سیاسی اورسازشی صدر
پتہ نہیں ہمارے پیٹیشن باز اصحاب کہف ان دنوں کس غار میں لمبی تان کر سو رہے تھے۔
یہ بحث ہے توقمر زمان کائرہ صاحب کے لیے بہت محبوب، وہ تین ہفتوں سے اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں، کیا ستم ظریفی ہے کہ اس ملک میں یہ بحث بھی ہونا تھی کہ ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے بندے کا کیا کردار ہونا چاہیے، کہا جا رہا ہے کہ اسے غیر سیاسی ہونا چاہیے۔
پاکستان میں قائد اعظم بلحاظ عہدہ ،مملکت کے اسی طرح کے آئینی سربراہ تھے جس طرح پارلیمانی نظام میں صدر کی حیثیت ہوتی ہے۔تو کیا قائد اعظم غیر سیاسی تھے، کیا عدلیہ میں ان کے خلاف ایسی پیٹیشنیں دائر ہوئیں تھیں کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہیں، نہ مسلمانوں کی حمایت کریں ، نہ ہندووں کی بات کریں ، نہ سکھوں کے حقوق کا نام لیں اور کار مملکت سے بالکل لا تعلق ہو کر گورنر جنرل ہائوس میں آرام کیا کریں۔
ایک گورنر جنرل غلام محمد بھی تھے جو معذور تھے، گالیاں بکتے تھے اور حکومت کا سارا نظام انگلی کی حرکتوں سے چلاتے تھے، پھر ایوب خاں بھی صدر بنے، یحیٰ خاں بھی صدر بنے،ضیاالحق بھی صدر بنے، اور مشرف بھی صدر بنے، یہ چاروں بری فوج کے کمانڈر ان چیف بھی تھے، لیکن کسی پیٹیشن باز نے کوئی کوشش نہیں کی کہ انھیں جی ایچ کیو کے معاملات تک محدود کیا جائے۔بلکہ وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے، ایوب خاں نے تو فیلڈ مارشل کا منصب بھی اچک لیا، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایک بوگس الیکشن میں ہرا دیا،یحیٰ خاں نے طنطنے کے ساتھ ملک توڑ دیا، ضیا الحق نے ایک منتخب وزیر اعظم کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں عدلیہ کے ہاتھوں فیصلہ کروا کر پھانسی دلوا دی۔
جنرل مشرف کو آئین میں ترامیم کا ٹھیکہ مل گیا۔ پتہ نہیں ہمارے پیٹیشن باز اصحاب کہف ان دنوں کس غار میں لمبی تان کر سو رہے تھے، آئین کی فرماروائی اسی وقت یاد آئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔یہ ایک آسان نشانہ ہے، ہر کوئی اس پر تیر آزمائی کر سکتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ تیر اس پارٹی کا انتخابی نشان ہے ، اس کی جیت میں تو مدد کرتا ہے مگر انتقام کا نشانہ بننے سے نہیں بچا سکتا،بے نظر بھٹو کی حکومت کو دو مرتبہ معزول کیا گیا، اس کو آئین میں لکھی ہوئی ٹرم پوری نہ کرنے دی گئی مگر اٹھاون ٹو بی کی شق سے ان کی حکومت کو ذبح کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں لیا گیا۔اور جب آئین سے بھی کام نہیں چلا تو محترمہ کو گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا گیا، پیپلز پارٹی کے لیے آئین اور آئین سے بالا تر ہر اقدام جائز سمجھا جاتا ہے۔
تاریخ میں پہلا صدر ایساآیا ہے جس کا تعلق بھی پیپلزپارٹی سے ہے، اس کے خلاف ریشہ دوانیوں کی بھی انتہا کر دی گئی ہے مگر پہلے وہ مرد حر تھا ، اب اس نے اپنے آپ کو گریٹ فائٹر ثابت کیا اور کسی کی سازش پروان نہیں چڑھنے دی۔نجومی طوطے فال نکالتے رہے، دہشت نگار اسے خوفزدہ کرتے رہے، ہیڈلائینیں بنا نے والے اخبار کالے کرتے رہے اور ٹی وی اسکرینوں پر کلینکر چنگھاڑتے رہے۔پیٹیشن باز پینترے بدل بدل کر درخواستیں فائل کرتے رہے، مگر ان کو سابقہ ایک الگ قسم کے صدر سے پڑ گیا تھا ، انھیں توقع ہی نہ تھی کہ صدر زرداری نے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔اس کے حلیف کبھی حریف بن کر سامنے آئے، پھر حلیف بننے میں انھوں نے عافیت سمجھی،جن لوگوں نے مشرف کے پروردہ ہونے کی حیثیت سے پی پی پی کے خلاف انتخابی مہم میں گھنائونے الزامات لگائے۔
محترمہ کی جائے شہادت کو دھونے میں ایک لمحے کا توقف نہ کیا، جن کو خود زرداری نے قاتل لیگ کہا مگر جب جمہوری عمل کے استحکام کا سوال اٹھا تو انھوں نے قاتل لیگ سے ہاتھ ملانے میںکوئی عار محسوس نہیں کی۔اے این پی کے دیرینہ مطالبے کو پذیرائی بخشتے ہوئے انھیں خیبر پختون خواہ کی پہچان دی، ایم کیو ایم ناراض بھی ہوتی رہی مگر صدر کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے واپس حکومتی صفوں کے ساتھ کھڑی بھی رہی، اس میں صدر کا ذاتی مفاد نہیں تھا، یہ جمہوریت کی بقا اور اس کے تسلسل کا سوال تھا، یہ سیاسی عمل کے لیے ایک چیلنج تھا،سابق آمر مشرف آن ریکارڈ تھا کہ صرف اسی کے دور میں پارلیمنٹ نے آئینی ٹرم پوری کی، مگر ایک غیر فوجی صدر نے بھی ثابت کر دیا کہ اس کی چھتری تلے بھی جمہوریت اپنی منزل سے ہمکنارہو سکتی ہے۔
پاکستان کے اسی ایوان صدر نے سازشی صدر بھی دیکھے، غلام اسحاق کو کون بھول سکتا ہے جس نے بار بار منتخب حکومتوں کا گلا گھونٹا، جس کے دور میں ایوان صدر سازشیوں کا گڑھ بن چکا تھا۔آج ایوان صدر میں کوئی سازش نہیں ہوتی، صرف پاکستان اور جمہوریت کی بقا کے لیے سیاست ہوتی ہے، اور یہ سیاست اگر نہیں ہونی تو لندن کے مادام تسائو سے کوئی بھی مومی مجمسہ لا کر ایوان صدر میں رکھ لیجیے اور آئین سے کہیے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا رہے، اس کے پائوں دھو دھو کے پیتا رہے۔مگر شاید پیٹیشن باز پھر بھی مطمئن نہ ہو سکیں، ہم نے تو دیکھا کہ آئین کے تحت منتخب ہونے والا وزیر اعظم بھی ان کو قبول نہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور آتیں تو تخت لاہور کا وزیر اعلیٰ شہر چھوڑ کر چلا جاتا۔
بالآخر محترمہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ماڈل ٹائون کے آستانے پر حاضری دیں۔ جب تک صدر زرداری، نواز شریف کو بڑا بھائی کہتے رہے تو کسی نے ان کے سیاسی یا غیر سیاسی ہونے کی بحث نہیں چھیڑی مگر جونہی صدر نے نواز شریف کو مولوی نواز شریف کا خطاب دیا توتخت پنجاب کی راجدھانی کے لیے صدر زرداری اچھوت قرار پائے، اس سے پہلے بھارتی وزیر اعظم باجپائی کو لاہور والوں نے خوش آمدید کہا تھا ،اب بھارت کے ایک وزیر اعلیٰ ستیش کمار کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔مگر کیا مجال کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنے ملک کے صدر کو لاہور میں خوش آمدید کہہ سکے یا اسلام آباد جا کر اس سے مل سکے، لیکن ترک صدر، وزیر اعظم اور استنبول کے میئر کو سلام کیا جا سکتا ہے مگر پاکستان کے صدر سے ہاتھ ملانے کو عشق ممنوع سمجھ لیا گیا ہے۔
یہی صدر اگر سازشی کردار کا مالک ہوتا، ایوب خان، یحیٰ خاں، ضیاالحق اور مشرف کی طرح اختیار کلی کا مالک ہوتا تو ہر کوئی اس کے سامنے سیس نواتا۔ضیا الحق نے تو غرور بھرے لہجے میں کہا تھا کہ جس سیاستدان کو طلب کروں گا، وہ دم ہلاتا بھاگتا آجائے گا۔مگر جب کوئی شخص آئین پاکستان کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کی اسمبلی کے ارکان، قومی ا سمبلی اور سینیٹ کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر صدر بنتا ہے تو اس کے پر کاٹنے کے لیے ہر کوئی اپنی سی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے۔ویسے یہ مطالبہ کہ صدر کو غیر سیاسی ہونا چاہیے، صدر تارڑ سے تو کسی نے نہیں کیا تھا،وہ تو مکمل مسلم لیگی صدر تھے ۔ان کی وفاداریاںبعد میں بھی اسی پارٹی کے ساتھ رہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے فوجی آمر کے ساتھ نباہ کرتے رہے تاکہ نوازشریف کو مراعات دلوا سکیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعتراض صرف پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پر ہے اور وہ بھی ایسا جو سازشوں میں مشغول نہیں ، سیاست ضرور کرتا ہے کہ وہ ایک سیاسی اور جمہوری عمل کے ذریعے صدر بنا ،مگر یہ سیاست جمہوریت کو تقویت دینے کے لیے ہے، پاکستان کی سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لیے ہے، صدر تو سپاہ سالار بھی ہے اور یہ افواج پورے ملک کے عوام کے اعتماد کی حامل ہیں۔ کیڑے نکالنے والے تو ان میں بھی کیڑے نکالتے ہیں،ان کو بلیم گیم کا نشانہ بنانتے ہیں ، انھیں لاپتہ افراد کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں، کہیں سے کوئی پٹاخہ بھی مل جائے تو اس کا کھرا جی ایچ کیو سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔تو اس نوع کے معترضین کی زبانیں بڑی لمبی ہیں اور قینچی کی طرح چلتی ہیں۔اس ماحول میں بے چارے صدر کا کیا حشر ہو سکتا ہے ، اس کا تصور کرنا مشکل نہیں۔
مگر صدر زرادری نے کان لپیٹ رکھے ہیں مگر ان کی آنکھیں کھلی ہیں ، ان کے ہاتھ ہر ایک کو خوش آمدید کہنے کے لیے پھیلے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان کے ہاتھ کو جھٹک کر پرے کر دے، آئین کو مسلنے کی ذمے داری ان عناصر پر ہوتی ہے جو صدر کو اپنا صدر نہیں سمجھتے۔شکر ہے کہ اب تو نواز شریف نے مان لیا کہ اگر انھیں آیندہ انتخابات میں اکثریت ملی تو وہ صدر زراداری سے حلف لینے میں خوشی محسوس کریں گے ، اس بیان کے بعد ان کی پارٹی کے عقاب صفت لیڈروں کی زباں بندی ہو گئی ہے اور صدر کے بارے میں کسی کو شک وشبہ باقی نہیں رہاکہ وہ سب کے صدر ہیں، آئینی اورسیاسی صدر ہیں ،ایوب خان، یحیٰ خان، اسحق خان،فاروق لغاری اور مشرف کی طرح کے سازشی صدر نہیں ہیں۔
پاکستان میں قائد اعظم بلحاظ عہدہ ،مملکت کے اسی طرح کے آئینی سربراہ تھے جس طرح پارلیمانی نظام میں صدر کی حیثیت ہوتی ہے۔تو کیا قائد اعظم غیر سیاسی تھے، کیا عدلیہ میں ان کے خلاف ایسی پیٹیشنیں دائر ہوئیں تھیں کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہیں، نہ مسلمانوں کی حمایت کریں ، نہ ہندووں کی بات کریں ، نہ سکھوں کے حقوق کا نام لیں اور کار مملکت سے بالکل لا تعلق ہو کر گورنر جنرل ہائوس میں آرام کیا کریں۔
ایک گورنر جنرل غلام محمد بھی تھے جو معذور تھے، گالیاں بکتے تھے اور حکومت کا سارا نظام انگلی کی حرکتوں سے چلاتے تھے، پھر ایوب خاں بھی صدر بنے، یحیٰ خاں بھی صدر بنے،ضیاالحق بھی صدر بنے، اور مشرف بھی صدر بنے، یہ چاروں بری فوج کے کمانڈر ان چیف بھی تھے، لیکن کسی پیٹیشن باز نے کوئی کوشش نہیں کی کہ انھیں جی ایچ کیو کے معاملات تک محدود کیا جائے۔بلکہ وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے، ایوب خاں نے تو فیلڈ مارشل کا منصب بھی اچک لیا، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایک بوگس الیکشن میں ہرا دیا،یحیٰ خاں نے طنطنے کے ساتھ ملک توڑ دیا، ضیا الحق نے ایک منتخب وزیر اعظم کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں عدلیہ کے ہاتھوں فیصلہ کروا کر پھانسی دلوا دی۔
جنرل مشرف کو آئین میں ترامیم کا ٹھیکہ مل گیا۔ پتہ نہیں ہمارے پیٹیشن باز اصحاب کہف ان دنوں کس غار میں لمبی تان کر سو رہے تھے، آئین کی فرماروائی اسی وقت یاد آئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔یہ ایک آسان نشانہ ہے، ہر کوئی اس پر تیر آزمائی کر سکتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ تیر اس پارٹی کا انتخابی نشان ہے ، اس کی جیت میں تو مدد کرتا ہے مگر انتقام کا نشانہ بننے سے نہیں بچا سکتا،بے نظر بھٹو کی حکومت کو دو مرتبہ معزول کیا گیا، اس کو آئین میں لکھی ہوئی ٹرم پوری نہ کرنے دی گئی مگر اٹھاون ٹو بی کی شق سے ان کی حکومت کو ذبح کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں لیا گیا۔اور جب آئین سے بھی کام نہیں چلا تو محترمہ کو گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا گیا، پیپلز پارٹی کے لیے آئین اور آئین سے بالا تر ہر اقدام جائز سمجھا جاتا ہے۔
تاریخ میں پہلا صدر ایساآیا ہے جس کا تعلق بھی پیپلزپارٹی سے ہے، اس کے خلاف ریشہ دوانیوں کی بھی انتہا کر دی گئی ہے مگر پہلے وہ مرد حر تھا ، اب اس نے اپنے آپ کو گریٹ فائٹر ثابت کیا اور کسی کی سازش پروان نہیں چڑھنے دی۔نجومی طوطے فال نکالتے رہے، دہشت نگار اسے خوفزدہ کرتے رہے، ہیڈلائینیں بنا نے والے اخبار کالے کرتے رہے اور ٹی وی اسکرینوں پر کلینکر چنگھاڑتے رہے۔پیٹیشن باز پینترے بدل بدل کر درخواستیں فائل کرتے رہے، مگر ان کو سابقہ ایک الگ قسم کے صدر سے پڑ گیا تھا ، انھیں توقع ہی نہ تھی کہ صدر زرداری نے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔اس کے حلیف کبھی حریف بن کر سامنے آئے، پھر حلیف بننے میں انھوں نے عافیت سمجھی،جن لوگوں نے مشرف کے پروردہ ہونے کی حیثیت سے پی پی پی کے خلاف انتخابی مہم میں گھنائونے الزامات لگائے۔
محترمہ کی جائے شہادت کو دھونے میں ایک لمحے کا توقف نہ کیا، جن کو خود زرداری نے قاتل لیگ کہا مگر جب جمہوری عمل کے استحکام کا سوال اٹھا تو انھوں نے قاتل لیگ سے ہاتھ ملانے میںکوئی عار محسوس نہیں کی۔اے این پی کے دیرینہ مطالبے کو پذیرائی بخشتے ہوئے انھیں خیبر پختون خواہ کی پہچان دی، ایم کیو ایم ناراض بھی ہوتی رہی مگر صدر کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے واپس حکومتی صفوں کے ساتھ کھڑی بھی رہی، اس میں صدر کا ذاتی مفاد نہیں تھا، یہ جمہوریت کی بقا اور اس کے تسلسل کا سوال تھا، یہ سیاسی عمل کے لیے ایک چیلنج تھا،سابق آمر مشرف آن ریکارڈ تھا کہ صرف اسی کے دور میں پارلیمنٹ نے آئینی ٹرم پوری کی، مگر ایک غیر فوجی صدر نے بھی ثابت کر دیا کہ اس کی چھتری تلے بھی جمہوریت اپنی منزل سے ہمکنارہو سکتی ہے۔
پاکستان کے اسی ایوان صدر نے سازشی صدر بھی دیکھے، غلام اسحاق کو کون بھول سکتا ہے جس نے بار بار منتخب حکومتوں کا گلا گھونٹا، جس کے دور میں ایوان صدر سازشیوں کا گڑھ بن چکا تھا۔آج ایوان صدر میں کوئی سازش نہیں ہوتی، صرف پاکستان اور جمہوریت کی بقا کے لیے سیاست ہوتی ہے، اور یہ سیاست اگر نہیں ہونی تو لندن کے مادام تسائو سے کوئی بھی مومی مجمسہ لا کر ایوان صدر میں رکھ لیجیے اور آئین سے کہیے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا رہے، اس کے پائوں دھو دھو کے پیتا رہے۔مگر شاید پیٹیشن باز پھر بھی مطمئن نہ ہو سکیں، ہم نے تو دیکھا کہ آئین کے تحت منتخب ہونے والا وزیر اعظم بھی ان کو قبول نہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور آتیں تو تخت لاہور کا وزیر اعلیٰ شہر چھوڑ کر چلا جاتا۔
بالآخر محترمہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ماڈل ٹائون کے آستانے پر حاضری دیں۔ جب تک صدر زرداری، نواز شریف کو بڑا بھائی کہتے رہے تو کسی نے ان کے سیاسی یا غیر سیاسی ہونے کی بحث نہیں چھیڑی مگر جونہی صدر نے نواز شریف کو مولوی نواز شریف کا خطاب دیا توتخت پنجاب کی راجدھانی کے لیے صدر زرداری اچھوت قرار پائے، اس سے پہلے بھارتی وزیر اعظم باجپائی کو لاہور والوں نے خوش آمدید کہا تھا ،اب بھارت کے ایک وزیر اعلیٰ ستیش کمار کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔مگر کیا مجال کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنے ملک کے صدر کو لاہور میں خوش آمدید کہہ سکے یا اسلام آباد جا کر اس سے مل سکے، لیکن ترک صدر، وزیر اعظم اور استنبول کے میئر کو سلام کیا جا سکتا ہے مگر پاکستان کے صدر سے ہاتھ ملانے کو عشق ممنوع سمجھ لیا گیا ہے۔
یہی صدر اگر سازشی کردار کا مالک ہوتا، ایوب خان، یحیٰ خاں، ضیاالحق اور مشرف کی طرح اختیار کلی کا مالک ہوتا تو ہر کوئی اس کے سامنے سیس نواتا۔ضیا الحق نے تو غرور بھرے لہجے میں کہا تھا کہ جس سیاستدان کو طلب کروں گا، وہ دم ہلاتا بھاگتا آجائے گا۔مگر جب کوئی شخص آئین پاکستان کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کی اسمبلی کے ارکان، قومی ا سمبلی اور سینیٹ کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر صدر بنتا ہے تو اس کے پر کاٹنے کے لیے ہر کوئی اپنی سی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے۔ویسے یہ مطالبہ کہ صدر کو غیر سیاسی ہونا چاہیے، صدر تارڑ سے تو کسی نے نہیں کیا تھا،وہ تو مکمل مسلم لیگی صدر تھے ۔ان کی وفاداریاںبعد میں بھی اسی پارٹی کے ساتھ رہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے فوجی آمر کے ساتھ نباہ کرتے رہے تاکہ نوازشریف کو مراعات دلوا سکیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعتراض صرف پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پر ہے اور وہ بھی ایسا جو سازشوں میں مشغول نہیں ، سیاست ضرور کرتا ہے کہ وہ ایک سیاسی اور جمہوری عمل کے ذریعے صدر بنا ،مگر یہ سیاست جمہوریت کو تقویت دینے کے لیے ہے، پاکستان کی سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لیے ہے، صدر تو سپاہ سالار بھی ہے اور یہ افواج پورے ملک کے عوام کے اعتماد کی حامل ہیں۔ کیڑے نکالنے والے تو ان میں بھی کیڑے نکالتے ہیں،ان کو بلیم گیم کا نشانہ بنانتے ہیں ، انھیں لاپتہ افراد کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں، کہیں سے کوئی پٹاخہ بھی مل جائے تو اس کا کھرا جی ایچ کیو سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔تو اس نوع کے معترضین کی زبانیں بڑی لمبی ہیں اور قینچی کی طرح چلتی ہیں۔اس ماحول میں بے چارے صدر کا کیا حشر ہو سکتا ہے ، اس کا تصور کرنا مشکل نہیں۔
مگر صدر زرادری نے کان لپیٹ رکھے ہیں مگر ان کی آنکھیں کھلی ہیں ، ان کے ہاتھ ہر ایک کو خوش آمدید کہنے کے لیے پھیلے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان کے ہاتھ کو جھٹک کر پرے کر دے، آئین کو مسلنے کی ذمے داری ان عناصر پر ہوتی ہے جو صدر کو اپنا صدر نہیں سمجھتے۔شکر ہے کہ اب تو نواز شریف نے مان لیا کہ اگر انھیں آیندہ انتخابات میں اکثریت ملی تو وہ صدر زراداری سے حلف لینے میں خوشی محسوس کریں گے ، اس بیان کے بعد ان کی پارٹی کے عقاب صفت لیڈروں کی زباں بندی ہو گئی ہے اور صدر کے بارے میں کسی کو شک وشبہ باقی نہیں رہاکہ وہ سب کے صدر ہیں، آئینی اورسیاسی صدر ہیں ،ایوب خان، یحیٰ خان، اسحق خان،فاروق لغاری اور مشرف کی طرح کے سازشی صدر نہیں ہیں۔