ہاتف کی آواز
پاکستان کا ہر آنے والا وقت ایسا لگتا ہے کہ بدترین تصادم کی راہ اختیار کر رہا ہے۔
یک بہ یک طبل بجا فوج میں گرجے بادل
کوہ تھرّائے زمیں ہل گئی گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل
ملک برباد کرے گا یہ سیاسی دنگل
مندرجہ بالا مصرعے معروف مرثیہ نگار میر ببر علی انیس کے ہیں، مگر یہاں موقع کی مناسبت سے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر آنے والا وقت لگتا ہے کہ بدترین تصادم کی راہ اختیار کر رہا ہے۔ عزت مآب سرتاجِ جمہوریت کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ انھیں ان کے قصر سفید پارٹی ورکرز کا اجتماع کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دراصل یہ طبلِ جنگ کے مترادف ہے۔ اب یہ تصادم کہاں رکے گا، کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی یہ صریح خلاف ورزی ہے۔ کچھ سیاست دان جمہوریت کے راگ الاپ رہے ہیں اور پارلیمنٹ کو سپریم کہہ رہے ہیں کہ اسی کو قانون سازی کا اختیار ہے۔
واضح رہے کہ 1973ء کا متفقہ آئین نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما کی طرف سے اتفاق رائے کے نتیجے میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ شاید یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہوگی۔ مگر صد افسوس کہ اس آئین کی منظوری کے بعد جلد ہی بلوچستان پر فوج کشی کی گئی اور پھر بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد کی اسمبلی بھی توڑ دی گئی۔ یہ ناسور اس وقت سے رس رہا ہے اور اب یہ باقاعدہ کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جمہوریت کے لگائے ہوئے زخم مارشل لاء کے لگائے ہوئے زخموں سے کسی طرح بھی کمتر نہیں ہیں۔
اگر یہ پارلیمنٹ واقعی خود مختار ہے اور اسمبلی کے فیصلے اوّلیت رکھتے ہیں تو پھر سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے پر پارلیمانی کمیٹی کی وہ قرارداد کیا ہوئی کہ جس میں کسی شق کے پورے ہوئے بغیر نیٹو کی سپلائی لائن کھول دی گئی، عالمی افق پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ یہ گھن گرج یہ شور شرابا، یہ احتجاج کیا ہوئے۔ گویا یہ تمام اصول اس لیے بنائے جاتے ہیں اور قراردادیں اس لیے منظور ہوتی ہیں کہ اس کے پیچھے درپردہ سودے بازی، مفادات اور بعض مصلحتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، رہ گیا ذاتی طور پر نیٹو سپلائی کے متعلق اگر میری رائے ہے تو وہ یہ کہ ایسا قدم کیونکر اٹھایا جاتا ہے کہ جس کا انجام پسپائی اور پریشانی ہو۔
جب آپ بے دست و پا ہوں تو پھر اپنی حیثیت کے اعتبار سے ہی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اپنے تمام معروضی حالات کا تجزیہ ہونا چاہیے۔ اس سے ملک کی اسمبلی کی اصول پرستی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آئین میں مصلحت اور بعض معاملات کو پس پشت ڈالنے کے عنصر پوشیدہ ہوتے ہیں مگر اسمبلی جس انداز میں متحرک ہے، اس کا آخری انجام جمہوریت کشی کے مترادف ہے۔ آج سے 40 سال قبل کہے گئے حبیب جالب کے یہ اشعار قابلِ غور ہیں۔
دیپ جن کے محلات ہی میں جلے
اور سائے میں ہر مصلحت کے پلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
لہٰذا کیا اسمبلی کی متفقہ قراردادوں اور مسودوں کا اطلاق محض پاکستان کے عوام پر ہی ہوگا اور بالادست طبقات کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہوگا، نیٹو سپلائی مستثنیٰ رہے گی۔ افسوس آج اسمبلی میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور اقتدار پر وہ لوگ براجمان ہیں جنھوں نے کبھی بھی پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالنے اور اس کو پروان چڑھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس وقت اگر ہر قسم کا بحران ہے تو محض اس لیے کہ پیپلز پارٹی کے بانیان اور اس کی نشوونما میں جن لوگوں نے اہم کردار ادا کیا، وہ سب کے سب اپنی نائو ساحل پر کھڑی کر کے، اپنی پتوار کو اپنے کمروں میں رکھے سو رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہر طوفان میں کشتی چلائی ہے، خواہ ان کے پتوار ٹوٹ ہی کیوں نہ گئے۔ مگر صد حیف جو کنارے پر بیٹھے تھے طوفان میں شامل نہ تھے بلکہ سانحہ عظیم پر شیرینی تقسیم کرنے والے اقتدار کی مستند پر بیٹھے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے فیصلے کر رہے ہیں۔ اگر تصادم کے راستے پر صبر و استقلال کا دامن چھوٹ گیا تو پھر یہ پارٹی کا المیہ ہوگا۔ ملتان میں سابق وزیراعظم کے صاحبزادے کی فتح کا جشن منانے والے یہ نہیں سمجھ پائے پچاس ہزار کے فرق سے مقابلہ جیتنے والے اب چار ہزار کے فرق پر کھڑے ہیں۔
گویا پارٹی بتدریج روبہ زوال ہے اور اسکینڈلز کی زد پر ہے۔ پارٹی کے قائدین پر بدنما داغ اگر یوں ہی لگتے رہے تو پھر پارٹی کے مستقبل پر کون سا وقت آنے والا ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پارٹی کی موجودہ شکل بھی برقرار رہے گی۔ یہ کارکن نہیں وطن کارڈ کی لالچ، نوکریوں کی لالچ، نوکریاں فروخت کرنے والوں کا ایک ٹولہ ہے جو اس وقت تک ساتھ ہے، جب تک پارٹی اقتدار میں ہے، یہ کرایے کے مشیر، کرایے کے صلاح کاروں کو محض اپنے وظائف سے سروکار ہے۔
پارٹی جاتی ہے تو جائے کل دوسری پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، وزراء کو تحفظ دینے کا مسودہ تیار نہ کیا جائے تو بہتر ہے، ورنہ اسمبلی کے ارکان پر کسی قسم کی گرفت نہ ہوسکے گی۔ پیپلز پارٹی آسمان سے پاکستان کو اپنے نام لکھواکے تو نہیں آئی ہے، کل دوسری قوتیں بھی برسراقتدار آسکتی ہیں، پھر یہ قانون کی ترمیم عوام کے لیے آمریت سے بدتر ثابت ہوگی۔ صدر کو پارٹی سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا، کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کا صدر نہیں بلکہ ملک کا صدر ہے۔
صدر مملکت ان لوگوں کا بھی صدر ہوتا ہے جو اس کے مخالف ہیں اور موافق ہیں۔ حکمران کے لیے وسعتِ قلب، دور بینی، انصاف کی عمل داری شرطِ اوّل ہے۔ آج پارٹی کے کارکنوں کو یہ مشورہ کہ وہ عوام میں جائیں عجیب سا لگتا ہے۔ اگر عوام ان کے پاس آئیں بھی تو نہیں آسکتے، جانا کجا، پارٹی ورکرز کا لاٹھیوں سے استقبال کیا جاتا ہے، بھیڑ بکری کی طرح ہانکا جاتا ہے، ان میں جو زوردست ہے یا ہوشیار وہ اپنا مفاد حاصل کرلیتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ انا کی مے چھوڑ کر مے انصاف اور عاجزی سے اپنی پیاس بجھائے، حکومت کی بساط لپیٹ دے اور عدالت کے سامنے سرتسلیمِ خم کردے۔ اس طرح پارٹی کو ایک نئی روح مل سکتی ہے، ورنہ مدت پوری کرنے کے چکر میں وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
بقولِ حسن کوئی پاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
(میر حسن)
اگر پارٹی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور ناقص عقل احباب پر تکیہ کرتی رہی تو تصادم یقینی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس یا یوں کہیے کہ ان کے اکائونٹ میں سب منفی کھاتہ ہے۔ غربت، انرجی کا بحران، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، انڈسٹریوں میں تالا لگنا، گیس کا بحران، خودکشیوں کی کہانی، میمو گیٹ، ٹارگٹ کلنگ، حکومتی قرضوں میں 10 ارب روپیہ ماہانہ قرض اور بیش بہا منفی میدان۔ ان سب کا مداوا یہی ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان، انا کا جام توڑ کر، جامِ جم کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ورنہ پیپلز پارٹی کو کفِ افسوس ہی ملنا پڑے گا۔
تصادم کی راہ اگر اختیار کی گئی تو پھر زبردست لاقانونیت اور رسّہ کشی ہوگی، ہمنوا خاموش ہوں گے، در و دیوار اور سڑکیں آگ اگل رہی ہوں گی۔ نیٹو کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر خدشات سامنے ہیں۔ ذی فہم کے لیے یہ ایک قسم کی آوازِ ہاتف ہے۔
کوہ تھرّائے زمیں ہل گئی گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل
ملک برباد کرے گا یہ سیاسی دنگل
مندرجہ بالا مصرعے معروف مرثیہ نگار میر ببر علی انیس کے ہیں، مگر یہاں موقع کی مناسبت سے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر آنے والا وقت لگتا ہے کہ بدترین تصادم کی راہ اختیار کر رہا ہے۔ عزت مآب سرتاجِ جمہوریت کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ انھیں ان کے قصر سفید پارٹی ورکرز کا اجتماع کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دراصل یہ طبلِ جنگ کے مترادف ہے۔ اب یہ تصادم کہاں رکے گا، کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی یہ صریح خلاف ورزی ہے۔ کچھ سیاست دان جمہوریت کے راگ الاپ رہے ہیں اور پارلیمنٹ کو سپریم کہہ رہے ہیں کہ اسی کو قانون سازی کا اختیار ہے۔
واضح رہے کہ 1973ء کا متفقہ آئین نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما کی طرف سے اتفاق رائے کے نتیجے میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ شاید یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہوگی۔ مگر صد افسوس کہ اس آئین کی منظوری کے بعد جلد ہی بلوچستان پر فوج کشی کی گئی اور پھر بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد کی اسمبلی بھی توڑ دی گئی۔ یہ ناسور اس وقت سے رس رہا ہے اور اب یہ باقاعدہ کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جمہوریت کے لگائے ہوئے زخم مارشل لاء کے لگائے ہوئے زخموں سے کسی طرح بھی کمتر نہیں ہیں۔
اگر یہ پارلیمنٹ واقعی خود مختار ہے اور اسمبلی کے فیصلے اوّلیت رکھتے ہیں تو پھر سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے پر پارلیمانی کمیٹی کی وہ قرارداد کیا ہوئی کہ جس میں کسی شق کے پورے ہوئے بغیر نیٹو کی سپلائی لائن کھول دی گئی، عالمی افق پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ یہ گھن گرج یہ شور شرابا، یہ احتجاج کیا ہوئے۔ گویا یہ تمام اصول اس لیے بنائے جاتے ہیں اور قراردادیں اس لیے منظور ہوتی ہیں کہ اس کے پیچھے درپردہ سودے بازی، مفادات اور بعض مصلحتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، رہ گیا ذاتی طور پر نیٹو سپلائی کے متعلق اگر میری رائے ہے تو وہ یہ کہ ایسا قدم کیونکر اٹھایا جاتا ہے کہ جس کا انجام پسپائی اور پریشانی ہو۔
جب آپ بے دست و پا ہوں تو پھر اپنی حیثیت کے اعتبار سے ہی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اپنے تمام معروضی حالات کا تجزیہ ہونا چاہیے۔ اس سے ملک کی اسمبلی کی اصول پرستی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آئین میں مصلحت اور بعض معاملات کو پس پشت ڈالنے کے عنصر پوشیدہ ہوتے ہیں مگر اسمبلی جس انداز میں متحرک ہے، اس کا آخری انجام جمہوریت کشی کے مترادف ہے۔ آج سے 40 سال قبل کہے گئے حبیب جالب کے یہ اشعار قابلِ غور ہیں۔
دیپ جن کے محلات ہی میں جلے
اور سائے میں ہر مصلحت کے پلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
لہٰذا کیا اسمبلی کی متفقہ قراردادوں اور مسودوں کا اطلاق محض پاکستان کے عوام پر ہی ہوگا اور بالادست طبقات کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہوگا، نیٹو سپلائی مستثنیٰ رہے گی۔ افسوس آج اسمبلی میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور اقتدار پر وہ لوگ براجمان ہیں جنھوں نے کبھی بھی پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالنے اور اس کو پروان چڑھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس وقت اگر ہر قسم کا بحران ہے تو محض اس لیے کہ پیپلز پارٹی کے بانیان اور اس کی نشوونما میں جن لوگوں نے اہم کردار ادا کیا، وہ سب کے سب اپنی نائو ساحل پر کھڑی کر کے، اپنی پتوار کو اپنے کمروں میں رکھے سو رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہر طوفان میں کشتی چلائی ہے، خواہ ان کے پتوار ٹوٹ ہی کیوں نہ گئے۔ مگر صد حیف جو کنارے پر بیٹھے تھے طوفان میں شامل نہ تھے بلکہ سانحہ عظیم پر شیرینی تقسیم کرنے والے اقتدار کی مستند پر بیٹھے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے فیصلے کر رہے ہیں۔ اگر تصادم کے راستے پر صبر و استقلال کا دامن چھوٹ گیا تو پھر یہ پارٹی کا المیہ ہوگا۔ ملتان میں سابق وزیراعظم کے صاحبزادے کی فتح کا جشن منانے والے یہ نہیں سمجھ پائے پچاس ہزار کے فرق سے مقابلہ جیتنے والے اب چار ہزار کے فرق پر کھڑے ہیں۔
گویا پارٹی بتدریج روبہ زوال ہے اور اسکینڈلز کی زد پر ہے۔ پارٹی کے قائدین پر بدنما داغ اگر یوں ہی لگتے رہے تو پھر پارٹی کے مستقبل پر کون سا وقت آنے والا ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پارٹی کی موجودہ شکل بھی برقرار رہے گی۔ یہ کارکن نہیں وطن کارڈ کی لالچ، نوکریوں کی لالچ، نوکریاں فروخت کرنے والوں کا ایک ٹولہ ہے جو اس وقت تک ساتھ ہے، جب تک پارٹی اقتدار میں ہے، یہ کرایے کے مشیر، کرایے کے صلاح کاروں کو محض اپنے وظائف سے سروکار ہے۔
پارٹی جاتی ہے تو جائے کل دوسری پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، وزراء کو تحفظ دینے کا مسودہ تیار نہ کیا جائے تو بہتر ہے، ورنہ اسمبلی کے ارکان پر کسی قسم کی گرفت نہ ہوسکے گی۔ پیپلز پارٹی آسمان سے پاکستان کو اپنے نام لکھواکے تو نہیں آئی ہے، کل دوسری قوتیں بھی برسراقتدار آسکتی ہیں، پھر یہ قانون کی ترمیم عوام کے لیے آمریت سے بدتر ثابت ہوگی۔ صدر کو پارٹی سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا، کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کا صدر نہیں بلکہ ملک کا صدر ہے۔
صدر مملکت ان لوگوں کا بھی صدر ہوتا ہے جو اس کے مخالف ہیں اور موافق ہیں۔ حکمران کے لیے وسعتِ قلب، دور بینی، انصاف کی عمل داری شرطِ اوّل ہے۔ آج پارٹی کے کارکنوں کو یہ مشورہ کہ وہ عوام میں جائیں عجیب سا لگتا ہے۔ اگر عوام ان کے پاس آئیں بھی تو نہیں آسکتے، جانا کجا، پارٹی ورکرز کا لاٹھیوں سے استقبال کیا جاتا ہے، بھیڑ بکری کی طرح ہانکا جاتا ہے، ان میں جو زوردست ہے یا ہوشیار وہ اپنا مفاد حاصل کرلیتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ انا کی مے چھوڑ کر مے انصاف اور عاجزی سے اپنی پیاس بجھائے، حکومت کی بساط لپیٹ دے اور عدالت کے سامنے سرتسلیمِ خم کردے۔ اس طرح پارٹی کو ایک نئی روح مل سکتی ہے، ورنہ مدت پوری کرنے کے چکر میں وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
بقولِ حسن کوئی پاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
(میر حسن)
اگر پارٹی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور ناقص عقل احباب پر تکیہ کرتی رہی تو تصادم یقینی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس یا یوں کہیے کہ ان کے اکائونٹ میں سب منفی کھاتہ ہے۔ غربت، انرجی کا بحران، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، انڈسٹریوں میں تالا لگنا، گیس کا بحران، خودکشیوں کی کہانی، میمو گیٹ، ٹارگٹ کلنگ، حکومتی قرضوں میں 10 ارب روپیہ ماہانہ قرض اور بیش بہا منفی میدان۔ ان سب کا مداوا یہی ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان، انا کا جام توڑ کر، جامِ جم کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ورنہ پیپلز پارٹی کو کفِ افسوس ہی ملنا پڑے گا۔
تصادم کی راہ اگر اختیار کی گئی تو پھر زبردست لاقانونیت اور رسّہ کشی ہوگی، ہمنوا خاموش ہوں گے، در و دیوار اور سڑکیں آگ اگل رہی ہوں گی۔ نیٹو کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر خدشات سامنے ہیں۔ ذی فہم کے لیے یہ ایک قسم کی آوازِ ہاتف ہے۔