سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ

پاکستان اور بھارت جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں سرخ لکیر کو عبور کرنے کی ہلاکت خیز خطا کریں گی

میں سرجیکل اسٹرائیک کے خلاف تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس سے معاملات بگڑ کر اس نہج پر پہنچ جائینگے جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہ رہے گی لیکن اب جب کہ سرجیکل اسٹرائیک کا سرکاری طور پر دعویٰ کر دیا گیا ہے تو اس صورت میں میرے پاس سرکار کا ساتھ دینے کے سوا بھلا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے۔

مجھے یہاں انگریزی زبان کے نہایت ممتاز شخصیت برنارڈ شا کا ایک جملہ یاد آ گیا کہ ''میں حکومت برطانیہ کا سب سے زیادہ تلخ نوائی کرنے والا ناقد تھا لیکن اب چونکہ ہمارا ملک جنگ کے وسط میں پہنچ کا ہے تو مجھے بھی اس کی حمایت ہی کرنی چاہیے۔ غالباً بھارت کے پاس بھی کوئی آپشن نہیں تھا'دراندازوں کے بارے میں بھارت سرکار کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے سرحد پار پناہ لے رکھی ہے اور وہیں سے کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک جوابی کارروائی پر مجبور ہو گا۔ ادھر بھارتی بحریہ کے سربراہ ائرمارشل اروپ راہا نے اوڑی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں کہ بھارت کے 19 فوجی ہلاک ہو گئے تھے، کہا ہے کہ اوڑی آپریشن ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ بدستور جاری ہے۔ مگر بھارتی ایئرچیف نے سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

میرا اپنا یہ ہر گز خیال نہیں کہ پاکستان اور بھارت جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں سرخ لکیر کو عبور کرنے کی ہلاکت خیز خطا کریں گی۔ سرحدوں پر ہونے والی کشیدگی کو بھی ایک حد تک ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن اس ٹُھک ٹُھک میں کوئی بڑا دھماکا بھی ہو سکتا ہے جس پر پھر قابو نہ پایا جا سکے۔

دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں اجیت دوول اور ناصر جنجوعہ نے کشیدگی کو مدہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ نواز شریف نے بھی پاکستان سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ انھوں نے اپوزیشن کو ساری صورتحال سے آگاہ کرنے کی خاطر خصوصی اجلاس کا اہتمام بھی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ رائے عامہ دونوں ملکوں میں عقابی تیور دکھا رہی ہے۔

یہ افسوس کی بات ہے کہ جوہری جنگ کا ذکر بھی چھیرا جا چکا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے عوام اسی اذیت ناک کشیدگی سے چھٹکارا چاہتے اور اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلسل خوف اور ڈر کی زندگی نہیں برداشت کر سکتے۔


سارک سربراہ کانفرنس میں دونوں کو میز پر بیٹھ کر بات کرنے کا موقع مل سکتا تھا لیکن بھارت نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان سے بھی انکار کروا دیا۔ بھارتی پریس کے مطابق انکار کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی فضا کانفرنس کے لیے موزوں نہیں۔ لیکن آخر متبادل جگہ کون سی تھی؟ پاکستان کو خیال کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک بھی اس کے رویے سے نالاں ہیں ۔بھارت ایک معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا مگر چین نے ویٹو کر دیاجوکہ چین جیسی عظیم طاقت کے لیے بدقسمتی کی بات تھی۔

چنانچہ تعطل جاری ہے لیکن صورت حال کسی وقت بھی قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بلوچستان کی صورت حال پر توجہ دینی چاہیے اور افغانستان سے کسی حملے کی ممکنہ کوشش کو روکنا چاہیے۔ البتہ یہاں اگر لڑائی ہوئی بھی تو بڑے محدود پیمانے پر ہو گی۔ یہ درست ہے کہ امریکا نے اپنی زیادہ تر فوج افغانستان سے واپس بلا لی وہاں اب کم ہی امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں جن کے بارے میں امریکا کا کہنا ہے کہ ان کے رکنے کے لیے کابل نے باقاعدہ طور پر درخواست کی تھی۔

دوسری طرف نئی دہلی کی حکومت کھلے عام برہمداغ بگتی کی حمایت کر رہی ہے اور اسے بھارت میں سیاسی پناہ کی بھی پیش کی کی ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یورپ اورکئی دیگر ممالک میں بھی بہت سے ناراض بلوچ مقیم ہیں۔ بھارت ان سب کو اپنے یہاں بلا لے گا اور بلوچستان میں ویسی ہی تحریک شروع کر دے گا جو اس نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناتے وقت کی تھی۔ یہ ناراضگی اسلام آباد کے لیے انتباہ ہونی چاہیے۔

خان عبدالغفار خان جنھیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے نے افغانستان میں سیاسی پناہ لے لی تھی۔ میری ان سے کئی سال پہلے ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ جواہر لعل نہرو نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جو یہ تھا کہ پشتو زبان بولنے والوں کے لیے ایک آزاد ملک بنا دیں گے لیکن نہرو بے بس ہو چکے تھے کیونکہ بلوچستان پاکستان کا حصہ تھا اور نہرو نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کو تسلیم کر لیا تھا اور باچاخان عرف سرحدی گاندھی پاکستان کے شہری تھے۔

نہرو اگر ان کی حمایت میں کوئی قدم اٹھاتے تو پہلے دن ہی جنگ چھڑ جاتی جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ البتہ وزیراعظم مودی ایک مختلف قسم کے شخص ہیں۔ اب تک کی ان کی پالیسی ''کچھ لو اور کچھ دو'' رہی ہے۔

یہ وہی تھے جنہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے تمام سربراہوں کو بلا لیا تھا اور افغانستان سے واپسی پر اسلام آباد رکے اور پاکستان کو دوستی کا ہاتھ پیش کیا جس کی بھارت میں بڑی سخت مخالفت کی گئی۔ لیکن آج زمینی حقائق مختلف ہیں جنہوں نے مودی کو مجبور کیا ہے کہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں۔ سرجیکل اسٹرائیک کو دوسرا راستہ کہا جا سکتا ہے جو کہ بقول بھارت ہو گئی۔ لیکن اگر پاکستان کی طرف سے بھی کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو پھر حالات سب کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ 1948'1965 اور 1971ء میں تین جنگیں لڑ چکا ہے جنہوں نے دونوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story