تشدد اور معاشرہ
پاکستان کے بعض مدرسوں اور حتیٰ کہ اسکولوں میں بھی بچوں پر تشدد کے واقعات کی خبریں ملتی ہیں۔
برطانیہ کی عدالت نے ایک مسلمان خاتون کو اپنے بیٹے کو قرآن شریف نہ پڑھنے پر تشدد کرکے ہلاک کرنے کا مجرم قرار دے دیا۔ برطانیہ کے شہر کارڈف کے علاقے میں 33 سالہ سارہ ایچ نے اپنے 7 سالہ بچے یاسین ایچ کو تشدد کرکے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو نذر آتش کردیا تھا۔
سارہ نے اپنے اعتراف جرم میں کہا ہے کہ وہ اور اس کا ٹیکسی ڈرائیور شوہر یوسف ایچ اپنے بیٹے کو حفظ قرآن کے لیے مقامی مسجد میں بھیجا کرتے تھے مگر سارہ کو اپنے بچے کی حفظ نہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے پر سخت غصہ آتا تھا، اس نے اعترافی بیان میں کہا کہ اس صورت میں غصے سے پاگل ہوجاتی تھی، وہ یاسین نامی بچے کی کمر پر چھڑیاں مارتی تھی۔ دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ پر پیش کی جانے والی اس خبر نے تہلکہ مچادیا۔ اس خبر سے مسلمانوں کا امیج متاثر ہوا۔ حسن ابدال میں ایک اسکول کے استاد نے طالب علم پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ اسلام میں تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ اگرچہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اپنے بچوں پر تشدد کی روایت ہے۔
اگر اخبارات کی فائلوں کا موضوعاتی تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے بعض مدرسوں اور حتیٰ کہ اسکولوں میں بھی بچوں پر تشدد کے واقعات کی خبریں ملتی ہیں، بعض خبروں میں مدرس کے ہاتھوں طالب علموں کے شدید زخمی ہونے کے واقعات کا میڈیا پر ذکر ہوتا ہے، کچھ مدارس میں طالب علموں کو زنجیروں سے باندھنے کے واقعات کا ذکر ہوتا ہے مگر ماں کے ہاتھوں قرآن شریف نہ پڑھنے پر مسلسل تشدد، بچے کی ہلاکت اور لاش کو نذرآتش کرنے کا واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔
برطانیہ میں رونما ہونے والے اس واقعے کا دو تین نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاسکتا ہے، ایک نقطہ نظر تو روایتی سازشی نظریے کا ہے کہ یہ واقعہ یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی بدنام کرنے کی سازش نائن الیون کے واقعے کے بعد سے ہورہی ہے۔ کچھ ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ یہ ایک خاتون کا انفرادی رویہ ہے اور برطانوی نژاد خاتون سارہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے جس کی بنا پر اس نے اپنے لڑکے پر تشدد کرکے فرسٹریشن کا اظہار کیا ہے، اس بنا پر اس واقعے کو انفرادی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے مگر برطانیہ، امریکا اور یورپ میں آباد بعض سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ مسلمان برادری میں اپنے بچوں کے حوالے سے جنونیت اور تشدد کا رجحان بڑھا رہا ہے۔
مسلمانوں میں اپنی نوجوان لڑکیوں کو مغربی زندگی اختیار کرنے سے روکنے کے لیے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے واقعات ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں، پھر بچوں کو پسند کی شادی کے حق سے روکنے اور اپنے آبائی علاقوں میں آباد رشتے داروں سے شادی کرانے کے لیے تشدد کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی بچیوں کو قتل کردیتے ہیں۔ تشدد کا یہ رجحان انسانیت دشمن ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے امیج کو نقصان پہنچاتا ہے۔
بعض سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ صدی کے آخری دوعشروں میں امریکا کی سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں مسلمانوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا اور ایک منظم طریقے اور جہاد کے نام پر تشدد کو خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور اطراف کے ممالک کے معاشروں میں داخل کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہتھیاروں کی فراوانی عام ہوگئی، ریاستوں نے اپنی بنیادی فرائض ادا کرنے چھوڑ دیے ۔ ریاستی اداروں نے امریکا کی مدد سے دنیا بھر کے جنونی مسلمانوں کو پاکستان میں جمع کرکے ایک دوسری ریاست کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو عام لوگوں میں پھر سب سے بڑا تاثر یہ ہوا کہ تشدد کو اپنے تمام مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مکمل منصوبہ بندی سے مدرسوں، کالجوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں مختلف طریقوں سے تشدد کو شامل کیا گیا۔ نصابی کتابوں میں ایسی شخصیتوں کو اجاگر کیا گیا جنھوں نے طاقت کے ذریعے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو شکست دی، پھر عقیدہ سے انحراف کرنے والے سے نفرت کے رجحان کو تقویت دی گئی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو سرعام پھانسیاں دے کر لوگوں کو نفرت اور تشدد کے ایک نئے ذائقے سے روشناس کرایا۔ یہ صورتحال برسرعام کوڑوں کی سزائوں میں عملدرآمد کرنے کی بنا پر پیدا ہوئی، جب افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت ختم ہوئی اور مجاہدین نے اقتدار سنبھالا تو مخالفین کو سرعام پھانسیاں دے کر انھیں کوڑے مارنے کی روایت نے پوری دنیا میں مسلمان معاشروں کو حوالے سے ایک منفی پیغام دیا۔
جب کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو مخالفین کا قتل عام کیا گیا، عورتوں کو کوڑے مارے گئے ، اس صورتحال سے مختلف اسلامی ممالک کے انتہا پسند بھی متاثر ہوئے۔ پاکستان، ایران، افغانستان، لبنان، سوڈان وغیرہ میں ایک فرقے کے انتہا پسندوں نے دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ جب افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائی قبائلی علاقوں سے خیبر پختونخوا، بلوچستان، کراچی تک پہنچی تو تشدد کے خوفناک واقعات رونما ہوئے۔ قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کو جدید تعلیم سے روکنے کے لیے اسکولوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ سوات میں ایک لڑکی کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ ملالہ یوسف زئی تعلیم کے حق کے لیے اور اس تشدد کے خلاف مزاحمت پر دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کی علامت بن گئی۔
برطانیہ میں آباد سینئر صحافی آصف جیلانی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے اردو اخبارات میں جادو ٹونے کے اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے جو رجعت پسندی کو تقویت دیتی ہے۔ اسلامیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر غفور بلوچ کا کہنا ہے کہ اسلام کسی فرد کو کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کو محض عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے یا مسلمان معاشرے میں تشدد کے عنصر کے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ انسانی حقوق کے کارکن نصیر نوید پاکستان میں تشدد کی ہر قسم کے خاتمے کے لیے قانون بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ناصر اسلم زاہد اور سینئر وکلا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی اس قانون کو نافذ کرنے کی جدوجہد میں شریک ہیں، ایسا قانون صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان ممالک میں نافذ ہو، تمام ریاستی اداروں کو اس قانون کی پاسداری کرنی چاہیے مگر معاملہ قانون سے حل نہیں ہوگا، بنیادی بات یہ ہے کہ خاندان سے لے کر ریاست کی اعلیٰ ترین سطح تک تشدد کے عنصر کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رواداری، برداشت تمام انسانوں سے بلا امتیاز مذہب، نسل، جنس سلوک کرنے کی روایت کو مستحکم کرنے کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے جب تک تعلیمی نصاب سے تشدد کی ہر قسم کو حذف نہیں کیا جائے گا نئی نسل کا ذہن تبدیل نہیں ہوگا۔
نوجوانوں کو یہ بات بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر بچوں کو تشدد کے بجائے کسی بھی اچھے مقصد کے لیے راغب کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے تو یہ حکمت عملی دیرپا ہوتی ہے، جو بچہ بچپن میں تشدد کا شکار نہیں ہوتا وہ جوانی میں تشدد کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ تشدد کو ایک اہم ترین معاملہ سمجھا جائے تو اس کے خاتمے کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ تاریخ نویس کہتے ہیں یورپی معاشرے میں 18ویں اور 19 ویں صدی تک تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا مگر پھر معاشرے میں روشنی اجاگر ہونے سے اس بارے میں ذہن تبدیل ہوا، مسلمان بھی ذہنی تبدیلی لاتے ہوئے یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔
سارہ نے اپنے اعتراف جرم میں کہا ہے کہ وہ اور اس کا ٹیکسی ڈرائیور شوہر یوسف ایچ اپنے بیٹے کو حفظ قرآن کے لیے مقامی مسجد میں بھیجا کرتے تھے مگر سارہ کو اپنے بچے کی حفظ نہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے پر سخت غصہ آتا تھا، اس نے اعترافی بیان میں کہا کہ اس صورت میں غصے سے پاگل ہوجاتی تھی، وہ یاسین نامی بچے کی کمر پر چھڑیاں مارتی تھی۔ دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ پر پیش کی جانے والی اس خبر نے تہلکہ مچادیا۔ اس خبر سے مسلمانوں کا امیج متاثر ہوا۔ حسن ابدال میں ایک اسکول کے استاد نے طالب علم پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ اسلام میں تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ اگرچہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اپنے بچوں پر تشدد کی روایت ہے۔
اگر اخبارات کی فائلوں کا موضوعاتی تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے بعض مدرسوں اور حتیٰ کہ اسکولوں میں بھی بچوں پر تشدد کے واقعات کی خبریں ملتی ہیں، بعض خبروں میں مدرس کے ہاتھوں طالب علموں کے شدید زخمی ہونے کے واقعات کا میڈیا پر ذکر ہوتا ہے، کچھ مدارس میں طالب علموں کو زنجیروں سے باندھنے کے واقعات کا ذکر ہوتا ہے مگر ماں کے ہاتھوں قرآن شریف نہ پڑھنے پر مسلسل تشدد، بچے کی ہلاکت اور لاش کو نذرآتش کرنے کا واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔
برطانیہ میں رونما ہونے والے اس واقعے کا دو تین نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاسکتا ہے، ایک نقطہ نظر تو روایتی سازشی نظریے کا ہے کہ یہ واقعہ یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی بدنام کرنے کی سازش نائن الیون کے واقعے کے بعد سے ہورہی ہے۔ کچھ ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ یہ ایک خاتون کا انفرادی رویہ ہے اور برطانوی نژاد خاتون سارہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے جس کی بنا پر اس نے اپنے لڑکے پر تشدد کرکے فرسٹریشن کا اظہار کیا ہے، اس بنا پر اس واقعے کو انفرادی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے مگر برطانیہ، امریکا اور یورپ میں آباد بعض سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ مسلمان برادری میں اپنے بچوں کے حوالے سے جنونیت اور تشدد کا رجحان بڑھا رہا ہے۔
مسلمانوں میں اپنی نوجوان لڑکیوں کو مغربی زندگی اختیار کرنے سے روکنے کے لیے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے واقعات ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں، پھر بچوں کو پسند کی شادی کے حق سے روکنے اور اپنے آبائی علاقوں میں آباد رشتے داروں سے شادی کرانے کے لیے تشدد کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی بچیوں کو قتل کردیتے ہیں۔ تشدد کا یہ رجحان انسانیت دشمن ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے امیج کو نقصان پہنچاتا ہے۔
بعض سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ صدی کے آخری دوعشروں میں امریکا کی سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں مسلمانوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا اور ایک منظم طریقے اور جہاد کے نام پر تشدد کو خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور اطراف کے ممالک کے معاشروں میں داخل کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہتھیاروں کی فراوانی عام ہوگئی، ریاستوں نے اپنی بنیادی فرائض ادا کرنے چھوڑ دیے ۔ ریاستی اداروں نے امریکا کی مدد سے دنیا بھر کے جنونی مسلمانوں کو پاکستان میں جمع کرکے ایک دوسری ریاست کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو عام لوگوں میں پھر سب سے بڑا تاثر یہ ہوا کہ تشدد کو اپنے تمام مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مکمل منصوبہ بندی سے مدرسوں، کالجوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں مختلف طریقوں سے تشدد کو شامل کیا گیا۔ نصابی کتابوں میں ایسی شخصیتوں کو اجاگر کیا گیا جنھوں نے طاقت کے ذریعے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو شکست دی، پھر عقیدہ سے انحراف کرنے والے سے نفرت کے رجحان کو تقویت دی گئی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو سرعام پھانسیاں دے کر لوگوں کو نفرت اور تشدد کے ایک نئے ذائقے سے روشناس کرایا۔ یہ صورتحال برسرعام کوڑوں کی سزائوں میں عملدرآمد کرنے کی بنا پر پیدا ہوئی، جب افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت ختم ہوئی اور مجاہدین نے اقتدار سنبھالا تو مخالفین کو سرعام پھانسیاں دے کر انھیں کوڑے مارنے کی روایت نے پوری دنیا میں مسلمان معاشروں کو حوالے سے ایک منفی پیغام دیا۔
جب کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو مخالفین کا قتل عام کیا گیا، عورتوں کو کوڑے مارے گئے ، اس صورتحال سے مختلف اسلامی ممالک کے انتہا پسند بھی متاثر ہوئے۔ پاکستان، ایران، افغانستان، لبنان، سوڈان وغیرہ میں ایک فرقے کے انتہا پسندوں نے دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ جب افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائی قبائلی علاقوں سے خیبر پختونخوا، بلوچستان، کراچی تک پہنچی تو تشدد کے خوفناک واقعات رونما ہوئے۔ قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کو جدید تعلیم سے روکنے کے لیے اسکولوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ سوات میں ایک لڑکی کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ ملالہ یوسف زئی تعلیم کے حق کے لیے اور اس تشدد کے خلاف مزاحمت پر دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کی علامت بن گئی۔
برطانیہ میں آباد سینئر صحافی آصف جیلانی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے اردو اخبارات میں جادو ٹونے کے اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے جو رجعت پسندی کو تقویت دیتی ہے۔ اسلامیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر غفور بلوچ کا کہنا ہے کہ اسلام کسی فرد کو کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کو محض عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش قرار دے کر نظر انداز کردیا جائے یا مسلمان معاشرے میں تشدد کے عنصر کے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ انسانی حقوق کے کارکن نصیر نوید پاکستان میں تشدد کی ہر قسم کے خاتمے کے لیے قانون بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ناصر اسلم زاہد اور سینئر وکلا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی اس قانون کو نافذ کرنے کی جدوجہد میں شریک ہیں، ایسا قانون صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان ممالک میں نافذ ہو، تمام ریاستی اداروں کو اس قانون کی پاسداری کرنی چاہیے مگر معاملہ قانون سے حل نہیں ہوگا، بنیادی بات یہ ہے کہ خاندان سے لے کر ریاست کی اعلیٰ ترین سطح تک تشدد کے عنصر کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رواداری، برداشت تمام انسانوں سے بلا امتیاز مذہب، نسل، جنس سلوک کرنے کی روایت کو مستحکم کرنے کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے جب تک تعلیمی نصاب سے تشدد کی ہر قسم کو حذف نہیں کیا جائے گا نئی نسل کا ذہن تبدیل نہیں ہوگا۔
نوجوانوں کو یہ بات بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر بچوں کو تشدد کے بجائے کسی بھی اچھے مقصد کے لیے راغب کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے تو یہ حکمت عملی دیرپا ہوتی ہے، جو بچہ بچپن میں تشدد کا شکار نہیں ہوتا وہ جوانی میں تشدد کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ تشدد کو ایک اہم ترین معاملہ سمجھا جائے تو اس کے خاتمے کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ تاریخ نویس کہتے ہیں یورپی معاشرے میں 18ویں اور 19 ویں صدی تک تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا مگر پھر معاشرے میں روشنی اجاگر ہونے سے اس بارے میں ذہن تبدیل ہوا، مسلمان بھی ذہنی تبدیلی لاتے ہوئے یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔