پاکستان میں ہارمونل بیماریوں سے آگہی اور تحقیق ضروری ہے ماہرین طب
سرطان کی متعدد بیماریوں کا تعلق تھائیرائیڈ گلینڈز سے ہے ،محمد احمد.
ہارمون کی بیماریوں کے بارے میںعوام میں آگاہی اورمقامی سطح پر تحقیق وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں نجی شعبے کی مدد کریں۔
تاکہ پاکستان کوایک بیمارقوم بننے سے بچایا جا سکے،ان خیالات کااظہار محققین اور ماہرین طب نے گذشتہ روزاختتام پذیر ہونے والی دوروزہ کانفرنس پروموٹنگ ہارمون ہیلتھ سے خطاب میںکیا، پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ سمپوزیم اورکانفرنس میں پاکستان اوربیرون ملک سے معروف ڈاکٹروںنے مختلف موضوعات پر ہونے والی ورکشاپس میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے، پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹرعباس رضا نے پاکستان میں ہارمون کی بیماریوں پر تحقیق اور عوام میں آگاہی پھیلانے کے لیے اپنی سوسائٹی کی خدمات بیان کیں اورغدودکی بیماریوں کی بروقت تشخیص اوران کے علاج کی سہولیات کی فراہمی پر زوردیا۔
متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹر حماد فاروقی نے اپنے مقالے میں کہا کہ پوری دنیا میں ذیابیطس کے مرض کے بارے میں مکمل تحقیق اور عوام کے لیے اس مرض سے بچنے کے لیے ہدایات موجود ہیں، انھوں نے کہا کہ طرز حیات میں تبدیلی غذا میں بد احتیاطی اور ورزش کی عادات ختم ہوجانا اس مرض کے پھیلنے کی اہم وجوہات ہیں، سعودی عرب کے پروفیسر محمد احمد، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اینڈوکرائن ڈزیزز کے ڈائریکٹر پروفیسر زمان شیخ نے غدود کے سرطان کے پھیلائوکو روکنے اور ان کے علاج میں درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تھائیرائیڈ کینسر کے مریض کی آئندہ کی زندگی کا انحصار ابتدائی مرحلے میں ہونے والی تشخیص پر ہوتا ہے، سرطان کی متعدد بیماریوںکاتعلق تھائیرائیڈگلینڈز سے ہے جن میں چند بے حد خطرناک ہیں جو نہایت ہی تیزی سے اگلے مراحل کی جانب بڑھتی ہیں۔
پروفیسر زمان شیخ نے صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مقامی سطح پر تحقیق اوراعداد و شمارجمع کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ ہم دوسرے ممالک کے اعداد شمار اورتحقیق پر انحصار کریں، پروفیسر قمر مسعود،ڈاکٹر خالد امام نے اس موقع پر تھائیرائیڈکی بیماریوں کے تہرے طریقہ علاج کے بارے میں کہا کہ زیادہ ترمنہ کے ذریعے سے دوا لینے سے ہی علاج ہو جاتا ہے جبکہ بعض کیسز میں سرجری یا اورل آئیوڈین تھراپی کرنی پڑتی ہے،بچوں میں وٹامن کی کمی بے حد عام ہوتی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ بچوں کا گھنٹوں ٹی وی اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنا ہے جس کے نتیجے میں وہ سورج کی روشنی سے محروم ہوجاتے ہیںاور ان میں وٹامن ڈی کی کمی ہوجاتی ہے، پروفیسر نجم الاسلام نے آرگنائزنگ کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے ہارمونز کے مشکل کیسز کا ذکر کیا۔ پرورفیسر عبدالجبار اورپروفیسر جاوید اختر نے کشنگ سینڈروم کی تفصیلات بیان کیں۔ پروفیسر علی جاوا، پروفیسر عمر عبداللہ، ڈاکٹر عائشہ چاندنا، ڈاکٹر عائشہ شیخ، ڈاکٹر خورشید خان اور ڈاکٹر عثمان خان نے بھی اس موقع پر اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے۔
تاکہ پاکستان کوایک بیمارقوم بننے سے بچایا جا سکے،ان خیالات کااظہار محققین اور ماہرین طب نے گذشتہ روزاختتام پذیر ہونے والی دوروزہ کانفرنس پروموٹنگ ہارمون ہیلتھ سے خطاب میںکیا، پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ سمپوزیم اورکانفرنس میں پاکستان اوربیرون ملک سے معروف ڈاکٹروںنے مختلف موضوعات پر ہونے والی ورکشاپس میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے، پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹرعباس رضا نے پاکستان میں ہارمون کی بیماریوں پر تحقیق اور عوام میں آگاہی پھیلانے کے لیے اپنی سوسائٹی کی خدمات بیان کیں اورغدودکی بیماریوں کی بروقت تشخیص اوران کے علاج کی سہولیات کی فراہمی پر زوردیا۔
متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹر حماد فاروقی نے اپنے مقالے میں کہا کہ پوری دنیا میں ذیابیطس کے مرض کے بارے میں مکمل تحقیق اور عوام کے لیے اس مرض سے بچنے کے لیے ہدایات موجود ہیں، انھوں نے کہا کہ طرز حیات میں تبدیلی غذا میں بد احتیاطی اور ورزش کی عادات ختم ہوجانا اس مرض کے پھیلنے کی اہم وجوہات ہیں، سعودی عرب کے پروفیسر محمد احمد، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اینڈوکرائن ڈزیزز کے ڈائریکٹر پروفیسر زمان شیخ نے غدود کے سرطان کے پھیلائوکو روکنے اور ان کے علاج میں درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تھائیرائیڈ کینسر کے مریض کی آئندہ کی زندگی کا انحصار ابتدائی مرحلے میں ہونے والی تشخیص پر ہوتا ہے، سرطان کی متعدد بیماریوںکاتعلق تھائیرائیڈگلینڈز سے ہے جن میں چند بے حد خطرناک ہیں جو نہایت ہی تیزی سے اگلے مراحل کی جانب بڑھتی ہیں۔
پروفیسر زمان شیخ نے صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مقامی سطح پر تحقیق اوراعداد و شمارجمع کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ ہم دوسرے ممالک کے اعداد شمار اورتحقیق پر انحصار کریں، پروفیسر قمر مسعود،ڈاکٹر خالد امام نے اس موقع پر تھائیرائیڈکی بیماریوں کے تہرے طریقہ علاج کے بارے میں کہا کہ زیادہ ترمنہ کے ذریعے سے دوا لینے سے ہی علاج ہو جاتا ہے جبکہ بعض کیسز میں سرجری یا اورل آئیوڈین تھراپی کرنی پڑتی ہے،بچوں میں وٹامن کی کمی بے حد عام ہوتی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ بچوں کا گھنٹوں ٹی وی اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنا ہے جس کے نتیجے میں وہ سورج کی روشنی سے محروم ہوجاتے ہیںاور ان میں وٹامن ڈی کی کمی ہوجاتی ہے، پروفیسر نجم الاسلام نے آرگنائزنگ کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے ہارمونز کے مشکل کیسز کا ذکر کیا۔ پرورفیسر عبدالجبار اورپروفیسر جاوید اختر نے کشنگ سینڈروم کی تفصیلات بیان کیں۔ پروفیسر علی جاوا، پروفیسر عمر عبداللہ، ڈاکٹر عائشہ چاندنا، ڈاکٹر عائشہ شیخ، ڈاکٹر خورشید خان اور ڈاکٹر عثمان خان نے بھی اس موقع پر اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے۔