نئے صوبوں کا قیام پارلیمانی کمیشن نے کام شروع کردیا
صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری آئندہ انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت نہیں کرسکیں گے
حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے بعد مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے آئندہ عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بلندوبانگ دعوے کرنے شروع کردیئے ہیں۔
ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ نتیجہ قطعی طور پر اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی بھی جماعت دوتہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ غیرجانبدار سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر بڑی حد تک متفق نظر آتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جیسا کہ اس وقت وفاق اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں قائم ہیں، کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی،تاہم بعض مقامات پر انتخابات میں نتائج توقعات کے برعکس آجاتے ہیں۔
عام انتخابات کی آمد آمد ہے اب جبکہ تمام سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں غیراعلانیہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ،ہرجماعت کامیابی کے دعوے کرنا جمہوری اور آئینی حق سمجھتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے باعث بلاشبہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کی عوام میں ساکھ اور مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) نے مشترکہ طور پر ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کوٹف ٹائم دینے کیلئے خاصی تگ ودو کی تھی تاہم دونوں جماعتوں کی مشترکہ یہ حکمت عملی کارگرثابت نہ ہوسکی۔ یہ درست ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو آئندہ عام انتخابات میں کلین سویپ کرنے سے منسوب نہیں کیاجاسکتا۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف انتخابی جلسوں میں لفظ ''جھرلو''استعمال کررہے ہیں اور یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ٹریلر چل پڑا ہے اور آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائے گی۔ موجودہ حکومت کی 5 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ ملک میں جمہوری حکومتوں کی آئینی مدت کی تکمیل سے دراصل ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے بدستور مستحکم ہوں گے اوراس سے اقتدار کی پرامن انداز میں منتقلی ممکن ہوسکے گی۔ وفاقی دارالحکومت کے باخبر حلقے کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان حالیہ غیراعلانیہ رابطوں میں آئندہ متوقع نگراں وزیراعظم کے معاملے پر بڑی حد تک اتفاق رائے ہوچکا ہے۔
ابھی تک وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اعلانیہ مذاکرات ہونا باقی ہیں تاہم اندرون خانہ معاملات پر اتفاق رائے کیلئے سنجیدہ اور تعمیری کوششیں ہنوز جاری ہیں اور یہ باور کیاجارہا ہے کہ ایک غیر متنازعہ،شفاف غیرجانبدار اور اچھی ساکھ کی حامل شخصیت کے نام پر بڑی حد تک اتفاق رائے ہوچکا ہے اور یہ شخصیت ایک ریٹائرڈ جج کی ہوسکتی ہے۔ ایک اہم حکومتی وزیرسید خورشیداحمد شاہ نے کہا ہے کہ قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نگران وزیراعظم کے معاملے پر ہمارے ساتھ ہیں اور جلد قوم کو سرپرائز دیں گے۔ انہوں نے موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کی قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی،انتخابات وقت پر ہوں گے۔
قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری ہے، ایک بار پھر نئے صوبوں کی بحث شروع ہوگئی ہے ،پارلیمانی کمیشن نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) کی شمولیت کے بغیر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں کام شروع کردیا ہے۔ مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی کے درمیان اس کمیشن کے معاملے پر بات چیت کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے ایک بار پھر اس پارلیمانی کمیشن کو مستردکردیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت دیگر جماعتوں نے صوبائی کے بجائے قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔دوتہائی اکثریت اور متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بغیر نیا صوبہ قائم نہیں کیاجاسکتا۔ خودصدرمملکت آصف علی زرداری ملتان کے دورے کے دوران اسی بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی حمایت کے بغیر موجودہ پارلیمنٹ نئے صوبے قائم کرنے کیلئے قانون سازی نہیں کرسکتی۔ سرائیکی صوبہ کے قیام کیلئے کمیشن کا قیام دراصل پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ کافی عرصہ کے بعد پارلیمانی کمیشن کااجلاس پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں ہوا ہے اور یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ کمیشن ایک ماہ کے اندر نئے صوبے کے قیام کیلئے سفارشات بھی پیش کرے گا۔کمیشن کے چیئرمین سینیٹر فرحت اللہ بابر کاکہنا ہے کہ کمیشن قانون سازی نہیں کرسکتا ،صرف سفارشات تیار کرنے کا مینڈیٹ کمیشن کے پاس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سرائیکی صوبے کے نعرے سے جنوبی پنجاب میں کامیابی مل سکے گی یا نہیں؟ یہ تو آئندہ انتخابات میں ہی سامنے آسکے گا۔
صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری آئندہ انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت نہیں کرسکیں گے وہ عدالتی احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے انتخابی جلسوں سے خطاب نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری آئندہ انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔صدر مملکت کے احکامات پر وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے ارکان پارلیمنٹ کے انتخابی حلقوں میں جلسوں سے خطاب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی سلسلے میں تمام ارکان پارلیمنٹ سے کہاگیا ہے کہ وہ بڑے عوامی اجتماعات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے معاملے پر دائرکردہ صدارتی ریفرنس کو قابل سماعت قراردیاگیا ہے۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے میں یہ ریفرنس معاون ثابت ہوسکے گا یا نہیں یہ جلد سامنے آجائے گا۔
ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ نتیجہ قطعی طور پر اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی بھی جماعت دوتہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ غیرجانبدار سیاسی تجزیہ نگار اس امر پر بڑی حد تک متفق نظر آتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جیسا کہ اس وقت وفاق اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں قائم ہیں، کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی،تاہم بعض مقامات پر انتخابات میں نتائج توقعات کے برعکس آجاتے ہیں۔
عام انتخابات کی آمد آمد ہے اب جبکہ تمام سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں غیراعلانیہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ،ہرجماعت کامیابی کے دعوے کرنا جمہوری اور آئینی حق سمجھتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے باعث بلاشبہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کی عوام میں ساکھ اور مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) نے مشترکہ طور پر ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کوٹف ٹائم دینے کیلئے خاصی تگ ودو کی تھی تاہم دونوں جماعتوں کی مشترکہ یہ حکمت عملی کارگرثابت نہ ہوسکی۔ یہ درست ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو آئندہ عام انتخابات میں کلین سویپ کرنے سے منسوب نہیں کیاجاسکتا۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف انتخابی جلسوں میں لفظ ''جھرلو''استعمال کررہے ہیں اور یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ٹریلر چل پڑا ہے اور آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائے گی۔ موجودہ حکومت کی 5 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ ملک میں جمہوری حکومتوں کی آئینی مدت کی تکمیل سے دراصل ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے بدستور مستحکم ہوں گے اوراس سے اقتدار کی پرامن انداز میں منتقلی ممکن ہوسکے گی۔ وفاقی دارالحکومت کے باخبر حلقے کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان حالیہ غیراعلانیہ رابطوں میں آئندہ متوقع نگراں وزیراعظم کے معاملے پر بڑی حد تک اتفاق رائے ہوچکا ہے۔
ابھی تک وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اعلانیہ مذاکرات ہونا باقی ہیں تاہم اندرون خانہ معاملات پر اتفاق رائے کیلئے سنجیدہ اور تعمیری کوششیں ہنوز جاری ہیں اور یہ باور کیاجارہا ہے کہ ایک غیر متنازعہ،شفاف غیرجانبدار اور اچھی ساکھ کی حامل شخصیت کے نام پر بڑی حد تک اتفاق رائے ہوچکا ہے اور یہ شخصیت ایک ریٹائرڈ جج کی ہوسکتی ہے۔ ایک اہم حکومتی وزیرسید خورشیداحمد شاہ نے کہا ہے کہ قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نگران وزیراعظم کے معاملے پر ہمارے ساتھ ہیں اور جلد قوم کو سرپرائز دیں گے۔ انہوں نے موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کی قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی،انتخابات وقت پر ہوں گے۔
قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری ہے، ایک بار پھر نئے صوبوں کی بحث شروع ہوگئی ہے ،پارلیمانی کمیشن نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) کی شمولیت کے بغیر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں کام شروع کردیا ہے۔ مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی کے درمیان اس کمیشن کے معاملے پر بات چیت کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے ایک بار پھر اس پارلیمانی کمیشن کو مستردکردیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت دیگر جماعتوں نے صوبائی کے بجائے قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔دوتہائی اکثریت اور متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بغیر نیا صوبہ قائم نہیں کیاجاسکتا۔ خودصدرمملکت آصف علی زرداری ملتان کے دورے کے دوران اسی بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی حمایت کے بغیر موجودہ پارلیمنٹ نئے صوبے قائم کرنے کیلئے قانون سازی نہیں کرسکتی۔ سرائیکی صوبہ کے قیام کیلئے کمیشن کا قیام دراصل پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ کافی عرصہ کے بعد پارلیمانی کمیشن کااجلاس پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں ہوا ہے اور یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ کمیشن ایک ماہ کے اندر نئے صوبے کے قیام کیلئے سفارشات بھی پیش کرے گا۔کمیشن کے چیئرمین سینیٹر فرحت اللہ بابر کاکہنا ہے کہ کمیشن قانون سازی نہیں کرسکتا ،صرف سفارشات تیار کرنے کا مینڈیٹ کمیشن کے پاس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سرائیکی صوبے کے نعرے سے جنوبی پنجاب میں کامیابی مل سکے گی یا نہیں؟ یہ تو آئندہ انتخابات میں ہی سامنے آسکے گا۔
صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری آئندہ انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت نہیں کرسکیں گے وہ عدالتی احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے انتخابی جلسوں سے خطاب نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری آئندہ انتخابات میں انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔صدر مملکت کے احکامات پر وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے ارکان پارلیمنٹ کے انتخابی حلقوں میں جلسوں سے خطاب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی سلسلے میں تمام ارکان پارلیمنٹ سے کہاگیا ہے کہ وہ بڑے عوامی اجتماعات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے معاملے پر دائرکردہ صدارتی ریفرنس کو قابل سماعت قراردیاگیا ہے۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے میں یہ ریفرنس معاون ثابت ہوسکے گا یا نہیں یہ جلد سامنے آجائے گا۔