کرپشن ختم کرنے کا تیر بہدف نسخہ

ہمارا تمہارا چینل ’’ہیاں سے ہواں تک‘‘ اور ہمارے اس پروگرام کا نام ہے ’’چونچ در چونچ‘‘۔۔

barq@email.com

کوشش تو ہم نے بہت کی کہ کسی ماٹھے چینل پر ہمیں بھی اینکر پرسن کی جاب مل جائے، ہر جگہ اپنی گونا گوں صلاحیتوں اور قابلیتوں کی اسناد بھی پیش کیں لیکن وہاں صرف ایک ہی جواب تھا کہ بے شک کسی کے اندر کچھ بھی نہ ہو، بالاخانے میں کرایہ دار بھی نہ ہو لیکن دو چیزیں ہونا ضروری ہیں، شکل اور لمبی زبان۔ اور تمہارے پاس یہ دونوں نہیں ہیں۔

مایوس ہو کر آخر کار ہم نے اپنا چینل کھولنے کا فیصلہ کیا، سو حاضر ہے۔ ہمارا تمہارا چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' اور ہمارے اس پروگرام کا نام ہے ''چونچ در چونچ''۔ اس میں صرف اور صرف جھوٹ ہی کہا جائے گا اور جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جائے گا، اس وقت میرے سامنے جو مہمان بیٹھے ہیں، ان میں دائیں جانب مشہور و معروف ماہر تعویزات و عملیات و ازدواجیات علامہ بریانی عرف برڈ فلو کدو سرہ ہیں۔کدو سرہ نہ ان کا نام ہے نہ لقب نہ عرفیت بلکہ ان کے سر مبارک کو اندر باہر سے کدو جیسا دیکھ کر عوام نے ان کو کدو سرہ کا خطاب دیا ہے۔

بائیں جانب مشہور و معروف سیاسی تجزیہ نگار قہر خداوندی چشم گل چشم عرف ڈینگی بخار ہیں اور عین سامنے خادم الخدماء وزیر الوزراء اور ریئس الروساء جناب رہبر خان رہزن ہیں۔ جناب رہزن جدی پشتی اور خاندانی وزیر ابن وزیر ابن وزیر اور ابن وزیراں ہیں۔ مغلیہ دور سے آج تک ایسی کوئی حکومت نہیں آئی جس میں اسی خاندان نے وفا داری کے تمغہ جات حاصل نہ کیے ہوں اور اس کا کوئی رکن وزیر یا کبیر یا امیر نہ رہا ہو۔ موجودہ دور میں ان کے خاندان وزیراں کا ایک نہ ایک فرد ہر پارٹی میں موجود ہے اور مستقبل میں قوم کی خدمت کے لیے تیار اور کمر بستہ۔ آپ خود چودہ بار وزیر رہ چکے ہیں اور ابھی دس بارہ بار اور وزیر بننے کی ہوس ہے۔ ہمارا آج کا موضوع ہے کرپشن ۔۔۔ ہاں تو جناب رہبر خان رہزن صاحب کرپشن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

چشم : ان کا کیا خیال ہو گا، یہ تو خود کرپشن کے قطب مینار ہیں۔

اینکر : دیکھیے دیکھیے پہلے ان کو بولنے دیجیے۔

علامہ : ٹھیک بولتے ہیں ٹینکر صاحب۔

اینکر : اینکر

علامہ : ہاں انیقر صاحب۔

اینکر : انیقر نہیں اینکر۔

علامہ : کیا تمہارے لیے میں اپنا علم قرات چھوڑ دوں ؟ نہیں میں تو انیقر ہی بولوں گا۔

اینکر : چلیے جو بھی آپ کی مرضی۔

علامہ : ہاں تو میں اس ناہنجار نابکار یک چشم گل چشم سے کہہ رہا تھا ۔

چشم : دیکھیے آنکھ تک مت جائیں ورنہ میں آپ کے کدو جیسے سر ۔۔۔

اینکر : اوہو آپ تو ۔۔۔ بس کیجیے جناب ۔۔ ہاں تو رہبر خان رہزن صاحب، آپ کرپشن کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

رہزن : پہلے تو میں اس پھوٹی آنکھ والے سے یہ کہوں گا کہ بیٹا تو تو گیا، تو نے مجھ پر انگلی اٹھائی ہے، مجھ پر ۔۔۔ خوب جی بھر کر آج اپنی اس اکلوتی آنکھ سے دنیا کو آخری بار دیکھ لو۔

چشم : کیا کر لو گے تم۔

رہزن: میں کچھ بھی نہیں کروں گا، پولیس کرے گی ،کم از کم بیس کیسوں میں تو تم جاؤ گے ہی جاؤ گے۔

چشم : یہ دھونس کسی اور کو دینا، پولیس تمہارے مقابلے میں ''قائداعظم'' کی زیادہ سنتی ہے۔

رہزن : دیکھا، میں یہی کہنا چاہتا تھا کہ اصل کرپشن یہ عوام کرتے ہیں اور پھر ہم لیڈروں کو بدنام کرتے ہیں۔

چشم : کیا تم نہیں کرتے ۔۔ ان سڑکوں، عمارتوں اور پلوں کی پوری لسٹ ہے میرے پاس ۔۔۔۔

علامہ : چپ کر بے ادب ۔۔ کب سے میں تمہاری فضولیات سن رہا ہوں،کسی پر بہتان تراشی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

چشم : ہاں ہاں تم تو اس کی طرف داری کرو گے ہی تمہارے چورن کا سب سے بڑا خریدار جو ہے، چورن سڑک ہضم، سڑک ہضم۔

اینکر : دیکھیں دیکھیں چورن وغیرہ کی بات نہ کریں ،کمرشل باتیں اس پروگرام میں الائو نہیں ہیں، ہاں تو رہزن صاحب۔

رہزن : ان کو چپ کریں تو میں کچھ بولوں۔


اینکر : آپ دونوں پلیز، جی رہزن صاحب۔

رہزن : آپ نے کیا پوچھا تھا۔

اینکر : کرپشن کے بارے میں ۔۔ جو بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

رہزن : ہاں اور یہ سب کچھ اپوزیشن والوں کا کیا دھرا ہے، دراصل ہمیں بدنام کرنے کے لیے وہ کرپشن کرپشن کی رٹ لگا رہے ہیں ورنہ کرپشن دراصل ہے ہی نہیں ۔۔۔ کم از کم میں نے تو کہیں نہیں دیکھی۔

اس بات پر چشم گل چشم کھی کھی کرنے لگتا ہے، پھر جھک کر اس انداز میں ہلتا ہے جیسے اپنی ہنسی دبا رہا ہو۔ علامہ اس کے سر پر ایک دھول جماتا ہے تو چشم گل سیدھا ہوتا ہے لیکن منہ دبائے رکھتا ہے اور ہلتا ہے۔

اینکر : سائلنٹ پلیز، ہاں تو جناب رہزن صاحب ۔۔۔ آپ نے کہا

رہزن : میں نے کہا کہ یہ محض الزام تراشی اور اپوزیشن کی منفی تنقید ہے ورنہ کرپشن کا کہیں بھی وجود نہیں ہے۔

علامہ : میں جناب سے بالکل متفق ہوں، میرے قبضے میں جو جنات ہیں انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ رہزن صاحب کرپٹ بالکل نہیں ہیں، آج تک انھوں نے حرام کا ایک پیسہ نہیں لیا ہے۔

چشم : اس کے لیے الگ عملہ رکھا ہوا ہے، بیگم کی سربراہی میں ۔

رہزن : تم پھر بولے،

اینکر : دیکھیں اندرونی اور گھریلو معاملات کو ڈسکس نہ کریں ۔

رہزن : مجھے یہ شخص اپوزیشن کا ایجنٹ لگتا ہے۔

علامہ : میں اسے جانتا ہوں، یہ ایسا ہی ہے اور اپنی اس زبان کی وجہ سے یہ کئی بار پٹا ہے۔

چشم : دیکھو علامہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں بھی ویسا ہی کروں گا، تمہارے عملیات و تعویزات اور جنات کا سارا پردہ فاش کر دوں گا۔

علامہ : سمجھا کرو، یہ شخص مستقبل کا خریدار ہے، خاص طور پر چورن سڑک ہضم بلڈنگ ہضم سڑک ہضم کا تو سب سے بڑا گاہک ہو سکتا ہے۔

چشم : ٹھیک ہے لیکن کمیشن مجھے بھی دو گے۔

اینکر : یہ آپ لوگ کیا کانا پوسی کر رہے ہیں، اصل موضوع پر آئیں، علامہ صاحب کرپشن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔

علامہ : بڑا نیک خیال ہے، اس کرپشن سلمہ کے بارے میں، میں نے سنا ہے لیکن دیکھا نہیں۔

اینکر : چشم گل چشم صاحب آپ کے خیال میں کرپشن ختم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ مطلب یہ کہ کوئی علاج۔

چشم : علاج تو ہے لیکن مہنگا بہت ہے، کم از کم سارے لیڈروں اور آدھے افسروں کو۔

اینکر : کیا ؟

چشم : آپ خود جانتے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔

اینکر : علامہ صاحب آپ بتائیں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کیا ہونا چاہیے۔

علامہ : بڑا آسان ہے ،کرپشن کا نام بدل کر ہدیہ، شکرانہ یا نذر و نیار رکھ دیجیے،کرپشن کا نام و نشان نہیں رہے گا۔
Load Next Story