سیّدنا عمر فاروق ؓ کا حُسنِِ انتظام
آپؓ کے عہدِ خلافت میں محاصل کے حصول، نظامِ آب پاشی اشاعتِ قرآن و حدیث کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔
اعلان بعثت نبویؐ سے قبل عرب کی سرزمین پر صرف سترہ افراد پڑھے لکھے تھے، ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ بھی تھے۔ آپؓ شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور جس محفل میں بھی جاتے رونق محفل بن جاتے تھے۔ آپؓ کا شمار عرب کے متمول خاندان میں ہوتا تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں آپ ؓ سخت مزاج ضرور تھے مگر سنگ دل ہرگز نہ تھے۔
قبول اسلام سے قبل عرب قبائل پر آپؓ کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام لانے سے قبل بھی آپ کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا۔ آپ قابل، ذہین اور طاقت ور بھی تھے۔ بعثت نبوی ﷺ کو چھے سال گزر چکے تھے، مگر اسلام کو مطلوبہ قوت اور طاقت نہ مل سکی تھی، اس لیے آنحضورؐ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ عمر ایمان لے آئیں تاکہ اسلام کو مزید تقویت مل سکے۔ آپؐ کی دعا قبول ہوئی اور جناب عمرؓ حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے، اس طرح گویا آپ مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حضرت عمر ؓ کو اپنا جاں نشین مقرر کرنے کے لیے اکابر صحابہؓ سے رائے لی تھی۔ کچھ صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ان کی سخت گیری کے بارے میں بتایا اور کہا کہ خلیفہ بننے کے بعد وہ اور سخت ہوجائیں گے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا، بے شک وہ سخت مزاج ہیں لیکن جب خلافت کا بار ان پر آئے گا تو وہ محتاط اور نرم مزاج ہو جائیں گے، اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے عمرؓ کا انتخاب ہی بہتر ہے۔ چناںچہ بعد میں صحابہ کرام ؓ نے بھی آپؓ کی رائے سے اتفاق کرلیا اور پھر تاریخ اسلام کے اوراق نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ حضرت عمر ؓ کے انتخاب میں خلیفۂ اول اور صحابہ کرامؓ کا فیصلہ بالکل درست تھا۔
حضرت عمر ؓ فاروق نے جب مسند خلافت سنبھالی اس وقت سرزمین عرب پر کوئی مربوط اور منظم نظام حکومت نہ تھا۔ عرب معاشرہ مختلف قبائل میں منقسم تھا۔ جن کے اپنے رسم و رواج تھے۔ آپؓ نے اپنے دس سالہ دور خلافت میں ایک نہایت وسیع نظام قائم کردیا۔ آپؓ نے اسلامی بنیادوں پر ایسا آئین حکومت مرتب کیا کہ جس سے معاشرہ میں عادلانہ نظام قائم ہوگیا، جو بعد میں مسلمانوں کی ترقی و ارتقا کا ضامن بنا۔ اسلام کا نظام، شوریٰ یعنی مشاورت پر ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی پوری کوشش سے اس نظام کو مستحکم اور مستقل کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔
حضرت عمر ؓ نے مختلف مفتوحہ علاقوں کو صوبوں میں تقسیم کرکے وہاں عمال مقرر کردیے اور انہیں ایک حد تک اختیارات سپرد کیے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان سے عوام کی طرف سے کوئی رعایت نہیں برتتے تھے اور ایک عام آدمی کی شکایت پر بھی ان اعمال کو طلب کرلیتے اور ان کا احتساب کرتے تھے۔ رشوت کے انسداد کے لیے اتنی تسلی بخش تن خواہیں مقرر کیں کہ رشوت کی جانب دھیان ہی نہ جائے۔ ان کے دور میں قانون کا احترام مکمل طور پر بحال تھا اور کوئی بھی شخص قانون سے نہیں بچ سکتا تھا۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو ایک ہی طرح سے آپؓ کے پاس آنے اور اپنی ضرورت بیان کرنے کی اجازت تھی۔
حضرت عمرؓ کا دور خلافت مسلمانوں کے طرز حکومت کا بنیادی خاکہ تھا۔ قیام امن کے لیے انہوں نے پولیس کا محکمہ قائم کیا اور ضرورتوں کے مطابق استوار کرکے مستقل کردیا۔ آپؓ کی خلافت سے قبل عرب محکمۂ جیل سے واقف نہ تھے۔ آپؓ نے جیل خانے قائم کیے اور اس طرح معاشرے کو ایک پرامن ماحول فراہم کیا۔ محاصل کے حصول، مختلف قسم کی آمدنیوں کا حساب کتاب، آب پاشی کا نظام، بیت المال کی وسعت اور اس کا صحیح معنوں میں نظم و ضبط، شعبۂ تعلیم، علم قرآن و حدیث و سنت ان سب کے لیے آپؓ کے عہد خلافت میں باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا۔
حضرت عمر ؓ کو حضور اکرم ؐ کی نہایت قربت حاصل تھی۔ آپؐ نے کئی مواقع پر حضرت عمرؓ کو اسلامی افواج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ دشمنوں پر آپؓ کی ایسی دھاک بیٹھتی تھی کہ وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کر جاتے تھے۔ ایک مرتبہ قبیلۂ ہوازن کا قلع قمع کرنے کے لیے صرف30 مجاہدین کا ایک دستہ حضرت عمرؓ کی قیادت میں روانہ کیا گیا۔ جب ان دشمنان اسلام کو اس کی خبر پہنچی کہ مسلم فوج کا ایک دستہ عمرؓ کی قیادت میں مقابلے کے لیے آرہا ہے تو وہ لڑے بغیر میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرگئے۔ آپؓ عسکری معاملات میں براہ راست آنحضور ؐ کے تربیت یافتہ تھے۔ لہٰذا خلافت کے منصب پر فایز ہونے کے بعد افواج اسلام کی صحیح معنوں میں اسلامی خطوط پر بنیادیں استوار کیں، جس سے پورا عسکری نظام منظم اور مربوط ہوگیا۔
حضرت عمرؓ نے مکہ سے مدینہ 20 افراد کے ہم راہ اعلانیہ ہجرت کی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ نے کئی ایسے امور سرانجام دیے جو اسلام کو تقویت پہنچانے کا باعث بنے۔
23ھ میں حضرت عمر ؓ کی شہادت کا حادثہ پیش آیا، جس کی تفاصیل تاریخ اسلام اور دیگر کتب میں درج ہیں۔
ایک پارسی غلام ابولُولُو فیروز نے27 ذی الحج کو فجر کی نماز کے دوران زہر آلود خنجر سے آپؓ پر حملہ کردیا۔ زخموں کی شدت کی وجہ سے آپ ؓ گر پڑے۔ آپؓ کی جگہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے نماز پڑھائی۔ کچھ لوگ ابولُولُو فیروز کو گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس نے انہیں بھی زخمی کردیا اور آخرکار پکڑا گیا۔ گرفتار ہوتے ہی اس نے خود کشی کرلی۔ نماز ختم ہونے کے بعد حضرت عمرؓ کو اٹھا کر لا یا گیا۔ آپؓ نے دریافت فرمایا، میرا قاتل کون تھا؟ لوگوں نے کہا '' ابولُولُو فیروز مجوسی'' حضرت عمرؓ نے فرمایا، الحمدﷲ میرا قاتل مسلمان نہیں ہے۔
آپؓ کے زخم نہایت کاری تھے اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ آپؓ کو آنحضور ؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی بڑی آرزو تھی۔ اس لیے اپنے صاحب زادے حضرت عبداﷲ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے پاس دفن ہونے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ''یہ جگہ میں نے اپنے لیے مخصوص کی تھی، لیکن عمرؓ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔''
یکم محرم 24ھ کو آپؓ کا وصال ہوگیا۔ وصیت کے مطابق حضرت صہیب ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آنحضور کے پہلو مبارک میں آسودہ کردیے گئے۔ انتقال کے وقت آپؓ کی عمر 63 برس تھی۔ آپؓ نے ساڑھے دس برس تک خلافت کے فرائض سرانجام فرمائے۔
قبول اسلام سے قبل عرب قبائل پر آپؓ کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام لانے سے قبل بھی آپ کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا۔ آپ قابل، ذہین اور طاقت ور بھی تھے۔ بعثت نبوی ﷺ کو چھے سال گزر چکے تھے، مگر اسلام کو مطلوبہ قوت اور طاقت نہ مل سکی تھی، اس لیے آنحضورؐ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ عمر ایمان لے آئیں تاکہ اسلام کو مزید تقویت مل سکے۔ آپؐ کی دعا قبول ہوئی اور جناب عمرؓ حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے، اس طرح گویا آپ مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حضرت عمر ؓ کو اپنا جاں نشین مقرر کرنے کے لیے اکابر صحابہؓ سے رائے لی تھی۔ کچھ صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ان کی سخت گیری کے بارے میں بتایا اور کہا کہ خلیفہ بننے کے بعد وہ اور سخت ہوجائیں گے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا، بے شک وہ سخت مزاج ہیں لیکن جب خلافت کا بار ان پر آئے گا تو وہ محتاط اور نرم مزاج ہو جائیں گے، اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے عمرؓ کا انتخاب ہی بہتر ہے۔ چناںچہ بعد میں صحابہ کرام ؓ نے بھی آپؓ کی رائے سے اتفاق کرلیا اور پھر تاریخ اسلام کے اوراق نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ حضرت عمر ؓ کے انتخاب میں خلیفۂ اول اور صحابہ کرامؓ کا فیصلہ بالکل درست تھا۔
حضرت عمر ؓ فاروق نے جب مسند خلافت سنبھالی اس وقت سرزمین عرب پر کوئی مربوط اور منظم نظام حکومت نہ تھا۔ عرب معاشرہ مختلف قبائل میں منقسم تھا۔ جن کے اپنے رسم و رواج تھے۔ آپؓ نے اپنے دس سالہ دور خلافت میں ایک نہایت وسیع نظام قائم کردیا۔ آپؓ نے اسلامی بنیادوں پر ایسا آئین حکومت مرتب کیا کہ جس سے معاشرہ میں عادلانہ نظام قائم ہوگیا، جو بعد میں مسلمانوں کی ترقی و ارتقا کا ضامن بنا۔ اسلام کا نظام، شوریٰ یعنی مشاورت پر ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی پوری کوشش سے اس نظام کو مستحکم اور مستقل کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔
حضرت عمر ؓ نے مختلف مفتوحہ علاقوں کو صوبوں میں تقسیم کرکے وہاں عمال مقرر کردیے اور انہیں ایک حد تک اختیارات سپرد کیے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان سے عوام کی طرف سے کوئی رعایت نہیں برتتے تھے اور ایک عام آدمی کی شکایت پر بھی ان اعمال کو طلب کرلیتے اور ان کا احتساب کرتے تھے۔ رشوت کے انسداد کے لیے اتنی تسلی بخش تن خواہیں مقرر کیں کہ رشوت کی جانب دھیان ہی نہ جائے۔ ان کے دور میں قانون کا احترام مکمل طور پر بحال تھا اور کوئی بھی شخص قانون سے نہیں بچ سکتا تھا۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو ایک ہی طرح سے آپؓ کے پاس آنے اور اپنی ضرورت بیان کرنے کی اجازت تھی۔
حضرت عمرؓ کا دور خلافت مسلمانوں کے طرز حکومت کا بنیادی خاکہ تھا۔ قیام امن کے لیے انہوں نے پولیس کا محکمہ قائم کیا اور ضرورتوں کے مطابق استوار کرکے مستقل کردیا۔ آپؓ کی خلافت سے قبل عرب محکمۂ جیل سے واقف نہ تھے۔ آپؓ نے جیل خانے قائم کیے اور اس طرح معاشرے کو ایک پرامن ماحول فراہم کیا۔ محاصل کے حصول، مختلف قسم کی آمدنیوں کا حساب کتاب، آب پاشی کا نظام، بیت المال کی وسعت اور اس کا صحیح معنوں میں نظم و ضبط، شعبۂ تعلیم، علم قرآن و حدیث و سنت ان سب کے لیے آپؓ کے عہد خلافت میں باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا۔
حضرت عمر ؓ کو حضور اکرم ؐ کی نہایت قربت حاصل تھی۔ آپؐ نے کئی مواقع پر حضرت عمرؓ کو اسلامی افواج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ دشمنوں پر آپؓ کی ایسی دھاک بیٹھتی تھی کہ وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کر جاتے تھے۔ ایک مرتبہ قبیلۂ ہوازن کا قلع قمع کرنے کے لیے صرف30 مجاہدین کا ایک دستہ حضرت عمرؓ کی قیادت میں روانہ کیا گیا۔ جب ان دشمنان اسلام کو اس کی خبر پہنچی کہ مسلم فوج کا ایک دستہ عمرؓ کی قیادت میں مقابلے کے لیے آرہا ہے تو وہ لڑے بغیر میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرگئے۔ آپؓ عسکری معاملات میں براہ راست آنحضور ؐ کے تربیت یافتہ تھے۔ لہٰذا خلافت کے منصب پر فایز ہونے کے بعد افواج اسلام کی صحیح معنوں میں اسلامی خطوط پر بنیادیں استوار کیں، جس سے پورا عسکری نظام منظم اور مربوط ہوگیا۔
حضرت عمرؓ نے مکہ سے مدینہ 20 افراد کے ہم راہ اعلانیہ ہجرت کی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ نے کئی ایسے امور سرانجام دیے جو اسلام کو تقویت پہنچانے کا باعث بنے۔
23ھ میں حضرت عمر ؓ کی شہادت کا حادثہ پیش آیا، جس کی تفاصیل تاریخ اسلام اور دیگر کتب میں درج ہیں۔
ایک پارسی غلام ابولُولُو فیروز نے27 ذی الحج کو فجر کی نماز کے دوران زہر آلود خنجر سے آپؓ پر حملہ کردیا۔ زخموں کی شدت کی وجہ سے آپ ؓ گر پڑے۔ آپؓ کی جگہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے نماز پڑھائی۔ کچھ لوگ ابولُولُو فیروز کو گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس نے انہیں بھی زخمی کردیا اور آخرکار پکڑا گیا۔ گرفتار ہوتے ہی اس نے خود کشی کرلی۔ نماز ختم ہونے کے بعد حضرت عمرؓ کو اٹھا کر لا یا گیا۔ آپؓ نے دریافت فرمایا، میرا قاتل کون تھا؟ لوگوں نے کہا '' ابولُولُو فیروز مجوسی'' حضرت عمرؓ نے فرمایا، الحمدﷲ میرا قاتل مسلمان نہیں ہے۔
آپؓ کے زخم نہایت کاری تھے اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ آپؓ کو آنحضور ؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی بڑی آرزو تھی۔ اس لیے اپنے صاحب زادے حضرت عبداﷲ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے پاس دفن ہونے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ''یہ جگہ میں نے اپنے لیے مخصوص کی تھی، لیکن عمرؓ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔''
یکم محرم 24ھ کو آپؓ کا وصال ہوگیا۔ وصیت کے مطابق حضرت صہیب ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آنحضور کے پہلو مبارک میں آسودہ کردیے گئے۔ انتقال کے وقت آپؓ کی عمر 63 برس تھی۔ آپؓ نے ساڑھے دس برس تک خلافت کے فرائض سرانجام فرمائے۔