جوڑ توڑ کا شور

مخالف جماعتوں کے درمیان گھٹتا فاصلہ پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھا رہا ہے

مخالف جماعتوں کے درمیان گھٹتا فاصلہ پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

سیاسی جماعتوں کی طرف سے عام انتخابات کے لیے تیاریوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ کراچی میں مختلف جماعتوں کے راہ نماؤں کی آمد اور اپنے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عوام سے رابطے بڑھتے جارہے ہیں، جب کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، مرکزی اور صوبائی قیادتوں کے درمیان ملاقاتوں میں سیاسی اتحاد اور الیکشن سے متعلق امور پر بات چیت کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ فی الوقت مقامی سیاست میں کراچی کے لیے نئی حلقہ بندیوں، ووٹرز کی فہرستوں کی تصدیق اور الیکشن کمیشن کے اقدامات کا شور زیادہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے دفتر میں خاصی گہما گہمی نظر آرہی ہے۔ پچھلے دنوں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم سے کیمپ آفس کراچی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں پر مشتمل وفود نے ملاقات کی، جس میں کراچی میں نئی حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا معاملہ خاص طور پر زیرِ بحث آیا، جب کہ انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے تجاویز کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے مختلف شکایات بھی ان تک پہنچائی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ سندھ کے الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ کی برطرفی کا مطالبہ بھی میدانِ سیاست میں نمایاں جماعتوں نے تحریری طور پر چیف الیکشن کمشنر تک پہنچا دیا ہے۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے چیف الیکشن کمشنر کو جماعت اسلامی سمیت ن لیگ، تحریک انصاف، سنی تحریک، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے سونو خان بلوچ کی برطرفی کی درخواست پیش کی۔ سیاسی قائدین کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں سے ایک پارٹی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے، اس سلسلے میں ایک مرتبہ پھر موجودہ افسران کو آگے کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ موجودہ صوبائی الیکشن کمشنر کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا کر کسی اہل افسر کو تعینات کیا جائے تاکہ شفاف انتخابی فہرستیں تیار کی جا سکیں۔

پچھلے دنوں کراچی میں حلقہ بندیوں سے متعلق متحدہ قومی موومینٹ کے علاوہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی تجاویز الیکشن کمیشن کو جمع کرائیں۔ ان جماعتوں میں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، ن لیگ و دیگر شامل ہیں۔ سیاسی حلقے اسلام آباد میں ہونے والے الیکشن کمیشن کے اجلاس کو نہایت اہمیت دے رہے ہیں اور مبصرین توقع کر رہے ہیں کہ اس میں کراچی کے بارے میں فیصلے سیاسی صورت حال میں نمایاں تبدیلی کا باعث بنیں گے۔

اتوار کے روز جناح گرائونڈ عزیز آباد میں ایم کیو ایم کے تحت یوم شہداء منایا گیا، جس میں شرکاء سے متحدہ قومی موومینٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب کیا۔ اس موقع پر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جدوجہد کا مقصد اقتدار کا حصول ہرگز نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی، خوش حالی اور عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ کراچی میں حلقہ بندی اور ووٹرز کی فہرست کی تصدیق سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ ایم کیو ایم کے عوامی مینڈیٹ کے خلاف سازش ہے۔ اجتماع میں رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی، نسرین جلیل، ڈاکٹر نصرت اور دیگر اراکین موجود تھے۔


ادھر صوبائی الیکشن کمشنر سونوخان بلوچ کی مصروفیات بے انتہا بڑھ چکی ہیں اور وہ ضلعی الیکشن کمشنرز، ریجنل الیکشن کمشنر اور انتظامیہ کے ساتھ اجلاس اور ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کی انتظامیہ کو ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور حلقہ بندیوں کے لیے تیاریاں مکمل رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ صوبائی الیکشن کمیشن کی انتظامیہ بھی اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور حلقہ بندیوں سے متعلق متوقع فیصلوں کا انتظار کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ میڈیا سے بات چیت کے دوران کہہ چکے ہیں کہ جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں الیکشن کمیشن اپنی سفارشات مرتب کرے گا، حلقہ بندیوں پر مبنی غیر حتمی سفارشات عوام کے سامنے پیش کر کے ان سے رائے طلب کی جائے گی اور پھر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں کے مابین رابطوں میں تیزی اور انتخابات کے لیے سیاسی اتحاد کی باتیں کراچی کے سیاسی ماحول کو گرما رہی ہیں۔ اندرونِ سندھ مختلف قوم پرستوں کا گٹھ جوڑ پی پی پی کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے، جب کہ کراچی میں قومی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنے جلسوں اور بیانات میں حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے اعلانات شروع کر دیے ہیں۔

پچھلے دنوں جماعت اسلامی (سندھ) کے امیر معراج الہدی اور محمد حسین محنتی کی قیادت میں وفد نے راجا ہاؤس میں حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی، جس میں سندھ کی سیاسی صورت حال اور عام انتخابات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیر پگارا نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ کے عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی، اس لیے میں نے عوام میں نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے چند افراد نہیں بلکہ سندھ کی قسمت کا فیصلہ خود یہاں کے عوام کریں گے۔ 14دسمبر کو حیدرآباد میں ہمارا جلسۂ عام منعقد ہوگا، اس جلسے میں کسی پر تنقید نہیں ہوگی، میں اپنی پارٹی کا منشور اور پروگرام پیش کروںگا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے اتحادی سیاسی جماعتوں سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین کو بھی جلسے میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے حیدرآباد کے جلسے میں لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، قتل وغارت گری اور دیگر مسائل پر بات نہیں کی اور دوسروں پر تنقید کرتے چلے گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ میری ذات اور میری جماعت کا نہیں بلکہ سندھ کے عوام کی پریشانیوں اور مشکلات کا سوال ہے، جو بھی سندھ کے لیے اچھا سوچے گا، میں اسے ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہوں۔

سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری نے پچھلے دنوں سنی اتحاد کونسل سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اگلے انتخابات اپنی آزاد حیثیت کے ساتھ حصہ لینے کے عزم کا اظہار کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات کے سلسلے میں فنکشنل لیگ سمیت دیگر جماعتوں سے ملک گیر سطح پر بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے اور جلد نیا سیاسی اتحاو وجود میں آئے گا۔ ثروت اعجاز قادری نے فوج کی نگرانی میں انتخابات کروانے کی بات بھی کی ہے۔ وہ مرکز اہل سنّت پر مرکزی اور صوبائی راہ نماؤں کے دو روزہ ہنگامی اجلاس کے بعد پیر کی شام کو پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مرکزی سیاسی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو الیکشن میں محب وطن سیاسی جماعتوں سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کرے گی۔

سنی تحریک کے علاوہ سیاسی اتحاد اور جوڑ توڑ کی باتیں جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے بھی کی گئی ہیں۔ جے یو آئی کے صوبائی امیر محمد اسعد تھانوی اور کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری حافظ احمد علی و دیگر نے اپنے کارکنان سے خطاب کے دوران کہا کہ متحدہ دینی محاذ گھٹن کے اس ماحول میں ہوا کا تازہ جھونکا ہے، جو ملک کو امن و امان، اخوت اور بھائی چارے کی فضاء سے معمور کر دے گا، کرپٹ سیاست دانوں نے ملک کے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، جس سے انھیں آزاد کروانے میں دینی جماعتوں کا اتحاد ہی اہم اور مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے اور اس اتحاد کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ n
Load Next Story