جناب والا اندرونی نہیں بیرونی محاز پر توجہ فرمائیے
آسان اہداف ہر کوئی حاصل کر لیتا ہے، تاریخ صرف اُن کو یاد رکھتی ہے جو کٹھن راستوں پر چل کر منزل پاتے ہیں۔
پیر کی صبح کا آغاز وزیراعظم ہاؤس میں منعقد آل پارٹیز کانفرنس سے ہوا۔ جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اس کا مقصد بھارتی جارحیت اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر یہ باور کرانا تھا کہ اس مشکل گھڑی میں ساری قوم حکومت کے ساتھ اور دشمن کے مخالف کھڑی ہے۔
بظاہر تو اس کانفرنس کا مقصد دشمن کو پیغام پہنچانا تھا مگر حقیقت میں دیکھیں تو یہ صرف ایک بہت ہی آسان راستہ ہے جو حکومت وقت کی جانب سے اپنایا گیا ہے۔ ایک آسان سا سوال یہ ہے کہ،
اس کا جواب ہرذی شعور جانتا ہے اور اس میٹنگ سے پہلے ہی سارے سیاسی رہنما اس بات کا اعادہ کر چکے تھے کہ اگر دشمن کی طرف سے کوئی بھی قدم اٹھایا گیا تو وہ فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ایسی صورت حال میں اس کانفرنس کا منعقد ہونا صرف اور صرف قیمتی وقت اور قومی سرمائے کا زیاں معلوم ہوتا ہے، دوسری جانب دیکھیں تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کھلم کھلا دھمکی دی گئی کہ بھارت پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کر دے گا۔ جس کی ابتدا اس نے سارک کانفرنس کو ملتوی کروا کر کردی ہے۔
دراصل اس چیلنج سے نپٹنا انتہائی مشکل اور حکومت کا اصل امتحان ہے۔ سفارتی تعلقات کے ذریعے دنیا کو خصوصاً عالمی میڈیا کو یہ باور کروانا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے جو پچھلی ایک دہائی سے دہشت گردی کی زد میں ہے اور ایسے میں کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر کارروائی کرنا اس کے لیے کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟۔
مغربی ممالک میں ایسے پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے جن کی امیج قدرے مثبت اور بیرونی حکومتوں سے ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں، ایسے پاکستانیوں کی مدد لے کر باہر کی دنیا میں اپنی شناخت بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ عالمی میڈیا میں اشتہارات، آرٹیکلز، اور دوسرے طریقوں سے ایک بہتر پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ آجکل جس ملک کا کردار عالمی میڈیا میں خراب ہے اکثریت کی رائے بھی اس کے خلاف ہی بنتی ہے کیونکہ میڈیا رائے عامہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
بیرون ممالک کے پُراثر افراد خصوصاً بیرونی میڈیا کو پاکستان کے دورے کروا کر اصل صورت حال سے آگاہ کروایا جاسکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے ملکی اور عالمی میڈیا کو لائن آف کنٹرول کا جو حالیہ دورہ کروایا گیا ہے، اس نے سرحد کے اُس پار سے ہونے والے پروپیگنڈا کو کافی حد تک دبا دیا ہے اور اُس طرف سے بھی ''سرجیکل اسٹرائیک'' کے ثبوت مانگنے کی باتیں چل نکلی ہیں۔
وزارت خارجہ (جو ایک عدد وزیر سے محروم ہے) میں اس حوالے سے ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا جانا چاہیئے جس کی نگرانی خود وزیراعظم پاکستان کریں۔ دوسری جانب دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارت کاروں کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات دی جائیں تاکہ ان حالات کو بہتر بنانے میں وہ اپنا کردار ادا کرسکیں۔
چین بے شک ہمارا اچھا دوست ہے مگر حالات کے پیش نظر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دوستی میں بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں اور دوستی میں ایک حد سے بڑھنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ جتنا ہو اپنے بل بوتے پر یہ جنگ لڑی جائے نہ کہ دوستوں کے سر پر۔ اُڑی میں ہوئے حملے کے بعد جس شدّت سے بھارت نے سرحدوں کا رخ کیا اور بھارتی میڈیا کی پاکستان مخالف یلغار نے طبل جنگ بجانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس صورت حال میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، بھارت سرحدوں سے ضرور پیچھے ہٹ گیا ہے مگر جنگ سے بالکل بھی نہیں ہٹا۔ وہ اب پہلے سے بھی زیادہ سرمایہ، طاقت اور قوت صرف کرے گا تاکہ پاکستان کی دہشت زدہ خراب ترین تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔
بلوچستان اور آزاد کشمیر کی آڑ میں پاکستان کو ہر فورم پر تذلیل کا نشانہ بنایا جائے اور کشمیر کو پاکستان کے ایجنڈے میں پچھلی نشست پر ڈالا جائے اور اس طرح ہر فورم پر دنیا کی نظروں میں ہمیں نیچا دکھایا جائے تاکہ وہ ممالک جو کسی طرح ہماری امداد کر رہے ہیں وہ بھی ہاتھ کھینچ لیں اور پاکستان بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے قابل ہی نہ رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان 1971ء والا پاکستان نہیں ہے مگر اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم سرحدوں پر جتنا مضبوط ہوگئے ہیں بہت سے محاذوں پر اتنے ہی کمزور بھی ہو گئے ہیں، اور دشمن ہماری اس کمزوری کو بھانپ چکا ہے اور جوں جوں موقع ملا وہ کاری ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ بات جب بدلے کی ہو تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ نقصان کتنا ہوگا اور کس کا ہوگا۔ بس اک آگ جلتی ہے جو سب کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ معاملہ جب غیرت اور عوامی پریشر کا ہو تو بہت سے سخت فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں۔ ایسے فریق سے جس کا ماضی تعصب، فرقہ پرستی، مسلمان سے نفرت اور قتل و غارت گری کی داستان بیان کرتا ہو خیر کی امید رکھنے کی بجائے اس کے وار سے بچنے اور نپٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں اور انہی مشکل گھڑیوں کا تقاضہ ہوتا ہے کہ قیادت آرام پسندی ترک کرکے مشکل راستہ اپنائے۔ آسان اہداف ہر کوئی حاصل کر لیتا ہے، تاریخ صرف اُن کو یاد رکھتی ہے جو کٹھن راستوں پر چل کر منزل پاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بظاہر تو اس کانفرنس کا مقصد دشمن کو پیغام پہنچانا تھا مگر حقیقت میں دیکھیں تو یہ صرف ایک بہت ہی آسان راستہ ہے جو حکومت وقت کی جانب سے اپنایا گیا ہے۔ ایک آسان سا سوال یہ ہے کہ،
'کیا بھارت کی جانب سے حملے کی صورت میں تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ اور دشمن کے مخالف کھڑی ہوں گی'؟
اس کا جواب ہرذی شعور جانتا ہے اور اس میٹنگ سے پہلے ہی سارے سیاسی رہنما اس بات کا اعادہ کر چکے تھے کہ اگر دشمن کی طرف سے کوئی بھی قدم اٹھایا گیا تو وہ فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ایسی صورت حال میں اس کانفرنس کا منعقد ہونا صرف اور صرف قیمتی وقت اور قومی سرمائے کا زیاں معلوم ہوتا ہے، دوسری جانب دیکھیں تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کھلم کھلا دھمکی دی گئی کہ بھارت پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کر دے گا۔ جس کی ابتدا اس نے سارک کانفرنس کو ملتوی کروا کر کردی ہے۔
دراصل اس چیلنج سے نپٹنا انتہائی مشکل اور حکومت کا اصل امتحان ہے۔ سفارتی تعلقات کے ذریعے دنیا کو خصوصاً عالمی میڈیا کو یہ باور کروانا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے جو پچھلی ایک دہائی سے دہشت گردی کی زد میں ہے اور ایسے میں کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر کارروائی کرنا اس کے لیے کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟۔
مغربی ممالک میں ایسے پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے جن کی امیج قدرے مثبت اور بیرونی حکومتوں سے ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں، ایسے پاکستانیوں کی مدد لے کر باہر کی دنیا میں اپنی شناخت بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ عالمی میڈیا میں اشتہارات، آرٹیکلز، اور دوسرے طریقوں سے ایک بہتر پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ آجکل جس ملک کا کردار عالمی میڈیا میں خراب ہے اکثریت کی رائے بھی اس کے خلاف ہی بنتی ہے کیونکہ میڈیا رائے عامہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
بیرون ممالک کے پُراثر افراد خصوصاً بیرونی میڈیا کو پاکستان کے دورے کروا کر اصل صورت حال سے آگاہ کروایا جاسکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے ملکی اور عالمی میڈیا کو لائن آف کنٹرول کا جو حالیہ دورہ کروایا گیا ہے، اس نے سرحد کے اُس پار سے ہونے والے پروپیگنڈا کو کافی حد تک دبا دیا ہے اور اُس طرف سے بھی ''سرجیکل اسٹرائیک'' کے ثبوت مانگنے کی باتیں چل نکلی ہیں۔
وزارت خارجہ (جو ایک عدد وزیر سے محروم ہے) میں اس حوالے سے ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا جانا چاہیئے جس کی نگرانی خود وزیراعظم پاکستان کریں۔ دوسری جانب دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارت کاروں کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات دی جائیں تاکہ ان حالات کو بہتر بنانے میں وہ اپنا کردار ادا کرسکیں۔
چین بے شک ہمارا اچھا دوست ہے مگر حالات کے پیش نظر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دوستی میں بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں اور دوستی میں ایک حد سے بڑھنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ جتنا ہو اپنے بل بوتے پر یہ جنگ لڑی جائے نہ کہ دوستوں کے سر پر۔ اُڑی میں ہوئے حملے کے بعد جس شدّت سے بھارت نے سرحدوں کا رخ کیا اور بھارتی میڈیا کی پاکستان مخالف یلغار نے طبل جنگ بجانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس صورت حال میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، بھارت سرحدوں سے ضرور پیچھے ہٹ گیا ہے مگر جنگ سے بالکل بھی نہیں ہٹا۔ وہ اب پہلے سے بھی زیادہ سرمایہ، طاقت اور قوت صرف کرے گا تاکہ پاکستان کی دہشت زدہ خراب ترین تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔
بلوچستان اور آزاد کشمیر کی آڑ میں پاکستان کو ہر فورم پر تذلیل کا نشانہ بنایا جائے اور کشمیر کو پاکستان کے ایجنڈے میں پچھلی نشست پر ڈالا جائے اور اس طرح ہر فورم پر دنیا کی نظروں میں ہمیں نیچا دکھایا جائے تاکہ وہ ممالک جو کسی طرح ہماری امداد کر رہے ہیں وہ بھی ہاتھ کھینچ لیں اور پاکستان بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے قابل ہی نہ رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان 1971ء والا پاکستان نہیں ہے مگر اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم سرحدوں پر جتنا مضبوط ہوگئے ہیں بہت سے محاذوں پر اتنے ہی کمزور بھی ہو گئے ہیں، اور دشمن ہماری اس کمزوری کو بھانپ چکا ہے اور جوں جوں موقع ملا وہ کاری ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ بات جب بدلے کی ہو تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ نقصان کتنا ہوگا اور کس کا ہوگا۔ بس اک آگ جلتی ہے جو سب کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ معاملہ جب غیرت اور عوامی پریشر کا ہو تو بہت سے سخت فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں۔ ایسے فریق سے جس کا ماضی تعصب، فرقہ پرستی، مسلمان سے نفرت اور قتل و غارت گری کی داستان بیان کرتا ہو خیر کی امید رکھنے کی بجائے اس کے وار سے بچنے اور نپٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں اور انہی مشکل گھڑیوں کا تقاضہ ہوتا ہے کہ قیادت آرام پسندی ترک کرکے مشکل راستہ اپنائے۔ آسان اہداف ہر کوئی حاصل کر لیتا ہے، تاریخ صرف اُن کو یاد رکھتی ہے جو کٹھن راستوں پر چل کر منزل پاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔