، جس کو امریکہ کی آشیر باد ہو گی، وہ اس خطے میں اپنی آزادی کے لئے پاکستان کا ساتھ دیں گے، اور ہمیں یقین ہیں کہ چین بھی، جس کے اس خطے میں دور رس مفادات بھی ہوں گے، لیکن اس کی اپنی سلامتی کے لئے بھی ناگزیر ہے کہ وہ اس طرح کی کسی جارحیت اور ناروا اقدام پر خاموش نہیں رہے گا، میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں ایج پاکستان کو ہوگا۔ بھارت اور اس کے حواریوں کو نقصان ہو گا۔
ایکسپریس: مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ کیا صرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے یا کوئی اپنے پرائے بھی اسے حل نہیں ہونے دے رہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں ناں جی! بھارت تو ہٹ دھرم ہے اور اٹوٹ انگ کی رٹ بھی لگاتا ہے، کشمیر پر ناجائز قابض ہے اور اس کی فوج وہاں ظلم کر رہی ہے، لیکن کشمیری دہلی کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مسئلے یہاں تین ہیں۔ ایک تو اقوام متحدہ خود ہے کہ جس کی قرارداد موجود ہے کہ کشمیریوں کو حق خود اردایت ملنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا، یہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی بہت بڑی ناکامی ہے اور ایک انسانیت کش رویہ ہے۔ محض ایک تعصب کی بنیاد پر یہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ، کیوں کہ کشمیری مسلمان ہیں اور ان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے کہ ان کے اس حق کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ دوسرا یہ ہے کہ عالم اسلام میں صرف کشمیر نہیں، افغانستان، عراق، شام، یمن، بحرین اور فلسطین کے تو بہت پرانے مسئلے موجود ہیں، انہیں حل کرنے کے لئے عالم اسلام کو جو فورم ہے، او آئی سی، وہ بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ اور تیسرا پہلو خود ہمارے ملک کے اندر ہے۔ یہاں ایک طویل مدت سے قرضوں کی جو لعنت موجود ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے راستے پاکستان کی دشمن قوتوں کو اپنا نیٹ ورک بنانے کے مواقع ملے ہیں اور بہت حد تک ان کا جو وائرس ہے وہ ہمارے پالیسی سازی کے سول اداروں تک بھی پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے دانشور تقسیم ہیں، ہماری قوم پرست جماعتیں غلط روش پر چلی جاتی ہیں اور جو سیاست پر براجمان لوگ ہیں، ان کارویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے، وہ قومی مفاد پر بھی اپنے واضح موقف کا اظہار نہیں کرتے، اس وقت بھی اگر ہم دیکھیں تو کشمیر میں کیا کیا ظلم نہیں ہو رہا، بنگلہ دیش میں بھارتی ایماء پر حسینہ واجد جو کھیل کھیل رہی ہے، یہ کھلی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ سب کچھ پاکستان کے خلاف ہی تو ہے، لیکن ہماری قومی قیادت، حکمران اور وزارت خارجہ نے وقت ضائع کیا، بروقت ان چیزوں پر کوئی حکمت عملی طے نہیں کی، محض ایک قرارداد اور بیان دینے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا۔ تو یہ جو اندرونی محاذ پر ہماری کمزوری ہے، اس کا بھی تمام تر فائدہ پاکستان کی دشمن قوتوں کو ہو رہا ہے۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی ماضی میں جہاد کشمیر میں بہت سرگرم رہی ہے کیا وہ اب بھی کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کی حامی ہے؟
لیاقت بلوچ: کشمیر میں عسکری جدوجہد یا جہاد کا جو ماحول پیدا ہوا، اس کا ذمہ دار تو بھارت ہے، جب اس کی فوج ظلم کرے گی، انسانوں کو قتل کرے گی، کشمیر اور پاکستان میں کشمیری خاندان تقسیم ہیں تو پھر کشمیری کیوں نہیں اپنا حق استعمال کریں گے، جن پر صریحاً ظلم ہو رہا ہے، ان کے بوڑھوں کو قتل کیا جاتا ہے، عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے، نوجوانوں کو اپاہج کیا جاتا ہے، انہیں اذیت خانوں کے اندر رکھا جاتا ہے، ان کی نسل کشی کی جاتی ہے تو پھر کشمیری کیوں ردعمل کا اظہار نہیں کریں گے، اس لئے وہاں اگر کوئی عسکری، سیاسی یا مقامی جدوجہد کھڑی ہوتی ہے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے، برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی بنیاد، اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے اعتبار سے بھی، صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ پاکستان کی پوری ملت کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم کشمیریوں کی ہر ہر اعتبار سے مدد کریں، اس لئے یہ کوئی ایسا راز نہیں ہے کہ بھئی کشمیریوں کی مدد کی جائے یا نہ کی جائے؟ ہاں! اگر کوئی کشمیریوں کی مدد سے پیچھے ہٹتا ہے تو وہ حقیقت میں پاکستان کے موقف سے پیچھے ہٹتا ہے۔ اگر وہ کشمیریوں کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتا تو وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتا رہا ہے۔ جماعت اسلامی یہ اپنا دینی فریضہ بھی سمجھتی ہے، انسانی فریضہ بھی سمجھتی ہے کہ آزادی اور حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے، جس کے لئے ہمیں جس محاذ پر بھی ان سے تعاون کرنا چاہیے، ہم بلا جھجھک ان سے تعاون کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
ایکسپریس: ملکی سیاست کی بات کی جائے تو کراچی میں ایم کیو ایم کے حالیہ معاملات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ پاک سر زمین پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم لندن وغیرہ وغیرہ کیا سب ایک ہی ہیں یا واقعی اب ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں جی! کراچی کے حوالے سے میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الطاف حسین نے اپنی زندگی میں اپنے زوال اور بدانجام کو دیکھ لیا ہے، کیوں کہ اس نے بہت ظلم و زیادتیاں کی ہیں، کراچی کے عوام نے اس سے بہت ٹوٹ کر محبت کی، اس کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن اس کے بدلے میں الطاف حسین نے انہیں ذلت اور بدنامی دی ہے، بوری بند نعشیں دیں، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری دی۔ کراچی ایک مہذب، غریب پرور شہر تھا، منی پاکستان تھا، لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے وہاں لوگوں کی جان و مال کے لئے خطرات پیدا کر دیئے، اب یہ بھی لوگوں نے دیکھ لیا کہ ایم کیو ایم کے اندر سے ان کی ٹاپ لیڈرشپ یہ گواہی دے رہی ہے کہ یہ بھارت سے پیسہ کھاتا ہے، یہ را کے ایجنڈ ہیں اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہی الطاف حسین ملا، مسجد، مدارس اور منبرو محراب پہ جو الزامات لگاتے تھے، اب بالکل بے نقاب ہو گئے ہیں کہ یہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کس کس طریقے سے کھیل کھیل رہے ہیں، دوسرا معاملہ یہ بن گیا کہ کراچی میں لسانی بنیادوں پر ایک تعصب کھڑا کیا گیا، وہ مہاجروں کے نام پر کھڑا کیا گیا ہے، مہاجر ہونا تو کوئی جرم نہیں، جیسے پنجابی، بلوچ، پٹھان، سندھی ہیں، تو اسی طرح مہاجر کہلوانا بھی کوئی جرم نہیں ہے، لیکن اس کی بنیاد پر جو تعصب کھڑا کر دیا گیا ہے، لوگوں کو ایک لت میں مبتلا کر دیا گیا ہے، حالاں کہ اس میں عزت نہیں بلکہ رسوائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سول و ملٹری اسٹیبلیشمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو حکمت عملی اپنائی، ایک رخ اختیار کیا، اب انہیں اپنا مائینڈ سیٹ بدلنا ہو گا، اور اس چیز کا علاج محض رینجرز اور طاقت کا استعمال نہیں ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ کراچی میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہونے چاہیں، ووٹر لسٹیں ٹھیک ہونی چاہیں، حلقہ بندیاں ٹھیک ہونی چاہیں۔ ایم کیو ایم کے گن پوائنٹ، زور اور جبر پر جو لسٹیں بنی ہیں، ان سب کو ٹھیک ہونا چاہیے۔ کراچی کے مسائل میں سب سے ضروری چیز اس کا سیاسی حل ہے اور دوسرا مسئلہ اس میں کوٹہ سسٹم ہے، جس کی آئین میں جتنی بھی توسیع کی گئی وہ ختم ہو چکی ہے، اگرچہ اس کوٹہ سسٹم کا فائدہ اندرون سندھ کو ہے نہ کراچی کو نقصان، لیکن یہ ایک ایسا سیاسی تنازع ہے، جسے قومی قیادت کو حل کر دینا چاہیے اور اس سسٹم کو ختم کر دینا چاہیے۔ کراچی کے جو ایشوز ہیں، وہ محض پاک سرزمین یا فاروق ستار کا معاملہ نہیں ہے، مجموعی طور پر کراچی کی سیاست کے بارے میں قومی قیادت کو اپنا صحیح کردار ادا کرنا ہو گا۔ اچھا جو آپ نے ایم کیو ایم سے نکلنے والی پارٹیوں کی بات کی ہے تو اس کے جواب میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ کراچی کی سیاست کے بارے میں آج ہی اخبار میں ایک کارٹون چھپا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کراچی کی سیاست کا دھڑ ایک ہے اور سر دو ہیں، جیسے دو منویں سانپ ہوتے ہیں۔
ایکسپریس: ایم کیو ایم کے حوالے سے ایک تاثر یہ ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نے جماعت اسلامی کے توڑ کے لئے ایم کیو ایم بنائی اور آج پھر خود ہی اسے توڑ رہی ہے؟ آپ کیا کہیں گے؟
لیاقت بلوچ: میرا خیال ہے کہ اُس وقت یعنی 1986-87ء کے دو ٹارگٹ تھے، ایک تو جماعت اسلامی اور دیگر دینی قوتیں، جو فوجی آمریت کے مقابلے میں ڈٹ گئی تھیں۔ عبدالستار افغانی صاحب اس وقت میئر تھے، (اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے) انہیں ہر طرح کا دباؤ دیا گیا کہ کراچی اور اندرون سندھ کی سیاست میں جو ان کا ایجنڈا ہے کہ اس کے مطابق کراچی کارپورییشن ان کے ہاتھ میں کھلونا بن جائے، لیکن جماعت اسلامی اور افغانی صاحب ڈٹ گئے کہ ہم اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے، اب اس میں ایک پہلو یہ تھا کہ جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان، مولانا نورانی صاحب کی جماعت کو ہدف بنایا گیا، اس سے بھی بڑھ کر دوسرا کھیل یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جو سندھ کی صورت حال تھی، وہ شہری اور دیہاتی سیاست کی تقسیم کر دینا چاہتے تھے اور اس مکروہ کھیل کی بنیاد پر کراچی اور حیدرآباد کو الگ کرکے اندرون سندھ کو الگ کر دیا گیا، یوں ایک طرف پیپلزپارٹی کو نقصان ہوا تو دوسری طرف کراچی اور حیدرآباد کو قومی دھارے سے کاٹ دیا گیا۔ آج پیپلزپارٹی بھی ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اس لئے محض ایسا نہیں ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کی طاقت کو توڑنا تھا بلکہ یہ ایک پورا کھیل تھا کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر مسائل سے دوچار ہوئی۔
ایکسپریس: کیا اس وقت مملکت پاکستان Soft Coup کے زیر اثر چل رہی ہے؟
لیاقت بلوچ: نہیں میں یہ نہیں سمجھتا۔ ماضی میں سیاست دانوں، فوجی مارشل لاؤں، سول اسٹیبلیمشنٹ نے بھی غلطیاں کی ہیں، ملک کے دانشور طبقہ نے بھی بے پناہ غلطیاں کی ہیں۔ جنرل کیانی کے دور میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرت کا مرحلہ آیا تو وہ مذاکرات کرنا چاہتے تھے، مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن وہ لوگ جن کے قبضے میں تھے، انہوں نے مذاکرات کامیاب نہ ہونے دیئے، پھر دہشگردی کا ظلم وسعت پکڑتا گیا، جس کے لئے پوری قومی قیادت، دینی جماعتیں، سیاسی جماعتیں، قوم پرست جماعتیں، علاقائی جماعتیں اور پارلیمنٹ کے اندر نمائندہ جماعتیں اکھٹی ہوئیں، جہاں ضرب عضب اور قوم ایکشن پلان طے ہوا، لہذا میں اس کو Soft Coup نہیں کہتا، یہ قومی قیادت کی وِل تھی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ جنرل راحیل شریف نے(میں خود تینوں اے پی سیز میں موجود تھا) بالکل واضح الفاظ میں کہا کہ پلوں کے نیچے سے پانی بہت گزر گیا ہے، اب پانی سروں کے اوپر سے گزرنا چاہتا ہے، اگر ہم سب ایک پیج پر نہیں ہوں گے تو پاکستان کی سلامتی کو حقیقی خطرات لاحق ہو جائیں گے، اس لئے قومی ایکشن پلان یا کراچی ٹارگٹڈ آپریشن یا ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے، ان سارے فیصلوں میں قومی قیادت شامل تھی اور اگر آج کوئی کراچی میں رینجرز کے حوالے سے بات کرتا ہے تو سب ریکارڈ پر موجود ہے، ایم کیو ایم نے تو فوج کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی تھیں، جنرل راحیل کے بڑے بڑے پوسٹر اور بل بورڈز لگائے تھے۔ اس وقت اگر کوئی عقل و شعور کی بات کرتا تھا تو اسے کہا جاتا تھا کہ یہ غدار ہے، اور آج جب حقیقی معنوں میں ایکشن ہوا تو پتہ چلا کہ ہر بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، بلیک میلنگ کے پیچھے ایم کیو ایم ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی Soft Coup نہیں ہے، ایکشن پلان پر پوری قومی قیادت نے اتفاق کیا ہے۔ پاکستان کو آئین اور جمہوریت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔
ایکسپریس: کیا کراچی یا دیگر صوبوں کی طرز پر پنجاب میں بھی آپریشن کی ضرورت نہیں؟
لیاقت بلوچ: Soft Coup تو پنجاب میں ہو رہا ہے، فاٹا، خیبرپختونخوا یا سندھ میں اگر کوئی ایکشن ہوتا ہے تو میڈیا اس کو بہت ابھار کر پیش کرتا ہے، حالاں کہ میری معلومات کے مطاب پنجاب میں ہزاروں لوگ گرفتار ہیں، سینکڑوں لوگوں کو فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے، ہزاروں لوگ ایجنسیوں نے اٹھا لئے ہیں، اور لوگوں کو پتہ ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ پنجاب میں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، پنجاب میں بھی کارروائی جا رہی ہے، لیکن میڈیا کا کمال ہے کہ اس کو نہیں بتاتا۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی، ن لیگ کی حکومت کی گزشتہ 3 سالہ کارکردگی سے مطمئن ہے؟
لیاقت بلوچ: مجموعی طور پر حکومتوں کی کارگردگی اور گڈر گورننس کا پیمانہ تو یہ ہے کہ لوگوں کی جان و مال و عزت کو کتنا تحفظ ملا؟، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں کتنی کمی آئی ہے، اور لوگوں کے اندر ذہنی و قلبی اطمینان کتنا پیدا ہوا ہے؟ اس اعتبار سے دیکھیں تو وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکی۔ اور جب لوگ مطمئن نہیں ہوتے تو حکومتیں جتنے بھی دعوے کرتی رہیں، وہ حقیقت میں ناکام ہوتی ہیں۔
ایکسپریس: تو پھر حکومت گرانے کے لئے آپ کھل کر تحریک انصاف کا ساتھ کیوں نہیں دیتے، کبھی آپ ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور کبھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کب حکومت گرانا چاہتی ہے؟ یہ صرف بظاہر چیزیں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تجزیے ٹھیک نہیں ہوتے۔ 2013ء کا الیکشن بذات خود جمہوریت کا محافظ ہے، دیکھیں ناں! کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بلوچستان میں مکسچر ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ اب خیبر والے کہیں کہ ہم پانچ سال پورے کریں، سندھ والے کہیں ہم پورے کریں اور بلوچستان والے کہیں کہ ہمیں کوئی پانچ سال ہاتھ نہ لگائے تو باقیوں کو تحفظ خود ہی مل جاتا ہے۔ اگر واقعتاً عمران خان مخلص ہوتے کہ اس حکومت کو گرا دینا ہے تو وہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی توڑتے اور پھر مہم چلا دیتے کہ ساری اسمبلیاں توڑو۔ یہ جو سپلٹ مینڈیٹ ہے، بذات خود سب کا محافظ ہے۔ لہذا میں یہ کہوں گا کہ جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ان نااہل، کرپٹ حکمرانوں کو گرایا جا سکتا ہے تو ضرور گرایا جائے، ہمارا پورا تعاون ہے، لیکن آئین سے بالاتر ہم کسی کام کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس لئے اگر آئین کے مطابق جس حکومت کو جس قدر مدت ملی ہے، وہ قوم کی خدمت کرے، اگر وہ نہیں کرتے تو اگلے الیکشن میں دال روٹی کا بھاؤ پتہ چل جائے گا، اس کی واضح مثال پیپلزپارٹی ہے، جو اب صاف ہو چکی ہے تو مسلم لیگ ن کو صاف ہونے میں کیا رکاوٹ ہے؟
ایکسپریس: کہا یہ جاتا ہے کہ مسلم لیگ کے پاس تو الیکشن جیتنے کے حربے ہوتے ہیں۔
لیاقت بلوچ: سب کے پاس ہوتے ہیں، جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں۔ یہی پارٹی تھی ناں جس کے پاس ٹو تھرڈ میجورٹی تھی، لیکن اگلے الیکشن میں 18 سیٹیں تھیں۔
ایکسپریس: آپ نے کرپشن کے خلاف ملک بھر میں تحریک چلا رکھی ہے، لیکن کسی جگہ پر آپ ان (مسلم لیگ ن) کے اتحادی بھی بن جاتے ہیں، جیسے آزاد کشمیر الیکشن میں ہوا۔
لیاقت بلوچ: آزاد کشمیر میں ہم دونوں (مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی) اپوزیشن میں تھے، ن لیگ کی وہاں حکومت تو نہیں تھی، اس لئے ہم وہاں اکٹھے تھے اور پیپلزپارٹی کے خلاف مہم چلا رہے تھے، تو الیکشن پہ انہوں نے الگ ہونے کے بجائے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن کا جو معاملہ ہوتا وہ الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔ پھر آپ دیکھیں کہ آزاد کشمیر میں جو جماعت اسلامی ہے، وہ بالکل آزاد ہے، اس کا اپنا دستور ہے، اپنی شوری ہے، وہ اپنے حالات کے مطابق اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، وہ ہمارے کسی فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔
ایکسپریس: کے پی کے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جس کے دعوے کئے گئے تھے؟ الٹا وزراء کے باہمی جھگڑے اور آپ کی جماعت کے ارکان اسمبلی کی کرپشن کے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں؟ تو ایسے میں عوامی خدمت کیسے ممکن ہو گی؟
لیاقت بلوچ: میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی پر کسی نے جو چیز ڈالنے کی کوشش کی تھی وہ الحمدللہ بالکل صاف ہو گئی ہے، خیبر بنک کے ایم ڈی نے معافی بھی مانگی ہے، کیبنٹ کی ایک کمیٹی بھی بنی، جو ان ممبران پر مشتمل تھی، جو عمومی طور پر جماعت اسلامی کے مخالف سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے بھی اس میں کلیئر کر دیا۔ اس لئے یہ ایک حربہ تھا کہ جماعت اسلامی جو کرپشن کے خلاف تحریک چلا رہی ہے، اس کو نقصان پہنچایا جائے، لیکن الحمداللہ جماعت اس میں سرخرو ہوئی۔ دیکھیں! جماعت نے تو کبھی قرضے لئے ہیں نہ معاف کروائے ہیں، نہ کبھی حکومتی وسائل پر ڈاکہ ڈالا ہے، ہم قوم کے سامنے سرخرو ہیں، ہم پانامہ پیپزر میں ہیں نہ دبئی پراپرٹی لیکس میں، اس لئے جماعت اسلامی کی جو کرپشن فری تحریک ہے، وہ عوام کے جذبات کی ترجمان ہے اور لوگ اس پر مطمئن ہے۔ کے پی کے حکومت کی کارگردگی کی جو آپ نے بات کی تو اس میں، میں سمجھتا ہوں کہ خیبرپختونخوا میں ماضی کی حکومتوں کی نسبت موجودہ حکومت سے لوگوں کو بہت زیادہ شکایات نہیں ہیں، سو فیصد تو چیزیں ٹھیک نہیں ہوں گی، لیکن اگر شکایات میں بھی کمی آ گئی ہے تو یہ بھی اچھی کارکردگی ہے۔
ایکسپریس: حالیہ ''بہاماس لیکس'' میں جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کا بھی نام آیا ہے، کیا کہیں گے؟
لیاقت بلوچ: پروفیسر خورشید صاحب ایک دیانت دار انسان ہیں، 20،21 سال وہ سینیٹر رہے، لیکن انہوں نے تو کبھی سینیٹ کی بھی کوئی مراعات حاصل نہیں کی، پھر وہ ایک عالمی سطح کے دانشور ہیں، محقق بھی ہیں، اقتصادی ماہر بھی ہیں۔اس وقت سعودی عرب میں کئی بنک ہیں، جن کو آج سے 40 سال پہلے پروفیسر صاحب نے تاسیسی طور پر ایک رخ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر اسلامی بینکاری کے لئے انہوں نے بہت کام کیا ہے، جس عقیدہ بنک کی بات کی جا رہی ہے، جو اس وقت وجود میں نہیں ہے، وہ بھی بنیادی طور پر اسلامی بینکاری کے لئے تھا۔ اس میں نہ تو وہ ڈائریکٹر تھے، نہ وہ حصے دار تھے، انہوں نے شریعت بورڈ کی بنیاد پر صرف ایڈوائس دی ہے، تو اس حوالے سے اگر کسی ریکارڈ میں ان کام نام ہے تو وہ صرف اس وجہ سے ہے۔ تو جتنی بات ہے اس کو اتنا ہی رکھا جائے، یہ نہیں کہ باقی سب کرپٹ مل کر کہیں کہ ان کا بھی نام آ گیا تو یہ بھی ویسے ہی ہیں۔
ایکسپریس: اسلامی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی میں قابل، دیانت دار، اہل اور قابل لیڈر موجود ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ وہ الیکشن نہیں جیت پاتے؟ آپ کے تو جلسے بھی بہت بڑے ہوتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: (ہنستے ہوئے) آپ ہی ووٹ نہیں دیتے تو ہم کیسے جیتیں گے؟ سارے ہمیں اچھا کہتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے، جب ووٹ دیں گے تو ہم جیت بھی جائیںگے۔ مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان کا ووٹر جب یہ فیصلہ کر لے گا کہ میری قیادت کا معیار کیا ہونا چاہیے، اگر وہ صلاحیت، اہلیت اور دیانت پر فیصلہ کرے گا تو انشاء اللہ جماعت اسلامی ان کے معیار پر پورا اترے گی، اسی طرح آپ دیکھیں کہ آئین کا آرٹیکل 62،63ہے، جہاں آکر سب بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں، جس دن ہم عوام میں یہ شعور پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے، انشاء اللہ ہم جیتیں گے۔ ہم مایوس نہیں ہیں، اگر الیکشن میں ہار ہی کوئی معیار ہوتا تو ہم کب کے سمٹ گئے ہوتے۔ ہمارا نظریہ ہے، جدوجہد ہے، نصب العین ہے اور ہم انشاء اللہ اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
ایکسپریس: مجموعی طور پر اسلامی جماعتوں کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: اچھا مستقبل ہے، بلکہ مستقبل ہے ہی اسلامی جماعتوں کا، اب آپ دیکھیں کہ بھئی ملّا، مولوی کو بدنام کرنا بڑا آسان ہے، ایک کلچر بن چکا ہے، ایک مرغوب غذا ہے، لیکن بنکوں کے قرضے لینے میں، سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے میں، پانامہ لیکس، دبئی پراپرٹی لیکس میں، میگاسکینڈلز میں کہیں بھی کسی مولوی کا نام تو نہیں ہے، کسی دینی قیادت کا نام نہیں ہے، لیکن یہ چیز کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ دیکھو بھائی یہ واضح فرق ہے، حالاں کہ اس میں پی پی، پی ٹی آئی، ن لیگ، ق لیگ، ساری پارٹیاں شامل ہیں، دانشور بھی، میڈیا کے ادارے بھی شامل ہیں، لیکن یہ کوئی لکھتا نہیں۔
ایکسپریس: امریکہ آج کل ہم سے تھوڑا ناراض جبکہ عرصہ دراز بعد پاکستان کے روس سے تعلقات میں بہتری آرہی ہے، اب پہلی پاکستانی اور روسی افواج کی مشترکہ مشقیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ یہ پاکستان اور روس کی ذہنی بلوغت ہے یا پھر اس کے پیچھے آپ کو کسی سازش کی بو آ رہی ہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھیں! ہمیشہ کی طرح امریکا ایک بار پھر بے نقاب ہو چکا ہے،ہم تو ہمیشہ سے کہہ رہے تھے، ہم نے گوامریکہ گو تحریک بھی چلائی، ہم نے دنیا کو کہا کہ یہ ناقابل اعتماد دوست ہے، جس کو بھی استعمال کرتا ہے، اس کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے، لیکن سب نے کہا کہ نہیں! ہم امریکا کا ساتھ دیں گے تو دنیا میں پتہ نہیں کیا حاصل کر لیں گے۔ ہم کشمیر کو آزاد کروا لیں گے، اٹامک کا یہ کر لیں گے، لیکن آج اسی امریکا نے بھارت کو تھپکی دے کر ہمارے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اس وجہ سے میرا خیال ہے کہ یہ جو امریکا کی یک محوری اکڑ ہے، نخوت، کبر و غرور ہے، یہ اب ٹوٹ رہا ہے، اور اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اس میں بھی پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کرے گا، اپنی جغرافیائی اور حساس حیثیت کی وجہ سے۔ آپ کے سوال کا جو دوسرا حصہ روس کے بارے میں ہیں تو اس کے حوالے سے میںکہوں گا کہ حالات نے یہ نتیجہ پیدا کیا ہے، اور اب جب امریکا ہر ایک کے لئے خطرہ بن جائے تو روس کے لئے یہ بڑا موقع ہے کہ وہ اپنا ماضی کا بدلہ لے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حالات کی بنیاد پر ہی ساری چیزیں ترتیب پاتی ہیں۔ اگر چین اور روس کے تعلقات بہتر ہیں، پاکستان اور چین کے تعلقات بہتر ہیں اور افغانستان میں امریکا بھارت کی سرپرستی کرکے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرے گا تو امریکا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مار رہا ہے، کیوں کہ یہ بات یہیں تک نہیں رکے گی، وہ امریکا کہ جس نے ایران، عراق، شام، سعودیہ، ترکی میں تعلقات کی جو کشیدگی پیدا کی ہے، یہ بازی کسی بھی وقت پلٹے گی۔
''میں منگیتر نہیں ہوں''
میں جس وقت اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کا ناظم تھا، اس وقت سعودی عرب سے ہمارے ایک ساتھی نے مجھے خط لکھا کہ حسن ابدال میں جمعیت کا یونٹ نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وہاں ہمارے فلاں عزیز ہیں، جن کا بچہ میٹرک میں پڑھتا ہے، نمازی بچہ ہے اور بہت اچھا ہے، اگر آپ لوگ رابطہ کریں تو وہاں جمعیت کا کام ہو سکتا ہے۔
میں اس خط کی روشنی میں تیار ہو گیا، کچھ کتابوں کے ساتھ اپنا بیگ اٹھایا اور جانے کے لئے بس میں جا بیٹھا اور حسن ابدال پہنچ گیا۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب گوردوارے کے قریب ہی محلہ میں ان کا گھر تھا، میں نے پوچھتے پچھاتے جب اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہی بچہ باہر آیا، لیکن مجھے دیکھ کر وہ پہلے ایک بار اندر گیا اور پھر باہر بھاگ گیا، گھر والوں نے بیٹھک کھول کر مجھے وہاں بیٹھایا، خواتین اور بچیوں کی چلت پھرت شروع ہو گئی، ہر کوئی آئے اور مجھے دیکھ کر واپس چلا جائے۔
میں پریشان ہو گیا کہ میں کہاں پھنس گیا ہوں؟ میں نے بیگ سے کتابیں نکالیں اور میز پر رکھ دیں، خیر تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا واپس آ گیا اور اس کے ساتھ اس کے والد بھی تھے، تو پھر یہ غلط فہمی دور ہوئی کہ میں ان کی بچی کا منگیتر نہیں ہوں، تو پھر وہ سارے دروازے بھی بند ہو گئے، پردے بھی گر گئے۔ تو اللہ کے راستے میں دعوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ تھا۔