خارجہ امور اور پاکستان کے مفادات
وزیر اعظم نے کشمیر ایشو پر ایک اہم اجلاس کی صدارت کر کے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو عزت بخشنے کا موقع فراہم کیا۔
دیر آید درست آید کے مصداق بالآخر وزیر اعظم نے کشمیر ایشو پر ایک اہم اجلاس کی صدارت کر کے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو عزت بخشنے کا موقع فراہم کیا۔ اس ''شو'' سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر پر ایک پیچ پر ہیں۔اجلاس کے اختتام پرتمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں نہ صرف کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا بلکہ یہ بھی طے کیا گیا کہ عالمی سطح پر کشمیری عوام کے برحق مؤقف کو واضح کرنے میں سفارتی سرگرمیوں کو زیادہ زور وشور کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔مگر کیسے؟ کیاکوئی وزیر خارجہ امپورٹ کیا جائے گا یا کسی ''برانڈڈ '' وزیر خارجہ کی خدمات حاصل کی جائیں گی؟ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کمپنی کی خدمات لے لی جائیں۔
دنیا میں ایسی بہت سے لابنگ فرمز ہیں جو پیسے لے کر اہم ایجنڈوں پر کام کر رہی ہیں، جن کی آمدنی کسی بھی ملک کی مجموعی آمدنی سے زیادہ ہوتی ہے۔ آپ ٹاپ لابنگ فرمز کے نام سے انٹرنیٹ پر سرچ کریں، آپ خود اس حقیقت سے آشکار ہو جائیں گے اور مزید ریسرچ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا کس طرح سے امیج بلڈنگ کے لیے حربے استعمال کر رہی ہے اور ہم جز وقتی مشیروں سے کام چلاکر ہنڈیا کو چولہے پر چڑھانے میںہی عافیت جانتے ہیں۔
چانکیہ کا ہزاروں سال پرانا یہ قول آج بھی دنیا پر لاگو ہوتا ہے۔
''میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہونا چاہیے''
آج اسی اصول پر عمل پیرا ہو کر بھارت سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی نسبت بھارت دنیا کی بڑی طاقتوں پر اپنا زیادہ اثرورسوخ رکھتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور پاکستان جس کا دنیا بھر میں بدترین پاسپورٹ مانا جاتا ہے یعنی بدترین پاسپورٹ رکھنے والے ممالک میں ہمارا دوسرا نمبر ہے اورہم صرف افغانستان سے بہتر ہیں جب کہ نائجیریا، صومالیہ جیسے ممالک کے پاسپورٹ کی قدر ہم سے زیادہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی کہی ہوئی باتوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو ہمارے دشمن ممالک کو دی جاتی ہے۔ یہ ہماری وزارت خارجہ کا قصور ہے کہ ایک عرصہ سے ہم دنیا کے ہر محاذ پر تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں، ہمارے ملک میں کرکٹ تو دور کی بات کبڈی کی ٹیمیں بھی آنے سے ہچکچاتی ہیں۔ ہم لاکھ خود کو آزاد و خودمختار ملک کہتے رہیں۔عالمِ اسلام کا قلعہ سمجھتے رہیں۔لیکن روزِ اول سے آج تک ہماری خارجہ پالیسی دو ستونوں پر کھڑی ہے۔پہلا ستون انڈیا ہے۔جس کے بارے میں ہمارا نظریہ ہے،
ستم کرو گے ستم کریں گے ، کرم کرو گے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے ، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
آپ سارک سربراہی کانفرنس کی مثال لے لیں جس کا انعقاد اگلے ماہ ہونا تھا۔ پاکستان کے دشمنوں نے اسے ملتوی کروا کر ہی دم لیا اور وجہ محض یہ تھی کہ اس کا انعقاد پاکستان میں ہونے جا رہا تھا، اگر پاکستان کے تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات درست سمت میں جارہے ہوں تو مودی کی کیا مجال کہ وہ اپنے ساتھ دیگر ممالک کو ساتھ ملاکر پاکستان میں ہونے والی سارک ممالک کانفرنس کو ملتوی کروا دے اور ابھی دو سال قبل ہی مودی کے یہ الفاظ نہیں بھولے ''جب ہم شانہ بشانہ مل کر آگے بڑھتے ہیں تو راستے آسان، سفر تیز رفتار اور منزلیں قریب تر ہونے لگتی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایک پر امن اور محفوظ ساؤتھ ایشیا کی پائیدار بنیادوں کے لیے ایک خوشحال سارک ریجن ناگزیر ہے۔
پاکستان کے چار میں سے تین ہمسائے بھارت کے قریب ہیں ، ایسا کیوں ہے؟افغانستان کے لیے پچھلے چالیس برس میں پاکستان نے بہت کچھ کیا لیکن تعلقات کی ملائی انڈیا نے چاٹی۔حالانکہ انڈیا کی سرحد بھی براہ راست افغانستان سے نہیں ملتی لیکن پھر بھی انڈیا کے 30 سے زائد قونصلیٹ افغانستان میں کام کررہے ہیں، اگر بات ایران کی کی جائے تو ایران ایک ایسا ملک جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، ایک ایسا ملک کہ جس کی ثقافت، زبان اور لٹریچر سے 1000 سال سے ہم مانوس تھے، وہ ہمارے لیے اجنبی بننا شروع ہوگیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا دوسرا ستون امریکا ہے۔ امریکا ہم سے جتنی مرضی نظریں چرا لے اور چین ہم سے جتنی مرضی پیار کی پینگیں بڑھا لے لیکن ہماری نظریں امریکا کی راہ ہی تکتی رہیں گی اور سیاستدان چین جانے سے زیادہ امریکا کو ترجیح دیتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ملک کے داخلی حالات ، ملک کا جغرا فیہ، ملک کی معاشیات ملک کی دفاعی ضروریات اور سب سے بڑھ کر ملک کے عوام کا ذہنی جھکاؤ، اِن سب عوامل کا بہت دخل ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز اہم ہے وہ ہے فارن پالیسی کو چلانے والے اَفراد کی استعداد، فہم اور ذہانت کا اونچا معیار۔ ترقی پذیر ممالک کی خارجہ پالیسی کو چلانے والے افراد ایک قسم کے ''سیلزمین '' ہونے چاہیں کیونکہ وہ نہ صرف اپنے ملک کے مفادات کی ترجمانی ماہر سیلز مین کی طرح کرتے ہیں بلکہ دوسرے ملک کے مفادات کو بھی چالاک سودا گر کی طرح چھان پھٹک کر پرکھتے ہیں اور اگر اُس ملک کے مفادات اپنے ملک کے فائدے میں ہیں، تو محکمہ خارجہ اْن باہمی مفادات کا بھرپور استعمال کرتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں ملکوں کے درمیان خارجہ تعلقات زیادہ پیچید ہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ زمانہ بادشاہتوں کا تھا۔ ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنا قاصد بھجواتا تھا، عموماً تجارتی مراعات یا رہ داری کے حصول کے لیے اپنا مدعا بیان کرتا تھا۔ بعض مرتبہ مشترکہ دفاع کی بھی درخواست کی جاتی۔ یورپ میں اُس زمانے میں بادشاہت تھی۔ شاہی قاصد کبھی کبھار کسی شہزادے یا شہزادی کی شادی کا پیغام بھی لے کر جاتے تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ یورپ کے اکثر شہزادوں کی شادیاں ڈنمارک کی شہزادیوں سے ہوئیں۔
ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے تمام مالی مفادات مغربی ممالک میں ہیں۔ اُن کی اولادیں وہاں خاندانی کاربار چلا رہی ہیں، مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے بڑی عیاری سے ہماری سیاسی پارٹیوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی (COD) کروا کر ''مفاہمت'' کے دروازے کیا کھولے کہ کرپشن کا پاکستان میں سیلاب آگیا۔ہماری خارجہ پالیسی کی یہ اہمیت ہے کہ اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک ضعیف العمر مشیر کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی کا وہ حصہ جو ہماری عسکری قیادت کے لیے ضروری ہے اُسے اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ باقی رہے تجارتی معاہدے وہ سوِل اداروں کی لوٹ مار پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا لیڈر ہی نہیں ہے جو ہمیں آزاد خارجہ پالیسی کی راہ پر ڈال سکے۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ان پارلیمانی میٹنگز کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگاجب تک حقیقی لیڈر سفارتی سطح پر سرگرم نہیں ہوگا...!!!
دنیا میں ایسی بہت سے لابنگ فرمز ہیں جو پیسے لے کر اہم ایجنڈوں پر کام کر رہی ہیں، جن کی آمدنی کسی بھی ملک کی مجموعی آمدنی سے زیادہ ہوتی ہے۔ آپ ٹاپ لابنگ فرمز کے نام سے انٹرنیٹ پر سرچ کریں، آپ خود اس حقیقت سے آشکار ہو جائیں گے اور مزید ریسرچ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا کس طرح سے امیج بلڈنگ کے لیے حربے استعمال کر رہی ہے اور ہم جز وقتی مشیروں سے کام چلاکر ہنڈیا کو چولہے پر چڑھانے میںہی عافیت جانتے ہیں۔
چانکیہ کا ہزاروں سال پرانا یہ قول آج بھی دنیا پر لاگو ہوتا ہے۔
''میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہونا چاہیے''
آج اسی اصول پر عمل پیرا ہو کر بھارت سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی نسبت بھارت دنیا کی بڑی طاقتوں پر اپنا زیادہ اثرورسوخ رکھتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور پاکستان جس کا دنیا بھر میں بدترین پاسپورٹ مانا جاتا ہے یعنی بدترین پاسپورٹ رکھنے والے ممالک میں ہمارا دوسرا نمبر ہے اورہم صرف افغانستان سے بہتر ہیں جب کہ نائجیریا، صومالیہ جیسے ممالک کے پاسپورٹ کی قدر ہم سے زیادہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی کہی ہوئی باتوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو ہمارے دشمن ممالک کو دی جاتی ہے۔ یہ ہماری وزارت خارجہ کا قصور ہے کہ ایک عرصہ سے ہم دنیا کے ہر محاذ پر تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں، ہمارے ملک میں کرکٹ تو دور کی بات کبڈی کی ٹیمیں بھی آنے سے ہچکچاتی ہیں۔ ہم لاکھ خود کو آزاد و خودمختار ملک کہتے رہیں۔عالمِ اسلام کا قلعہ سمجھتے رہیں۔لیکن روزِ اول سے آج تک ہماری خارجہ پالیسی دو ستونوں پر کھڑی ہے۔پہلا ستون انڈیا ہے۔جس کے بارے میں ہمارا نظریہ ہے،
ستم کرو گے ستم کریں گے ، کرم کرو گے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے ، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
آپ سارک سربراہی کانفرنس کی مثال لے لیں جس کا انعقاد اگلے ماہ ہونا تھا۔ پاکستان کے دشمنوں نے اسے ملتوی کروا کر ہی دم لیا اور وجہ محض یہ تھی کہ اس کا انعقاد پاکستان میں ہونے جا رہا تھا، اگر پاکستان کے تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات درست سمت میں جارہے ہوں تو مودی کی کیا مجال کہ وہ اپنے ساتھ دیگر ممالک کو ساتھ ملاکر پاکستان میں ہونے والی سارک ممالک کانفرنس کو ملتوی کروا دے اور ابھی دو سال قبل ہی مودی کے یہ الفاظ نہیں بھولے ''جب ہم شانہ بشانہ مل کر آگے بڑھتے ہیں تو راستے آسان، سفر تیز رفتار اور منزلیں قریب تر ہونے لگتی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایک پر امن اور محفوظ ساؤتھ ایشیا کی پائیدار بنیادوں کے لیے ایک خوشحال سارک ریجن ناگزیر ہے۔
پاکستان کے چار میں سے تین ہمسائے بھارت کے قریب ہیں ، ایسا کیوں ہے؟افغانستان کے لیے پچھلے چالیس برس میں پاکستان نے بہت کچھ کیا لیکن تعلقات کی ملائی انڈیا نے چاٹی۔حالانکہ انڈیا کی سرحد بھی براہ راست افغانستان سے نہیں ملتی لیکن پھر بھی انڈیا کے 30 سے زائد قونصلیٹ افغانستان میں کام کررہے ہیں، اگر بات ایران کی کی جائے تو ایران ایک ایسا ملک جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، ایک ایسا ملک کہ جس کی ثقافت، زبان اور لٹریچر سے 1000 سال سے ہم مانوس تھے، وہ ہمارے لیے اجنبی بننا شروع ہوگیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا دوسرا ستون امریکا ہے۔ امریکا ہم سے جتنی مرضی نظریں چرا لے اور چین ہم سے جتنی مرضی پیار کی پینگیں بڑھا لے لیکن ہماری نظریں امریکا کی راہ ہی تکتی رہیں گی اور سیاستدان چین جانے سے زیادہ امریکا کو ترجیح دیتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ملک کے داخلی حالات ، ملک کا جغرا فیہ، ملک کی معاشیات ملک کی دفاعی ضروریات اور سب سے بڑھ کر ملک کے عوام کا ذہنی جھکاؤ، اِن سب عوامل کا بہت دخل ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز اہم ہے وہ ہے فارن پالیسی کو چلانے والے اَفراد کی استعداد، فہم اور ذہانت کا اونچا معیار۔ ترقی پذیر ممالک کی خارجہ پالیسی کو چلانے والے افراد ایک قسم کے ''سیلزمین '' ہونے چاہیں کیونکہ وہ نہ صرف اپنے ملک کے مفادات کی ترجمانی ماہر سیلز مین کی طرح کرتے ہیں بلکہ دوسرے ملک کے مفادات کو بھی چالاک سودا گر کی طرح چھان پھٹک کر پرکھتے ہیں اور اگر اُس ملک کے مفادات اپنے ملک کے فائدے میں ہیں، تو محکمہ خارجہ اْن باہمی مفادات کا بھرپور استعمال کرتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں ملکوں کے درمیان خارجہ تعلقات زیادہ پیچید ہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ زمانہ بادشاہتوں کا تھا۔ ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنا قاصد بھجواتا تھا، عموماً تجارتی مراعات یا رہ داری کے حصول کے لیے اپنا مدعا بیان کرتا تھا۔ بعض مرتبہ مشترکہ دفاع کی بھی درخواست کی جاتی۔ یورپ میں اُس زمانے میں بادشاہت تھی۔ شاہی قاصد کبھی کبھار کسی شہزادے یا شہزادی کی شادی کا پیغام بھی لے کر جاتے تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ یورپ کے اکثر شہزادوں کی شادیاں ڈنمارک کی شہزادیوں سے ہوئیں۔
ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے تمام مالی مفادات مغربی ممالک میں ہیں۔ اُن کی اولادیں وہاں خاندانی کاربار چلا رہی ہیں، مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے بڑی عیاری سے ہماری سیاسی پارٹیوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی (COD) کروا کر ''مفاہمت'' کے دروازے کیا کھولے کہ کرپشن کا پاکستان میں سیلاب آگیا۔ہماری خارجہ پالیسی کی یہ اہمیت ہے کہ اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک ضعیف العمر مشیر کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی کا وہ حصہ جو ہماری عسکری قیادت کے لیے ضروری ہے اُسے اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ باقی رہے تجارتی معاہدے وہ سوِل اداروں کی لوٹ مار پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا لیڈر ہی نہیں ہے جو ہمیں آزاد خارجہ پالیسی کی راہ پر ڈال سکے۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ان پارلیمانی میٹنگز کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگاجب تک حقیقی لیڈر سفارتی سطح پر سرگرم نہیں ہوگا...!!!