کالے دھن کا کھیل

مسائل تو تمام سرمایہ دارانہ دنیا میں ہیں لیکن پاکستان کا تو جواب ہی نہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

سیاست چونکہ دولت مندوں کی محافظ ہے، اس لیے وہ اقتدار اور اختیار کی کرتا دھرتا ہوتی ہے۔ سرمایے کا بے دریغ استعمال پارٹی کے لیے ہو یا اپنی ذات کی شان و شوکت اور رکھ رکھاؤ کے لیے، بڑے پیمانے پر ہو یا چھوٹے، ریاست کی موجودگی ہی عوام کا خاصی حد تک، یا ایک حد تک استحصال ہے اور یہ استحصال ریاستی آلات کو استعمال کیے بغیر نہیں ہو سکتا جس کا منبع سرمایہ داری کا جن ہے۔ اس جن کا دھڑن تختہ کیے بغیر عوام کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔

اگر انقلاب کے بعد ریاست کو شہریوں کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیں تو اس کا حشر بھی وہی ہو گا جو روس، چین، مشرقی یورپ اور ہند کا ہوا۔ مسائل تو تمام سرمایہ دارانہ دنیا میں ہیں لیکن پاکستان کا تو جواب ہی نہیں۔ کرپشن میں اوپر سے 23 واں، تعلیم میں نیچے سے 134 واں اور صحت میں 132 واں نمبر ہے۔ غربت اور بھوک کی وجہ یہ نہیں کہ اس ملک میں وسائل کی کمی ہے بلکہ اس ملک میں موجود ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ ان وسائل کو استعمال کرتے ہوئے یہاں کے عوام کو بہتر زندگی دے سکے۔ اس نظام سے صرف ایک چھوٹی سی اقلیت کا ہی مفاد وابستہ ہے جو ان بیش قیمت وسائل کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر رہی ہے۔

حال ہی میں سامنے آنے والا بلوچستان میں ریکوڈک کا معاملہ اس بات کا ثبوت ہے جہاں 5.9 ارب ٹن سے زائد کے سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کیے گئے ہیں جن کی مالیت 60 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہاں سے سالانہ 2 لاکھ ٹن تانبا اور ڈھائی لاکھ اونس سونا نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن ان بیش قیمت ذخائر کے باوجود بلوچستان میں اس ملک کی سب سے بدترین غربت اور بدحالی پائی جاتی ہے۔ بلوچستان کی حکومت ہو یا وفاقی حکومت، نہ تو ان کے پاس مالیاتی سکت ہے کہ وہ اس ذخیرے کو باہر نکالنے کے لیے سرمایہ کاری کر سکیں اور نہ ہی ان میں اتنی ریاستی قوت ہے کہ اتنی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقابلہ کر سکیں۔

یہ ریاست پہلے ہی بجلی پیدا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، گو حکومتی اور ریاستی اہلکار اپنا مال بنا رہے ہیں، لیکن ملکی آبادی کی اکثریت کو لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی قیمت میں اضافے کی مسلسل اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ کے باعث بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس جلتی پر تیل چھڑک رہی ہے۔ اسی طرح یہ کمپنیاں بھی مختلف سیاسی اداروں کو اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ جن سے پہلے سے جاری ریاستی اداروں کے تضادات مزید گہرے ہونے کا امکان ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آنے والی وکی لیکس میں واضح ہو گیا تھا کہ آسٹریلیا جیسا ملک اور اس کا وزیراعظم بھی بی ایچ پی بلیٹن کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔

ایسے میں پاکستان کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ ان کمپنیوں پر الزامات بھی ہیں کہ سائنائیڈ اور آرسینک جیسے کیمیکل کے استعمال کی وجہ سے پورے علاقے کی فضا زہر آلود ہو جاتی ہے۔ یہاں کام کرنے والے کان کنوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ حال ہی میں جنوبی افریقہ میں پلاٹینیم کی کان میں تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کرنے پر مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں۔ جن سے 40 مزدور جاں بحق ہو گئے۔ تجربات سے واضح ہے کہ جن علاقوں سے یہ کمپنیاں معدنی ذخائر نکالتی ہیں وہاں مزید بھوک، وحشت اور درندگی ہی پھیلاتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجے میں سماجی ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔

پاکستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے سے دیہاتی علاقوں کی بدترین غربت میں نہ کمی آئے گی اور نہ ہی کسانوں کی حالت زار بدلے گی۔ گزشتہ برسوں میں پیداوار بڑھنے کے باوجود دیہاتی علاقے کے کسانوں میں خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے سے صرف آڑھتیوں اور جاگیرداروں کی دولت میں اضافہ ہو گا۔

دوسری جانب عام صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ 2008 کی نسبت یہ فصل 80 فیصد زیادہ مہنگی ہو گی، جس کے باعث بہت بڑی تعداد میں لوگ مزید خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گے۔ یہاں انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے والی دوا ساز کمپنیوں کو بھی کھلی چھوٹ ہے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد سری لنکا سمیت بہت سے ممالک نے پاکستانی ادویات پر پابندی لگا دی تھی۔


درحقیقت ادویات کی صنعت کا منشیات کی صنعت سے گہرا تعلق ہے۔ حالیہ ایفی ڈرین کیس میں یہ تعلق مزید واضح ہوا ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں سے لے کر میڈیکل اسٹوروں تک اور دولت مند سینئر ڈاکٹرز سے لے کر اسپتالوں کے مالکان اور متعلقہ حکومتی اہلکاروں تک سب ان جرائم میں ملوث ہیں۔ حکومتوں میں موجود مختلف افراد بھی ادویات اور منشیات کی اس مشترکہ صنعت کی سرپرستی کرتے ہیں، اس صنعت سے وابستہ لوگ حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔

گزشتہ عرصے میں ادویات بنانے والی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر لائسنس جاری کیے گئے ہیں جب کہ ان میں سے بہت کم ایسی ہیں جو فیکٹری لگاتی اور پیداوار کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ان سب کے منافع میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان میں اس صنعت کی شرح نمو دس فیصد سے زیادہ رہی جب کہ حالیہ عرصے میں ہی اس صنعت کی شرح نمو 28 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

ایک سروے کے مطابق صرف 19.3 فیصد میڈیکل اسٹور لائسنس یافتہ ہیں جب کہ دیگر بغیر کسی سرکاری اجازت نامے کے کاروبار کر رہے ہیں۔ دراصل سرمایہ دارانہ نظام میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ان جرائم کی نشاندہی کر سکے۔

نومبر میں لاگو کیے جانے والے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل سے بھی بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ جس طرح پارلیمنٹ نے تعلیم کو تمام بچوں کے لیے لازمی قرار دے کر اپنا ہی مذاق اڑایا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں پہلے ہی ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں اور موجودہ دور حکومت میں 12 ہزار سے زائد پرائمری اسکول بند کیے جا چکے ہیں۔

بلوچستان میں تعلیم کا بدترین حال ہے، اسکول ہی نہیں ہیں اور جو نجی ادارے ہیں ان کی فیسیں اتنی ہیں کہ غریب بچے پڑھ ہی نہیں سکتے۔ وہاں اس بل کو پاس کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے غریب شہریوں کو مجرم قرار دینا ہے۔ اب جو لوگ اپنی زندگی کی سانس کو قائم رکھنے کے لیے اپنے بچوں کو محنت مشقت کرانے پر مجبور ہیں، انھیں مجرم قرار دے کر کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکے گا۔ لیکن اس ملک میں وہ لوگ کبھی مجرم نہیں بنیں گے جو لوگوں کو علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے چلے آ رہے ہیں۔

حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں نے اس ملک کو محنت کش عوام کے لیے دہکتی ہوئی جہنم بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 3 سال میں ایک کروڑ 70 لاکھ پاکستانی غیر قانونی طور پر ملک سے باہر گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں روزگار کی تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن عالمی معاشی بحران کے باعث یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ میں بھی روزگار کے مواقعے تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ اس وقت صرف یونان میں تقریباً 10 لاکھ پاکستانی ہیں۔ محنت کش عوام اب تنگ آ چکے ہیں اس لیے یونان سے جاپان تک، جنوبی افریقہ سے ہندوستان تک اور امریکا سے پاکستان تک بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ مصر، انڈونیشیا، نائیجیریا، ایران، ہندوستان اور پاکستان ان کی بہترین مثالیں ہیں۔

مصر میں حسنی مبارک کو مار بھگانے کے بعد صدر محمد مرسی کی پارٹی اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کو آگ لگا دی گئی اور صدارتی محل کو گھیر رکھا ہے۔ اب وہ دن قریب آنے والا ہے کہ دنیا کے عوام سامراجی فرعونوں کو اکھاڑ پھینکیں گے اور غیر طبقاتی معاشرہ قائم کریں گے۔
Load Next Story