آل پارٹیز کانفرنس تمام جماعتیں ملک وقوم کے دفاع کے لئے متحد
نیشنل ایکشن پلان کے غیرتسلی بخش کارکردگی کے حامل نکات پر کام تیز کرنے کا فیصلہ
جنوبی ایشیا کے امن و استحکام اورخوشحالی کیلئے ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی کوششوں سے سٹارٹ ہونے والی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی گاڑی ایک بار پھر بھارتی شدت پسندی و جنونیت کی بھینٹ چڑھ گئی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی گاڑی سفر کے آغاز میں ہی مسائل کا شکار ہو گئی ہے جبکہ کمزور یاداشت اورسفارتی آداب سے عاری ناعاقبت اندیش بھارتی قیادت نے ایک بار پھر خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور یہ کوئی پہلا مرتبہ نہیں ہوا۔
اب بھی بھارت مکاری سے باز نہیں آرہا ہے۔ پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی کو ہوا دینے کی مذموم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جنہیں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ناکام بنادیا ہے۔ یہی ناکامی بھارت کی بوکھلاہٹ کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ بھارت نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ مختص کرکے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کا جو مکروہ خواب دیکھا ہے وہ اسے کسی طور شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت کی جانب سے پیدا کی جانے والی حالیہ کشیدگی بھی اس کی ایک چال ہے۔ اس کی آڑ میں وہ کوئی گھناونا کھیل کھیلنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ بھارت کی جانب سے کی جانیوالی یہ چیھڑ چھاڑ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
لائن اف کنٹرول پر جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں میں سخت کشیدگی پیدا ہو ئی ہے اور بھارت نے پاکستان کو اپنی مرضی کے محاذ پر جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ اس سلسلے میں بھارتی بری فوج اور ائیر فورس کے سربراہان کے بیانات خاص اہمیت کے حامل ہیں جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا گیا۔
پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں اور دونوں ممالک میں جنگ کی صورت میں روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے علاوہ جوہری طاقت کے استعمال کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کی سیاسی و شعوری طور پر نابالغ قیادت کے جنونیت پر مبنی اقدامات کا جذباتی انداز میں جواب دینے کی بجائے ایک انتہائی ذمہ دار ملک ہونیکا ثبوت دے رہا ہے اور باتوں پر اکتفاء کرنے کی بجائے زمینی حقائق کے تناظر میں ناصرف پوری قوم بلکہ اقوام عالم سے رجوع کیا ہے اور بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وفاقی دارلحکومت سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اہم اجلاس ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کل جماعتی کانفرنس، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، قومی سلامتی کونسل کے اجلاسوں کی صدارت کی ہے اور آج(بدھ) پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملات پر ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحہ پر ہیں اور ان اجلاسوں میں بھارت سمیت دنیا کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی قیادت اور عوام ملکی دفاع میں متحد ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کاجائزہ لینے کیلئے ہونے والے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے اہداف کے حصول کیلئے مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق ہوا ہے اورفیصلہ کیا گیا کہ نتائج کے حصول کیلئے وفاقی وصوبائی حکومتوں اور تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے درمیان مربوط رابطہ کی ضرورت ہے، اجلاس میں یہ بھی طے پایا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے غیرتسلی بخش کارکردگی کے حامل نکات پر کام تیز کیا جائیگا۔
اجلاس میں اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ،گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا، وزرائے اعلیٰ شہباز شریف، مراد علی شاہ، پرویز خٹک،ثناء اللہ زہری، حافظ حفیظ الرحمان، وفاقی وزراء چودہری نثار، اسحاق ڈار، پرویز رشید، معاون خصوصی طارق فاطمی، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، سیکرٹری خارجہ اعزازا حمد چودہری، ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان، سیکرٹری وزیراعظم فواد حسن فواد، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے شرکت کی۔
اس موقع پر وزیراعظم کاکہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان تمام اسٹیک ہولڈرزکے وسیع تراتفاق رائے سے بنایا گیا ہے، حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہے، وفاق نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کیلئے صوبوں سے مکمل تعاون کریگا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسٹرائیک کور منگلا کا بھی اہم دورہ کیا جہاں انہوں نے آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔ آرمی چیف کو اس دوران اسٹرائیک کور کمانڈر نے آپریشنل تیاریوں پر بریفنگ دی جبکہ اس موقع پر کور کمانڈر پشاور، کور کمانڈر لاہور، کورکمانڈر گوجرانوالہ اور ڈی جی ملٹری آپریشن بھی شریک تھے۔
دوسری جانب دفاعی تجزیہ کاروں نے آرمی چیف کے دورہ منگلا کور کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے موقع پر آرمی چیف کا منگلا اسٹرائیک کور کا دورہ دشمن کو ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہونے کا پیغام دینا ہے۔ اس کے علاوہ پیر کو بڑی ڈویلپمنٹ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس کی صورت میں رونما ہوئی۔
سفارتی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کل جماعتی کانفرنس بلا کر ایک مثبت اقدام کیا ہے جس کے بعد بھارت سمیت دنیا کو ایک پیغام چلا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی قیادت اور عوام ملکی دفاع میں متحد ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں ملک میں تمام پارلیمانی جماعتوں نے شرکت کرکے نہ صرف پختگی کا ثبوت دیا ہے جبکہ اس سے ملک میں انتشار اور سیاسی اختلافات کا تاثر بھی زائل ہو گیا ہے۔
دوسری طرف بھارتی دعوے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت میں سویلین حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہے کیونکہ بھارتی ڈی جی ملٹری آپریشنز نے دعوٰی تو کردیا کہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے مگر اس کو نہ صرف بھارتی وزیراعظم بلکہ بھارتی وزراء نے بھی جھٹلا دیا ہے۔
ادھر بھارت پر عالمی دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہاہے اور اس کو امریکا، چین اور دیگر ممالک نے واضح پیغام دیا ہے کہ اگر بھارت جارحیت جاری رکھتا ہے اور کشیدگی کو بڑھاتا ہے تو اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ عالمی قوتیں بھی اس معاملے پر پاکستان کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں جس کی مثال اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے مبصر مشن کو سرجیکل اسٹرائیک کے کوئی ثبوت میسر نہیں ہوئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی قائدین کے اجلاس میںلائن آف کنٹرول پربھارتی فوج کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکا توجارحیت تصور کیا جائے گا۔
عالمی برادری کے سامنے بھارت کو بے نقاب کرنے کیلئے سفارتی سرگرمیاں بھی تیز کر دی گئی ہیں۔ وزیراعظم کے خصوصی نمائندوں مشاہد حسین سید اور ڈاکٹر شذرا منصب علی نے بھی رچرڈ اولسن اور امریکی محکمہ خارجہ کے دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا۔