رنگت تری کیوں پیلی ہے

وہ تو شکر ہے کہ اکثر لوگوں کی بیویاں ان پڑھ ہیں

barq@email.com

پورا شعر یوں ہے کہ

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب وہ کہتے ہیں کہ رنگت تری کیوں پیلی ہے

اسے کہتے ہیں تجاہل عارفانہ بلکہ تجاہل لیڈرانہ بلکہ تجاہل حکومتانہ بھی کہہ سکتے ہیں آپ خود ہی بتائیں کہ جو فرد تقریباً ڈیڑھ لاکھ کا قرض دار ہو آمدنی کچھ نہ ہو اور نہ ہی پتہ ہو کہ کل ضروریات زندگی کے نرخ کیا ہوں گے بجلی کے بل میں کتنی بڑھوتری ہوئی ہو گی، گیس نے کتنی ''ترقی' کی ہو گی، پٹرول کے راستے ٹرانسپورٹ کے کرائے کتنی رفتار سے دوڑ رہے ہوں گے۔

بچوں کے اسکول کی فیس اور خاص طور پر گھر میں تین چار افراد کی بیماری ڈاکٹروں کی فیس اور دواؤں کی قیمت ... پہلے رگ رگ سے ... تو اس بے چارے کی رنگت پیلی نہیں ہو گی تو کیا اس کا رنگ وہ ہوگا جو موسم لیگ کا بلکہ اس کی قوموں کا رنگ ہے جو اس نے پورے ملک کو دیا ہوا ہے، رنگیلا رے تیرے پیار میں ... یوں رنگا ہے مرا من ... ارے ہاں ہم نے کئی بار سوچا ہے کہ اس بات کی وضاحت کر دیں کہ ہم بار بار ہر پھر کر موسم لیگ پر کیوں آجاتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسری پارٹیاں شکوہ سنج ہو جائیں کہ ہم صرف اسی ایک ''بت طناز'' کی مدح سرائی میں رطب اللسان کیوں ہیں، تو سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ ہم مسلم لیگ کی بات نہیں کر رہے ہیں۔

غور سے پڑھیں اگر ''موسم'' کی جگہ کوئی اور لفظ نظر آئے تو اسے کتابت کی غلطی مان کر کشما کر دیجیے اور ''موسم لیگ'' یا موسمی پارٹی کا ''ٹیگ'' ہر پارٹی پر لگایا جا سکتا ہے اور ہر سیاسی پارٹی کے کارنامے، شاہنامے اور پانامے دیکھ کر آپ بھی کہیں گے کہ ارے یہ تو حمام ہے وہ حمام بادگرد جہاں صرف بیانات کی ہوائیاں اڑتی ہیں، اعلانات کی گرد اڑتی ہے اور وعدوں کے خس و خاشاک بہتے ہیں، ویسے بھی ایک دو کے سوا اور کون سی پارٹی ہے جس میں سبز خون شامل نہ ہو بلکہ جھنڈوں میں ہریالی ہوتی ہے اور ''ڈنڈے'' کے بغیر تو کوئی بھی جھنڈا صرف ایک چیتھڑا بن کر رہ جاتا ہے۔

معاف کر دیجیے ہم اصل موضوع سے بھٹک کر غلط تو نہیں بلکہ بہت ہی صحیح سمت میں آگئے لیکن وقت غلط تھا، ... جانا تھا جاپان پہنچ گئے چین ... دراصل بات اس وقت ان 85 فیصد خدا ماروں، حکومت ماروں، لیڈر ماروں اور تاجر ماروں کی کر رہے ہیں جن کی رنگت بہت زیادہ پیلی پڑ چکی ہے، گریڈ اے کا پیلیا تو اسے بہت پہلے سے لاحق تھا اب خطرہ ہے کہ باقی گریڈوں میں جا کر کہیں ''فارغ التحصیل'' ہی نہ ہو جائیں کیوں کہ یہ زردی اب جلد سے پھیل کر آنکھوں تک بھی پہنچ چکی ہے یعنی

اب تو آپہنچے ہیں کچھ اور بھی دشوار مقام
اس کی چاہت میں فقط جی کا زیاں تھا پہلے

پتہ نہیں اسے لطیفہ کہیں یا کثیفہ... کہ دنیا میں پاکستان نے اس مرتبہ ایک انہونی کو ہونی کر دکھایا، یعنی ''امر اکبر اور انتھونی'' دنیا میں پہلی مرتبہ یہ کر دکھایا کہ کسی شخص کو پتہ بھی نہیں اور وہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کا قرض دار ہے گویا وہی کچھ کھایا نہ پیا گلاس توڑا بارہ آنے ... لیکن ان بے چاروں نے تو گلاس توڑنا کیا پانی تک بھی نہیں پیا تھا اور ڈیڑھ لاکھ کے قرض دار ہو گئے عین ممکن ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ڈیفالٹر بھی ہو جائیں، ایک پرانی کہانی پھر دم ہلا رہی ہے، کیا کیا جائے کہ یہاں کچھ نیا ہوتا ہی نہیں پہلے ہی دن سے ایک ہی جیسا ہو رہا ہے

پھر وہ ہی سنگ وہ ہی ہاتھ وہی داغ جنوں

وہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیاباں ہوں گے

قصہ ایک فلم کا تھا کہ ہیروئن کو ہیرو ٹیلی فون پر چھیڑتا ہے لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر اسے پیٹنے کا منصوبہ بناتی ہے، اگلا ٹیلی فون آنے پر لڑکی اس کے ساتھ میٹھی ہو جاتی ہے اور ملنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے، ایک ہوٹل میں ایک خاص میز پر لڑکے کو جیب میں لال رومال کی نشانی بتا کر مدعو کیا جاتا ہے، لڑکا سمجھ جاتا ہے کہ یہ جان ہمرنگ زمین ہے چنانچہ وہ اپنے ایک نوکر کو ساتھ لے جاتا ہے اسی میز پر بٹھاتا ہے اور اس کے کوٹ میں لال رومال بھی ٹھونس دیتا ہے اور خود آڑ میں چلا جاتا ہے۔

لڑکیاں آتی ہیں میز پر موجود شکار پر پل پڑتی ہیں وہ بے چارا کچھ پوچھنے کچھ بولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چتر بازی اور لڑکیوں کے شور میں طوطی ہو کر رہ جاتا ہے، جب لڑکیاں اس کی خوب ٹھکائی کر کے تھک جاتی ہیں تو ہیروئن اسے آخری ضرب لگا کر کہتی ہے ... شرم نہیں آتی تجھے لڑکیوں کو چھیڑتے ہوئے ... وہ بے چارا بڑی معصومیت سے کہتا ہے کمال ہے میں آپ کو چھیڑ رہا ہوں اور مجھے پتہ تک نہیں ہے، اب ہم نے جب سے سنا ہے کہ ہم بیٹھے بیٹھے ڈیڑھ لاکھ روپے کے قرض دار ہو چکے ہیں تب سے سوچ رہے ہیں کہ یہ قرضہ ہم نے کب؟ اور کس سے لیا ہے؟۔

وہ تو شکر ہے کہ اکثر لوگوں کی بیویاں ان پڑھ ہیں (کون کہتا ہے کہ ان پڑھ ہونے کا فائدہ نہیں) اور اخبارات نہیں پڑھ سکتیں ورنہ وہ تو شوہروں کو ڈی مالش کر دیتیں کہ بتا یہ قرضہ لے کر تم نے اسے کس کلموہی پر خرچ کیا ہے، ٹھیک ہے شوہر بعد میں یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جائے گا کہ بھاگوان صرف میں ہی نہیں تم بھی اتنی مالیت کی قرض دار ہو، یعنی ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، اتنے قرضے کے سب اسیر ہوئے، لیکن بے چارے پر تو گزر چکی ہو گی حالانکہ اس سے پہلے ہم تھوڑا سا یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ پاکستان کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس قرضے کے شیئر ہولڈروں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن واقفان حال اور دانائے راز قسم کے لوگوں سے پتہ چلا ہے کہ جس حجم سے آبادی بڑھ رہی ہے۔

اس سے کئی گنا زیادہ حجم کے ساتھ قرضہ بھی بڑھ رہا ہے اب جب کہ آبادی لگ بھگ بیس کروڑ بتائی جاتی ہے تو یہ قرضہ کچھ یوں ہے کہ ستر بلین ڈالر کے قریب قرضہ تو بین الاقوامی شائیلاکوں یعنی عالمی بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ کا ہے جو تقریباً سات ہزار دو سو چالیس ''ارب'' روپے بنتا ہے اس کے ساتھ ہی پاس پڑوس یعنی ملکی مالی اداروں اور بینکوں کا قرضہ تقریباً بیس ہزار ارب روپے ہے، لیکن اصل بات یہ نہیں ہے اور بھی ممالک قرض دار ہوتے ہیں۔

حد یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک بھی ہزاروں ارب ڈالر کے قرض دار ہیں لیکن ان کو اس کا احساس تو ہوتا ہے اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنی مالیات کو کنٹرول کرنے والی پالیسیاں بنائیں لیکن اپنے ہاں اس قسم کی کوئی چنتا کسی کو نہیں ہے اور پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے قرضے لیے جارہے ہیں اور اتنی بے دردی سے خرچ کیے جارہے ہیں جیسے مال غنیمت ہو اس لیے اے ساکنان خطہ قرض دار یہ مت سوچئے گا کہ قرضہ بس اتنا ہی ہے،

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

اور یہ ''ناخن'' کچھ ایسی ویسی رفتار سے بڑھ بھی نہیں رہے ہیں وہ جو ''ناخن'' باہر کے اکاؤنٹس میں جمع ہو رہے ہیں وہ تو ہر کسی کو معلوم ہیں کیوں کہ ان کے کریدے گئے ''زخم'' ہر کسی کے سینے میں ہیں، لیکن ملک کے اندر جو مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ ایک اور الف لیلیٰ وہ جو ادھر ادھر ہو جاتا ہے یعنی ''ترقیاتی کاموں'' کا سفید ہاتھی پالنے میں صرف ہوتا ہے وہ تو الگ ہے لیکن جو سفید ہاتھی منتخب نمایندوں، وزیروں، مشیروں اور چمچہ و کفگیروں کی صورت میں ہم نے اپنے گھر کے سامنے باندھ رکھے ہیں۔

اس کا اندازہ صرف ان کے دفتر جا کر ان کی میزوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے جہاں یہ لوگ کبھی بیٹھتے ہی نہیں ہیں، بہت اونچی سطح کے دفاتر تک تو ہماری رسائی نہیں ہے لیکن جہاں تک ہے وہاں کی میزوں جو لگ بھگ ایک مرلے کے برابر تو ہوتی ہیں اور کمرے میں دوسرا آرائشی نمائشی اور فرمائشی سامان ... کل ملا کر تقریباً ایک شادی کے برابر اخراجات تو ہوئے ہوتے ہیں۔

گاڑیوں کی بات نہیں کریں گے کہ یہ بہت پرانی بات ہے لیکن جو ہاتھی خانے اسمبلیوں کے نام پر قائم ہیں ان کے اخراجات کے بارے میں سن کر تو ہوش اڑ جاتے ہیں مثلاً ہمارے صوبے کی اسمبلی کے اجلاس پر روزانہ آٹھ دس لاکھ کا خرچ ہوتا ہے، چاہے کورم پورا ہو یا نہ ہو جب کہ ممبران کی تنخواہیں، مراعات اور صوابدیدات الگ ہیں، یہ صرف ''شور'' اخراجات کی بات ہے ورنہ جو ''ان شور'' خرچ ہوتا ہے اس کا حساب نہیں، اور اسی تصور پر بیٹھ کر ساری اسمبلیوں اور سینیٹ متعلقہ لاجوں ہاسٹلوں کمروں اور کینٹینوں وغیرہ پر نگاہ دوڑایئے اگر آپ کو ''پیلیا'' نہیں ہو گیا تو ہمارے ذمے واجب الادا ان شور قرضہ چار گنا کر دیجیے دگنا تگنا تو وہ ویسے بھی ہو گیا ہو گا۔
Load Next Story