جواب حاضر ہے

حکومت کی طرح بھارت کے صحافی بھی کشمیر پر بھارت کے ناجائز تسلط کی حمایت کرتے ہیں

SHANGHAI:
بھارتی صحافی کلدیپ نیئر نے ایک بار پھر اپنے کالم میں جو دو ستمبر میں ترجمہ شدہ اسی اخبار میں ادارتی صفحے پر شایع ہوا ہے ،کشمیر میں اپنے جانے اور وہاں کے مختلف شعبہ زندگی کے افراد سے ملنے کے بعد جو تاثرات انھوں نے دیے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان یا بھارت (جو چاہے کرلیں نیت تو ایک ہی ہے اس ملک کی، مسلمانوں اور دوسروں کا استحصال) اپنے ان قوانین کو ختم کردے جن سے کشمیریوں پر مظالم کیے جارہے ہیں یا کشمیریوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ وہ شیخ عبداللہ نہرو معاہدے کا ذکر کرتے ہیں جسے کشمیریوں نے کبھی قبول نہیں کیا اور اقوام متحدہ کے کشمیر میں استصواب رائے کے فیصلے کو قابل تحریر نہیں سمجھتے۔

دراصل حکومت کی طرح بھارت کے صحافی بھی کشمیر پر بھارت کے ناجائز تسلط کی حمایت کرتے ہیں ، وہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق کبھی نہیں لکھتے کہ اس سے اقوام متحدہ کی قرارداد جو بوسیدہ ترین ہے یاد آئے گی بلکہ عبداللہ نہرو معاہدہ اور تاشقند معاہدے کو زیادہ سے زیادہ ذکرکرلیتے ہیں جس سے بھارت کو فائدہ ہے۔

پاکستان کوکشمیر سے کوئی ایسا فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان ان کو زیر تسلط رکھنا چاہتا ہو، پاکستان نے کشمیر کی حفاظت کی ہے اور کشمیریوں کو ایک آزاد ماحول اور معاشرہ فراہم کیا ہے اور یہ تمام حکومتوں نے کیا ہے، یہ کشمیریوں سے محبت کا تسلسل ہے جو جاری ہے اور جاری رہے گا پاکستان نے کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہمیشہ کیا ہے آج بھی اس پر قائم ہے۔

ساری دنیا میں سب سے زیادہ جہاں ظلم ہوا وہ جگہ فلسطین اورکشمیر ہیں دونوں مسلمانوں کے علاقے ہیں اور دونوں جگہوں پر مذہب کے نام پر دوسرے لوگ یہاں کے رہنے والوں پر ظلم کرتے آئے ہیں اورکر رہے ہیں ۔اقوام متحدہ نے دونوں علاقوں کے بارے میں آنکھیں اورکان بند کر رکھے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ میں یا یہ لوگ جو ظلم کررہے ہیں خود ظالم ہیں، یا ظالموں کے آلہ کار ہیں۔ بھارت میں کوئی یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندو بھی محفوظ نہیں ہیں۔ رات دن ان کی جان، مال، آبرو کا استحصال کیا جاتا ہے۔

فلسطین میں اسرائیل کی شرمناک ظلم کی داستانیں دنیا جانتی ہے جو سربہ لب ہے کیونکہ دنیا کے اپنے مفادات ہیں اور دنیا اب چند طاقتوں کا ہی نام ہے۔ باقی تو ان کے زیر نگیں علاقے ہیں براہ راست یا بالواسطہ دنیا کے کسی ملک کا کوئی نام ہو وہ کہیں نہ کہیں رہن رکھا ہوا ہے عالمی طاقتوں کے علاوہ۔ بھارت ایک مضحکہ خیز پوزیشن میں ہے، بارود کے ڈھیر پر بیٹھا شخص دیا سلائی سے کھیل رہا ہے۔ کچھ ایسا منظر ہے بھارت کا، درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں اور مودی نے تو ظلم کے پہاڑ توڑ کر ان ٹھنڈی تحریکوں کو پھر بارود بنادیا ہے اور بہت سے علاقے بھارت سے آزادی کا سوچ رہے ہیں اور اس میں وہ کمزور نہیں ہیں بھارت کا زور ان علاقوں میں ٹوٹ چکا ہے۔

چاند پر سیٹلائٹ بھیجنے سے زمین پر امن قائم نہیں ہوتا، زمین کا دکھ ختم کرنے سے ہی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ بھارت انسانوں کی زندگی گزارنے کے طریقوں اور سہولتوں کے اعتبار سے غلیظ ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ دہلی، لکھنو سے بھارت نظر نہیں آتا نہ بنارس کان پور سے ہندو دھرم آشتی کا دھرم بنتا ہے، بھارت تمام تر زخم خوردہ ہے اندر سے اور الزام پڑوسیوں پر۔ بنگالیوں کو غلط فہمی ہے کہ بھارت ان کا دوست ہے ایک دن یہ غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی یا ہوگئی ہوگی مگر وہ کہہ نہیں سکتے۔ سازشی ٹولہ شکست کھا کر نظریے سے فتح کا اعلان کرتا ہے۔


کلدیپ نیئر نے کئی جگہ ایک بہت غلط بات لکھی ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے مگر کوئی لے گا نہیں کیونکہ ہماری حکومت تو مودی کی میزبان ہے اور مہمان نے مہمان داری کے بعد چھرے گھونپ دیے میزبان کی قوم کے سینے اور کمر میں۔ کلدیپ صاحب نے لکھا بھارت پہلے ہی قیام پاکستان کے تلخ تجربے سے گزر چکا ہے اور اسے پاکستان کی آزادی کا قلق ہے۔

یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ قیام پاکستان کے لیے ہندو مسلم جماعتوں نے مشترکہ جدوجہد کی تھی اور اگر پاکستان کا قیام مقصود تھا تو بھارت کی آزادی بھی اس کے ساتھ مشروط تھی۔ بھارت کی آزادی کے لیے مسلم لیگ کی جدوجہد کو نظرانداز کرنا اور قیام پاکستان کے مقصد کے حصول کو بھارت کا قلق قرار دینا بہت بڑی صحافتی بددیانتی ہے۔

پاکستان کے قیام کو صدی کا دوسرا حصہ گزر رہا ہے اور اس وقت اسے ہندوستان کا قلق قرار دینا اور پاکستان میں سے پاکستان کے کچھ غداروں کی ایسی ہی آوازوں کا ابھرنا ایک سوچا سمجھا حساب کتاب لگتا ہے ۔ وہ کشمیریوں کو تیسرے آپشن کی طرف مائل دکھا رہے ہیں اورکوشش کررہے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو اور پاکستان کے پرچم کو کشمیریوں میں پسند کو چھپا سکیں۔ مگر وہ بھول گئے اور نہ جانے کیسے بھول گئے کہ اب 1857 نہیں ہے 2016 ہے۔ سب کچھ نظر آتا ہے اور فوراً نظر آتا ہے۔

دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ گائے کا پیشاب پینے اور دوسروں کو پلانے پر مجبور کرنے والوں پر بھی تو کبھی آپ کا قلم کچھ لکھے، کیا بھارت میں امن کی بانسری بج رہی ہے چین کا راج ہے۔ جی نہیں لاوا ابل رہا ہے، پاکستان کی فکر چھوڑیں یہ مملکت خداداد پاکستان ہے خدا اس کا نگہبان ہے آپ بھارت کی فکر کریں۔ بھارت کے ایجنٹوں کو تو ہم چن چن کر ختم کردیں گے اپنی افواج کے ذریعے کہ جس سے زیادہ محب الوطن کوئی فوج نہیں دنیا بھر میں۔

کشمیر پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے یعنی قیام پاکستان اور حصول پاکستان کا جسے خودکشمیری جانتے اور مانتے ہیں۔ کشمیری جس طرح رہنا چاہیں پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ کبھی نہ کبھی وہ علاقے بھی آزاد ہوں گے جو پاکستان کا حصہ تھے تقسیم کے اعتبار سے اور بھارت نے فوج کشی کرکے ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ تاریخ اپنا راستہ خود تلاش کرلیتی ہے اور دن بہ دن بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان کے نشیب وفرازگنے جاچکے اب بھارت کی باری ہے اور یہ کام وہ خود کر رہا ہے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار کر۔

امریکا نے سوائے اپنے کسی کا آج تک ساتھ نہیں دیا۔ ایک بار پھر اس کے شبھ قدم آپ کے گھر پہنچ گئے ہیں کلدیپ ! نئے سوداگر پرانا لباس پہن کر ہی آئے ہیں یا اسے الٹا کرلیجیے لٹیا بہرحال آپ کی ہی ڈوبنی ہے۔ آپ نے روس سے افادہ حاصل کرکے اس کے دشمن سے دوستی کرلی ہے۔

یہ سب دھوکا ہے اور سب سے بڑا دھوکہ اب بھارت نے کھایا ہے پاکستان دشمنی میں۔ اور یہ دھوکہ اسے وہاں پہنچا دے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ بنیے اور یہودی میں کون زیادہ چالاک ہے اور کون کس کو زک دینے میں کامیاب ہوگا۔ امریکا پر یہودیوں کا غلبہ ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بس ہمارے لیے ہماری آزادی بہت اہم ہے اور جب اس پر اعتراض ہوگا جواب ضرور دیا جائے گا۔ جواب حاضر ہے!
Load Next Story