مسافر انجان منزلوں کے

ہر خاص و عام میں یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ کمائی ہے

shehla_ajaz@yahoo.com

یوں توکرپشن ہمارے ملک کے تمام اداروں میں عام ہے لیکن تعلیم کے محکمے میں کرپشن کی فراوانی دیکھ کر اپنے ملک کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم جو کسی بھی ملک میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بل بوتے پر ترقی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن جب بنیاد ہی دیمک زدہ ہو تو اس پر عمارت کیسے تعمیر کی جا سکتی ہے۔ ہر خاص و عام میں یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ کمائی ہے، یعنی جاب کا وقت کم اور معاوضہ زیادہ گویا آدھے دن میں ہی پوری کمائی مل جاتی ہے اور جب سے اساتذہ کے معاوضوں میں اضافے ہوئے ہیں۔

یہ شعبہ نہایت معتبر ہو گیا ہے، ورنہ گزرے زمانے میں غریب سرکاری اسکول ٹیچرز مشہور تھے، یقین نہیں آتا تو پرانی فلمیں اور پرانے ڈرامے دیکھ کر اندازہ لگا لیجیے جب کہ آج کل اساتذہ کے معاوضے خاص کر سرکار کے اساتذہ چاہے اسکول یا کالج کی عمارت شکستگی سے جھول رہی ہو اور اس میں پڑھنے والے طالب علموں کی تعداد بھی گنتی کی ہو لیکن اساتذہ کی تعداد میں فرق نہیں آتا پورے ہوتے ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی پوری پوری ہوتی ہیں جو 25-30 ہزار سے لے کر 50 ہزار کے ہندسے کو چھوتی ہیں، اسی لیے اکثر کی خواہش سرکاری اسکول ٹیچر یا لیکچرر بننے کی ہوتی ہے، اس میں کتنے فیصد تعلیم بانٹنے کا جذبہ ہوتا ہے اور کتنے فیصد اچھی بھلی تنخواہ یہ جانے دیں۔

حال ہی میں وزیراعلیٰ سیّد قائم علی شاہ نے کراچی کے کالجز میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور بٹھادیا ایک افسر تحقیقات پر کہ کیوںکیسے اور کب 242 بھرتیاں کراچی کے کالجز میں ہوئیں۔ اس بات کا سہرا جس اعلیٰ قیادت کی اعلیٰ شخصیت کے سر ہے، سلام ہے اسے کیسے کب اور کیوں مکھن میں سے انھوں نے نوکریاں نکال کر بانٹیں یا تو یہ کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو یا ریوڑیاں بے مول نہیں فروخت ہوئیں کیوں کہ ہمارے ملک میں تو ہر کام کے ریٹس مقرر ہیں فلاں جگہ فائل پہنچانی ہے یہ ریٹس۔ فلاں سے فلاں محکمے میں جائے گی تو یہ ریٹس۔ اور تو اور اپنی بڑی عدالتوں کے چھوٹے چھوٹے ملازم تو ایسے ریٹس مقرر کرنے میں ماہر ہیں، عادی جو ہیں۔

بات ہو رہی ہے بھرتیوں کی تو زیادہ وقت نہیں گزرا، لیاری میں ایک معروف یونیورسٹی کی بھی بات ہوجائے۔ اشتہارات میں جو بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے، معہ 5 سو روپے کی وصولی کے ساتھ وہ ذرّہ برابر بھی پورے نہ ہوئے۔ لیکچررز کی عمر کی حد جو اشتہارات میں تحریر تھی، اس پر ہرگز بھی عمل نہ کیا گیا اور ذرا ذرا سے دنوں کو بھی امیدواروں پر اتنا بھاری بنادیا گیا کہ بے چارے امیدوار ناکامی کے ڈیپریشن کے ساتھ 500 روپوں کے جانے کے غم کو بھی دل سے لگا کر بیٹھ گئے۔

جب اس سلسلے میں ذمے دار افراد سے بات کی گئی تو ہنس کر جواب دیا گیا کہ جس بات پر عمل ہی نہیں کرنا تھا تو نہ جانے کیوں اشتہار میں تحریر کیا گیا تھا وہ خط جو اس عمر کی حد سے ذرا تجاوز ہونے پر ساتھ لگایا جاتا ہے،کس سے لکھوایا جائے، انھیں بھی علم نہ تھا، ہاں جان پہچان یا کچھ اور پس پردہ ہو، اس بارے میں کیا بات کی جائے کہ بچنا بچانا بھی ہے۔ بہرحال تقرریاں کس بنیاد پر ہوتی ہے وہ بنیاد بچپن سے لے کر آج تک جو ہماری عقل میں آئی ہے۔ اس بنیاد کو سفارش کہتے ہیں اور یہ اتنا سر چڑھ کر بولتی ہے کہ نہ پوچھیے۔ اس سفارش کے ساتھ خوشبودار نوٹوں کی سوغات ہو تو سفارشی خط پکڑنے والے کی طبیعت پر خاصا اچھا اثر پڑتا ہے۔


ابھی زیادہ دن نہیں گزرے۔ رمضان المبارک کی آمد کے جو خطوط اسمبلی سے جاری ہوئے، ان پر املا کی غلطیاں ہمارے اعلیٰ افسران کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور ایسے ثبوت ہم اکثر ٹی وی چینلز پر دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے اعلیٰ افسران جو گریڈ 18 اور 17 پر فائز ہوتے ہیں، اگر کبھی ان کی تعلیمی اہلیت کا امتحان لیا جائے تو پھر ہم سے گلہ نہ کیجیے گا کہ دل پر بجلیاں کیوں گرا دیں۔ ویسے ہم تو ایسی بجلیوں کے عادی ہیں۔ سنا ہے کہ ایسے بڑے بڑے عہدوں کے ٹیسٹ اور انٹرویوز بھی نہیں لیے جاتے۔

اب ان حضرات کو کتنی انگریزی اور کتنی اردو آتی ہے، اس سے کیا غرض کسی کو لیکن اپنے جاننے والوں کو بھی تو خوش کرنا ہوتا ہے۔ یقین جانئے ان بڑی بڑی اونچی اسمبلیوں کے اندر کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوتا، سب مل جل کر خوش خوش پیار محبت سے رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، موج کرتے ہیں، قومی یکجہتی کی اتنی اعلیٰ مثال تو ان ہی اسمبلیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کیسا ٹیلنٹ، کیسی قابلیت! اجی جانے بھی دیں سائیں کہ پورے گوٹھ کے نہیں لیکن پورے خاندان کے بچّوں کا تو حق بنتا ہی ہے ناں کہ سرکار کی ملازمت حاصل کریں۔ آخر سائیں نے بھی تو اپنی پوری زندگی موٹی موٹی تنخواہ وصول کرکے سرکار کی خدمت کی ہے ناں۔

سننے میں آیا ہے کہ نئے اساتذہ کی اسامیوں کے لیے بڑے بڑے ڈگری یافتہ حضرات نے بھی عرضی دی ہے، اب یہ عرضیاں قبول ہوتی ہیں یا ردّی والوں کے لیے بھی اشتہارات کی تیاری ہو رہی ہو، ہائے بیچارے امیدوار کتنی خواہش رکھتے ہیں کہ سرکاری ٹیچر کا لیبل لگا کر معاشرے میں ایک معزز شعبہ اختیار کریں، ساتھ میں اچھی تنخواہ کا اسکیل بھی، پر کسے پتہ کون یہ خواب ان کی آنکھوں سے چھین لیتا ہے، ساری قابلیت، ساری اہلیت ایک طرف اور سفارشی خطوط معہ نوٹوں کی سوغات ایک جانب۔ غالباً سال بھر پہلے کی بات ہے جب یو این او کی جانب سے بڑے فنڈز ملنے کا چرچا سنا تھا تب سے ہی بڑے بڑے شکاریوں نے پہلے ہی سے طے کر لیا تھا کہ اب کیا کیسے کرنا ہے۔

پھر یہ بڑے بڑے اشتہارات کیوں اخبارات کی زینت بنتے ہیں، خدا جانے۔ کوئی مانے نہ مانے ہم سب نااہلوں کی ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جنھیں فی الحال ہم اپنی اپنی غرض کے تحت سینچ رہے ہیں لیکن کل یہی نا اہل نسل ہماری نئی نسل پر کیا اثر مرتب کرے گی، ہم اپنے بچّوں کو کیا دینگے، جب ہم خود ہی اس علم سے نابلد ہیں جسے واقعی علم کہا جاتا ہے۔

نا اہلوں کے قابض ہونے سے یاد آیا کہ بڑے بڑے نامی گرامی پرائیویٹ اسکولز بھی اس نا اہلیت سے مبّرا نہیں ہیں۔ حال ہی میں ہماری ایک عزیزہ نے اپنے بچّوں کو ملک کے مشہور اسکول میں داخل کروایا، جس کے بورڈ اور کورٹ کے بڑے چرچے ہیں، بڑی مشکل سے داخلے کا مرحلہ مکمل ہوا، خوش خوش بچوں کو اسکول بھیجا لیکن جو کچھ وقتاً فوقتاً وہ اپنے بچّوں کی کاپیوں پر دیکھتی رہیں، اسے دیکھ دیکھ کر ان بے چاری کو ڈپریشن لاحق ہو جاتا۔

انگریزی کا واویلا کرنے والے اسکول میں بچّوں کو کاپیوں پر ایسی انگریزی اور اردو لکھوائی جاتی جسے عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں۔ انگریزی کا ایسا شکستہ معیار دیکھ کر انھوں نے تو سوچ لیا کہ اس سے بہتر تو گلی محلے کے وہ اسکول ہیں جہاں کم از کم وہ اپنے بچّوں کی کاپیاں لے کر اسکول کی پرنسپل کے پاس تو پہنچ جاتی ہیں اور بچوں کی انگریزی تو انگریزی کہیں اردو کے بھی لالے نہ پڑجائیں۔
Load Next Story