ہٹ دھرمی

شمالی کوریا نے امریکی انتباہ کے باوجود تقریباً آدھا درجن ایٹمی دھماکے کر ڈالے ہیں

usmandamohi@yahoo.com

چند دن قبل فلپائن کے صدردوتیرتے نے اوباما کو وہ گالی دی جس پرمشتعل ہوکرکوئی بھی شخص گالی دینے والے کو قتل تک کرنے کا مرتکب ہوسکتا ہے، مگر ایسا نہیں ہوا بعد میں دوتیرتے کے رسماً معافی مانگنے پر اوباما نے انھیں معاف کردیا۔

البتہ پہلے ضرور اوباما نے کچھ غصہ دکھایا اور دوتیرتے سے ملنے سے انکارکردیا، مگر پھر ملاقات بھی ہوئی اورگفتگو بھی ہوئی ۔اس واقعے پر دنیا حیرت زدہ ہے اور سوچ رہی ہے کہ اب امریکا کی یہ اوقات رہ گئی ہے کہ اس کے صدرکوگالی تک کھانا پڑرہی ہے۔ادھر امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ہی ملک کی عزت خاک میں ملانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ساتھ ہی اوباما کو بھی بے توقیرکرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔کچھ دن پہلے اس نے روسی صدر پوٹن کو اوباما سے بہتر عالمی رہنما قرار دیا تھا۔

ترکی کے صدر اردگان نے اوباما حکومت پر الزام لگایا ہے کہ ترکی میں رونما ہونے والی حالیہ بغاوت میں ان کی حکومت کا ہاتھ تھا۔ چینی حکومت نے بحیرہ چین میں واقع متنازعہ جزیرے سے امریکی وارننگ کے باوجود اپنی فوجیں ہٹانے سے صاف انکارکردیا ہے۔ دوتیرتے نے بھی امریکی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ فلپائن کے جنوبی جزیرے منداناؤ سے فوراً اپنی فوجیں واپس بلا لے۔ شمالی کوریا نے امریکی انتباہ کے باوجود تقریباً آدھا درجن ایٹمی دھماکے کر ڈالے ہیں۔ اب بتایے امریکا کہاں کھڑا ہے؟ اس کی دنیا میں کیا عزت رہ گئی ہے پھر جب امریکا کی کوئی عزت نہیں تو اس کے صدرکی کون عزت کرے گا؟

اسی لیے شاید بے چارے اوبامہ دوتیرتے کی جانب سے انھیں فاحشہ عورت کی اولاد کہنے پر بھی بس خاموش ہی رہے اور یہ گالی والا واقعہ دوتیرتے اور اوبامہ کے درمیان اکیلے میں پیش نہیں آیا بلکہ لاؤس میں منعقدہ آسیان کے سربراہی اجلاس کے موقعے پر رونما ہوا۔ اس واقعے نے دراصل سپر پاور امریکا کی گھٹیا، جارحانہ اورغیر انسانی کارروائیوں کی پول کھول دی ہے۔

وہ اس وقت دنیا کے لیے نازیوں کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی جیسا ملک بن چکا ہے ویسے اس کا کوئی بھی صدر نہ ہٹلر جیسا تھا اور نہ ہی مسولینی جیسا ہے مگر اس کے کانگریس کے سینیٹرز ہٹلر اور مسولینی جیسی پالیسیاں بناکر دنیا کے امن کو تباہ کرنے، انسانوں کا قتل عام کرانے اور امن و جمہوریت کے نام پر دہشتگردی کو ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کی جارحانہ، متعصبانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کی واضح مثالیں عراق، افغانستان، شام، لیبیا، صومالیہ اور یمن ہیں۔ بدقسمتی سے تمام اسلامی ممالک ہیں جو سب تباہ کردیے گئے ہیں اور ان کے عوام دربدرکی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔

اب عراق، لیبیا اور شام کی تباہی پر مگرمچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ اگر وہاں غلطی ہوئی تھی تو اب ویسی ہی غلطی کو صومالیہ اور یمن میں کیوں دہرایا جا رہا ہے۔ پاکستان کو کیوں نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اول تو بھارت کے ذریعے افغانستان کی دہشتگردی کو پاکستان منتقل کردیا گیا ہے۔ پاکستان دراصل امریکی حکم پر افغانستان کو دہشتگردی سے بچانے کی کوشش میں خود دہشتگردی کا شکار ہوا ہے۔


پاکستان دشمنوں کی نظر میں اس لیے بھی کھٹک رہا ہے کیونکہ اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ اب کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ پاکستان پر دہشتگردی کا لیبل لگا کر اس کی ایٹمی طاقت کو زائل کرادیا جائے۔ بھارت میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کارروائیوں کو اچھال کر پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ پاکستان میں ''را'' کی دہشتگردی کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا۔ آخر ہم امریکا کے ہاتھوں کب تک ذلیل ہوتے رہیں گے افسوس کہ ہماری خارجہ پالیسی موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔

ہماری معذرت خواہانہ پالیسی سے فائدہ اٹھا کر اوباما حکومت نے ہماری امداد تو بند کر ہی دی ہے اب ہم پر مزید کوڑے برسانے کے لیے ہم پر پابندیاں لگانے کے لیے کانگریس میں غور و خوض شروع ہوگیا ہے۔ دراصل یہ مہم بھارت کی فرمائش پر اس کے زرخرید سینٹرز چلا رہے ہیں لگتا ہے اوباما اپنی حکومت کا سورج غروب ہونے سب قبل ہی یہ بھی بھارت نوازی کرکے دم لیں گے۔ چلو بھارت کی ہمت افزائی تو اس کی سوا کروڑ کی منڈی کی وجہ سے کی جا رہی ہے مگر چین سے جنگ چھیڑنے اور اسے گھیرنے کی کوشش کس خوشی میں کی جا رہی ہے؟

اس بات کو کیوں سامنے نہیں رکھا جا رہا کہ اگر چین سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو یقینا تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے جس کا مطلب پوری دنیا کی تباہی ہوگا۔ چین پر مغربی حملے کی صورت میں روس خاموش تماشائی نہیں رہ سکے گا ادھر امریکی حلیف یورپی ممالک کو بھی جنگ میں کودنا ہوگا حالانکہ وہ بے چارے ابھی دوسری عالمی جنگ کو بھگت چکے ہیں اور اس جنگ کے زخم پوری طرح مندمل بھی نہیں ہوسکے ہیں کہ انھیں مجبوراً اپنے مائی باپ کے حکم پر تیسری عالمی جنگ کا بھی ایندھن بننا ہوگا۔ پھر جب تیسری عالمی جنگ ہوگی تو دوسری عالمی جنگ کی طرح امریکا محفوظ نہیں رہ سکے گا اس پر بھی میزائلوں کی بارش ہوگی اور اب تو روس کی جنگی ٹیکنالوجی امریکا سے بہت بہتر ثابت ہوچکی ہے۔

چنانچہ امریکا کو کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ یوکرین کی جنگ میں امریکا پہلے ہی روس کے آگے ڈھیر ہوچکا ہے۔ شام کے محاذ پر بھی اب روس کے ہاتھوں امریکا کو شکست کا سامنا ہے۔ شام میں وہ افغانستان اورعراق کی طرح اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ شام میں اس کی پسپائی سے دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ روس دوبارہ اپنا مقام حاصل کر رہا ہے۔ گوکہ امریکا نے روس پر معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں مگر روس انھیں ذرا خاطر میں نہیں لا رہا ہے کیونکہ اب اس کی معیشت سنبھل چکی ہے اور لگتا ہے آیندہ برسوں میں وہ ایک مضبوط معاشی ملک بن کر امریکا اور اس کے حلیف مغربی ممالک کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرلے گا۔

روس اورچین کی بحیرہ چین میں فوجی مشقوں نے امریکا کو تو پریشان کر ہی دیا ہے مگر امریکا سے زیادہ بھارت کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے، حالانکہ بھارت کا ان مشقوں سے کیا لینا دینا کیونکہ وہ بحیرہ ہند سے ہٹ کر چین کے جنوبی ساحل کے پاس ہو رہی ہیں لیکن چونکہ بھارت نہ صرف خود کو علاقائی تھانے دار سمجھنے لگا ہے بلکہ چین کی ٹکر کا ملک بھی سمجھنے لگا ہے جب کہ اس کی چین کے آگے کیا اوقات ہے۔ گوکہ چین بھارت کو خاطر میں نہیں لاتا ہے مگر اسے اس کے امریکا کے ساتھ فوجی گٹھ جوڑ پر ضرور تشویش ہے کیونکہ بھارت اپنے فوجی اڈوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی امریکا کو اجازت دے کر شنگھائی تعاون معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

بھارت کو چاہیے کہ وہ چین سے خوامخواہ دشمنی مول نہ لے۔ چین سے دشمنی کرکے وہ اپنی ابھرتی ہوئی معیشت کو تباہی سے دوچار نہ کرلے۔ حالانکہ اس نے چین کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود چین تحمل سے کام لے رہا ہے۔ بھارت امریکا کے اکسانے پر ویت نام اور جاپان سے مل کر چین کی گھیرا بندی کرنا چاہتا ہے مگر یہ اس کی بچکانہ حرکت ہوگی کیونکہ ابھی بھارت اتنا طاقتور نہیں بن سکا ہے کہ وہ امریکا، روس اور چین کی طرح دنیا پر اثرانداز ہوسکے۔

چین ایک بڑی طاقت ہے جس نے امریکا تک کو خوفزدہ کر رکھا ہے، بھارت کو چاہیے کہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک کا خطرناک کھیل ترک کرکے اس سے ایک پرامن پڑوسی کے تعلقات استوار کرے۔ اسے پاکستان سے صرف ایک ہی شکایت ہے کہ وہ کشمیریوں کی مدد کیوں کر رہا ہے تو بھارت ہوش کے ناخن لے کہ کشمیر اس کا گھریلو مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے جسے اسے ہر قیمت پر حل کرنا ہوگا۔ وہ جب تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا رہے گا مشکلات میں گھرا رہے گا نہ ہی تو اس کی معیشت صحیح معنی میں ترقی کرسکتی ہے اور نہ ہی ملک سے غربت، بھوک اور بے چینی ختم ہوسکتی ہے ،کاش کہ مودی جی اپنی ہٹ دھرمی ترک کرکے حقیقت پسندی کواپنالیں تو ضرور انھیں ایک کامیاب نیتا کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے۔
Load Next Story