بھارتی فضائیہ کا رافال طیارہ

کیا یہ پاکستانی جنگی طیاروں کو زیر کرسکے گا؟

کیا یہ پاکستانی جنگی طیاروں کو زیر کرسکے گا؟ : فوٹو : فائل

دور جدید کی ہائی ٹیک جنگوں میں فضائی فوج فیصلہ کن مقام حاصل کرچکی۔ جس ملک کے پاس زیادہ جدید جنگی جہاز ہوں، وہ جیتنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ یہی امر مدنظر رکھ کر آج ہر ملک فضائیہ کو بہترین جنگی طیاروں سے لیس کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے پڑوسی، بھارت ہی کو لیجیے جس نے حال ہی میں فرانس سے 36 ڈیسالٹ رافال (Dassault Rafale) خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ جنگی جہاز بھارتیوں کو 8.9 ارب ڈالر (تقریباً نو کھرب روپے)میں پڑے ہیں۔

ماضی میں بھارتی فضائیہ کے بیشتر جنگی جہاز سویت یونین ساختہ تھے۔ جب سویت یونین کو زوال آیا، تو بھارت، فرانس اور برطانیہ کی سمت بھی متوجہ ہوا۔ تاہم اب بھی اس کے اکثر جنگی جہاز روسی ساختہ ہیں۔ ان میں سخوئی ایس یو 30MKI (242)، مگ۔(69)29، مگ۔(120)27 اور مگ۔(245)21 شامل ہیں۔ ان روسی ساختہ بھارتی طیاروں کی کل تعداد 676 بنتی ہے۔

1999ء میں کارگل جنگ کے دوران شاہینوں سے مارکھانے کے بعد بھارتی فضائیہ کو احساس ہوا کہ اس کے جنگی جہاز فرسودہ ہوچکے۔ چناں چہ اس نے اپنی حکومت سے نئے جہاز خریدنے کا مطالبہ کیا۔ اسی زمانے میں بھارتی فضائیہ کا یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ وہ 45 اسکوارڈن کھڑے کرنا چاہتی ہے۔ ہر سکوارڈن میں 18 جنگی جہاز ہوتے ۔ تاہم بھارتی حکومت نے صرف 42 اسکوارڈن بنانے کی منظوری دی۔

2000ء میں بھارتی حکومت اپنی فضائیہ کے لیے جدید ترین جنگی طیارے خریدنے کی خاطر سرگرم ہوئی۔ چناں چہ طیاروں کی جانچ پرکھ کا مرحلہ دراز ہوتا چلاگیا اور اس کا کوئی انت نظر نہ آتا۔ دوسری سمت بھارتی فضائیہ دقیانوسی ہوجانے والے اپنے جنگی طیارے ریٹائرڈ کرتی رہی۔ بہت سے جنگی طیارے تباہ بھی ہوگئے۔ خصوصاً مگ۔21 تو بھارتی پائلٹوں میں ''اڑتا تابوت'' (flying coffin) کے نام سے مشہور ہوگیا۔آخر2011ء میں کہیں جاکر طے پایا کہ فرانس سے رافال خریدے جائیں۔ مگر اب قیمت کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ فرانسیسی 126 طیارے 8.5 ارب ڈالر میں فروخت کرنا چاہتے تھے۔ بھارتی حکمرانوں کی نظر میں یہ رقم بہت زیادہ تھی۔ چناںچہ رافال خریدنے کا معاملہ لٹک گیا۔

2014ء میں نریندر مودی برسراقتدار آئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ بھارتی افواج کو جدید ترین بنانے کے لیے حکومت اگلے پندرہ بیس برس میں ''100 ارب ڈالر'' خرچ کرے گی۔ موصوف پر علاقائی سپرپاور بننے کا بھوت سوار ہے۔اسی باعث جناب مودی بھول گئے کہ بھارتی میں کروڑوں بھارتی غربت وافلاس کی زندگی گذار رہے ہیں۔ان کی قسمت بدلنے کے لیے اسلحہ نہیں معاشی ترقی درکار ہے۔نئے حکمران کو بتایا گیا کہ تینوں افواج میں بھارتی فضائیہ سب سے زیادہ لاغر ، کمزور اور توجہ کی محتاج ہے۔ جنگی طیاروں کی ریٹائرمنٹ کے سبب اس کی طاقت محض 31 یا 32 اسکوارڈنوں تک رہ گئی تھی اور بیشتر اسکوارڈن تیزی سے پرانے ہوتے روسی طیاروں پر مشتمل تھے۔ مودی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسی ناگفتہ بہ حالت میں چینی فضائیہ تو دور کی بات ہے، بھارتی فضائیہ پاکستانی فضائیہ کا بھی بمشکل مقابلہ کرپائے گی۔

یہ سن کر مودی نے فوراً جدید ترین جنگی جہاز خریدنے کے لیے اعلی سطح اجلاس بلالیا۔ اس اجلاس میں مختلف جنگی طیارے زیر غور آئے۔ مودی اور اس کے ''عقابی''دستے کو سب سے زیادہ رافال پسند آیا... کیونکہ وہ ایٹمی میزائل بھی چھوڑ سکتا ہے۔ چناں چہ یہی جنگی جہاز خریدنے کا فیصلہ ہوگیا۔ رافال 4.5 جنریشن کا ایک عمدہ طیارہ ہے۔ کئی اقسام کا اسلحہ لے جاسکتا ہے۔ اس میں سیکڑوں جدید ترین آلات نصب ہیں۔ یہ فضائی جنگ کا یقیناً جدید ترین ہتھیارہے۔ اسی لیے معاہدہ ہوا، تو بہت سے عام بھارتی خوشی سے بغلیں بجانے لگے۔ انہوں نے سوشل میڈیا میں زور دار بڑھکیں ماریں اور دعوی کیا اب پاک فضائیہ ہمارے سامنے ناک رگڑے گی۔

افسوس ان بھارتیوں کی آنکھوں پر جہالت کی پٹی بندھی ہے۔ ان آنکھوں والے اندھوں کو کوئی سمجھائے کہ ارے صرف چار پانچ سال قبل بھارت کو ''126'' رافال طیارے 8.5 ارب ڈالر میں مل رہے تھے۔ اب ان کے حکمرانوں نے اس سے بھی زیادہ رقم سے محض ''36'' رافال خرید کر کون سا کارنامہ انجام دیا ؟یہ حقیقت تو بھارتی حکمرانوں کی غفلت، کوتاہی اور بے پرواہی نمایاں کرتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ بھارتی فضائیہ کو چھتیس ماہ بعد سبھی رافال ملیں گے۔ تب تک نجانے کتنے مگ۔21 پر ''نمبر پلیٹ'' (ریٹائر ہونے کی بھارتی سرکاری اصطلاح) لگ جائے۔

اہم نکتہ یہ کہ 36 رافال سے صرف دو اسکواڈرن کھڑے ہوں گے۔ گویا ان فرانسیسی جنگی جہازوں کی آمد سے بھارتی فضائیہ بدستور عددی لحاظ سے کمزور ہی رہے گی۔ گو پاک فضائیہ پر اسے کسی حد تک برتری مل جائے گی، مگر وہ چینی فضائیہ کا پھر بھی مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یاد رہے، ابھرتی معاشی طاقت بننے کے بعد بھارتی حکمران اب اپنی عسکری صلاحیتوں کا موازنہ چین سے کرنے لگے ہیں۔


جیسے ہی رافال بھارت کو ملنے کی خبر عام ہوئی، سوشل میڈیا پر خصوصاً بہت سے پاکستانی اور بھارتی ایک دوسرے کے جنگی جہازوں کا تقابلی جائزہ لینے لگے۔ اس ضمن میں یہ پہلی بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ علاقائی عسکری سپرپاور بننے کا خواہش مند ہے۔ اسی لیے پاکستان کی سبھی جنگی پالیسیاں دفاعی نقطہ نظر سے بنائی جاتی ہیں۔ افواج پاکستان کا اولیّں مشن یہ ہے کہ دفاع وطن کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے۔

یہ وژن سامنے رکھ کر ہی افواج پاکستان ایسے ہتھیار خریدتی ہیں جو دفاعی جنگ میں بہترین ثابت ہوں۔ چناںچہ پاک فضائیہ کے بیشتر جنگی جہاز ''ملٹی رول'' ہیں... یعنی وہ دوران جنگ دفاع میں کام آئیں اور ضرورت پڑے، تو حملہ بھی کرسکیں۔ ان ملٹی رول جہازوں میں جے ایف۔17 (250)، ایف۔(76)16 اور میراج(80)111 شامل ہیں۔ پاک فضائیہ کا میراج۔(85)5 اٹیک یا حملہ آور طیارہ ہے جبکہ ایف۔(193)7 دشمن طیاروں کو روکنے (Interceptor ) کی بنیادی صلاحیت رکھتا ہے۔

جے ایف17- اور ایف۔ 16 ،دونوں جنگی طیاروں کی چوتھی نسل یا فورتھ جنریشن کے جہاز ہیں۔ تاہم پاکستان اور چین مل کر جے ایف۔17 کا تیسرا نمونہ (بلاک3) تیار کررہے ہیں جو 4.5 جنریشن کا ہوگا۔ اس میں پچھلے دو نمونوں کی نسبت زیادہ جدید آلات نصب ہوں گے۔اس کی شمولیت پاک فضائیہ کو خاصی حد تک بھارتی فضائیہ کے ہم پلہ بنا دے گی۔

بھارت کے سخوئی 30MKI اور رافال، دونوں ہوائی برتری (Air superiority) قائم کرنے والے جنگی جہاز ہیں۔اس قسم کے جنگی طیارے حریف کی فضائی حدود پر قابض ہونے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ایسے طیاروں میں امریکی ایف۔15، ایف۔ 22 اور چین کے بنے شین یانگ جے۔11 اور شین یانگ جے۔15 شامل ہیں۔پاکستان کسی ملک پر جارحیت نہیں کرنا چاہتا، اس لیے پاک فضائیہ کی بنیادی ضرورت ایسے جنگی طیارے ہیں جو بہترین دفاع کرسکیں۔ اگرچہ ضرورت پڑنے پر پاکستان چین سے شین یانگ جے۔11 یا جے۔15 خرید سکتا ہے۔ پاک فضائیہ میں شمولیت سے یہ طیارے برصغیر کی فضاؤں میں بھارتی فضائیہ کی برتری خاصی حد ختم کردیں گے۔

فی الوقت تو بھارتی فضائیہ زیادہ جنگی جہاز رکھنے کے باوجود پاکستانی فضائیہ کے ہم پلہ نہیں... وجہ یہ کہ بھارتیوں کے بیشتر طیارے دقیانوسی اور فرسودہ ہوچکے۔ بھارتی انہیں ''نمبر پلیٹ'' لگا کر ریٹائرڈ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی جگہ ملکی ساختہ جنگی طیارے، تیجاس(HAL Tejas) کو لانا مقصود ہے۔تیجاس بھی فورتھ جنریشن سے تعلق رکھنے والا جدید طیارہ ہے۔ تاہم بھارتی 1983ء سے اس طیارے کو تیار کررہے ہیں اور تیتس سال گزر جانے کے باوجود وہ بھارتی فوج میں شامل نہیں ہوسکا۔ تیجاس کا معاملہ بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سستی اور نااہلی کی منہ بولتی تصویر ہے۔

مزید برآں رافال کی شمولیت بھارتی فضائیہ کے لیے ایک لحاظ سے دردسر بھی بن جائیگی۔ وجہ یہ کہ بھارتی فضائیہ اپنے متنوع جنگی جہازوں کے پرزہ جات و آلات روس، سابقہ روسی ریاستوں، امریکا، فرانس اور برطانیہ سے خریدتی ہے۔ چناں چہ بھارتی فضائیہ کا لاجسٹک کام بہت پھیلا ہوا ہے۔ اب اس بکھیڑے میں رافال بھی شامل ہوجائے گا جو اپنے مخصوص اور زیادہ بڑے مطالبے رکھتا ہے۔

بھارتیوں کا دعویٰ ہے کہ تیجاس ملکی ساختہ طیارہ ہے۔ مگر اس طیارے کے 60 فیصد پرزہ جات، ہتھیار اور دیگر سامان مختلف ممالک سے خریدے گئے ہیں۔ گویا لاجسٹک اعتبار سے یہ خود ساختہ ملکی طیارہ بھی بھارتی فضائیہ پر بوجھ بن جائے گا ۔مذید براں بھارتی میڈیا کی رو سے بھارتی فضائیہ کے اعلیٰ افسر صرف 36 رافیل خریدنے پر خوش نہیں۔ ایک ریئر ایڈمرل نے اخبار، انڈین ایکسپریس کے نمائندے کو بتایا:

''ہمیں ایک محنتی گھوڑا (workhorse) درکار تھا جسے ہم کہیں بھی استعمال کرسکیں۔ رافال تو ایک مہنگی مرسیڈیز کار کے مانند ہے۔ وہ عمدہ مصنوعہ تو ہے، مگر اسے خریدنے کی وجہ سے ہمارا بجٹ تلپٹ ہوگیا۔ چناں چہ ایسے چند طیارے ہی خریدے جاسکے جو بھارتی فضائیہ کو زیادہ طاقتور نہیں بناسکتے۔''

بہرحال نریندر مودی کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ بھارتی فضائیہ کو جدید طیاروں سے لیس کردے۔ لہٰذا امریکیوں سے ایف۔ 16 اور سویڈش حکومت سے گرپن جنگی طیارہ خریدنے کی بات چیت جاری ہے۔ تاہم مودی اپنے پائلٹوں کو شاید وہ جوش و ولولہ نہ دے سکے جو ''ڈاگ فائٹ'' کے دوران ہار یا جیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تاریخ شاہد ہے، کئی دلیر اور بہادر پائلٹوں نے ہلکے طیاروں میں بیٹھے ہونے کے باوجود دشمن کے زیادہ جدید طیارے مار گرائے۔ جب پائلٹ جوش و جذبے سے عاری، وژن سے محروم ہو، تو بعض اوقات جدید ترین آلات اور ہتھیار بھی اسے فتح دلوا نہیں پاتے۔1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھارتی پائلٹوں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا تھا۔ تب شاہینوں کی محض جھلک ہی بھارتی پائلٹوں کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیتی ۔
Load Next Story