ایٹم بم انسان کا دشمن

گورداسپور، کشمیر میں داخلے کا واحد زمینی راستہ تھا اور یہ بھی پاکستان میں شامل تھا

ISLAMABAD:
48 گھنٹے پہلے تک ہمارا ضلع ہوشیار پور پاکستان میں شامل تھا۔ ہوشیار پور اور قرب و جوار کے گاؤں میں مسلمان سبز ہلالی پرچم اٹھائے پاکستان زندہ باد، نعرۂ تکبیر اﷲ اکبر کے نعرے لگاتے پھررہے تھے اور ہندو، سکھ اپنے بوریا بستر باندھے دہلی ودیگر ہندو اکثریتی شہروں کی طرف جارہے تھے۔ گورداسپور، کشمیر میں داخلے کا واحد زمینی راستہ تھا اور یہ بھی پاکستان میں شامل تھا کہ اچانک ایک بہت بڑی سازش کے تحت مجوزہ تقسیم کا نقشہ بدل دیاگیا اور گورداسپور، ہوشیارپور، فیروز پور ودیگر شہروں کو بھارت میں شامل کردیاگیا، انگریز جاتے جاتے بھی اپنی مکاری دکھاگیا، نتیجتاً کشمیر، کشمیریوں سے چھن گیا اور آج 70 سال ہونے کو آئے مگر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل نہیں ہورہا۔ کشمیریوں سے نہیں پوچھا جارہا کہ ''وہ کیا چاہتے ہیں؟''

تقسیم ہند کا نقشہ بدلنے کے بعد سکھوں نے مسلمانوں پر وہ ظلم ڈھائے! یہ ایک الگ داستان ہے، مسلمانوں نے بھی کم نہیں کی۔ حیوان نہیں انسان، انسانوں کو مار رہے تھے۔

70 سال میں ہزاروں کشمیری نوجوان بوڑھے،بچے، تحریک آزادی کے رستے میں قربان ہوچکے ہیں۔ شہدا کی قبریں گواہ ہیں کہ یہ تحریک کبھی نہیں رکی، آج برسوں کی جنگ اپنے حتمی انجام کو پہنچ رہی ہے۔ آج وادیٔ کشمیر میں 90 دن ہوچکے، کرفیوہے، بندوق سے چلے چھرّے ہیں، آنسو گیس ہے اور مقابلے میں نہتے نوجوان ہیں، جن کے جسم خونی چھرّوں سے چھلنی ہیں، آنکھیں بے نور ہوگئی ہیں اور یہ جنگ! آزادی کی جنگ ابھی جاری ہے۔ہندوستان چاہتاہے کہ تحریک ختم ہوجائے۔ امن ہوجائے۔

بہت سال ہوئے ریاض شاہد نے کشمیر کے موضوع پر فلم بنائی تھی، فلم کا نام تھا ''امن'' سامراج کے یاروں نے ہمارے حکمرانوں نے اس فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دی۔ حساس تخلیق کار ریاض شاہد اس دکھ کو ساتھ لیے دنیا سے چلے گئے۔ مگر جانے سے پہلے اپنی فلم امن کو جیسے تیسے تبدیل کرکے ''یہ امن'' کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کرگیا۔ اس فلم کا مرکزی گانا حبیب جالب نے لکھا تھا۔ اسے نور جہاں و مہدی حسن نے موسیقار اے حمید کی موسیقی میں گایا تھا۔ اس گیت کا صرف ابتدائیہ ہی لکھوںگا۔ یہ ایک سوال ہے جو دنیا بھر کے ظالموں سے کیا گیا ہے اور کشمیر کی جاری صورت حال پر ہندوستان سے بھی۔

ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو

وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی حالات کو کس طرف لے جارہے ہیں۔ کشمیر کے لوگ اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں انھیں ان کا حق دے دیا جائے، حق دار کو اس کا حق دینے ہی میں ''نجات'' ہے۔ ''آج'' کا یہی کہنا ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے ''آج'' کی آواز پر دھیان دو۔ جنگوں کازمانہ لد گیا۔ اب ''ملیامیٹ'' کا زمانہ ہے۔ دو تین جنگیں ہندوستان اور پاکستان نے لڑیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ہمارے کھیت سے کھیت ملے ہوئے ہیں۔ کھیت جل گئے، آبادی سے آبادی جڑی ہوئی ہے۔ گھر مسمار ہوگئے، مکین مرگئے۔

پھر کیا ہوا! کچھ بھی نہیں، مسائل وہیں رہے، تنازع وہیں رہے۔ جالب کی نظم دیکھیے ''جنگ نے کیا دیا/ چشمِ نم کے سوا/ خوف میں ڈوبی ہوئی/ شامِ غم کے سوا/ ایک لٹتی کرن/ ایک بجھتا دیا/ جنگ ہونے نہ دو/ امن کھونے نہ دو/ سینۂ ارض میں/ موت بونے نہ دو/ مل سکا نہ کبھی/ کچھ الم کے سوا/ پرسکوں ماؤں کو/ داغ دل کا دیا/ یاد کیا رہ گیا/ اس ستم کے سوا/ جنگ نے کیا دیا/ چشمِ نم کے سوا''۔

مگر اب تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ دونوں طرف ایٹم بم موجود ہے۔ ماہرین کہتے ہیں ہیروشیما، ناگاساکی پر جو ایٹم بم گرایا گیا تھا آج کا ایٹم بم اس سے کئی گنا مہلک ہے۔ ذرا دیکھیں اس کم درجہ ایٹم بم نے کیسا ملیا میٹ مچایا تھا۔ لمحوں میں شہر ویران، کھنڈر، انسان جل بھن کر راکھ، لاکھوں اپاہج بہت سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے، بہت سے دھرتی کا بوجھ بن کر رہ گئے۔ اس معمولی ایٹم بم کے تابکاری اثرات، تیسری نسل تک بھی پہنچے تو پھر اس آج کے ''ایٹم بم'' کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ یہ کیا کرے گا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ''کیا نہیں کرے گا''

نریندر مودی کہتے ہیں ''غربت'' ادھر بھی ہے، پینے کا صاف پانی ادھر بھی نہیں، ادھر بھی نہیں ہے،بنا علاج ادھر بھی لوگ مرتے ہیں، ادھر بھی مرتے ہیں، تو آؤ، غربت کے خاتمے کے لیے جنگ لڑیں اور دیکھیں پہلے یہ جنگ کون جیتتا ہے۔

جناب نریندر مودی صاحب! آپ کتنی سندر سندر باتیں کرتے کرتے، غریبوں کو پیاسا مارنے کے بارے میں کیوں سوچ بچار کرنے لگے۔ جیسا سیتا بھی غریبوں کو پانی مل رہا ہے، اسے بھی بند کرنے کاسوچنے لگے۔

ارے بھئی مودی صاحب!ادھر اور ادھر کے ''دھن والے دولت والے'' تو نہانے دھونے اور پینے کے لیے منرل واٹر خرید لیںگے۔ ''مسئلہ غریب کا ہے غریب کدھر جائے گا'' دھن والے کے پاس دھن ہے منرل واٹر خرید لائے گا۔


یہ ایک ہی ملک تھا، درمیان میں لکیر کھینچ دی گئی، یہ ادھر ادھر کی زمین اپنی جگہ پر رہے گی یہ کشمیر بھی کہیں نہیں جائے گا۔

مگر کیا کیا جائے ''انسان کی آزادی'' کے دشمن ''اِدھر بھی ہیں ور اُدھربھی ہیں''دونوں طرف ''سدھار'' ضروری ہے۔ ''یہ'' نہیں سدھریںگے تو خود ہی اپنے بد ترین انجام کو پہنچیںگے یہ دور آزادی کا ہے جو آزادی کا رستہ روکے گا

نہیں رہے گا
نہیں رہے گا

آخر میں ایک نظر جالب کی یہ نظم اکتوبر 1952میں بچوں کے رسالے ''بھائی جان'' میں شایع ہوئی تھی، رسالے کے مدیر شفیع عقیل صاحب اکثر معروف شاعروں، ادیبوں سے لکھواتے رہتے تھے۔

امن کا دشمن، جان کا دشمن
دھرتی اور دہقان کا دشمن
کھیت کا اور کھلیان کا دشمن
پیارے پاکستان کا دشمن
ایٹم بم انسان کا دشمن
بچوں اور ماؤں کا بیری
پیڑوں کی چھاؤں کا بیری
سندر آشاؤں کا بیری
ہر دل کے ارمان کا دشمن
ایٹم بم انسان کا دشمن
جب یہ کبھی غصے میں آئے
مندر، مسجد سب کو ڈھاتے
دریاؤں میں آگ اگائے
دھرم کا اور ایمان کا دشمن
ایٹم بم انسان کا دشمن
Load Next Story