منزل انھیں ملی

منڈیلا نے شادی کے بعد خطاب میں کہا تھا کہ آزادی کے سرفروشوں کی بیویوں کو بیوائوں کی سی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے

zahedahina@gmail.com

چند دنوں پہلے عظیم افریقی رہنما اور عالمی مدبر نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے 94 برس مکمل کرلیے۔ اپنی سیاسی جدوجہد، ذاتی قربانیوں،27 برس کی طویل ترین قید بامشقت اور نسلی امتیاز جیسے عفریت سے لڑائی نے انھیں عالمی سطح کے مدبر اور رہنما کے درجے پر فائز کیا۔

سیاست سے کنارہ کش ہونے کے بعد اب وہ اپنے آبائی گائوں میںاپنے خاندان کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ وہ آزاد جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدارت کی مدت پوری کرنے کے بعد انھوں نے قومی سیاست سے دست کش ہونے کا اعلان کیا، لیکن دنیا میں تنازعات اور مسائل کے حل کی خاطر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ ایک عالمی رہنما تسلیم کیے جاتے ہیں اور پُرسکون ذاتی زندگی گزارتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ان کی سالگرہ قومی سطح پر دھوم دھام سے منائی گئی۔ ان کے ہم وطن افریقیوں نے اس روز 67 منٹ کی مدت عوامی فلاح کا کوئی کام کرنے پر صرف کی۔

یہ ان کی سیاسی جدوجہد آزادی کے 67 برسوں کو خراج تحسین ادا کرنے کا ایک انداز تھا۔ اس روز جنوبی افریقا کے ہر بچے نے ان کے لیے ''سالگرہ مبارک ہو'' کا گیت گایا۔ ان گنت کیک کاٹے گئے۔ دعوتیں ہوئیں۔ دنیا بھر سے مبارکباد کے پیغام آئے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اپنی بیٹی چیلسی کے ساتھ انھیں مبارکباد دینے ان کے آبائی گائوںگئے۔ اس موقعے پر بل نے کہا 'نیلسن نے تاریخ کا زاویہ بدل دیا ہے۔ انھوںنے اپنے ملک، اپنے براعظم اور دنیا کو منقلب کردیا ہے۔ میں جب بھی ان کے بارے میں سوچتا ہوں وہ مجھے ایک ایسا فرد نظر آتے ہیں جس کا پیمان وفا مستقبل سے ہے۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ جب وہ جنوبی افریقاکے صدر ہوئے تو میں امریکا کا صدر تھا۔''

منڈیلا اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں اس لمحے کی نشاندہی نہیں کرسکتا جب میں نے سیاست سے متاثر ہوکر یہ سوچنا شروع کیا کہ مجھے اپنی زندگی آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کردینی ہے۔ جنوبی افریقا میں افریقی ہونے کا مطلب ہے کہ آپ پیدائشی طور پر سیاسی فرد ہیں، خواہ آپ اس بات کو تسلیم کریں یا نہیں ۔

نیلسن منڈیلا کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں پرستاروںمیں سے ایک میں بھی ہوں۔ میں نے ان کے بارے میں بارہا لکھا ہے۔ انھوں نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ صدیوں پرانے بدترین اور ظالمانہ نسلی امتیاز کے خلاف جس قدر طویل اور شاندار جدوجہد کی، جس شان سے 27 برس قید وبند میںگزارے اور پھر اپنے لوگوں کو سفید فام اقلیت کے سیکڑوں برس پرانے جبرو استبداد سے آزاد کرایا، اس نے انھیں ایک دیو مالائی کردار بنادیا۔

لیکن دیومالائی کرداروں کی ایک ذاتی زندگی بھی ہوتی ہے۔ دنیا جب انھیں 94 برس مکمل ہونے پر مبارکبادیں دے رہی تھی اس وقت ونی منڈیلا مجھے بہت یاد آئیں۔ ونی سے منڈیلا کی شادی 1958 میںہوئی۔ اس شادی کے بارے میں منڈیلا نے لکھا کہ ' آزادی کے سرفروشوں کی بیویوں کو بیوائوں کی سی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ خواہ شوہر قید میں ہوں یا آزاد۔ میں اگرچہ غداری کا مقدمہ بھگت رہا تھا مگر ونی میری امیدوں کا مرکز تھی۔ مجھے یوں لگتا تھاجیسے زندگی دوبارہ مل گئی ہو۔ اس کی محبت نے مجھے جدوجہد کے لیے نئی طاقت سے نوازا۔''

منڈیلا جیل کی صعوبتیں سہتے رہے اور ونی آزاد رہ کر افریقن نیشنل کانگریس کی جدوجہد آزادی میں بھرپور کردار ادا کرتی رہیں۔ انھوں نے تن تنہا اپنے بچوں کی پرورش کی اور ان کی تربیت اس طور کی کہ باپ کو اپنے بچوں پر فخر ہو۔ ونی کی زندگی جس قدر مشکل تھی اس کا اندازہ منڈیلا کی خود نوشت پڑھتے ہوئے بار بار ہوتا ہے۔ لیکن تقدیر کبھی عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ منڈیلا کی رہائی ونی اور نیلسن کے لیے لمحاتی خوشی تو لائی لیکن سیاسی اور ذاتی معاملات پر اختلافات بڑھتے رہے اور بات علیحدگی تک پہنچی۔ اب سے 20 برس پہلے وہ رشتہ جو بدترین دنوں میں بہترین تھا ، اختتام کو پہنچا۔ اس کے بارے میں منڈیلا کا کہنا ہے کہ :


'' 13 اپریل 1992 کو میں نے ایک پریس کانفرنس کی ۔ میرے دو پرانے ساتھی والٹر اور آلیور بھی اس میں موجود تھے ۔ اس روز میں نے اپنی بیگم سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ صورتحال اس قدرپیچیدہ ہوچکی تھی کہ یہ فیصلہ کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا۔ افریکن نیشنل کانفرنس، ہمارے خاندان اور ونی سب کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ہم ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔اس روز میں نے یہ بیان پڑھ کر سنایا کہ میرے اور میری بیگم کامریڈ ونی منڈیلا کے تعلقات ذرایع ابلاغ کی قیاس آرائیوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد کے ایک نازک موڑ پر شادی کی تھی۔افریکن نیشنل کانگریس کے ساتھ اپنی وابستگیوں اور نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششوں میں ہم عمومی خاندانی زندگی نہ گزار سکے۔ ان مجبوریوں کے باوجود ہماری شادی چلتی رہی اور محبت بڑھتی رہی۔ جزیرے میں میری بیس سالہ قید کے دوران وہ میری ذات کے لیے آرام، سکون اور حمایت کے مضبوط ستون کی طرح تھی۔

کامریڈ ونی نے اکیلے ہی بچوں کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھا اور حکومت کے مظالم کو بڑے صبر سے سہا، اس نے حکومتی ہتھکنڈوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ آزادی کے لیے اس کی جدوجہد میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ اس کے کردار کی پختگی کی وجہ سے میرے دل میں اس کے لیے عزت، محبت اور پیار کے جذبات میں اضافہ ہوتا رہاہے۔ ساری دنیا نے اس کی تعریف و توصیف کی ہے۔ میرے دل میں اس کی محبت کبھی کم نہ ہوگی۔تاہم، گزشتہ کچھ مہینوں سے کچھ مسائل پر ہم میں اتفاق رائے نہ ہوسکا اور ہمارے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔

ہم نے باہم مل کر علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہم دونوں کی بھلائی اسی میں ہے۔ہم دونوںنے جو زندگی ایک دوسرے کی رفاقت میں بسر کی مجھے اس پرکوئی پشیمانی نہیں۔ میرے دل میں اس کے لیے جو پیار پہلی ملاقات سے لے کر جیل کی زندگی اور جیل سے باہر پیدا ہوا، ہمیشہ رہے گا۔ میں جس درد کی کیفیت سے گزر رہا ہوں آپ اس کو محسوس کرسکتے ہیں۔بچوںکے باپ اور بیوی کے شوہر کی حیثیت سے میں اپنا کردار اچھی طرح ادا نہ کرسکا۔ میں یہ سوچ کر دکھی ہوجاتا تھا ۔ اس احساس کے درد نے مجھے اندھا کردیا۔ میں بہت سے معاملات کا ادراک نہ کرسکا۔ میں مانتا ہوں کہ جب میں جیل میں تھا تو میری نسبت ونی زیادہ مشکل زندگی بسر کررہی تھی اور اب میری رہائی نے اس کی زندگی میں مزید دشواریاں پیدا کردیں۔ اس نے ایک ایسے آدمی سے شادی کی جو اسے جلد ہی چھوڑ گیا اور جب وہ آدمی ایک داستان بن گیااور وہ داستان بن کر گھر لوٹا تو اسے اپنے آپ کو داستان کے بجائے انسان ثابت کرنا پڑا۔

میں نے اپنی بیٹی زندزی کی شادی پر کہا تھا کہ ''آزادی کے متوالوں کی اپنی زندگی میں کوئی استحکام نہیں ہوتا۔'' جب آپ کی زندگی جدوجہد کے لیے وقف ہوتو خاندان آپ کی توجہ سے محروم رہ جاتا ہے۔ میری زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا یہی ہے کہ میری زندگی کا سب سے درد ناک پہلو میرا زندگی بسر کرنے کا انتخاب تھا۔میں نے اس موقعے پر یہ بھی کہا تھا کہ ' میرے بچے میرے رہنمائی کے بغیر ہی بڑے ہوتے رہے اورجب میں جیل سے باہر آیا تو میرے بچوں نے کہا 'ہمارا خیال تھا کہ ہمارا بھی ایک باپ ہے اور کبھی نہ کبھی ہماری طرف ضرور آئے گا مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ وہ واپس تو آیا مگر ہمیں اکیلا چھوڑ گیا، کیونکہ اب وہ بابائے قوم ہے' بابائے قوم ہونا بہت بڑا اعزاز ہے اور خاندان کا باپ ہونا بہت بڑی خوشی، مگر یہ خوشی مجھے بہت کم نصیب ہوئی۔''

منڈیلا نے یہ پریس کانفرنس 20 برس پہلے کی تھی جب وہ 74 برس کے تھے۔ اس کے بعد ان کی اور ونی کی راہیں جدا ہوگئیں۔ اس علیحدگی نے ونی کو ایک تلخ اور تند مزاج انسان بنادیا۔ جس شخص کے انتظار میں انھوں نے زندگی کے 30 برس ''بیوائوں'' کی سی زندگی گزاری تھی وہ واپس آیا تو دونوں کی راہ میں الزامات اور افواہوں کے ایسے کانٹے بوئے گئے جنھیں منڈیلا چن نہیں سکے۔ 1994 میں جب انھوں نے جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام منتخب صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تو 1958 سے ان کی زندگی میں شریک ونی موجود نہ تھیں۔ اب وہ تاریخ کا ایک ایسا صفحہ تھیں جو بھلائے جانے کے لیے تھا۔

کامریڈ ونی کی برہمی، برافروختگی اور دلی اذیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ ونی سے علیحدگی کے بعد منڈیلا نے اپنے ایک ساتھی کی بیوہ سے شادی کرلی۔ اب تصویروں میں وہی نظر آتی ہیں۔ بل کلنٹن سے وہی ملاقات کرتی ہیں اور اب وہی افریقی تاریخ کے دیومالائی کردار نیلسن منڈیلا کی شریک سفر ہیں۔

اور مجھے محسن بھوپالی یاد آتے ہیں
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے!
Load Next Story