جنگ نہیں ہونی چاہیے
دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک جنگ سے بہت دور جا چکے ہیں
دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک جنگ سے بہت دور جا چکے ہیں۔ باہمی کشمکش کے باوجود لڑائی سے کوسوں دور رہتے ہیں۔اقتصادی ترقی اور امن ان کے لیے سب سے اہم ہے ۔یہ سب کام وہ کامیابی سے سرانجام دے رہے ہیں لیکن کمال تدبیرسے دنیاکی مضبوط ریاستوں نے اپنی جنگ کمزورممالک میں منتقل کردی ہے۔پسماندہ ریاستوں میںیہ کھیل انتہائی سفاکی مگردانائی سے کھیلاجارہاہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی جنگ کے میدانوں میں سے ایک ہے۔
تاریخ لکھنے والے اکثر دانشوروں نے تعصبات کے حساب سے ہیروز ترتیب دیے۔یہ سب کچھ کرتے وقت یہ فراموش کرگئے کہ نفرت کے بیج اتنے مضبوط خار دار درخت بن جائیں گے جن کے کانٹوں سے ہرانسان چھلنی ہوجائے گا۔ یہ خطہ ٹائن بی(Toyn Bee) جیسا کوئی مستند تاریخ دان پیدا نہ کرسکا ۔بونوں کی دنیا میں ویسے بھی علمی دیوپیدا نہیں ہوتے۔ہمارے ملک میں کیونکہ کوئی بھی ادارہ فعال اورمضبوط نہیں ہے لہذا یہاں ہمیشہ سے اقتدار کی جنگ جاری ہے۔1947ء سے لے کرآج تک مقتدرطبقوں نے ہماری ذہنی ساخت تبدیل کرڈالی ہے۔
ہم عدم تحفظ کاشکارہوچکے ہیں۔بدامنی پھیلاکرناجائزدولت حاصل کرنابہت آسان ہوجاتاہے۔ پہلی اوردوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے مگرچند ہزارخاندان دولت میں کھیلنے لگے۔کارپوریٹ ورلڈکے یہ بت آج پوری دنیاپرقابض ہیں۔دنیاکے تمام ممالک چندہزارخاندانوں کے اسیرہیں۔برصغیرکے دونوں ملک انھی لوگوں کے اقتصادی غلام ہیں۔جنگی اسلحہ خریدخریدکرخودقلاش ہوتے جا رہے ہیں اورمقصدایک دوسرے کی مکمل تباہی ہے۔کبھی یہ جذبہ حب الوطنی کے نام کیاجاتاہے اورکبھی مذہب کی سربلندی کے لیے۔بدقسمتی سے پاکستان اورہندوستان دونوں ایک دوسرے کوبربادکرنا اولین فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔
عام ساطالبعلم ہونے کے حوالے سے چنداہم نکات ذہن میں باربارآتے ہیں۔اکثراوقات اپنے سوالات سے خودہی خوف زدہ ہوجاتاہوں کہ جواب کس سے دریافت کروں۔یہاں توصرف اورصرف جذبات کے بھالے اور چاقوہیں۔دلیل اورغیرجذباتی بحث توکب کی قتل یا شائد شہیدہوچکی ہے۔میراتعلق وسطی پنجاب کے شہرفیصل آباد سے ہے۔بتانااس لیے ضروری ہے کہ سوالات کوعلاقائی تعصب کاجامہ پہنانے کی کوشش نہ کی جاسکے۔آج کے پنجاب یعنی پاکستانی پنجاب نے تقریباًگزشتہ ایک صدی سے اپنی سرزمین پرکوئی خونی جنگ نہیں دیکھی۔1857ء کی جنگ بھی بنیادی طورپراس خطے میں نہیں لڑی گئی۔سکھ حکومت کے اختتام کے بعدسے پنجاب عمومی طورپرمیدان جنگ نہیں بنا۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
انگریزوں کے طویل دور میں امن کے لازوال اقتصادی فائدے ہوئے اورپنجاب کا مرکزی حصہ پورے برصغیرسے زیادہ ترقی یافتہ ہوگیا۔ پاکستان بننے سے لے کرآج تک اس خطے میں بے مثال ترقی ہوئی ہے۔یہ سفرآج بھی جاری ہے۔دولت،کثیرآبادی اور امن نے ذہنوں میں یہ نکتہ بٹھادیاکہ یہ خطہ پورے ملک پر حکومت کرنے کاحق رکھتاہے۔آئین اورقانون نے یہ خواہش بھی پوری کردی۔
حادثاتی یاغیرحادثاتی طورپرذہنوں میں بڑائی کے جذبات،مبالغہ آرائی اورعظمت کے خواب جڑ پکڑگئے۔انتہائی پیچیدہ صورتحال کویہ کہتے ہوئے سمیٹوں گا کہ ایک مخصوص ذہنیت اس قدرتواناہوگئی کہ ہماراملک چھوٹا پڑنے لگا۔بلوچستان اورخیبرپختوانخوا کاکوئی شہری امن کے سواکچھ نہیں چاہتا۔اس لیے کہ ان علاقوں کے باسیوں نے گزشتہ پچاس برس میں بربریت،دہشتگردی اورخونریزی دیکھی ہے۔کراچی کی لسانی بنیادوں پرتقسیم اوربوری بند لاشوں کے بازارنے اس اقتصادی شہرکوبھی صرف اورصرف پُرامن رہنے کاسبق سکھایاہے۔مگرآج کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے وہ دانشوراورقائدین جنہوںنے کبھی غلیل سے چڑیا نہیں ماری،ہمیں دشمن سے لڑنے مرنے کاسبق دے رہے ہیں۔بدقسمتی سے ان میں سے اکثریت کاتعلق اس صوبہ سے ہے جہاں سے میں تعلق رکھتاہوں۔چندریاستی ادارے اورناسمجھ قائدین ہمیں اس کوچہ مقتل میں لے جا رہے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ ہندوستان میں بھی بعینہ یہی صورتحال ہے۔
وہاں بھی ہندو مذہبی جماعت اپنی حکومت کودوام دینے کے لیے لوگوں کے جذبات کو آگ لگارہی ہے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ دونوں ملکوں میں شدت پسندوںکے سوچنے کے انداز اورطرزنکلم میں کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں ایک دوسرے کو فناکرناچاہتے ہیں۔ دونوں کامقصددوسرے کی تباہی ہے۔مگراس اَمرسے بے خبرہیں کہ اکیسویں صدی کی جنگوں میں کوئی بھی فریق فاتح نہیں ہوسکتا۔ہاں!مکمل بربادی ہوسکتی ہے۔مغربی دنیا کے کامیاب ملک ہماری کمزوریوں کوبھانپ چکے ہیں۔ انھیں بخوبی علم ہے کہ ہم لوگ جذباتیت کے سیلاب میں بہہ کراپنی گردن خودکاٹ سکتے ہیں۔
ہم جعلی شجاعت کی کہانیوں سے مغلوب ہوکراپنے آپکوآگ لگاسکتے ہیں۔ اپنا گھر برباد کرسکتے ہیں۔ان ممالک جس میں امریکا اور یو کے سرخیل ہیں،کمال ہوشیاری سے ہمیں جنگ کے دہانے پرلے جارہے ہیں۔چین بھی اب طاقت کی شطرنج کے کھیل میں شامل ہوچکاہے۔کسی طریقے سے امن کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیاجارہا۔کسی بھی حربے سے جذبات کو ٹھنڈا نہیں کیاجارہا۔پاکستان اورہندوستان کی اکثریت معاملہ کوسمجھ نہیں پارہی۔ایک مثال دیناچاہتاہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ امن کے اصل دشمن کون ہیں۔
محترم نوازشریف کے پچھلے دورحکومت میں کارگل کی بدولت معاملات بہت خراب ہوچکے تھے۔شہریارصاحب سیکریٹری خارجہ تھے۔انتہائی ذہین اورقابل سفارتکار۔ پاکستان پرویزمشرف کے غلط فیصلے کی وجہ سے جنگ کے دہانے پرپہنچ چکاتھا۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ پرویز مشرف،اس نازک وقت پرنوازشریف صاحب کے سامنے دوزانوہوچکے تھے کہ کسی بھی صورت میں جنگ بندکرائی جائے۔وزیراعظم نے یہ نازک کام شہریارصاحب کے ذمے لگایاتھاکہ دونوں ممالک کے وزراء اعظم کی ملاقات کرائیں اورمعاملات کوآسان کریں۔ملاقات طے ہوچکی تھی۔
ٹھیک اسی وقت قومی سطح کے رازاورحساس باتیں پاکستان کے ایک سیاستدان امریکا کے نوٹس میں لے آئے۔ امریکا میں کہرام مچ گیاکہ اگران دونوں دشمن ملکوں میں صلح ہوگئی تو ہماری بین الاقوامی ساکھ اوراہمیت کاکیا بنے گا۔ہم توکھیل سے باہرہوجائیںگے۔چنانچہ فوری طورپر امریکی صدرنے ثالثی کارول اداکرڈالااور سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔عرض کرنے کامقصدہے کہ بین الاقوامی طاقتیں قطعاًنہیں چاہتیں کہ خطے میں امن ہو۔آج اس کھیل میں چین بھی شامل ہے اورامریکا بھی۔میں صرف سوال کر رہا ہوں جواب آپ پرچھوڑتاہوں۔ہماری باہمی جنگ سے کس کوفائدہ ہوگااورکس کونقصان۔ہماری جنگ میں اصل کامیابی جنگی ہتھیارفروخت کرنے والے ملکوں کی ہوگی۔ ان کی اقتصادی ترقی جواس وقت جمود کا شکار ہے، دوبارہ بحال ہوجائے گی۔دونوں ممالک کوبھاری قرضوں پر مزید ہتھیارمہیاکیے جائینگے۔تباہی کے تاجردونوں ملکوں میں موت کارقص دیکھ کرجام لنڈھاینگے مگر ہم اعلیٰ قومی اقدار اور عظمت کے خواب کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
پاکستان اورہندوستان کے سوشل میڈیا پرہیجان خیز تصاویر،پیغامات اورتصویروں کی یلغارہورہی ہے۔ہرفریق دعوے کررہاہے کہ اس نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے ہیں مگر نقصان تو عام لوگوں کاہورہاہے۔دونوں طرف کے سرمایہ دارتوایک فیصدبھی نقصان نہیں اُٹھارہے۔افواج میں کسی امیرترین خاندان کاکوئی بچہ نہیں۔فوجیں توہمارے جیسے سفیدپوش خاندانوں کے بچوں سے قائم ہیں۔بدقسمتی یا ذہنی بلوغت کے فقدان کی بدولت امن کی بات کرنے والے کووطن دشمن کہاجاتاہے۔
کئی دانشورتوجنگ کی مخالفت کرنے والوں کوبیرونی ایجنٹ اورمغربی این جی اوزکے نمایندے کہتے ہیں۔جس علاقے سے جنگ کے شعلوں کو ہوادینے کی کوشش کی جارہی ہے اس علاقے نے سوبرس سے کوئی جنگ نہیں دیکھی۔اس نے سڑکوں پرٹینک اورجنگی طیاروں کی بمباری کی ہولناکی نہیں دیکھی۔مشورہ ہے کہ ذرا شام،لیبیا،عراق اوریمن کے باشندوں سے پوچھیے کہ جنگ کیاہے اورامن کتنی خوبصورت چیزہے۔طالبعلم کی حیثیت سے اس حقیقت سے واقف ہوں کہ مضبوط ترین فوج ہی امن کی ضمانت ہوتی ہے۔مجھے اس کی مکمل قدر ہے۔ مگر طاقت کے خون ریزاستعمال سے اجتناب بھی دانشمندی اور تدبرکاحصہ ہے۔
ناچیز کاسیاست سے کوئی تعلق نہیں۔مگرمجھے یقین ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے ہوتے ہوئے دونوں ملکوں کی جنگ نہیں ہوگی۔ان کے مزاج اورسرشت میں صلح مرکزی نقطہ ہے۔دونوں ممالک کے وزراء اعظم کے ذاتی تعلقات جنگ نہ ہونے میں انتہائی اہم ہوسکتے ہیں۔معلوم ہے کہ اس نازک موقعہ پرامن کی بات کرنے والے کوناپسندیدگی کی سندعطاکی جائے گی۔
مگراصل کامیابی جنگ نہ ہوناہے۔ایٹمی مخالف ممالک میں کوئی بھی ایک دوسرے کوزندہ نہیں رہنے دے گا۔سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تمام فریقین کواپنے ملکوں کوجنگ کاایندھن بننے سے بچانا چاہیے۔ہماری مضبوط فوج ہماری سلامتی کی گارنٹی ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کووزیراعظم نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے تاکہ پائیدار امن کی بات کرسکیں۔اس وقت اصل کامیابی یہی ہے کہ کہ کسی قسم کی جنگ نہ ہو۔ سیاستدان یہ کام کامیابی سے کرسکتے ہیں۔
تاریخ لکھنے والے اکثر دانشوروں نے تعصبات کے حساب سے ہیروز ترتیب دیے۔یہ سب کچھ کرتے وقت یہ فراموش کرگئے کہ نفرت کے بیج اتنے مضبوط خار دار درخت بن جائیں گے جن کے کانٹوں سے ہرانسان چھلنی ہوجائے گا۔ یہ خطہ ٹائن بی(Toyn Bee) جیسا کوئی مستند تاریخ دان پیدا نہ کرسکا ۔بونوں کی دنیا میں ویسے بھی علمی دیوپیدا نہیں ہوتے۔ہمارے ملک میں کیونکہ کوئی بھی ادارہ فعال اورمضبوط نہیں ہے لہذا یہاں ہمیشہ سے اقتدار کی جنگ جاری ہے۔1947ء سے لے کرآج تک مقتدرطبقوں نے ہماری ذہنی ساخت تبدیل کرڈالی ہے۔
ہم عدم تحفظ کاشکارہوچکے ہیں۔بدامنی پھیلاکرناجائزدولت حاصل کرنابہت آسان ہوجاتاہے۔ پہلی اوردوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے مگرچند ہزارخاندان دولت میں کھیلنے لگے۔کارپوریٹ ورلڈکے یہ بت آج پوری دنیاپرقابض ہیں۔دنیاکے تمام ممالک چندہزارخاندانوں کے اسیرہیں۔برصغیرکے دونوں ملک انھی لوگوں کے اقتصادی غلام ہیں۔جنگی اسلحہ خریدخریدکرخودقلاش ہوتے جا رہے ہیں اورمقصدایک دوسرے کی مکمل تباہی ہے۔کبھی یہ جذبہ حب الوطنی کے نام کیاجاتاہے اورکبھی مذہب کی سربلندی کے لیے۔بدقسمتی سے پاکستان اورہندوستان دونوں ایک دوسرے کوبربادکرنا اولین فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔
عام ساطالبعلم ہونے کے حوالے سے چنداہم نکات ذہن میں باربارآتے ہیں۔اکثراوقات اپنے سوالات سے خودہی خوف زدہ ہوجاتاہوں کہ جواب کس سے دریافت کروں۔یہاں توصرف اورصرف جذبات کے بھالے اور چاقوہیں۔دلیل اورغیرجذباتی بحث توکب کی قتل یا شائد شہیدہوچکی ہے۔میراتعلق وسطی پنجاب کے شہرفیصل آباد سے ہے۔بتانااس لیے ضروری ہے کہ سوالات کوعلاقائی تعصب کاجامہ پہنانے کی کوشش نہ کی جاسکے۔آج کے پنجاب یعنی پاکستانی پنجاب نے تقریباًگزشتہ ایک صدی سے اپنی سرزمین پرکوئی خونی جنگ نہیں دیکھی۔1857ء کی جنگ بھی بنیادی طورپراس خطے میں نہیں لڑی گئی۔سکھ حکومت کے اختتام کے بعدسے پنجاب عمومی طورپرمیدان جنگ نہیں بنا۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
انگریزوں کے طویل دور میں امن کے لازوال اقتصادی فائدے ہوئے اورپنجاب کا مرکزی حصہ پورے برصغیرسے زیادہ ترقی یافتہ ہوگیا۔ پاکستان بننے سے لے کرآج تک اس خطے میں بے مثال ترقی ہوئی ہے۔یہ سفرآج بھی جاری ہے۔دولت،کثیرآبادی اور امن نے ذہنوں میں یہ نکتہ بٹھادیاکہ یہ خطہ پورے ملک پر حکومت کرنے کاحق رکھتاہے۔آئین اورقانون نے یہ خواہش بھی پوری کردی۔
حادثاتی یاغیرحادثاتی طورپرذہنوں میں بڑائی کے جذبات،مبالغہ آرائی اورعظمت کے خواب جڑ پکڑگئے۔انتہائی پیچیدہ صورتحال کویہ کہتے ہوئے سمیٹوں گا کہ ایک مخصوص ذہنیت اس قدرتواناہوگئی کہ ہماراملک چھوٹا پڑنے لگا۔بلوچستان اورخیبرپختوانخوا کاکوئی شہری امن کے سواکچھ نہیں چاہتا۔اس لیے کہ ان علاقوں کے باسیوں نے گزشتہ پچاس برس میں بربریت،دہشتگردی اورخونریزی دیکھی ہے۔کراچی کی لسانی بنیادوں پرتقسیم اوربوری بند لاشوں کے بازارنے اس اقتصادی شہرکوبھی صرف اورصرف پُرامن رہنے کاسبق سکھایاہے۔مگرآج کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے وہ دانشوراورقائدین جنہوںنے کبھی غلیل سے چڑیا نہیں ماری،ہمیں دشمن سے لڑنے مرنے کاسبق دے رہے ہیں۔بدقسمتی سے ان میں سے اکثریت کاتعلق اس صوبہ سے ہے جہاں سے میں تعلق رکھتاہوں۔چندریاستی ادارے اورناسمجھ قائدین ہمیں اس کوچہ مقتل میں لے جا رہے ہیں جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ ہندوستان میں بھی بعینہ یہی صورتحال ہے۔
وہاں بھی ہندو مذہبی جماعت اپنی حکومت کودوام دینے کے لیے لوگوں کے جذبات کو آگ لگارہی ہے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ دونوں ملکوں میں شدت پسندوںکے سوچنے کے انداز اورطرزنکلم میں کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں ایک دوسرے کو فناکرناچاہتے ہیں۔ دونوں کامقصددوسرے کی تباہی ہے۔مگراس اَمرسے بے خبرہیں کہ اکیسویں صدی کی جنگوں میں کوئی بھی فریق فاتح نہیں ہوسکتا۔ہاں!مکمل بربادی ہوسکتی ہے۔مغربی دنیا کے کامیاب ملک ہماری کمزوریوں کوبھانپ چکے ہیں۔ انھیں بخوبی علم ہے کہ ہم لوگ جذباتیت کے سیلاب میں بہہ کراپنی گردن خودکاٹ سکتے ہیں۔
ہم جعلی شجاعت کی کہانیوں سے مغلوب ہوکراپنے آپکوآگ لگاسکتے ہیں۔ اپنا گھر برباد کرسکتے ہیں۔ان ممالک جس میں امریکا اور یو کے سرخیل ہیں،کمال ہوشیاری سے ہمیں جنگ کے دہانے پرلے جارہے ہیں۔چین بھی اب طاقت کی شطرنج کے کھیل میں شامل ہوچکاہے۔کسی طریقے سے امن کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیاجارہا۔کسی بھی حربے سے جذبات کو ٹھنڈا نہیں کیاجارہا۔پاکستان اورہندوستان کی اکثریت معاملہ کوسمجھ نہیں پارہی۔ایک مثال دیناچاہتاہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ امن کے اصل دشمن کون ہیں۔
محترم نوازشریف کے پچھلے دورحکومت میں کارگل کی بدولت معاملات بہت خراب ہوچکے تھے۔شہریارصاحب سیکریٹری خارجہ تھے۔انتہائی ذہین اورقابل سفارتکار۔ پاکستان پرویزمشرف کے غلط فیصلے کی وجہ سے جنگ کے دہانے پرپہنچ چکاتھا۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ پرویز مشرف،اس نازک وقت پرنوازشریف صاحب کے سامنے دوزانوہوچکے تھے کہ کسی بھی صورت میں جنگ بندکرائی جائے۔وزیراعظم نے یہ نازک کام شہریارصاحب کے ذمے لگایاتھاکہ دونوں ممالک کے وزراء اعظم کی ملاقات کرائیں اورمعاملات کوآسان کریں۔ملاقات طے ہوچکی تھی۔
ٹھیک اسی وقت قومی سطح کے رازاورحساس باتیں پاکستان کے ایک سیاستدان امریکا کے نوٹس میں لے آئے۔ امریکا میں کہرام مچ گیاکہ اگران دونوں دشمن ملکوں میں صلح ہوگئی تو ہماری بین الاقوامی ساکھ اوراہمیت کاکیا بنے گا۔ہم توکھیل سے باہرہوجائیںگے۔چنانچہ فوری طورپر امریکی صدرنے ثالثی کارول اداکرڈالااور سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔عرض کرنے کامقصدہے کہ بین الاقوامی طاقتیں قطعاًنہیں چاہتیں کہ خطے میں امن ہو۔آج اس کھیل میں چین بھی شامل ہے اورامریکا بھی۔میں صرف سوال کر رہا ہوں جواب آپ پرچھوڑتاہوں۔ہماری باہمی جنگ سے کس کوفائدہ ہوگااورکس کونقصان۔ہماری جنگ میں اصل کامیابی جنگی ہتھیارفروخت کرنے والے ملکوں کی ہوگی۔ ان کی اقتصادی ترقی جواس وقت جمود کا شکار ہے، دوبارہ بحال ہوجائے گی۔دونوں ممالک کوبھاری قرضوں پر مزید ہتھیارمہیاکیے جائینگے۔تباہی کے تاجردونوں ملکوں میں موت کارقص دیکھ کرجام لنڈھاینگے مگر ہم اعلیٰ قومی اقدار اور عظمت کے خواب کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
پاکستان اورہندوستان کے سوشل میڈیا پرہیجان خیز تصاویر،پیغامات اورتصویروں کی یلغارہورہی ہے۔ہرفریق دعوے کررہاہے کہ اس نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے ہیں مگر نقصان تو عام لوگوں کاہورہاہے۔دونوں طرف کے سرمایہ دارتوایک فیصدبھی نقصان نہیں اُٹھارہے۔افواج میں کسی امیرترین خاندان کاکوئی بچہ نہیں۔فوجیں توہمارے جیسے سفیدپوش خاندانوں کے بچوں سے قائم ہیں۔بدقسمتی یا ذہنی بلوغت کے فقدان کی بدولت امن کی بات کرنے والے کووطن دشمن کہاجاتاہے۔
کئی دانشورتوجنگ کی مخالفت کرنے والوں کوبیرونی ایجنٹ اورمغربی این جی اوزکے نمایندے کہتے ہیں۔جس علاقے سے جنگ کے شعلوں کو ہوادینے کی کوشش کی جارہی ہے اس علاقے نے سوبرس سے کوئی جنگ نہیں دیکھی۔اس نے سڑکوں پرٹینک اورجنگی طیاروں کی بمباری کی ہولناکی نہیں دیکھی۔مشورہ ہے کہ ذرا شام،لیبیا،عراق اوریمن کے باشندوں سے پوچھیے کہ جنگ کیاہے اورامن کتنی خوبصورت چیزہے۔طالبعلم کی حیثیت سے اس حقیقت سے واقف ہوں کہ مضبوط ترین فوج ہی امن کی ضمانت ہوتی ہے۔مجھے اس کی مکمل قدر ہے۔ مگر طاقت کے خون ریزاستعمال سے اجتناب بھی دانشمندی اور تدبرکاحصہ ہے۔
ناچیز کاسیاست سے کوئی تعلق نہیں۔مگرمجھے یقین ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے ہوتے ہوئے دونوں ملکوں کی جنگ نہیں ہوگی۔ان کے مزاج اورسرشت میں صلح مرکزی نقطہ ہے۔دونوں ممالک کے وزراء اعظم کے ذاتی تعلقات جنگ نہ ہونے میں انتہائی اہم ہوسکتے ہیں۔معلوم ہے کہ اس نازک موقعہ پرامن کی بات کرنے والے کوناپسندیدگی کی سندعطاکی جائے گی۔
مگراصل کامیابی جنگ نہ ہوناہے۔ایٹمی مخالف ممالک میں کوئی بھی ایک دوسرے کوزندہ نہیں رہنے دے گا۔سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تمام فریقین کواپنے ملکوں کوجنگ کاایندھن بننے سے بچانا چاہیے۔ہماری مضبوط فوج ہماری سلامتی کی گارنٹی ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کووزیراعظم نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے تاکہ پائیدار امن کی بات کرسکیں۔اس وقت اصل کامیابی یہی ہے کہ کہ کسی قسم کی جنگ نہ ہو۔ سیاستدان یہ کام کامیابی سے کرسکتے ہیں۔