نفاذ اردو کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت
مختلف شعبوں میں انگریزی کی غیر ضروری بالادستی ختم کرنا ہوگی
''تعلیمی نصاب اور دفاتر و تعلیمی اداروں میں خط و کتابت اردو میں تبدیل کی جائے اور اعلیٰ تعلیم و سرکاری ملازمتوں کے امتحانات اردو میں لئے جائیں'' یہ وہ مطالبہ تھا جو ''پاکستان قومی زبان تحریک'' کے سیمینار میں رکھا گیا اور اس قرارداد کو کثرت رائے سے منظور بھی کیا گیا۔
اس قرارداد میں مجھے اپنے نوجوانوں کا مستقبل دکھائی دیتا ہے۔ میں اس لحاظ سے ایک نکما طالبعلم رہا ہوں کہ میری انگریزی بہت کمزور ہے۔ میں موجودہ تعلیمی سسٹم میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرسکا ۔ مجھے بارہا کہا گیا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرلوں ۔ لیکن کوشش کے باوجود میں اس کا آغاز نہ کر پایا۔ میں نے کئی بار مقابلے کے امتحان میں حصہ لینے کا سوچا، لیکن میرے اندر ناکامی کا ایک انجانا سا خوف تھا جس نے مجھے جکڑ رکھا تھا ۔ میں نے سول سروس کے لئے متعدد امتحانات میں اپلائی کیا لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاکیونکہ یہ سب کچھ انگلش میں تھا اور میں 16 سال انگریزی پڑھنے کے باوجود اس سے نابلد تھا۔
مجھ جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کی ترقی کی راہ میں انگریزی رکاوٹ بنی ہوگی ۔ کوئی ان کے دکھوں کا مداوا نہ کرسکا اور نہ ہی موجود نظام ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بن پایا ۔ 7 دہایاں گزر گئیں ، ملک سے انگریزی کا تسلط ختم نہ ہوسکا۔ کتنے ہی ذہین افراد اس نظام کی وجہ سے ضائع ہوگئے۔
ایسے میں، میں تحریک اردو پاکستان کی اس قرارداد کی حمایت نہ کروں تو اور کیا کروں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری اور میرے طرح کے دیگر نوجوانوں کی طرح اب کسی کا مستقبل ضائع ہو، کسی کے خواب ٹوٹیں ، کسی کی خواہشیں ادھوری رہ جائیں۔ بلاشبہ اب ہمیں مکمل طور پر متفق ہونا پڑے گا کہ تمام امتحانات سمیت مکمل تعلیمی سسٹم اردو زبان میں ہونا چاہئے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس پر بیوروکریسی اثرانداز نہ ہوتی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا نفاذ اردو کے بارے میں دیا گیا فیصلہ ابھی تک لاگو نہیں کیا جاسکا ۔ اگرچہ کچھ یونیورسٹیوں نے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا ہے ، لیکن مجموعی طو پر صورتحال اب بھی غیرسنجیدہ ہے۔
یہ کیسا دوغلا سسٹم ہے جہاں قومی زبان فقط بولنے کی حد تک نافذ ہے، عمومی طور پر انگلش میں لکھت پڑھت کرنے والے خود بھی آپس میں انگریزی بولنے کا تکلف نہیں کرتے۔ سرکاری و نجی میٹنگز کی کارروائی اردو میں ہوتی ہے لیکن اس کے منٹس انگلش میں بنائے جاتے ہیں،عدالتوں میں بحث اردو میں کی جاتی ہے لیکن فیصلہ انگریزی میں لکھا جاتا ہے ۔ کلاس روم میں اسباق سمجھاتے ہوئے اردو کا سہارا لیا جاتا ہے مگر رٹاہم انگلش میں لگانے پر مجبور ہیں ۔ یعنی اردو صرف ہمارے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔
اردو کا یہاں وجود تو ہے، لیکن یہ اپنے پورے قد کے ساتھ نافذ نہیں ہے۔ عملاً دیکھا جائے تو ہماری انگریزی اردو سے زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ دفتری خطوط اور دیگر کاغذی کارروائی میں رٹے رٹائے جملے ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ انگریزی زیادہ تر ان کی ضرورت ہے جنہیں تحقیق کرنا مقصود ہو، ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ 20 سے 25 فیصد ہوسکتے ہیں ، اس سے بڑھ کر نہیں ۔ لیکن باقیوں کا کیا قصور ہے جنہیں جبری اس سے نبردآزما ہونے پر لگادیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے سکولوں/ کالجوں میں ڈراپ آؤٹ ریشو بھی بڑھ رہی ہے ۔
اقوام متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016ء کے مطابق پاکستان تعلیمی نظام میں دنیا بھر سے پیچھے ہے ۔ پرائمری سطح پر دنیا سے 50 سال اور سیکنڈری سطح پر 60 سال پیچھے ہے ۔ 56 لاکھ بچے پرائمری اور 55 لاکھ بچے سیکنڈری ایجوکیشن سے محروم ہیں ۔ یہ تعداد دنیا بھر میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہے ۔ دیہی علاقوں میں مردوں کی شرح خواندگی 64 اور خواتین کی شرح خواندگی 14 فیصد ہے۔
واشگاف انداز میں ہماری تعلیمی حالت زار بیان کرتی یہ رپورٹ حکومتی مہمات پر سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری تعلیمی ''ترقی'' میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی انگریزی کے جبری تسلط کی پالیسی ہے ۔ ہم دو کشتیوں میں سوار ہونے کی وجہ سے ہی تعلیم کے میدان میں اس قدر پیچھے ہیں ۔ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں ، اگر انہیں قومی زبان میں تعلیم دی جائے گی تو نہ صرف ان کے ذہنوں کو وسعت ملے گی بلکہ سوچ کا دائرہ اور تحقیق کا معیار بھی بڑھے گا۔
بدقسمتی سے زبانوں کی کشمکش کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے طالبعلوں کی انگریزی بنیاد مضبوط بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی سسٹم کو غیر محسوس طریقے سے انگلش میں تبدیل کردیا گیا ہے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم اسی نظام کو قبول کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ 16 سال مسلسل انگریزی سے ''فیضیاب'' ہونے کے باوجود اس پر گرفت حاصل نہیں کرسکے ۔ طلباء اس مضمون کو نہ تو سمجھ پا رہے ہیں اور نہ ہی عبور حاصل کر پارہے ہیں، بس بے مقصد ڈگریاں حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں جو ہمیں روزگار مہیا کرنے میں بھی معاون ثابت نہیں ہورہیں۔
انہی وجوہات کی بنا پر این ٹی ایس ، سی ایس ایس ، پبلک سروس کمیشن سمیت اعلیٰ سطح کی ملازمتوں اور داخلوں کیلئے تمام امتحانات میں ناکامی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر یہی امتحانات اردو میں لئے جائیں تو ملک میں زیادہ سے زیادہ مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور کوئی فرد اپنی قسمت آزمانے سے نہیں ہچکچائے گا۔ لیکن شاید یہ سازش ہے کہ ہماری نسلیں سر اٹھا کر نہ جئیں ، معاشرے میں باوقار مقام حاصل نہ کرسکیں اور قومی وسائل پر ایک مخصوص طبقے کی اجاہ داری رہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اردو محض فقیروں اور درویشوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور صرف ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ہی اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم صرف اردو ہی کے ہوکر رہ جائیں ۔ دیگر زبانیں بھی انفرادی حیثیت میں سیکھنا اہم ہے ۔ آپ انگریزی کو بیشک اہمیت دیں مگر اسے بطور ایک مضمون پڑھائیں ، ذریعہ تعلیم کے طور پر مسلط کرنا ہماری نسلوں کیلئے نقصان دہ ہے ۔ زبردستی اور مجبوری میں پڑھے جانے والا سبق ان کے نتائج پر منفی اثر ڈالتا ہے ۔ اسی لئے آج طلبہ کی صلاحیتیں ٹھیک سے اجاگر نہیں ہوپارہیں اور بوٹی مافیا کا کلچر بڑھ رہا ہے ۔
نفاذ اردو کی جدوجہد نتیجہ خیز مراحل میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کرلیا جائے ۔ پنجاب سے طلبہ کو چینی زبان سیکھنے کیلئے سکالر شپ پر چین بھیجا جارہا ہے ۔ یہ بہت خوش آئند اقدام ہے کہ اس سے طلباء کو دوسرے ممالک کی زبانوں اور ان کے کلچر سے آگہی حاصل ہوگی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب دیگر ممالک سے لوگ اردو سیکھنے کیلئے یہاں آئیں گے؟
اس قرارداد میں مجھے اپنے نوجوانوں کا مستقبل دکھائی دیتا ہے۔ میں اس لحاظ سے ایک نکما طالبعلم رہا ہوں کہ میری انگریزی بہت کمزور ہے۔ میں موجودہ تعلیمی سسٹم میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرسکا ۔ مجھے بارہا کہا گیا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرلوں ۔ لیکن کوشش کے باوجود میں اس کا آغاز نہ کر پایا۔ میں نے کئی بار مقابلے کے امتحان میں حصہ لینے کا سوچا، لیکن میرے اندر ناکامی کا ایک انجانا سا خوف تھا جس نے مجھے جکڑ رکھا تھا ۔ میں نے سول سروس کے لئے متعدد امتحانات میں اپلائی کیا لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاکیونکہ یہ سب کچھ انگلش میں تھا اور میں 16 سال انگریزی پڑھنے کے باوجود اس سے نابلد تھا۔
مجھ جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کی ترقی کی راہ میں انگریزی رکاوٹ بنی ہوگی ۔ کوئی ان کے دکھوں کا مداوا نہ کرسکا اور نہ ہی موجود نظام ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بن پایا ۔ 7 دہایاں گزر گئیں ، ملک سے انگریزی کا تسلط ختم نہ ہوسکا۔ کتنے ہی ذہین افراد اس نظام کی وجہ سے ضائع ہوگئے۔
ایسے میں، میں تحریک اردو پاکستان کی اس قرارداد کی حمایت نہ کروں تو اور کیا کروں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری اور میرے طرح کے دیگر نوجوانوں کی طرح اب کسی کا مستقبل ضائع ہو، کسی کے خواب ٹوٹیں ، کسی کی خواہشیں ادھوری رہ جائیں۔ بلاشبہ اب ہمیں مکمل طور پر متفق ہونا پڑے گا کہ تمام امتحانات سمیت مکمل تعلیمی سسٹم اردو زبان میں ہونا چاہئے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس پر بیوروکریسی اثرانداز نہ ہوتی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا نفاذ اردو کے بارے میں دیا گیا فیصلہ ابھی تک لاگو نہیں کیا جاسکا ۔ اگرچہ کچھ یونیورسٹیوں نے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا ہے ، لیکن مجموعی طو پر صورتحال اب بھی غیرسنجیدہ ہے۔
یہ کیسا دوغلا سسٹم ہے جہاں قومی زبان فقط بولنے کی حد تک نافذ ہے، عمومی طور پر انگلش میں لکھت پڑھت کرنے والے خود بھی آپس میں انگریزی بولنے کا تکلف نہیں کرتے۔ سرکاری و نجی میٹنگز کی کارروائی اردو میں ہوتی ہے لیکن اس کے منٹس انگلش میں بنائے جاتے ہیں،عدالتوں میں بحث اردو میں کی جاتی ہے لیکن فیصلہ انگریزی میں لکھا جاتا ہے ۔ کلاس روم میں اسباق سمجھاتے ہوئے اردو کا سہارا لیا جاتا ہے مگر رٹاہم انگلش میں لگانے پر مجبور ہیں ۔ یعنی اردو صرف ہمارے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔
اردو کا یہاں وجود تو ہے، لیکن یہ اپنے پورے قد کے ساتھ نافذ نہیں ہے۔ عملاً دیکھا جائے تو ہماری انگریزی اردو سے زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ دفتری خطوط اور دیگر کاغذی کارروائی میں رٹے رٹائے جملے ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ انگریزی زیادہ تر ان کی ضرورت ہے جنہیں تحقیق کرنا مقصود ہو، ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ 20 سے 25 فیصد ہوسکتے ہیں ، اس سے بڑھ کر نہیں ۔ لیکن باقیوں کا کیا قصور ہے جنہیں جبری اس سے نبردآزما ہونے پر لگادیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے سکولوں/ کالجوں میں ڈراپ آؤٹ ریشو بھی بڑھ رہی ہے ۔
اقوام متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016ء کے مطابق پاکستان تعلیمی نظام میں دنیا بھر سے پیچھے ہے ۔ پرائمری سطح پر دنیا سے 50 سال اور سیکنڈری سطح پر 60 سال پیچھے ہے ۔ 56 لاکھ بچے پرائمری اور 55 لاکھ بچے سیکنڈری ایجوکیشن سے محروم ہیں ۔ یہ تعداد دنیا بھر میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہے ۔ دیہی علاقوں میں مردوں کی شرح خواندگی 64 اور خواتین کی شرح خواندگی 14 فیصد ہے۔
واشگاف انداز میں ہماری تعلیمی حالت زار بیان کرتی یہ رپورٹ حکومتی مہمات پر سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری تعلیمی ''ترقی'' میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی انگریزی کے جبری تسلط کی پالیسی ہے ۔ ہم دو کشتیوں میں سوار ہونے کی وجہ سے ہی تعلیم کے میدان میں اس قدر پیچھے ہیں ۔ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں ، اگر انہیں قومی زبان میں تعلیم دی جائے گی تو نہ صرف ان کے ذہنوں کو وسعت ملے گی بلکہ سوچ کا دائرہ اور تحقیق کا معیار بھی بڑھے گا۔
بدقسمتی سے زبانوں کی کشمکش کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے طالبعلوں کی انگریزی بنیاد مضبوط بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی سسٹم کو غیر محسوس طریقے سے انگلش میں تبدیل کردیا گیا ہے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم اسی نظام کو قبول کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ 16 سال مسلسل انگریزی سے ''فیضیاب'' ہونے کے باوجود اس پر گرفت حاصل نہیں کرسکے ۔ طلباء اس مضمون کو نہ تو سمجھ پا رہے ہیں اور نہ ہی عبور حاصل کر پارہے ہیں، بس بے مقصد ڈگریاں حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں جو ہمیں روزگار مہیا کرنے میں بھی معاون ثابت نہیں ہورہیں۔
انہی وجوہات کی بنا پر این ٹی ایس ، سی ایس ایس ، پبلک سروس کمیشن سمیت اعلیٰ سطح کی ملازمتوں اور داخلوں کیلئے تمام امتحانات میں ناکامی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر یہی امتحانات اردو میں لئے جائیں تو ملک میں زیادہ سے زیادہ مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور کوئی فرد اپنی قسمت آزمانے سے نہیں ہچکچائے گا۔ لیکن شاید یہ سازش ہے کہ ہماری نسلیں سر اٹھا کر نہ جئیں ، معاشرے میں باوقار مقام حاصل نہ کرسکیں اور قومی وسائل پر ایک مخصوص طبقے کی اجاہ داری رہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اردو محض فقیروں اور درویشوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور صرف ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ہی اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم صرف اردو ہی کے ہوکر رہ جائیں ۔ دیگر زبانیں بھی انفرادی حیثیت میں سیکھنا اہم ہے ۔ آپ انگریزی کو بیشک اہمیت دیں مگر اسے بطور ایک مضمون پڑھائیں ، ذریعہ تعلیم کے طور پر مسلط کرنا ہماری نسلوں کیلئے نقصان دہ ہے ۔ زبردستی اور مجبوری میں پڑھے جانے والا سبق ان کے نتائج پر منفی اثر ڈالتا ہے ۔ اسی لئے آج طلبہ کی صلاحیتیں ٹھیک سے اجاگر نہیں ہوپارہیں اور بوٹی مافیا کا کلچر بڑھ رہا ہے ۔
نفاذ اردو کی جدوجہد نتیجہ خیز مراحل میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کرلیا جائے ۔ پنجاب سے طلبہ کو چینی زبان سیکھنے کیلئے سکالر شپ پر چین بھیجا جارہا ہے ۔ یہ بہت خوش آئند اقدام ہے کہ اس سے طلباء کو دوسرے ممالک کی زبانوں اور ان کے کلچر سے آگہی حاصل ہوگی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب دیگر ممالک سے لوگ اردو سیکھنے کیلئے یہاں آئیں گے؟