شکستِ آرزو
پروفیسر سجاد حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی کہانی انھوں نے اپنی کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ میں بیان کی ہے۔
بیالیس سال پہلے کی بات ہے، دسمبر کی 19 تاریخ تھی، ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر سجاد حسین اپنے گھر کی بالائی منزل پر کمرے میں بیٹھے اپنی بڑی بیٹی سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک نیچے کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے جھانک کر دیکھا چند مسلح نوجوان ان کی بیوی سے کسی بات پر الجھ رہے تھے۔ وہ اوپر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پروفیسر سجاد حسین سمجھ گئے کہ یہ لوگ انھیں لینے آئے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے سوچا کہ وہ خود نیچے چلے جائیں پھر اپنی جان بچانے کے فطری جذبے کے تحت وہ کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔
ان کی بیٹی نے باہر سے کنڈی لگا دی اور ان سے کہہ دیا کہ کسی حالت میں بھی باہر نہ نکلیں۔ سجاد حسین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مزاحمت بے کار ہے، وہ لوگ انھیں لینے آئے ہیں اور بغیر اپنا مقصد پورا کیے جانے والے نہیں۔ یہی ہوا ان لوگوں نے دروازہ توڑ ڈالا۔ ایک نوجوان نے ان کا کالر پکڑ کر گھسیٹا اور نیچے لے گیا۔ گلی میں ایک جیپ کھڑی تھی، اس میں انھیں ڈال دیا گیا۔ وہ سمجھ گئے کہ اب شاید وہ دوبارہ اپنے گھر والوں سے نہیں مل سکیں گے۔ جو نوجوان انھیں اس طرح پکڑ کر لے جا رہے تھے ان کی آنکھوں میں ان کے ارادوں کی جھلک نظر آ رہی تھی۔
پروفیسر سجاد حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی کہانی انھوں نے اپنی کتاب ''شکستِ آرزو'' میں بیان کی ہے۔ یہ ان پر بیتی کی کہانی ہی نہیں ہے ایک ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کی المناک داستان بھی ہے۔ یہ ظلم اور بربریت، بے لگام ہوس اقتدار، بے شرم منافقت اور سیاسی بصیرت کے شدید فقدان کی کہانی ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تنہائی کے بے درد لمحوں میں لکھی گئی ہے۔ وہ ڈھاکا جیل میں جب اپنی یاد داشتیں لکھ رہے تھے تو انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی جیل سے باہر جا سکیں گے، لیکن جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ''خاصے تذبذب کے بعد میں نے اپنی یادوں کے سہارے چند واقعات قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا، جیل کی چار دیواری میں جو گھٹن اور بے زاری شدت سے محسوس ہو رہی تھی اس سے نکلنے کا یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا۔
پاکستان میرا آئیڈیل تھا، اس کا ٹوٹنا میرے لیے سخت صدمے کا باعث تھا، میں سوچتا تھا کہ اگر میں اس صورت حال سے نکل کر زندہ بھی رہا تو اپنے خوابوں کے ملبے پر کس طور زندگی بسر کر سکوں گا، جن خوابوں پر میری زندگی کا مدار تھا، ان کا مضحکہ اڑانے والے معاشرے میں زندہ رہنا کسی صورت آسان نہیں تھا۔ نظریہ پاکستان ہمارے لیے سب کچھ تھا، اس سے ہٹ کر رہنا ہمارے لیے ناقابل تصور تھا۔''
پروفیسر سجاد حسین نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور زندگی کے آخری لمحوں تک اس سے وابستہ رہے۔ انھوں نے بنگلہ زبان میں ''پاکستان'' کے نام سے ایک پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔ 1949 میں کلکتہ میں اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرار بنے اور ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری۔ ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے، سقوط ڈھاکا سے چند ماہ قبل ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔
ڈاکٹر سجاد حسین کو جب جیپ میں ڈال کر ڈھاکا یونیورسٹی کے کیمپس میں جو اب مکتی باہنی کا کیمپ بن چکا تھا، لایا گیا تو وہ اپنی زندگی سے تقریباً مایوس ہو چکے تھے۔ یہاں لا کر انھیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ صبح ہوئی تو انھیں پکڑ کر پھر ایک جیپ میں بٹھایا گیا، جیپ کچھ دور جاکر رک گئی۔ انھیں یہاں جیپ سے اتار کر کھڑا کردیا گیا۔ وہ کہتے ہیں: ''اب میں موت کے لیے بالکل تیار تھا، میں نے ایک بار پھر اپنے اہل خانہ کو اللہ کے حوالے کیا، زیر لب کلمۂ شہادت پڑھا اور دعا کی کہ اللہ موت کو مجھ پر آسان کر دے، اس وقت کسی نے چاقو سے میرے سینے پر دو تین ہلکے کٹ لگائے، درد کی ایک لہر سی اٹھی، مگر میں حیران تھا کہ مجھے زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوئی، میری پیٹھ پر بھی خنجر سے دو تین وار کیے گئے اور پشت سے میرا نیچے کا دھڑ رفتہ رفتہ سُن ہوتا چلا گیا اور پھر میں بے ہوش ہو گیا۔ اس قدر تشدد میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔''
صبح ہوئی تو پروفیسر سجاد حسین ایک سڑک کے کنارے پڑے تھے۔ ان کے زخمی ہاتھ پشت کی طرف بندھے تھے۔ وہ سسکیاں لے رہے تھے۔ راہگیروں نے انھیں اس حال میں پڑا دیکھا تو ان کی آنکھوں سے پٹیاں ہٹائیں، ہاتھ کھولے۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا وہ جناح ایونیو پر ایک چوراہے پر پڑے ہیں۔ کچھ لوگوں نے انھیں اٹھا کر ایک رکشے میں ڈالا اور وہ اس میں اپنے گھر پہنچے۔ ان کی حالت خراب تھی، سینے اور پشت پر چھ زخم تھے جن سے خون بہہ رہا تھا، ٹانگوں کی حالت ایسی تھی کہ وہ کھڑے تک نہ ہو سکتے تھے، ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہوچکا تھا۔
بھارتی فوجی افسران کو ان کے اغواء کی خبر دی گئی، وہ آئے، اس سے پہلے کوئی ڈاکٹر انھیں دیکھنے نہیں آیا، وہ کسی ایسے شخص کی مرہم پٹی کرنے کو تیار نہیں تھے جس کو مکتی باہنی نے زخمی کیا ہو۔ پروفیسر سجاد کو بھارتی فوجی افسر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال لے گئے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ بدن میں شدید درد تھا، ٹانگیں ہلا نہ سکتے تھے اور اس سے زیادہ اذیت اندرونی چوٹوں کی وجہ سے تھی۔ 30 فروری 1972 کو انھیں پاکستان کی فوج سے اشتراک کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ دو سال جیل میں رہ کر وہ عام معافی کے اعلان پر رہا ہوئے۔
پروفیسر سجاد حسین اگرچہ غداری کے الزام میں قید تھے، لیکن بنگالی ہونے کی وجہ سے بہتر حال میں تھے، لیکن غیر بنگالی قیدیوں کی حالت خراب تھی۔ وہ لکھتے ہیں ''جن غیر بنگالیوں کو جیل میں بھیجا گیا تھا چھاپہ مار رہنماؤں کے سامنے ان کی باقاعدہ پریڈ ہوتی تھی۔ اس موقعے پر چھاپہ مار جنھیں چاہتے منتخب کر کے ٹرکوں میں بھر کر لے جاتے اور پھر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ یہ سلسلہ 1973کے موسم گرما تک چلا۔ جرمن نازیوں کو جس سفاکی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، وہ سفاکی ہماری زمین پر بھی دہرائی گئی اور اس کے لیے کوئی معمولی سا قانونی جواز تلاش کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی، یہ کھلا انتقام تھا، خون کی پیاس تھی جو جی بھر کر بجھائی گئی۔''
جیل میں سید سجاد حسین کی جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، ان میں فضل القادر چوہدری، خان عبدالصبور خاں، خواجہ خیرالدین، اے ٹی ایم عبدالمتین، شاہ عزیز الدین اور مشرقی پاکستان کے آخری گورنر ڈاکٹر عبدالمالک شامل تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین نے اپنی کتاب میں جو انھوں نے The wastes of Time کے عنوان سے انگریزی میں لکھی ہے، ان اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے جو پاکستان کے دو لخت ہونے کا باعث بنے۔ وہ لکھتے ہیں ''ملک توڑنے کی سازش کا بیج ڈالنے سے 1971میں اس فصل کے بار آور ہونے تک یکے بعد دیگرے ہونے والے تمام واقعات کی بنیاد بنگالی قوم پرستی تھی۔ دانشوروں اور طلباء نے اس پر فریب ''نظریے'' کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم ظاہر کر کے اس کے ساتھ مکمل وفاداری کا حلف اٹھایا۔ بعض نے اپنے آپ کو یہ یقین دلایا کہ ان کی نسل کی بقا اسی میں ہے۔ اس ضمن میں منطقی تجزیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی جذبات سے بلند ہو کر معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ قوم پرستی پروان چڑھتی گئی اور اسے عملاً مذہبی عقیدے کے حیثیت حاصل ہو گئی۔''
پروفیسر سجاد حسین کے خیال میں پاکستان کے سیاستدان کوتاہ نظر بھی تھے اور حقائق بیان کرنے کے معاملے میں سنجیدہ بھی نہ تھے اس لیے مشرقی پاکستان کی معاشی پس ماندگی میں مغربی پاکستان کا ہاتھ ہونے کے حوالے سے عائد کیے جانے والے الزامات کا ثبوت اور شواہد کے ساتھ توڑ نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں متعین مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسروں کا اپنے بنگالی ہم مرتبہ افراد سے اور عام لوگوں سے تحقیر آمیز رویہ بھی بنگالی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دینے کا باعث بنا۔
ان کی بیٹی نے باہر سے کنڈی لگا دی اور ان سے کہہ دیا کہ کسی حالت میں بھی باہر نہ نکلیں۔ سجاد حسین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مزاحمت بے کار ہے، وہ لوگ انھیں لینے آئے ہیں اور بغیر اپنا مقصد پورا کیے جانے والے نہیں۔ یہی ہوا ان لوگوں نے دروازہ توڑ ڈالا۔ ایک نوجوان نے ان کا کالر پکڑ کر گھسیٹا اور نیچے لے گیا۔ گلی میں ایک جیپ کھڑی تھی، اس میں انھیں ڈال دیا گیا۔ وہ سمجھ گئے کہ اب شاید وہ دوبارہ اپنے گھر والوں سے نہیں مل سکیں گے۔ جو نوجوان انھیں اس طرح پکڑ کر لے جا رہے تھے ان کی آنکھوں میں ان کے ارادوں کی جھلک نظر آ رہی تھی۔
پروفیسر سجاد حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی کہانی انھوں نے اپنی کتاب ''شکستِ آرزو'' میں بیان کی ہے۔ یہ ان پر بیتی کی کہانی ہی نہیں ہے ایک ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کی المناک داستان بھی ہے۔ یہ ظلم اور بربریت، بے لگام ہوس اقتدار، بے شرم منافقت اور سیاسی بصیرت کے شدید فقدان کی کہانی ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تنہائی کے بے درد لمحوں میں لکھی گئی ہے۔ وہ ڈھاکا جیل میں جب اپنی یاد داشتیں لکھ رہے تھے تو انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی جیل سے باہر جا سکیں گے، لیکن جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ''خاصے تذبذب کے بعد میں نے اپنی یادوں کے سہارے چند واقعات قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا، جیل کی چار دیواری میں جو گھٹن اور بے زاری شدت سے محسوس ہو رہی تھی اس سے نکلنے کا یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا۔
پاکستان میرا آئیڈیل تھا، اس کا ٹوٹنا میرے لیے سخت صدمے کا باعث تھا، میں سوچتا تھا کہ اگر میں اس صورت حال سے نکل کر زندہ بھی رہا تو اپنے خوابوں کے ملبے پر کس طور زندگی بسر کر سکوں گا، جن خوابوں پر میری زندگی کا مدار تھا، ان کا مضحکہ اڑانے والے معاشرے میں زندہ رہنا کسی صورت آسان نہیں تھا۔ نظریہ پاکستان ہمارے لیے سب کچھ تھا، اس سے ہٹ کر رہنا ہمارے لیے ناقابل تصور تھا۔''
پروفیسر سجاد حسین نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور زندگی کے آخری لمحوں تک اس سے وابستہ رہے۔ انھوں نے بنگلہ زبان میں ''پاکستان'' کے نام سے ایک پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔ 1949 میں کلکتہ میں اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرار بنے اور ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری۔ ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے، سقوط ڈھاکا سے چند ماہ قبل ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔
ڈاکٹر سجاد حسین کو جب جیپ میں ڈال کر ڈھاکا یونیورسٹی کے کیمپس میں جو اب مکتی باہنی کا کیمپ بن چکا تھا، لایا گیا تو وہ اپنی زندگی سے تقریباً مایوس ہو چکے تھے۔ یہاں لا کر انھیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ صبح ہوئی تو انھیں پکڑ کر پھر ایک جیپ میں بٹھایا گیا، جیپ کچھ دور جاکر رک گئی۔ انھیں یہاں جیپ سے اتار کر کھڑا کردیا گیا۔ وہ کہتے ہیں: ''اب میں موت کے لیے بالکل تیار تھا، میں نے ایک بار پھر اپنے اہل خانہ کو اللہ کے حوالے کیا، زیر لب کلمۂ شہادت پڑھا اور دعا کی کہ اللہ موت کو مجھ پر آسان کر دے، اس وقت کسی نے چاقو سے میرے سینے پر دو تین ہلکے کٹ لگائے، درد کی ایک لہر سی اٹھی، مگر میں حیران تھا کہ مجھے زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوئی، میری پیٹھ پر بھی خنجر سے دو تین وار کیے گئے اور پشت سے میرا نیچے کا دھڑ رفتہ رفتہ سُن ہوتا چلا گیا اور پھر میں بے ہوش ہو گیا۔ اس قدر تشدد میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔''
صبح ہوئی تو پروفیسر سجاد حسین ایک سڑک کے کنارے پڑے تھے۔ ان کے زخمی ہاتھ پشت کی طرف بندھے تھے۔ وہ سسکیاں لے رہے تھے۔ راہگیروں نے انھیں اس حال میں پڑا دیکھا تو ان کی آنکھوں سے پٹیاں ہٹائیں، ہاتھ کھولے۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا وہ جناح ایونیو پر ایک چوراہے پر پڑے ہیں۔ کچھ لوگوں نے انھیں اٹھا کر ایک رکشے میں ڈالا اور وہ اس میں اپنے گھر پہنچے۔ ان کی حالت خراب تھی، سینے اور پشت پر چھ زخم تھے جن سے خون بہہ رہا تھا، ٹانگوں کی حالت ایسی تھی کہ وہ کھڑے تک نہ ہو سکتے تھے، ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہوچکا تھا۔
بھارتی فوجی افسران کو ان کے اغواء کی خبر دی گئی، وہ آئے، اس سے پہلے کوئی ڈاکٹر انھیں دیکھنے نہیں آیا، وہ کسی ایسے شخص کی مرہم پٹی کرنے کو تیار نہیں تھے جس کو مکتی باہنی نے زخمی کیا ہو۔ پروفیسر سجاد کو بھارتی فوجی افسر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال لے گئے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ بدن میں شدید درد تھا، ٹانگیں ہلا نہ سکتے تھے اور اس سے زیادہ اذیت اندرونی چوٹوں کی وجہ سے تھی۔ 30 فروری 1972 کو انھیں پاکستان کی فوج سے اشتراک کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ دو سال جیل میں رہ کر وہ عام معافی کے اعلان پر رہا ہوئے۔
پروفیسر سجاد حسین اگرچہ غداری کے الزام میں قید تھے، لیکن بنگالی ہونے کی وجہ سے بہتر حال میں تھے، لیکن غیر بنگالی قیدیوں کی حالت خراب تھی۔ وہ لکھتے ہیں ''جن غیر بنگالیوں کو جیل میں بھیجا گیا تھا چھاپہ مار رہنماؤں کے سامنے ان کی باقاعدہ پریڈ ہوتی تھی۔ اس موقعے پر چھاپہ مار جنھیں چاہتے منتخب کر کے ٹرکوں میں بھر کر لے جاتے اور پھر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ یہ سلسلہ 1973کے موسم گرما تک چلا۔ جرمن نازیوں کو جس سفاکی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، وہ سفاکی ہماری زمین پر بھی دہرائی گئی اور اس کے لیے کوئی معمولی سا قانونی جواز تلاش کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی، یہ کھلا انتقام تھا، خون کی پیاس تھی جو جی بھر کر بجھائی گئی۔''
جیل میں سید سجاد حسین کی جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، ان میں فضل القادر چوہدری، خان عبدالصبور خاں، خواجہ خیرالدین، اے ٹی ایم عبدالمتین، شاہ عزیز الدین اور مشرقی پاکستان کے آخری گورنر ڈاکٹر عبدالمالک شامل تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین نے اپنی کتاب میں جو انھوں نے The wastes of Time کے عنوان سے انگریزی میں لکھی ہے، ان اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے جو پاکستان کے دو لخت ہونے کا باعث بنے۔ وہ لکھتے ہیں ''ملک توڑنے کی سازش کا بیج ڈالنے سے 1971میں اس فصل کے بار آور ہونے تک یکے بعد دیگرے ہونے والے تمام واقعات کی بنیاد بنگالی قوم پرستی تھی۔ دانشوروں اور طلباء نے اس پر فریب ''نظریے'' کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم ظاہر کر کے اس کے ساتھ مکمل وفاداری کا حلف اٹھایا۔ بعض نے اپنے آپ کو یہ یقین دلایا کہ ان کی نسل کی بقا اسی میں ہے۔ اس ضمن میں منطقی تجزیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی جذبات سے بلند ہو کر معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ قوم پرستی پروان چڑھتی گئی اور اسے عملاً مذہبی عقیدے کے حیثیت حاصل ہو گئی۔''
پروفیسر سجاد حسین کے خیال میں پاکستان کے سیاستدان کوتاہ نظر بھی تھے اور حقائق بیان کرنے کے معاملے میں سنجیدہ بھی نہ تھے اس لیے مشرقی پاکستان کی معاشی پس ماندگی میں مغربی پاکستان کا ہاتھ ہونے کے حوالے سے عائد کیے جانے والے الزامات کا ثبوت اور شواہد کے ساتھ توڑ نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں متعین مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسروں کا اپنے بنگالی ہم مرتبہ افراد سے اور عام لوگوں سے تحقیر آمیز رویہ بھی بنگالی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دینے کا باعث بنا۔