سفارتی تنہائی

بھارتی حکومت نے پاکستان کو سفارتی طورپر تنہا کرنے کی مہم شروع کی ہے

بھارتی حکومت نے پاکستان کو سفارتی طورپر تنہا کرنے کی مہم شروع کی ہے۔اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے بھارت کا انکار بھی اسی مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بھارت میں انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ آرایس ایس بھارت کو ایک خالص ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اس ایجنڈے کے تحت بھارت میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف یہ مہم بھی چلائی گئی کہ وہ یا تو ہندو ہوجائیں یا بھارت سے کہیں اور چلے جائیں۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں جن میں سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی شامل ہے، اکھنڈ بھارت کے تصورکو عملی شکل دینا چاہتے ہیں۔

بھارت میں سیکولرکہلائی جانے والی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت ہو یا مذہبی انتہا پسند بھارتیہ جنیتا پارٹی کی، یہ بات ان سب میں مشترک رہی ہے کہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک ہونے کے ناتے وہ بھارت کو اس خطے میں چوہدری قرار دینا چاہتے ہیں۔ بھارت کے کئی پڑوسی ممالک اس بھارتی خواہش کے آگے مزاحم ہونے کی صلاحیت اور ہمت نہیں رکھتے۔ اپنے پڑوس میں واقع کئی ممالک کو بھارت بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا بلکہ کئی بھارتی تو ان ممالک کو اپنی طفیلی ریاست کی طرح سمجھتے ہیں۔

بھارت کے علاقائی چوہدری بننے کی خواہش میں سب سے بڑا مزاحم ملک پاکستان ہے۔ علاقائی چوہدری بننے کی خواہش ہو یا اکھنڈ بھارت کا جنون، بھارت اپنے ان عزائم کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اکیسویں صدی میں بین الاقوامی ماحول بھی ایسے عزائم کے لیے سازگار اور معاون نہیں ہے۔ بھارت کو امریکا اور کئی یورپی ممالک کی جانب سے سیاسی، اقتصادی، ٹیکنالوجی اوردیگر شعبوںمیں تعاون مل رہا ہے۔ ان ملکوںکی حمایت ملنے پر بعض بھارتی پالیسی ساز شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اکھنڈ بھارت یا ہندوتوا کے ایجنڈے پر اندرون بھارت خاموشی سے عمل کرلیں گے۔

مغرب کی جانب سے بھارت کو ملنے والی حمایت کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور یورپ کی چین کے ساتھ مسابقت ہے۔مغرب چاہتا ہے کہ چین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور چین کے پڑوس میں ایک ملک کو طاقتور بنایا جائے۔ بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ بھی ہے چنانچہ اپنے خاص ایجنڈے کے تحت امریکا چین کے پڑوسی ملک بھارت پرمہربان ہورہا ہے۔ امریکا کی بھارت پر آج کل کی مہربانیوں کو افغانستان پر سوویت یلغار کے دوران پاکستان اور افغان مجاہدین پر امریکی اور یورپی مہربانیوںسے کچھ مشابہہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ملکوں کے درمیان تعلقات میں بنیادی فارمولہ یہ ہے کہ یہ تعلقات ملکوں کے باہمی مفادات پر قائم ہوتے ہیں تاہم بعض جگہ اس فارمولے میں استثنیٰ بھی نظر آتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال امریکا اور اسرائیل کے درمیان مخصوص تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل تو امریکا کا بہت لاڈلا بچہ ہے۔

اسرائیل ناراض نہ ہوجائے اس کی خاطر امریکا کئی عرب اور اسلامی ممالک کو ناراض کرسکتا ہے بلکہ اسرائیل کے مفاد اور تحفظ کی خاطر امریکا ان ممالک کو آنکھیں بھی دکھا سکتا ہے۔7جون 1981 کو اسرائیل کے بمبار طیاروں نے کئی ملکوں کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغداد کے قریب عراق کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا اور عراق کے جوہری پروگرام کو تہس نہس کردیا تھا۔اس وقت امریکا یا یورپی ممالک نے اسرائیل کے اس اقدام کو ایک آزاد اور خود مختار ملک عراق پر جارحیت قرار نہیں دیا تھا۔ اسرائیلی طیاروں کا آپریشن اوپیرا نامی یہ حملہ اسرائیل کے سرپرست ملکوں کے تعاون کے بغیر ممکن تھا؟

قوموں کی برابری میں مخلصانہ یا برادرانہ تعلقات کی اور بھی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ان میں چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھی بہترین تعلقات کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ایک اور اہم مثال پاکستان اور ترکی کے درمیان برادرانہ تعلقات کی ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے تعلقات بھی مخصوص تعلقات کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ چند مثالیں اپنی جگہ بہرحال عمومی طور پر ملکوں کے درمیان تعلقات دوطرفہ باہمی مفادات کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔


بھارت پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھارتی منصوبہ ہمارے لیے انتہائی سنجیدہ غوروفکر اورکما حقہ ردِ عمل کا متقاضی ہے۔ اس وقت بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد سے حواس باختہ ہے۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر بھارت کو سخت ناپسند ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کو اندرون ملک اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا ہے۔

بھارت میں عیسائیوں، مسلمانوں اور ہندوؤں کی نچلی ذات دلتوں کے ساتھ ہونے والی امتیازی کارروائیاں بلکہ مظالم عالمی برادری کی توجہ حاصل نہ کرپائیں ۔ اس کے لیے بھی بھارت عالمی منظر نامے پر پاکستان کو ہی رکھنا چاہتا ہے۔ CPEC کی تعمیر سے امریکا اوردیگر کئی ممالک بھی خوش نہیں ہیں۔ ان ناخوش ممالک میں پاکستان کے مغرب میں واقع بعض ممالک بھی شامل ہیں۔ان ممالک میں CPEC کی مخالفت کو بھارت نہایت ہوشیاری سے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔

سفارتی تعلقات کے حوالے سے ہم پاکستانیوں کو کسی جذباتیت یا رومانویت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے اسرائیل سے اپنے حقوق مانگنے والے فلسطینی عوام کی ہر فورم اور ہر سطح پر بھرپور حمایت کی۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد کی حمایت میں پاکستان کو اسرائیل اور دنیا بھر میں اسرائیل کی حمایتی لابی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فلسطینی عوام کی حمایت کی پاکستان نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔ اس حمایت کی وجہ سے دنیا بھر میں اسرائیلی لابی پاکستان کی مخالف بنی اور اس مخالفت کا فائدہ پاکستان کے دشمن ملک بھارت نے خوب اُٹھایا۔

آئیے! اب ان تعلقات کا ایک دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر پاکستان نے اپنے کئی مفادات داؤ پر لگاتے ہوئے عرب ممالک کے ساتھ ہم آہنگی اورتعاون کا رویہ اختیار کیا لیکن مسئلہ کشمیر پر تمام عرب ممالک نے پاکستان کی دوٹوک حمایت نہیں کی۔ 70ء کے عشرے میں تو ایک عرب ملک عراق کا رویہ کھل کر پاکستان مخالف رہا۔ آج بھی جب کشمیری عوام بھارت کی سیکیورٹی فورسزکے مظالم سہہ رہے ہیں ، عرب ممالک کھل کر ان بھارتی مظالم کی مذمت نہیں کررہے۔ اس کے برعکس کئی عرب ممالک انتہا پسند بھارت کے وزیرِاعظم نریندر سنگھ مودی کی بہت عزت و احترام کے ساتھ پذیرائی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ اربوں ڈالرز کے سمجھوتوں پر دستخط کررہے ہیں۔

مسلم عرب ممالک میں بھارتی وزیرِاعظم کی عزت افزائی اور ان کے ساتھ سمجھوتوں کی وجہ جاننے کے لیے کسی بڑے فلسفی کا دماغ درکار نہیں، یہ بالکل سادہ سی بات ہے، عرب ممالک اپنے مفادات دیکھ رہے ہیں۔یہ ممالک اپنی پالیسیاں پاکستان یا کشمیری عوام کے حوالے سے نہیں بلکہ خالصتاً اپنے ملکی مفاد کے پیشِ نظر بناتے ہیں۔ ہمیں ان عرب ممالک سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔

ہمارے عوام کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ دو ملکوں کے درمیان دوستی جذباتیت اور رومانیت پر نہیں ہوتی۔ بین الممالک دوستی کی بنیادیں خالصتاً مادی مفادات پر ہوتی ہیں۔ مفادات کا ٹکراؤ ہوجائے تو ناصر ف یہ کہ تعلقات خراب ہوجاتے ہیں بلکہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے ممالک کے درمیان جنگ کی نوبت تک آسکتی ہے۔ دو مسلمان ممالک عراق و ایران کے درمیان ہونے والی جنگ 1980 سے 1988 تک جاری رہی۔ اس کے علاوہ عراق کا کویت پر0 198 میں حملہ اور قبضہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اس سے چند دہائی قبل پہلی اور دوسری عالمی جنگیں عیسائی مذہب کی پیروکار یورپی اقوام کے درمیان ہوئی تھیں۔

بھارت اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کو خوش گمانیاں اور بیجا توقعات سے ہٹ کر حقائق کی بنیاد پر اپنا ایجنڈا طے کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج کی کامیابیوں کو دنیا بھر میں تحسین کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دفاعی لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سفارتی اور سیاسی لحاظ سے پاکستان کی حکومت اور وزارت خارجہ کو درست سمتوں کے تعین اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیارکرنے اور سفارتی سطح پر سخت محنت کی ضرورت ہے۔
Load Next Story