جارحانہ دفاع ضروری ہے مگر…

مغربی سرحدوں پر بھارت کے پرجوش اتحادیوں کی عملی مخالفت بھی درپیش ہے

moazzamhai@hotmail.com

پاکستان کو اگر ایک طرف اپنی مشرقی سرحدوں پر روایتی پاکستان دشمن سوچ رکھنے والے بھارت کا سامناہے تو دوسری جانب مغربی سرحدوں پر بھارت کے پرجوش اتحادیوں کی عملی مخالفت بھی درپیش ہے ۔ مشرق ومغرب پر موجود مستقل درد سرکے یہ بھرپور لوازمات ہمارے لیے کافی نہیں تھے کہ قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ ملک کے اندر بھی بھارت اور اس کے اتحادیوں کے وفادارعناصر کی روز افزوں پھیلتی پھولتی فراوانی ہے۔

ان میں سے کچھ وہ ہیں کہ کھلم کھلا پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیوں میں مشغول ہیں تو کچھ وہ ہیں کہ پاکستان کے ریاستی نظام و انتظام میں اپنے پورے پورے خاندانوں، یاردوستوں، درباریوں، چمچوں، فرنٹ مینوں کے ساتھ دور دور تک مضبوطی سے جڑیں پھیلائے بیٹھے ہیں۔

ہر احتساب سے مبرا طاقت اور دن دگنی رات چوگنی بڑھتی دولت سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ فخریہ اور اعلانیہ اس ملک اور اس کے دفاعی اداروں کے خلاف مصروف عمل ہیں اور جیسے کہ ہماری مصیبتیں بڑھانے کو قدرت کے یہ انوکھے تحفے کافی نہیں تھے کہ رہی سہی کسر ان ٹیلنٹڈ ارب ہا ارب پتی معززین کرام نے پوری کر دی۔ پاکستان کے دشمنوں کی تعداد اور ان کی تدبیروں کے معاملے میں حالات کی اس بے بہا فیاضی نے پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک غیر معمولی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔

اب اس غیر معمولی صورت حال کے غیر معمولی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمیں کچھ غیر معمولی سوچ و بچار سے بالآخر کام لینا ہوگا۔ مثلاً یہ کہ ہمیں روایتی اور غیر روایتی دفاعی تیاریوں کے ساتھ ساتھ نت نئے آئیڈیاز پر بھی کھل کر توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان کے Tactical نیو کلیائی ہتھیار اس طرز کی نئی سوچ کی ایک پر اثر اسٹریٹجک مثال ہیں جنھیں ہم جارحانہ دفاعی آئیڈیاز کا نام دے سکتے ہیں۔ جارحانہ دفاع کے آئیڈیاز کا فائدہ کیا ہے؟ سب سے کام کا فائدہ تو یہ ہے کہ اگر دشمن اور اس کے اتحادیوں کو آپ پر روایتی عددی و ہارڈ ویئر سبقت حاصل ہے تو یہ سبقت Blunt یعنی کند پڑ جاتی ہے۔

دوسرے یہ کہ اگر دشمن غیر روایتی جنگ سے پرہیز کرتے ہوئے محدود پیمانے کی لڑائی بھڑائی میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس ضمن میں اس کی بہت سی اسٹریٹجک آپشنز ناکامی سے دو چار ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کو چنانچہ اپنی روایتی و غیر روایتی صلاحیتوں میں اضافے اور بہتری کے ساتھ ساتھ اپنی مقامی الٹرا ہائی ٹیک ریسرچ، ڈویلپمنٹ اور پروڈکشن صلاحیتوں کو بڑھاتے ہوئے جارحانہ دفاع کے Multifarious یعنی متنوع پراجیکٹس پر کام کرنا ہوگا مثلاً طیاروں کا سراغ لگانے والی مختلف ٹیکنالوجیز سے بچ کر پرواز کرنے والے اسٹیلتھ Stealth بمبار طیاروں کی تیاری Next Generation High Alttuoe ڈرونز کی تیاری جوکہ نہ صرف انتہائی بلندی پر سے جاکر دشمن کے خلاف آپریشن کرسکیں بلکہ دشمن ہوا بازوں کو بھی Engage کرسکیں، اس کے ساتھ ہی اسٹیلتھ ڈرونز کی تیاری بھی نہایت اہم ہوگی جو ہمارے حریف کے خلاف ایک زیادہ موثر رول ادا کرسکیں گے۔

اب ڈرونزکی بات ہو ہی رہی ہے تو ہمیں بڑے سائز اور بڑی طاقت کے لاجسٹک سپلائی ڈرونزکی تیاری پر بھی کچھ توجہ مبذول کرنی ہوگی جوکہ خاص طور پر پہاڑ جغرافیے میں ہماری ٹروپس کو بروقت مدد پہنچاسکیں۔کارگل نے یقینا ہمیں سپلائی لائن کی اہمیت کا زیادہ ادراک کرنے میں کما حقہ مدد کی ہے، مائیکرو سائز یعنی از حد مختصر حجم رکھنے والے ڈرونز مخالف ٹارگٹس کی نگرانی اور نشاندہی میں بڑے ہی کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں اور آگے چل کے وہ امید ہے کہ مختلف طرح کی Environment اور Conditions میں Individual ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی حاصل کر لیں گے۔


Underwater یعنی زیر آب ڈرونز کی تیاری کے سلسلے میں تو امریکا کی Defence Advanced Research Projects Agency (Darpa) نے تو Anti-Submarine Warfare Continuous Trail Unmanned Vessel کی تیاری میں خاص پیشرفت کرلی ہے ۔ یہ زیر آب ڈرون گہرے سمندروں میں دشمن کی زیر آب نقل و حرکت کی جاسوسی کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن آب دوزوں کو تباہ کرنے کے مشن بھی ادا کرے گا۔ ہمیں روبوٹ سپاہیوں کی زمینی موجودگی پر بھی کام کرنا ہوگا جو بم اور بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے کے علاوہ نگرانی اور Multi Terrain Combat بھی کرسکیں۔

ہمیں Deep Bunker Busters کی بھی تیاری کرنی ہوگی تاکہ زمین کی گہرائیوں میں چھپی مخالف کمانڈ اپنی جسمانی سلامتی کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہوجائے۔ اینٹی ایئرکرافٹ اور اینٹی میزائل شیلڈز، لانگ رینج موبائل ریڈار اور ریڈار Jamming سسٹمز، الیکٹرانک Jamming اور ریموٹ کنٹرولنگ سائبر Climate Control Warfare ٹیکنالوجیزکے علاوہ دہشتگردوں کے خلاف Micro Surveillance Instruments میٹل اور کانکریٹ اسکینرز، گائیڈڈ بلٹس Local Area Nerve Numbing Devices کے علاوہ Protective Personnel Gear پر بھی کام کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ پاکستان کا اپنا ڈیفنس اسپیس سسٹم کا ہونا لازمی ہے۔

مگر جناب اس سب کے لیے ہمیں پیسہ چاہیے، اچھا خاصا پیسہ۔ صرف Darpa کا سالانہ بجٹ ہی 3 ارب ڈالر یعنی پاکستانی 300 ارب روپوں کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ ہمارا کل دفاعی بجٹ اس سال 11 فی صد اضافے کے بعد 860.2 ارب روپے ہوا ہے مقابلے میں صرف بھارت کا دفاعی بجٹ ہی 50 ارب ڈالر سے زائد یعنی کوئی 5000 ارب روپوں سے زیادہ ہے اس کے اتحادیوں کے دفاعی بجٹ الگ ہیں۔ ادھر پاکستان امریکا سے صرف آٹھ ایف 16 طیارے نہیں لے سکا کیونکہ ہم ان کی 700 ملین ڈالر قیمت ادا نہیں کرسکے تو آخر پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ہماری برآمدات آٹھ سال کی نچلی ترین سطح پر گرچکی ہیں۔

GDP میں انڈسٹریل سیکٹر کا حصہ صرف 20 فی صد کے آس پاس رہ گیا ہے جنوبی ایشیامیں پاکستان کا GDP گروتھ ریٹ بھارت، بگلا دیش یہاں تک کہ بھوٹان تک سے بھی کم ہے۔ البتہ سوئزر لینڈر کے بینکوں میں پاکستان سے لوٹے گئے 200 ارب ڈالر یعنی 20000 ارب روپے پڑے ہیں اس کے علاوہ دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا، جرمنی، اسپین، جنوبی افریقا وغیرہ میں نہ صرف پاکستان سے لوٹے گئے ہزاروں ارب روپے کا سرمایہ موجود ہے بلکہ کرپشن، چوری، لوٹ مار کے پیسے سے خریدی گئی ہزاروں ارب روپوں کی جائیدادیں اور کاروبار بھی موجود ہیں مگر کیا کیجیے کہ پاکستان کی اس لوٹی گئی دولت کو وا پس لانے اور کرپشن کے خلاف سچ مچ کی کارروائی کی بات ہو تو ہرسو ہاہاکار مچ جاتی ہے کہ دیکھیں دیکھیں ''نظام'' کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔

ادھر پاکستان کے بیرونی قرضے روشنی کی رفتار سے بڑھتے ہوئے 73 ارب ڈالر کو پہنچتے ہوئے تیزی سے 90 ارب ڈالر ہونے جارہے ہیں جس کے بعد اندیشہ ہے کہ پاکستان شاید اپنے قرضوں پر سود کی قسطیں دینے کے قابل نہ رہے نتیجتاً عالمی مالیاتی ادارے اسے دیوالیہ قرار دے دیں اور انتہائی سخت معاشی پالیسیاں ملک پر نافذ کردیں جس کے بعد جارحانہ دفاع کے لیے پیسہ تو دور کی بات روایتی دفاع کے لیے بھی مناسب پیسے نہ مل سکیں۔ نیو کلیئر پروگرام اور میزائل پروگرام معطل اور پھر رول بیک ہوجائیں۔ پاکستان آخر کار بنگلہ دیش اور بھوٹان کی طرح بھارت کا ایک طفیلی ملک بن کر رہ جائے۔ شاید ''نظام'' بھی کچھ ایسا ہی چاہتاہے۔

تصحیح: گزشتہ کالم میں کمپوزنگ کی غلطی سے تتسی (TUTSI) قبیلے کا نام پرتتسی چھپ گیا۔
Load Next Story