راے ونڈ مارچ کے بعد

رائے ونڈ میں پانامہ لیکس پراحتجاجی جلسہ کرنے کافیصلہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

GUJRAT:
رائے ونڈ میں پانامہ لیکس پراحتجاجی جلسہ کرنے کافیصلہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا، لیکن عمران خان نے نہ صرف یہ کہ یہ انتہائی مشکل فیصلہ کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہناکے بھی دکھا دیاہے ۔ متحدہ اپوزیشن اورطاہر القادری نے یہ کہہ کے ان کاساتھ دینے سے انکارکردیاکہ راے ونڈ میںاحتجاجی جلسہ کرنے کامطلب شریف فیملی کے گھروں کاگھیراؤکرناہے، لہٰذا وہ راے ونڈ مارچ میں شامل نہیں ہوںگے۔

حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اوراب یہ چیزثابت بھی ہوگئی ہے۔ راے ونڈ مارچ پرچوہدری شجاعت حسین کی جانب سے تحفظات ظاہرکیے جانے کے بعدعمران خان نے یہ یقین دہانی کرادی تھی کہ ان کاارادہ کسی کے گھرکاگھیراوکرنے یااس پرحملہ کرنے کا نہیں، جیساکہ تاثرپھیلایا جارہاہے، بلکہ مقصد صرف وزیراعظم پرسیاسی دباوبڑھانا ہے، جوان کاآئینی، قانونی اورجمہوری حق ہے۔ یوں بھی اسلام آبادکے علاوہ وزیراعظم کی جن رہایش گاہوں کوباضابطہ طورپر'وزیراعظم ہاوس' ڈکلیئرکیاگیاہے، ان میں رائے ونڈ فارم بھی شامل ہے اورپچھلے تین سال میں وزیراعظم کی سرکاری سرگرمیوں کامرکزعملی طورپر راے ونڈفارم ہی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس یہاں ہوتے رہے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوبھی لاہور ائرپورٹ سے سیدھاراے ونڈفارم ہی لایاگیاتھااوریہیں سے واپس روانہ کیاگیاتھا۔ راے ونڈ فارم کی یہ وہ خاص سرکاری اورعلامتی حیثیت؎ہے، جس کی وجہ سے عمران خان اس کے آس پاس احتجاجی جلسہ کرناچاہتے ہیں۔عمران خاں کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائے جانے کے ق لیگ کے لیے راے ونڈ جلسہ میں پارٹی وفد بھیجنے میں کوئی امرمانع نہیں ہوناچاہیے تھا۔ راے ونڈ مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی طاہرالقادری جس طرح روٹھ کرلندن جابیٹھے،اس کابھی کوئی جوازنہیں تھا،کیونکہ چند ہی دن پہلے وہ بھی راے ونڈ مارچ کے لیے اپنے کارکنوں سے عہد لے رہے تھے۔ پھرجب پی ٹی آئی کی جانب سے ان سے رابطہ قائم کیاگیا، توکہاگیا کہ اس کی ایک ہی صورت ہے ۔

عمران خان ان کے گھرآئیں گے، ان کے ساتھ رائے ونڈمارچ کی نئی تاریخ کے لیے مشاورت کریں گے، جس کے بعد عمران خان اورطاہرالقادری ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں راے ونڈمارچ کااعلان کریں گے۔طاہرالقادری نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ان کی 'تحریک قصاص' کوجس پولیٹیکل کورکی ضرورت ہے، وہ چوہدری برادران کے بعدعمران خان ہی ان کودے سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اوراپوزیشن کی باقی پارٹیاں ان کی سیاسی طورپرکوئی اہمیت دینے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ یہ اطلاعات بھی ہیںکہ رائے ونڈمارچ کے لیے رابطہ کیے جانے پرآیندہ الیکشن میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے درمیان انتخابی ایڈجسٹمنٹ کوبھی ایجنڈے پرلانے کی خواہش ظاہرکی گئی۔ اس پرراے ونڈمارچ کے لیے عمران خان اورطاہرالقادری کے درمیان بالواسطہ رابطے بالکل ہی منقطع ہوگئے۔

عمران خان نے اس تناظرمیں ہی ہلکے پھلکے انداز میں کہاکہ وہ راے ونڈ مارچ اپنے کسی ذاتی مسئلہ کے لیے نہیں، بلکہ ایک قومی مسئلہ کے لیے اپنی سیکیورٹی کوخطرے میں ڈال کرجارہے ہیں۔طاہرالقادری اگر نہیں جاناچاہتے توان کی مرضی ۔ وہ ان کو مجبور نہیں کرسکتے ہیں ۔ اس طرح دھرنا تحریک کے دنوں میں چوہدری برادران کی سیاسی وضعداری نے طاہرالقادری کوجس غلط فہمی میں مبتلاکردیا تھا، عمران خان نے پہلے ہی جھٹکے ہی میں ان کی یہ غلط فہمی دورکردی۔

عمران خان نے اس کے بعد طاہرالقادری کواس بری طرح نظر اندازکیاکہ راے ونڈمارچ میں سانحہ ماڈل ٹاون کاذکر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ق لیگ اورعوامی تحریک کے برعکس پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے باقاعدہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت راے ونڈ جلسہ میں شرکت نہیں کی۔ لیکن اپوزیشن کے عمران خان کو اس طرح تنہا چھوڑدینے کا نقصان آخرکار اپوزیشن ہی کوپہنچا ہے۔راے ونڈمارچ کے بعد عمران خان حکومت کے خلاف واحد اور بہت طاقت اور اپوزیشن لیڈرکے طورپر سامنے آئے ہیں، اور کسی بھی مسئلہ پر متحدہ اپوزیشن کی عمران خان کے ساتھ بارگیننگ کی پوزیشن بہت کمزورہوگئی ہے۔

راے ونڈمارچ کی راہ میں یہی مشکل نہ تھی کہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کردی تھی، وفاقی اور پنجاب حکومت نے بھی اس کوروکنے کے لیے ایڑی چوٹی کازورلگایا۔یہ منفی تاثرپھیلاکرکہ عمران خان وزیراعظم کے گھرپرحملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں، ن لیگ کے عہدے داروں اورحامیوں کی طرف سے ڈنڈابردارجلوس نکالے گئے، یہ دھکمیاں دی گئیں کہ جو بھی رائے ونڈکی طرف رخ بھی کرے گا، اس کی ٹانگیں توڑدی جائیں گی ،اس پرانڈے ٹماٹراورپتھربرسائے جائیں گے۔ جب یہ حربہ بھی کامیاب ہوتانظرنہ آیاتوعمران خان اوران کے دست راست شیخ رشیدتک سرکاری طورپریہ اطلاعات پہنچائی گئیں کہ ان کی زندگیوں کوسخت خطرہ ہے۔


سرکاری ذرایع ابلاغ کے ذریعے اس طرح کی افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ مارچ کے دوران دہشت گردی کی مصدقہ اطلاعات ہیں ۔اس اثنا میں کہ راے ونڈمارچ کی تیاریاں عروج پرتھیں ،پاک بھارت سرحدپرحالات ظاہراً اتنے کشیدہ ہوگئے کہ جیسے جنگ شروع ہواچاہتی ہے۔مارچ سے دوروزپہلے بھارت نے پاکستان کے اندرآکرسرجیکل سڑائیک کرنے کاجھوٹادعویٰ بھی کردیا۔ جس کے بعدحکومت اوران کے حامی سیاست دانوں یہ کہناشروع کردیاکہ ایسے نازک وقت میں، جب کہ سرحدوں پرجنگ کے بادل منڈلارہے ہیں، عمران خان کوراے ونڈ مارچ ملتوی کردیناچاہیے۔

عمران خان کی جگہ کوئی اورسیاست دان ہوتاتواس سے یہ دباؤبرداشت نہیں ہوناتھا،اس نے مارچ ملتوی دیناتھااورآج اپنے زخم چاٹ رہا ہونا تھا۔عمران خان نے اس موقع پرمگربڑی دلیری اورکمال ذہانت کاثبوت دیااورکہاکہ راے ونڈجلسہ بہرصورت30ستمبرکوہوگا، البتہ اب وہ اس میں نوازشریف کے ساتھ ساتھ نریندرمودی کو بھی مخاطب کریں گے کہ نوازشریف حکومت کے خلاف احتجاج اپنی جگہ، لیکن بھارتی جارحیت کی صورت میں پوری قوم پاکستانی فوج کے پیچھے متحدہوگی۔اس طرح انھوں نے سرحدی صورتحال کے تناظرمیں حکومت کی جانب سے دی گئی دلیل کو اس پر واپس پھیر دیااور راے ونڈ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ سرگرم ہوگئے، یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ راے ونڈمیں عمران خان اوران کی پارٹی ایک بارپھرستمبر2011 ء کے مینارپاکستان جلسہ کے مقام پرکھڑی نظر آئی ہے ۔

راے ونڈمارچ سے عمران خان کاخطاب ان کی سیاسی زندگی کابہترین خطاب تھا۔اس میں وہ سب کچھ تھا، جس کی اس طرح کے پرجوش عوامی جلسہ میں کسی عوامی اپوزیشن رہ نما سے توقع کی جاسکتی ہے۔ عمران خان نے جہاں نوازشریف کے خلاف پانامہ لیکس پراپنے موقف کودہرایااور ان کے احتساب کامطالبہ کیا، وہاں نریندرمودی کے جارحانہ عزائم پربھی مدبرانہ تنقید کی اوران پرواضح کردیاکہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیرپاکستان اوربھارت میں پائیدارامن کاقیام ناممکن ہے۔

آخر میں نہایت دوٹوک لہجہ میں اپنے اس عزم کااظہارکیاکہ پانامہ لیکس پرحکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں ہوگااوریہ کہ اگراگلے ایک مہینہ میں بھی نوازشریف اوران کے خاندان کے احتساب کے لیے کارروائی شروع نہ کی گئی تومحرم کے بعد وہ ایک بارپھراسلام آباد کارخ کریں گے۔ عمران خان سے پہلے شیخ رشید، جہانگیرترین اور پرویز خٹک نے جو جذباتی تقریریں کی، وہ یہ ظاہرکرنے کے لیے کافی تھیںکہ روز روزکے احتجاجی جلسوں سے پی ٹی آئی کاپیمانہ صبرلبریز ہونے لگاہے اوراب وہ جلدازجلداپنی احتجاجی تحریک کوکسی نہ کسی منطقی انجام تک پہنچاناچاہتی ہے۔ چنانچہ عمران خان کوکہناپڑاکہ پانامہ لیکس پرراے ونڈ کا یہ جلسہ آخری احتجاجی جلسہ ہے اوراب جوہوگا، وہ جلسہ نہیں کچھ اور ہوگا۔

انھوں نے اس کے لیے جوالفاظ استعمال کیے، وہ بہت سخت پیغام لیے ہوئے ہیںکہ محرم کے بعداسلام آباد کو بند کردیں گے۔ امکان یہی ہیں کہ دھرنامارچ کی ان کی اتحادی پارٹیاں ق لیگ اورعوامی تحریک بھی کسی نہ کسی اندازمیںان کے ہمراہ ہوں گی کہ راے ونڈ مارچ میں ان کی عدم شرکت کی پالیسی کوان کی پارٹیوں میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔اسلام آباد مارچ کے اعلان سے یہ چیز بھی واضح ہوگئی کہ جوحکومتی ذرایع یہ باورکرارہے تھے کہ ستمبرمیں نئے آرمی چیف کے لیے فائل متحرک ہوتے ہی پانامہ لیکس پرعمران خان کی احتجاجی تحریک دم توڑ دے گی، وہ غلطی پرتھے۔ اگرچہ راولپنڈی اسلام آباد سے اس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں کہ پانامہ لیکس کاتنازع موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی کسی نہ کسی انداز میںحل ہوجائے گا۔

راے ونڈمارچ کی کامیابی سے حکومت کتنے دباؤ میں آگئی ہے،اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپیکرقومی اسمبلی ایازصادق جنھوں نے پانامہ لیکس پر نوازشریف کے خلاف عمران خان کاریفرنس الیکشن کمیشن میں بھیجنے سے حتمی طورپرانکارکردیاتھا،اورکہا تھاکہ اس میں وزیراعظم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے؛ راے ونڈمارچ کے اگلے ہی روز جب کہ اس روزسرکاری تعطیل بھی تھی، یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کوبھجوادیاہے۔ پانامہ لیکس پرعمران خان کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور کی جاچکی ہے ۔ الیکشن کمیشن میں وزیراعظم کے خلاف بھجوائی گئی پیٹیشن کا محرم کے دوران میں نمٹنے کاکوئی امکان نہیں۔ لہٰذااب پانامہ لیکس پر عمران خان اور ان کے کارکنوں کی نظریں اس پٹیشن کے فیصلے پر لگی ہیں۔ شاعر نے کہا تھا،

حضور یار ہوئی دفترِجنوں کی طلب

گرہ میں لے کے گریباں کاتارتارچلے
Load Next Story