حج 2016 آنکھوں دیکھا حال چوتھی قسط
ظہر کی نماز کے بعد گروپ آرگنائزر نے شرم دلائی کہ باہر کھلے میدان میں جا کر دعا مانگو کہ یہی وقوفِ عرفہ ہے۔
حرکۃ یا حاجی
عبد اللہ نے گھبرا کر خیمے میں اپنے کمبل اور صوفہ کم بیڈ میں پناہ لی۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ ہارن کی ایسی کریہہ آواز آئی کہ جیسے صور پھونک دیا گیا ہو۔ لگتا ہے کہ یہ ہارن خبطی سائنسدان نے مردوں کو قبر سے اُٹھانے کیلئے بنایا ہوگا جو کسی شیخ نے سعودی پولیس کو بیچ مارا۔ اوپر سے عربی پولیس والے شرطے ایسے چیختے ہیں جیسے کوئی ماں اپنے جوان مرگ بیٹے پہ روئے۔ روح تک کانپ جاتی ہے یہ مسلسل آواز پولیس کی گاڑیوں سے نکل رہی تھی جو مکتب کے آس پاس پل کے نیچے روڈ پر بیٹھے مرد و عورت اور بچوں کو "چلو حاجی چلو" کے نعروں کے ساتھ ہانک رہے تھے۔ پتہ نہیں ان لوگوں کے پاس خیمہ نہیں تھا، کوئی آفیشل پرمٹ نہ تھا یا صرف وہ دوری کی وجہ سے یہاں آبیٹھے تھے۔ پوری رات یہ دھما چوکڑی چلتی رہی۔
ان عربی شُرطوں کے پاس رحم نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔ آواز و مزاج کے ایسے سخت جیسے قبر کے منکر نکیر۔
عبد اللہ کو ایسا لگتا جیسے اللہ کی صفت المنتقم کی تجلی ان پر ڈائریکٹ پڑ رہی ہو اور یہ سب ہم پر ہمارے اگلے پچھلے گناہوں کا بدلہ لینے کیلئے نازل کئے گئے ہوں۔
ویسے حج میں جہاں انسانیت کے بہترین اور بد ترین نمونے دیکھنے کو ملے وہاں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اللہ کی صفت الصمد برس رہی ہو۔ وہ بے نیاز ہے۔ ماروں ٹھوکریں، رؤ دھاڑو، گڑگڑاؤ، اللہ سب سے بلند ہے۔ اس کی کیا نسبت بندوں سے، اس کی کسی سے رشتہ داری نہیں، کسی سے گلا نہیں۔ اس کی رضامندی دنیا کی سب سے مہنگی شے ہے۔ وہ جب چاہے جسے نواز دے، جسے چاہے ذلیل کردے۔ اس سے کس نے پوچھنا ہے؟
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پہلی قسط)
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (دوسری قسط)
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (تیسری قسط)
یوم عرفہ
جیسے تیسے رات گزری۔ صبح ناشتے کے فوراً بعد بسوں کے ذریعے میدان عرفات روانہ ہوئے۔ 9 ذی الحجہ، 11 ستمبر بروز اتوار میدان عرفات زوال سے پہلے پہنچنا ہوتا ہے۔ تھوڑا سا سفر کوئی ایک گھنٹے میں طے ہوا کہ رش بہت تھا۔ خیمے میں پہنچتے ہی عبداللہ نے سنت غسل کیا۔
عرفات کے خیمے منیٰ کے خیموں کے مقابلے میں بس خیمے ہی تھے۔ دو بڑے بڑے اسٹینڈنگ AC لگے ہوئے تھے مگر 50 بندے ایک خیمے میں، زمین پر بچھے قالین پر بیٹھے تھے اور خیمہ تقریباً ہر جگہ سے کھلا ہوا تھا۔ باتھ رومز صاف و ستھرے تھے مگر سب کے ساتھ shared تھے۔ ہمارا یہ VIPخیمہ تھا۔
عام حاجیوں کا کیا ہوا ہوگا۔ خیر، پھر ایک پُرتکلف لنچ، آئس کریم اور جوسز کا دور شروع ہوا۔عبداللہ کی طبیعت رات سے خراب تھی تو اس نے صرف چکھنے پر اکتفا کیا۔
ظہر کی نماز کے بعد گروپ آرگنائزر نے شرم دلائی کہ باہر کھلے میدان میں جا کر دعا مانگو کہ یہی وقوفِ عرفہ ہے۔ کچھ شرم دلانے کا کرشمہ، کچھ رات کے مناظر کا بوجھ، عبد اللہ باہر چلا آیا۔
عبد للہ سوچنے لگا کہ مانگنا کسے کہتے ہیں اور منگتا کون ہے؟
منگتا
مانگنے کا دعوی ہر کوئی کرتا ہے۔ مانگنے کی رسم ہم روز نماز کے بعد نبھاتے ہیں۔ مانگنے کی تعلیم سب دیتے ہیں، مانگتا ہر کوئی ہے مگر منگتا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ شاید لاکھوں میں ایک۔
منگتا وہ ہوتا ہے جسے مانگنا آجائے اور اب ایسے لوگ نایاب ہوگئے۔ مانگنا عبادت کا انعام نہیں اور نہ ہی کوئی اختتامی طرز عمل ہے جو عبادت کی تکمیل کرے۔ مانگنا تو بذاتِ خود ایک عبادت ہے۔ منگتا وہ ہے جسے مانگنے میں لذت ملے، جسے مانگنے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہے۔ وہ چلتا پھرتا، جیتا جاگتا، اُٹھتا بیٹھتا، بولتا اور چپ سراپا مانگ ہو۔ جو بولے تو مانگے، چپ ہو تو مانگے۔
اس کی چپ خدا کی چپ سے باتیں کرے، وہ ہاتھ اُٹھائے تو دعائیں دوڑتی ہوئی آئیں اور اسکے ہاتھوں کے بوسے لے۔ منگتا وہ ہے جو فقیر ہو بھکاری نہیں۔ بھکاری سب سے مانگتا ہے فقیر ایک سے۔ منگتے سے بڑا فقیر شہر میں کوئی نہیں ہوتا وہ بس ہر وقت جھولی پھیلائے مانگتا ہی رہتا ہے اور اسے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کچھ ملے یا سب کچھ مل جائے۔ اْس کی منتیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں جو ملا دے دیا، جوپایا بانٹ دیا، جو عطا ہوا لٹا دیا اور پھر وہی فقیر پھر وہی منگتا۔
جب مانگنے کی لذت مراد سے بڑھ جائے، عرضی کا حسن عطا سے سِوا ہو، سوال کی چاشنی جواب سے آگے نکل جائے، جب فرشتے دلوں میں مانگ پھونکیں اور اُٹھتے ہوئے ہاتھوں پر آمین کہیں، جب اللہ بندے کی طرف یوں آئے جیسے ماں اپنے بچے کی طرف جب وہ پہلی بار ماں پکارتا ہے، جب دل کی پہنچ عقل کو پیچھے چھوڑ جائے، جب تخیل کی پرواز ذاتِ الٰہی کا طواف کرے۔ پھر کوئی بنے ہے منگتا۔
منگتا جب چپ ہوجائے تو قدرت صدا لگاتی ہے کہ مانگو اور جب وہ گویا ہو تو قدرت سب کو چپ کرا دے کہ سنو۔ جب یہ روئے تو قدرت کہے اک بار مسکرادو۔ یہ ایک ایسا مانگنے والا ہوتا ہے جسے خالی جانا منظور نہیں ہوتا، اس کا دل دھونکنی بن جاتا ہے، ایسی گھٹی گھٹی آوازیں نکالتا ہے کہ موت کا گمان ہو۔ اسے اپنے مالک پہ یقین ہوتا ہے کہ دعا قبول ہوکر رہے گی۔ وہ کاتب سے قلم و صفحات مانگ لیتا ہے اور پھر بغیر لکھے واپس کر دیتا ہے۔
یہ منگتا مانگنے پر آئے تو خدا کو خدا سے مانگ لے۔ یہ اسے مانگتا ہے جو سب کو دیتا ہے۔ یہ نور سے نور مانگتا ہے، رنگ سے رنگ مانگتا ہے، تجلی سے تجلی مانگتا ہے اور اپنی مانگ کی تپش میں خود ہی جل کر خاک ہو جاتا ہے۔
سات ارب کی دنیا میں ان کا کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی ہاتھ اِن کے لئے نہیں اُٹھتا۔ یہ رات کے اندھیروں میں ربِ کائنات سے سب کے لئے دعا مانگ کر، سب کے صدقے سے اپنے لئے منگتے کی پوسٹ مانگ لیتے ہیں۔ مانگنا نشہ بن کے اِن کے رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے۔ ان کا خدا کے سوا، خدا کی قسم کوئی نہیں ہوتا۔ اپنا آپ بھی نہیں۔ ان کا دل مالک کے نشے میں ایسا ڈوبا ہوتا ہے کہ اپنا وجود تک نہیں پہچان پاتا کہ کس جسم کی قید میں دھڑکتا ہے۔
ایسے بندے کو کبھی نہیں تنگ کرنا چاہئے جس کا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔ یہ دیوانے دنیا لٹا کر بھی ہنستے رہتے ہیں۔ کوئی مقابلہ کرے تو کیسے۔ منگتے اپنی مراد کسی اور کو دے کر ذکر کی لذت مانگ لیتے ہیں۔ دنیا انہیں حقیر جان کر دھتکارتی ہے، طعنے دیتی ہے، بددعائیں دیتی ہے، کافر و ملحد پکارتی ہے۔ یہ سب سنتے ہیں مگر چپ رہتے ہیں کہ رات تو آنی ہے، سورج تو ڈوبے گا، تاریکی تو چھائے گی، ہاتھ تو اُٹھیں گے، پھر دیکھتے ہیں کون منگتا بنے تو کون مانگ۔ کس کو دنیا ملے تو کس کو دنیا بنانے والا۔
یوم عرفات کے دن حضرت رسالت پناہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اتنے اوپر اُٹھائے تھے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی تھی۔ عبد اللہ نے بھی خوب اونچے کرکے ہاتھ اُٹھادیئے اور دعا مانگی۔
"یا ذو الجلال والاکرام! اے یوم عرفہ کے مالک رب! حج کرنے آیا تھا، یہ کیا کربیٹھا۔ لوگوں کو Abuse کیا، مکتب نمبر 1 کے لوگوں کو حشر میں عذاب کیلئے الگ نہ کردینا۔ ہمارا ڈنر 8 بجے سے رات 2:30 تک چلتا تھا۔ ہوٹل اور خیموں میں کام کرنے والے بائیس بائیس گھنٹے 1200 ریال کے عوض کام کر رہے اور ہم کھاتے رہے۔ اللہ بخش دے کیٹرنگ والوں کو، ہوٹل اورانتظامیہ کو، گروپ آرگنائزرز کو کہ ہمارے فرمائشی پروگرام نے حج کا یہ حال کردیا ہے۔ اے اللہ حاجی مکتب میں چلے گئے، انسانیت باہر پڑی رہ گئی۔ یا اللہ مجھ کو میرے حج پر معاف کردے۔ اس گستاخی پر معاف کر۔
سمجھ نہیں آتا کہ مداوا کیسے کروں۔ اللہ میرے گروپ میں بڑے نیک لوگ ہیں، ان کے صدقے مجھے معاف کردے۔ میں تو چیری ٹاپ حج پہ آگیا ہوں جیسے کیک کے اوپر بلاوجہ ایک چیری لگا دی جاتی ہے، میں تو گریوی میں آگیا ہوں، تو لاوارث حاجیوں کے صدقے مجھے معاف کردے، میرا حج قبول کرلے۔
میرے اللہ، ان مفلوک الحال حاجیوں نے اپنا حج پیش کیا تو یہ تو حجت بن جائیں گے، میں ان کے سامنے تیرے دربار میں اپنا حج کیسے پیش کروں گا، تو ان کے صدقے میرا حج بخش دے۔ قبول کرلے یا رب!"
عبد اللہ دیر تک نجانے کیا کیا مانگتا رہا۔ پاکستان کیلئے، اُمت مسلمہ کیلئے، اہل و عیال دوست احباب کیلئے، آنسوں کی جھڑی لگی تو مغرب سے کچھ پہلے مزدلفہ جانے کی اناؤنسمنٹ پر ٹوٹی۔
عبد اللہ جانے سے پہلے تھوڑی دیر کو زمین پر بیٹھ گیا کہ اس فقیر کی نقل کی جاسکے جو در پر بیٹھ جاتا ہے اور تب تک نہیں اُٹھتا جب تک کچھ مل نہ جائے۔ عبداللہ نے دعا مانگی۔ اے اللہ! ان احرام کی چادروں کا واسطہ ناراض نہ ہو۔ راضی ہوجا۔ آج تو تیری رحمت بے حساب برستی ہے۔ سب کا حج قبول فرما لے۔ سب کو بخش دے۔ سارے اہلِ ایمان کی مغفرت فرما۔ پاکستان پر رحم کر۔
میں نے سب سے یہی سنا ہے کہ تو معاف کردیتا ہے۔ تجھے تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ، ان کے یوم عرفہ کے قیام کے صدقے، ان کی دعاوں کے طفیل، ان کے آنسوؤں کی آبرو میں۔ ان کی ہچکیوں کی بھیک میں۔ میرا حج قبول کرلے۔ آمین! یا ارحم الراحمین!"
مزدلفہ
عرفات سے مغرب کے وقت مزدلفہ روانگی ہوئی۔ مغرب وہاں جا کے پڑھی تھی۔ انسانوں کا ایک تاحدِ نظر سیلاب تھا۔ بسوں میں، پیدل، اسکوٹروں پر، گاڑیوں میں، حتیٰ کہ ٹرالیوں میں لٹکے ہوئے لوگ، بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہوئے لوگ مزدلفہ عرفات اور منیٰ کے درمیان واقع ہے۔ چند کلومیٹر کا یہ سفر 5 گھنٹوں میں طے ہوا۔ شاید جب 20 لاکھ لوگ ایک ساتھ نکلتے ہونگے تو سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہوں گے۔ پھر بھی سعودی ٹریفک پولیس نے کافی اچھا سنبھالا ہوا تھا۔
مزدلفہ پہنچتے ہی ایسی جگہ کی تلاش ہوئی جہاں بسیں پارک کرکے ساتھ میں بیٹھا جا سکے کہ رات کھلے آسمان تلے گزارنی تھی۔ بڑی مشکلوں سے روڈ کے کنارے جگہ ملی۔ عبداللہ بھاگتے ہوئے سامنے موجود واش رومز کی طرف چل پڑا کہ وضو کرلے۔ 20 لوگوں کے لئے بنائے گئے واش روم میں کوئی 2 ہزار افراد تھے۔
ٹوائلٹس کی حالت دیکھ کر عبداللہ کو اُلٹیاں لگ گئیں۔ جیسے تیسے وضو کیا۔ اوپر کے ٹوائلٹس باقاعدہ ٹپک رہے تھے اور نیچے موجود ٹوائلٹس میں جو جاتا اس کا احرام ناپاک ہوجاتا۔
گاربیج ڈسپوزل، مزدلفہ کا نظام اور ٹوائلٹس کی حالت دیکھ کر عبداللہ کا سعودی حکومت کو دیواروں میں چنوا دینے کا دل چاہتا تھا۔ آج کل کے دور میں جہاں مشینری دستیاب ہے۔ سہولیات کی یہ حالت ہے؟ عبداللہ نے دل سے دعا کی کہ یااللہ، حج کا نظام کسی امریکی کمپنی کے حوالے کردے کہ تیری مخلوق یوں ذلیل ہونے سے بچ جائے گی۔
خیر، بھاگم بھاگ مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کیں۔ ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ۔ نماز سے فارغ ہوکر جب آس پاس غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے قالین ایک گندے نالے کے ساتھ ہیں، بدبو تو خیر کوئی نہیں تھی مگر گندے نالے کے کنارے رات گزارنا سوہانِ روح تھا۔
آج حقیقتًا سب برابر ہوگئے تھے۔ GCC حاجی، VIPحاجی اور لاوارث حاجی (شاہی حاجی آج بھی کہیں غائب تھے، شاید انہوں نے مزدلفہ میں بھی کوئی خفیہ ٹھکانہ بنا لیا ہو)۔
سب سے زیادہ پتلی حالت VIP حاجیوں کی تھی۔ لاوارث حاجی تو ان حالات سے روز گزرتے تھے مگر ہم جیسوں کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ عبداللہ کافی دیر تک سوچتا رہا اور سر دھنتا رہا کہ کس طرح باضابطہ طور پر ہلکے ہلکے بتدریج تنزلی ہوتی ہے۔
پہلے 4 اسٹار ہوٹل، پھر 3 اسٹار خیمے، پھر بس صرف خیمہ اور اب روڈ پر نالے کے کنارے کھلے آسمان تلے۔ نہ بیڈ، نہ تکیہ اور نہ ہی چادر۔
ایسا لگتا ہے قدرت کہہ رہی ہو کہ تمہاری یہ اوقات ہے۔
Just to Keep the Record Straight.
اب شروع کرو اور کہو کیا کہتے ہو۔
پتہ نہیں ہمیں گندے نالے کے کنارے جگہ کیوں ملی؟ شاید VIP پیکجز کی عیاشیوں کی سزا کے بدلے یا زندگی بھر کی پُرلطف حقیقتوں کے پردہ چاک کرنے کو یا اس لئے کہ سمجھ سکیں کہ جو لوگ ہمارے ماتحت ہوتے ہیں ان کی زندگی ایسی ہی راتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ خیر جو کچھ بھی تھا ان لوگوں کی دعاؤں کا نتیجہ جن سے صاحب جی انتظار کے بغیر ملتے نہیں تھے یا اپنی اوقات یاد دلانے کا طریقہ۔
اس سے زیادہ بھاری رات زندگی میں کوئی نہیں۔ اَنا پر ضرب پڑتی ہے، "میں" کا وہ جنازہ نکلتا ہے کہ آدمی سوائے حیرت کے کچھ نہیں کرسکتا۔
عبدللہ کی سوچ کو بازو میں ہونے والی چبھن نے توڑا۔ ایک موٹا سا مچھر باپ کا مال سمجھ کر خون چوس رہا تھا۔ ابھی عبداللہ اسے مارنے ہی والا تھا کہ احرام کا خیال آیا۔
لو بھئی، احرام وہ بھی حجِ قر ٰن میں۔ دم آئے گا وہ بھی ڈبل۔ ایک مچھر 30 ہزار پاکستانی روپوں میں پڑے گا۔
عبداللہ نے کینہ توڑ نظروں سے اسے دیکھا اور دعا مانگنے لگا کہ اے خدا، اس سے جان چُھڑا۔
مچھر نے جان چھوڑی تو عبداللہ کنکریاں اکٹھی کرنے لگا۔ سعودی حکومت کنکریوں کے ٹرک اُلٹ دیتی ہے جیسے ہمارے ہاں گھروں میں پتھروں کے ٹرک آتے ہیں۔ آپ لوبیا کے سائز کے 70 کے قریب پتھر چُن لیں اور اگر ناپاکی کا خدشہ ہو تو دھو لیں۔
عبداللہ پتھروں کو دھوتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ان کی ناپاکی تو دُھل گئی۔ اپنے من کو کیسے دھوؤں۔
اُسے جب بھی تنہائی میسر آئے اس کا ذہن اسی قسم کے سوالات سے بھر جاتا ہے وہ سوچنے لگا کہ تنہائی کتنی بڑی نعمت ہے۔
تنہائی
تنہائی کی نعمت کا اندازہ کچھ لوگ ہی کر پاتے ہیں۔ یہ وہ دو دھاری تلوار ہے جس نے کچھ کو بنا دیا اور سینکڑوں ہزاروں کو مٹا ڈالا۔ ہم میں سے جو مصروف ہیں انھیں تنہائی کا وقت ہی نہیں ملتا اور جو بے کار ہیں وہ اپنی تنہائیاں مصروفیت کے مشاغل سوچنے میں برباد کر دیتے ہیں۔ تنہائی کو کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دینا چاہئے۔
اگر پتہ لگ جائے کہ تنہائی کتنی بڑی نعمت ہے تو لوگ اسے بھیک میں مانگا کریں۔ تنہائی اپنے آپ سے ملاقات کو کہتے ہیں۔ جب ساری ملاقاتیں تمام ہوئیں، سارے غبار چھٹ گئے، ہجوم گھرکو گئے، منزلیں مل گئیں، ہم سفر کھو گئے، تب آدمی اپنے آپ سے ملتا ہے اور اسے تنہائی کہتے ہیں۔ منزلوں کی کھوج اصل ہے انکا ملنا نہیں کہ اگر وہ مل جائیں تو سب کچھ بے معنی رہ جاتا ہے خود منزل بھی۔
جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ آپکو کنزیوم کرتے ہیں، آپکو تنہائی میں اپنے رب سے کنیکٹ ہونا ہی پڑتا ہے تاکہ انرجی بحال ہو۔ تنہائی آپکو اپنا آپ دکھاتی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں شکل نہیں کردار نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں خاموشی شور مچاتی ہے، سنّاٹے باتیں کرتے ہیں اور آپ کے تخیل کو پسینہ آجاتا ہے جسے ہم آنسو کہتے ہیں۔
تنہائی طلب بھی تو ہے جو توفیق کو کھینچتی ہے۔ اعمال کا اثر شخصیت پر پڑتا ہی ہے۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ اللہ کی معرفت حرام ہے اس شخص پر جس کی تنہائی پاک نہ ہو۔ جتنے محترم و معتبر آپ لوگوں میں ہیں آپ کی تنہائی کو کم از کم سو گنا زیادہ محترم و معتبر ہونا چاہئے۔ یہ تنہائی ہی ہے جو شخصیت میں وزن پیدا کرتی ہے۔ اگر یہ محترم ہے تو نیکیوں کی توفیق کھینچ لائے گی اور اگر برباد گئی تو گناہوں کی توفیق بھی مل ہی جائے گی۔
تنہائی پیاس بھی تو ہے جو پانی کو زندگی کا جواز بخشتی ہے، جس دن پیاس پانی سے بے نیاز ہوجائے اور پانی پیاس کو ترسے تو طلب کربلا بن جاتی ہے اور یزید کی نسل مٹا دیتی ہے۔ یہ پیاس قائم رہنی چاہئے کہ بہت سوں کو اسکے صدقے رزق ملتا ہے۔
اور تنہائی ضد بھی تو ہے، اس میں آپ جو کرتے ہیں اسکا الٹ زندگی میں آپ کو ملتا ہے۔ سالوں رونے کے بعد لوگوں کو ہنسانے، انکے دکھ درد بانٹنے کا ہنر عطا ہوتا ہے۔ جتنا آپ تنہائی میں روتے ہیں زندگی اتنی ہی مسکراتی چلی جاتی ہے۔ تنہائی میں اپنے آپ کو مٹا دینے والے دنیا میں ممتاز ٹھہرے۔ تنہائی میں مالک کو دل دینے سے پوری کائنات کے دل آپکی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں اور تنہائی میں شرمندگی کا حساب، بندگی کا امتحان پاس کرا دیتا ہے۔
اپنے آپ کو تولنے، پرکھنے، تڑپنے اور پھڑکنے کا اعجاز بھی تنہائی ہی کا مرہون منّت ہے۔ نصیبوں کی ایذا رسانیاں تنہائی کی گریہ و زاری سے ہی دور ہوتی ہیں اور یہ تنہائی ہی ہے جو تقدیر کا مقدّر سنوار دیتی ہے۔
اس کی قدر کریں، برکت کے معنی سمجھ آجائیں گے۔
کبری خالد
VIP مکتب نمبر 1 میں دو آدمی صرف اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی آپ واش روم سے نکلیں وہ جا کر اسے صاف کردیں۔ نیند میں سو رہے ہوں جیسے ہی دروازے کی آواز آئے وہ جھٹ سے اندر۔
عبداللہ نے خیالات کو جھٹکا اور آ کر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ کچھ دیر میں آنکھ لگ گئی کہ پورے دن کی تھکن تھی۔
خواب میں دیکھتا ہے کہ کبری خالد (پُل) کے اوپر لاکھوں لاوارث حاجی جمع ہیں۔ سب بھوکے ہیں اور VIP مکینوں کے باورچی خانوں کے کھانوں کی خوشبوئیں اور دھوئیں اُن تک پہنچ رہے ہیں اور وہ سب ساکت، دم سادھے، چپ چاپ کھڑے ہیں۔
عبداللہ نے دیکھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جا کر ان کے پاؤں گھٹنے چھوتا اور کہتا، حاجی معاف کردو، میرا حج رُک گیا ہے تمہیں اللہ کا واسطہ۔ مجھے نہیں پتہ تھا۔ دیکھو میرا کھانا لے لو، معاف کر دو، میرا حج کبری خالد سے اوپر نہیں جا رہا۔ ہٹ جاؤ، راستہ دے دو۔ اِسے جانے دو۔
مگر وہ تمام لوگ بس ساکت ایک مجسم آہ کی طرح۔ عبداللہ جانے کتنی دیر روتا رہا کہ کہیں سے آواز آئی۔
"عبداللہ جا، تیرا حج اِن لاوارث حاجیوں کی بھیک میں تجھے دیا۔"
اور عبداللہ کی آنکھ کُھل گئی۔ دیکھا تو آنسوؤں سے احرام کی چادر تر تھی۔
عبداللہ نے جاء نماز بچھائی اور اللہ اکبر۔
مزدلفہ، 20 لاکھ حاجی، وہ گندہ نالہ، بسوں کا شور، پولیس کے سائرن سب فوٹو شاپ ہوگئے، نیچے عبداللہ اور اوپر اس کا رب۔
فجر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر وقوف کے بعد سب بسوں میں بیٹھ گئے اور 10 ذی الحجہ کا دن شروع ہوا۔
جمرات
10 ذی الحجہ، 12 ستمبر بروز پیر مزدلفہ سے بسیں سیدھی جمرات لے گئیں۔ جہاں تک جا سکتے تھے گئے، آگے پھر پیدل۔ لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک کی تلبیہ پڑھتے نہر زبیدہ کے گیٹ تک آئے، خودکار زینوں سے اوپر منزل پر پہنچے تو وہاں سے بسوں کے ذریعے جمرات۔
آج صرف بڑے شیطان کو 7 کنکریاں مارنی تھیں۔ ہمارا گروپ پہلے پہنچنے والے ہراول دستے میں شامل تھا تو رش کوئی زیادہ نہ تھا۔ بڑا شیطان جیسے جیسے قریب ہوتا جا رہا تھا لوگوں کا جوش و ولولہ بڑھتا جا رہا تھا۔ کوئی آستین چڑھا رہا تھا تو کوئی زور زور سے تلبیہ پڑھ رہا تھا۔ یہاں نظام بہت بہتر تھا۔ 4 منزلہ جمرات میں تینوں شیطانوں کے لئے 20,20 میٹر لمبی دیواریں بنا دی گئیں تھیں۔ ایک جانب سے جاؤ دوسری جانب سے نکل جاؤ۔ بڑا Smooth سسٹم تھا۔ لوگوں کے بقول اس سال آدھے حاجی آئے ہیں کیونکہ پچھلے سال یہاں بھگدڑ میں 2300 حاجی جاں بحق ہو گئے تھے۔
عبداللہ سب سے الگ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔
یکایک پھر سب فوٹو شاپ ہوگئے۔ نہر زبیدہ کی انٹرنس، پانی دینے اور چھڑکنے والے رضاکار، جمرات کی عظیم الشان عمارتیں۔ عبداللہ کو یوں لگا جیسے وہ ایک بے رحم صحرا میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے اللہ کی راہ میں قربان کرنے جا رہا ہے اور آگے شیطان اسے بہکانے والا ہو۔ ایک ایک قدم من بھر کا ہوگیا۔ کبھی وہ اپنے قدموں میں پڑے اپنے مچلتے ہوئے بیٹے کو دیکھتا اور پھر کہتا، لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لبیک، ان الحمدہ والنعمۃ لک والملک۔ لاشریک لک۔
اور آنسوؤں کی جھڑی لگتی چلی جاتی۔
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن وہ آخرکار شیطان کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے پہلی کنکری نکالی اور زور سے بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر شیطان رزیل کو دے ماری کہ زندگی بھر اسی نے بڑا رسوا کیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔