علی عارف کی من بیتی
میں نے اپنی غلطیوں سے اتنا کچھ سیکھا ہے کہ اب کچھ مزید غلطیاں کرنے کا سوچ رہا ہوں
علی عارف ایک ریٹائرڈ سینئر سول سرونٹ ہیں۔ وہ باقاعدہ رائٹر نہیں ہیں اس لیے انھوں نے اپنی پہلی کتاب کا نام بھی خوب رکھا۔ نام ہے ''غیر ادبی انداز میں غیر رسمی یادیں اور باتیں'' یعنی
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ان ہی تجربات، مشاہدات اور حوادث کو اکٹھا کر کے انھیں کتابی شکل دینے کے بعد علی عارف نے 24 ستمبر 2016ء کی شام اپنی اس غیر روایتی کتاب کو لانچ کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ محفل کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور صدر مجلس مجیب الرحمان شامی، اسٹیج سیکریٹری جمیل نجم جب کہ مقررین سعید مہدی، ڈاکٹر شہزاد قیصر اور حسین شیرازی تھے۔
فلیٹیز ہوٹل کے ہال میں یہ 3 بجے سے 5 بجے تک کا پروگرام تھا۔ پونے تین بجے مہمان اور میزبان ہال کمرے میں پہنچ چکے تھے اور پورے 5 بجے تقریب اختتام پذیر ہو گئی یعنی پابندیٔ وقت بک لانچ کی اضافی خصوصیت تھی۔
اس انوکھی قسم کی کتاب کو جسے ہم علی عارف کی آپ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں اور جگ بیتی بھی، چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ تعارفی صفحات پر مشتمل ہے جس میں موصوف کے چار دوستوں ڈاکٹر شہزاد قیصر، حسین احمد شیرازی، سید اظہر حسن ندیم اور ڈاکٹر صفدر محمود نے علی عارف سے اپنی طویل رفاقت کا ذکر کرنے کے علاوہ ان کی کاوش کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
میری نظر میں علی عارف کی یہ کتاب تصاویر اور خطوط سے سجایا گیا گلدستہ ہے جس میں مصنف نے جگہ جگہ پھلکاریاں کی ہیں۔ کتاب کے حصہ دوم کو ''غیرادبی انداز میں غیررسمی یادیں اور باتیں'' کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ حصہ کئی سو تصاویر اور کئی سو خطوط پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنی اور دوست کی پہچان کے بارے میں لکھا ہے کہ ''جب آپ عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کے دوستوں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کون ہیں اور جب آپ زوال پذیر ہوتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ دوست کون ہیں'' ان کا ایک مقولہ یہاں درج ہے کہ ''کبھی کسی کے سامنے صفائی پیش نہ کرو کیونکہ جسے تم پر یقین ہے اسے ضرورت نہیں اور جسے تم پر یقین نہیں وہ مانے گا نہیں'' یہیں پر انھوں نے شعر لکھا ہے کہ
امیر شہر سے اونچے سروں میں بات کرو
امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
آج کل کے سیاسی ماحول کو ذہن میں رکھ کر اس شعر کو دہرائیں تو شعر کی صداقت پر یقین آ جاتا ہے۔ کتاب کے اس حصے کی تمام تصاویر ایسی شخصیات کی ہیں جن کا سیاست، ادب، سائنس، فلسفے کے علاوہ معتبر نام ہے۔
علی عارف نے کچھ تصاویر تو ادھر ادھر سے اکٹھی کی ہیں لیکن بہت سی ان کے ذاتی البم کا حصہ ہوں گی جن سے ان کے نامور شخصیات سے تعلق کا پتہ چلتا ہے اور جن خطوط کا عکس کتاب میں شامل ہے ان سے خط وکتابت کا علم ہوتا ہے۔ ان کے نام لکھے ہوئے خطوط بتاتے ہیں ان کا تعلق عالمی سطح کی شخصیات سے بھی رہا۔ ان ہی میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل اعظم خاں کے خطوط بھی شامل ہیں۔ اسی جگہ ایک شعر درج ہے:
تاریخ ہزاروں سال میں بس اتنی ہی بدلی ہے
تب دور تھا پتھر کا اب لوگ ہیں پتھر کے
ان ہی صفحات پر لطیفہ لکھا ہے کہ کسی پیر سے کسی نے پوچھا آپ کی پیری مریدی کب تک چلے گی۔ پیر نے جواب دیا جب تک جاہل لوگ رہیں گے۔
علی عارف نے اپنی اس کتاب میں بہت سی سبق آموز کہانیاں اور متفرق اقوال، لطیفے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں Aesop کی کئی کہانیاں ہیں۔ انھوں نے دانت اور مسوڑے مضبوط کرنے کا نسخہ تک کتاب میں درج کیا ہے جو یہ ہے کہ شہد کو سرکہ میں گھول کر کلیاں کیا کریں۔ ایک مقولہ لکھا ہے کہ حسد کرنے والے کے لیے بددعا کی ضرورت نہیں، وہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔
ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی غلطیوں سے اتنا کچھ سیکھا ہے کہ اب کچھ مزید غلطیاں کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ جو اللہ کے دیے ہوئے رزق کو کافی سمجھے، وہ زندگی میں کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ ایک لطیفہ تحریر کیا ہے کہ ایک عورت جنت کے فرشتے سے بولی میرا نکاح میرے دنیا والے شوہر سے کرا دو۔ فرشتے نے جواب دیا نکاح تو کرا دوں پہلے کوئی مولوی تو جنت میں آ جائے۔
کتاب کے آخری صفحات پر بہت سی محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر ہیں اور یہ عام نہیں، اہم واقعات کی تصاویر ہیں۔ ہر تصویر کے ساتھ اس کی تاریخی اہمیت درج ہے۔
فنکشن ہال کا استعمال کے وقت 5 بجے تک تھا، پونے 5 بجے علی عارف اپنی تقریر کے لیے ڈائس پر پہنچے اور گرجدار آواز میں بولے کہ اپنی پہلی کتاب کی لانچنگ کے موقع پر انھیں بہت کچھ کہنا ہے لیکن وقت کی کمی کے باعث تھوڑے الفاظ میں بہت کچھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے بعد انھوں نے چند فقرے ادا کیے لیکن پھر بھی ان کے ہونٹ تو پھڑپھڑائے لیکن آواز نہ نکلی۔
اب کچھ دیر مزید خاموشی اور پھر علی عارف گرتے نظر آئے۔ نزدیک بیٹھے سامعین نے دوڑ کر انھیں تھاما۔ ان کا جسم سرد ہو رہا تھا۔ خیال ہوا کہ ان کا بلڈپریشر اچانک گر گیا ہو گا۔ وہیل چیئر اور ایمبولینس منگوا کر انھیں اسپتال بھجوایا گیا۔ سعید مہدی صاحب نے ڈائس سنبھالا اور بک لانچ کی کارروائی مکمل کی۔ معاملہ بلڈ پریشر کا نہیں، دل کی تشخیص کا ہوا۔ علی عارف زیرعلاج اور روبصحت ہیں۔ آخر میں علی عارف کی کتاب میں لکھے دو اشعار:
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی
(عبیداللہ علیم)
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ان ہی تجربات، مشاہدات اور حوادث کو اکٹھا کر کے انھیں کتابی شکل دینے کے بعد علی عارف نے 24 ستمبر 2016ء کی شام اپنی اس غیر روایتی کتاب کو لانچ کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ محفل کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور صدر مجلس مجیب الرحمان شامی، اسٹیج سیکریٹری جمیل نجم جب کہ مقررین سعید مہدی، ڈاکٹر شہزاد قیصر اور حسین شیرازی تھے۔
فلیٹیز ہوٹل کے ہال میں یہ 3 بجے سے 5 بجے تک کا پروگرام تھا۔ پونے تین بجے مہمان اور میزبان ہال کمرے میں پہنچ چکے تھے اور پورے 5 بجے تقریب اختتام پذیر ہو گئی یعنی پابندیٔ وقت بک لانچ کی اضافی خصوصیت تھی۔
اس انوکھی قسم کی کتاب کو جسے ہم علی عارف کی آپ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں اور جگ بیتی بھی، چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ تعارفی صفحات پر مشتمل ہے جس میں موصوف کے چار دوستوں ڈاکٹر شہزاد قیصر، حسین احمد شیرازی، سید اظہر حسن ندیم اور ڈاکٹر صفدر محمود نے علی عارف سے اپنی طویل رفاقت کا ذکر کرنے کے علاوہ ان کی کاوش کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
میری نظر میں علی عارف کی یہ کتاب تصاویر اور خطوط سے سجایا گیا گلدستہ ہے جس میں مصنف نے جگہ جگہ پھلکاریاں کی ہیں۔ کتاب کے حصہ دوم کو ''غیرادبی انداز میں غیررسمی یادیں اور باتیں'' کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ حصہ کئی سو تصاویر اور کئی سو خطوط پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنی اور دوست کی پہچان کے بارے میں لکھا ہے کہ ''جب آپ عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کے دوستوں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کون ہیں اور جب آپ زوال پذیر ہوتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ دوست کون ہیں'' ان کا ایک مقولہ یہاں درج ہے کہ ''کبھی کسی کے سامنے صفائی پیش نہ کرو کیونکہ جسے تم پر یقین ہے اسے ضرورت نہیں اور جسے تم پر یقین نہیں وہ مانے گا نہیں'' یہیں پر انھوں نے شعر لکھا ہے کہ
امیر شہر سے اونچے سروں میں بات کرو
امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
آج کل کے سیاسی ماحول کو ذہن میں رکھ کر اس شعر کو دہرائیں تو شعر کی صداقت پر یقین آ جاتا ہے۔ کتاب کے اس حصے کی تمام تصاویر ایسی شخصیات کی ہیں جن کا سیاست، ادب، سائنس، فلسفے کے علاوہ معتبر نام ہے۔
علی عارف نے کچھ تصاویر تو ادھر ادھر سے اکٹھی کی ہیں لیکن بہت سی ان کے ذاتی البم کا حصہ ہوں گی جن سے ان کے نامور شخصیات سے تعلق کا پتہ چلتا ہے اور جن خطوط کا عکس کتاب میں شامل ہے ان سے خط وکتابت کا علم ہوتا ہے۔ ان کے نام لکھے ہوئے خطوط بتاتے ہیں ان کا تعلق عالمی سطح کی شخصیات سے بھی رہا۔ ان ہی میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل اعظم خاں کے خطوط بھی شامل ہیں۔ اسی جگہ ایک شعر درج ہے:
تاریخ ہزاروں سال میں بس اتنی ہی بدلی ہے
تب دور تھا پتھر کا اب لوگ ہیں پتھر کے
ان ہی صفحات پر لطیفہ لکھا ہے کہ کسی پیر سے کسی نے پوچھا آپ کی پیری مریدی کب تک چلے گی۔ پیر نے جواب دیا جب تک جاہل لوگ رہیں گے۔
علی عارف نے اپنی اس کتاب میں بہت سی سبق آموز کہانیاں اور متفرق اقوال، لطیفے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں Aesop کی کئی کہانیاں ہیں۔ انھوں نے دانت اور مسوڑے مضبوط کرنے کا نسخہ تک کتاب میں درج کیا ہے جو یہ ہے کہ شہد کو سرکہ میں گھول کر کلیاں کیا کریں۔ ایک مقولہ لکھا ہے کہ حسد کرنے والے کے لیے بددعا کی ضرورت نہیں، وہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔
ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی غلطیوں سے اتنا کچھ سیکھا ہے کہ اب کچھ مزید غلطیاں کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ جو اللہ کے دیے ہوئے رزق کو کافی سمجھے، وہ زندگی میں کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ ایک لطیفہ تحریر کیا ہے کہ ایک عورت جنت کے فرشتے سے بولی میرا نکاح میرے دنیا والے شوہر سے کرا دو۔ فرشتے نے جواب دیا نکاح تو کرا دوں پہلے کوئی مولوی تو جنت میں آ جائے۔
کتاب کے آخری صفحات پر بہت سی محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر ہیں اور یہ عام نہیں، اہم واقعات کی تصاویر ہیں۔ ہر تصویر کے ساتھ اس کی تاریخی اہمیت درج ہے۔
فنکشن ہال کا استعمال کے وقت 5 بجے تک تھا، پونے 5 بجے علی عارف اپنی تقریر کے لیے ڈائس پر پہنچے اور گرجدار آواز میں بولے کہ اپنی پہلی کتاب کی لانچنگ کے موقع پر انھیں بہت کچھ کہنا ہے لیکن وقت کی کمی کے باعث تھوڑے الفاظ میں بہت کچھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے بعد انھوں نے چند فقرے ادا کیے لیکن پھر بھی ان کے ہونٹ تو پھڑپھڑائے لیکن آواز نہ نکلی۔
اب کچھ دیر مزید خاموشی اور پھر علی عارف گرتے نظر آئے۔ نزدیک بیٹھے سامعین نے دوڑ کر انھیں تھاما۔ ان کا جسم سرد ہو رہا تھا۔ خیال ہوا کہ ان کا بلڈپریشر اچانک گر گیا ہو گا۔ وہیل چیئر اور ایمبولینس منگوا کر انھیں اسپتال بھجوایا گیا۔ سعید مہدی صاحب نے ڈائس سنبھالا اور بک لانچ کی کارروائی مکمل کی۔ معاملہ بلڈ پریشر کا نہیں، دل کی تشخیص کا ہوا۔ علی عارف زیرعلاج اور روبصحت ہیں۔ آخر میں علی عارف کی کتاب میں لکھے دو اشعار:
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی
(عبیداللہ علیم)