پاک بھارت کشیدگی
امید تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد پاک بھارت کشیدگی کم ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا
امید تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد پاک بھارت کشیدگی کم ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دونوں جانب سے کشیدگی کے اسباب پر جو رویہ اختیار کیا گیا اس نے کوئی مثبت ردعمل کا اظہار پیش نہ کیا۔ بلکہ لندن میں وزیراعظم نواز شریف نے جو مختصر گفتگو کی اس میں اسی بات کا عندیہ ملتا تھا کہ سارک کانفرنس ایک عام سی کانفرنس ہو گی مگر نریندر مودی نے سارک کانفرنس کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا جس سے اس بات کا اظہار ہوا کہ علاقائی روابط میں پاکستان کا تعلق کمزور تر ہے۔
یہ تو کہیے کہ چین نے ویٹو کے ذریعے پاکستان کا ساتھ دے کر دوستی کا حق ادا کر دیا۔ انڈیا کی دھونس میں آ کر بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، افغانستان نے سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ افغانستان جو صدیوں سے پاکستان سے جڑا ہوا ہے اور ایک ایسا ملک ہے جو ہر طرف سے سنگلاخ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے راستے سے اس کی گزر گاہیں موجود ہیں۔
چلیے بنگلہ دیش سے تو ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ماضی میں یہ پاکستان کا حصہ تھا اور دیگر وجوہات موجود تھیں۔ مگر افغانستان سے تو کوئی ایسی صورت حال نہ تھی صرف واضح ایک بات ہے کہ ہم اس نشیب کو پاٹنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور نہ ہی کوئی اس سمت میں پیش رفت ہو سکی بلکہ دونوں ملکوں کے راستے بھی الگ الگ ہیں اور بھوٹان جیسا چھوٹا سا ملک بھی اچھے تعلقات بحال نہ کر سکا، حالانکہ بھارت اور بھوٹان میں کشیدگی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ بائیں بازو کے انتہا پسند عناصر بھوٹان میں خاصے موجود ہیں۔
دوسری ایک وجہ یہ بھی کہ مانا کہ بھارت جیسے بڑے ہمسایہ ملک کا گہرا اثر بھی بھوٹان پر سایہ فگن ہے جب کہ بنگلہ دیش میں مذہبی لگاؤ اور پاکستان میں میل ملاپ ایک قریبی تعلق ہے۔ مگر بھلا کون ہے جو سفارتکاری کے مشترک راستوں کو یکجا کرے مگر مذہبی راستہ جہاں ایک طرف بہت مضبوط راستہ ہوتا ہے وہیں دوسری جانب علاقائی دوری بھی ہے۔ مگر افغانستان کا راستہ تو جغرافیائی اعتبار سے تو نسبتاً قریب تر ہے مگر صورتحال موجودہ حالات میں ایسی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں کشیدگی میں خاصا اضافہ ہوا ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے مدمقابل پہنچ چکے ہیں اور موجودہ تناظر میں تو صورتحال ایسی ہو گئی کہ پراکسی جنگ (Proxy War) کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
لہٰذا یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تناؤ کافی بڑھ گیا ہے محض پراکسی وار کا مسئلہ نہیں بلکہ فاٹا کے ملحقہ علاقوں میں بھی جہاں ضرب عضب چل رہی ہے، وہاں پر مولانا فضل الرحمن بھی دبے الفاظ میں مخالفت کر رہے ہیں ایسا ہی کچھ عمل محمود خان اچکزئی کا بھی ہے مگر ان سب لوگوں میں پاکستانی لیڈر عمران خان بالکل الگ سوچ کے حامل ہیں۔ مانا کہ وہ جو خود کو بے نظیر شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کے طرفدار کہتے تھے وہ لوگ ویسی سیاست نہیں کر رہے جو ان کی ماضی میں سیاست ہوتی تھی۔
پاکستان میں جو لوگ سیاست دان ہیں ان میں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جو چند لاکھ لوگ جمع کر سکے یہ عمران خان ہیں جو واضح سیاست کے طرفدار ہیں۔ اسی لیے عمران خان لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیڈر حضرات بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ عوام کے حامی ہیں اور پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں مگر اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ عوام دشمن ہیں۔ پاکستان کے عوام کراچی کے رہنے والے ہوں یا کے پی کے کے ان میں کوئی تعصب بالکل نہیں اور اپنے صوبے کے عوام کی بہتری چاہتے ہیں۔
عمران خان نے ایک اور واضح اعلان کیا کہ جب تک انسانی حقوق کے مسائل حل نہ ہوں گے ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ کا خطرہ باقی رہے گا۔ آر ایس ایس کس بنیاد پر انسان کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتی مگر اب جنگ ایسی نہ ہو گی کہ ایک بچ جائے گا اور دوسرا مر جائے اب جنگوں میں کوئی جاندار نہ بچ سکے گا بلکہ انسان کے جوتوں کے نشان بھی باقی نہ بچیں گے۔
عمران خان کی جماعت کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں کوئی مسئلہ حل پذیر نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ یہی عمران خان نے کہا تھا۔ درحقیقت فکری اور فطری اعتبار سے کوئی مسئلہ حل نہ ہو گا۔ اس کے لیے مشترکہ اجلاس میں کوئی مسئلہ حل نہ ہو گا۔ عمران خان کے موجودہ مباحثے سے کوئی ایسی سبیل نکالی جانے کا امکان ممکن ہے نکل آئے تو انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہوں۔ تو بہتر یہی ہے۔ بعض ایسے لوگ ہیں جو جنگ سے مسائل کا حل چاہتے ہیں مگر جنگ کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔
عمران خان نے رفتہ رفتہ جو کئی جلوس اور جلسے کیے، شروع میں کئی جلوسوں میں جو تعداد ہوا کرتی تھی اب وہ تعداد پہلے ہی جلوسوں میں وہ اہداف پورے کر لیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب جلوس عوام میں مقبول تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر آپ ذرا غور فرمائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عمران خان ہر صوبے میں یکساں مقبول ہیں اور پی پی پی کی جو بلندی اور مقبولیت تھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی پی اپنے مشن اور اپنے منشور سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
کبھی کبھی غریب، ہاری، مزدورکی آواز ان کے پنڈال سے آ جاتی تھی مگر اب یہ آوازیں یہاں سے نہیں آتیں بلکہ اب اچھے کپڑے فیشن اور زیبائش کی آواز بلاول بھٹو کے اسٹیج سے آتی ہے اور عمران خان کے اسٹیج سے پرجوش نعرے لگتے ہیں اور ہر طبقے کے لوگ عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔
مشترکہ اجلاس میں سیریس لوگ نظر نہیں آتے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف سنجیدہ انداز میں نظر آتے ہیں مگر چند قراردادیں جس کی توقع تھی وہ نظر نہیں آتیں۔ اور مفکرانہ جستجو، مانا کہ اجلاس میں جب عمران خان نہیں ہوتے تو اجلاس میں وہ وسعت اور وہ گفتگو نہیں ہوتی۔ ویسے تو قائد حزب اختلاف تو خورشید شاہ ہیں لیکن عملی طور پر حزب اختلاف کے تمام اوصاف عمران خان میں موجود ہیں۔ جب انھوں نے رائیونڈ میں تقریر کی تھی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے امن و آتشی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ جنگ ممکن نہیں کیونکہ دونوں ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اور اگر خدانخواستہ جنگ ہوئی تو یہ تاریخی المیہ ہو گا۔
یہ تو کہیے کہ چین نے ویٹو کے ذریعے پاکستان کا ساتھ دے کر دوستی کا حق ادا کر دیا۔ انڈیا کی دھونس میں آ کر بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، افغانستان نے سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ افغانستان جو صدیوں سے پاکستان سے جڑا ہوا ہے اور ایک ایسا ملک ہے جو ہر طرف سے سنگلاخ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے راستے سے اس کی گزر گاہیں موجود ہیں۔
چلیے بنگلہ دیش سے تو ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ماضی میں یہ پاکستان کا حصہ تھا اور دیگر وجوہات موجود تھیں۔ مگر افغانستان سے تو کوئی ایسی صورت حال نہ تھی صرف واضح ایک بات ہے کہ ہم اس نشیب کو پاٹنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور نہ ہی کوئی اس سمت میں پیش رفت ہو سکی بلکہ دونوں ملکوں کے راستے بھی الگ الگ ہیں اور بھوٹان جیسا چھوٹا سا ملک بھی اچھے تعلقات بحال نہ کر سکا، حالانکہ بھارت اور بھوٹان میں کشیدگی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ بائیں بازو کے انتہا پسند عناصر بھوٹان میں خاصے موجود ہیں۔
دوسری ایک وجہ یہ بھی کہ مانا کہ بھارت جیسے بڑے ہمسایہ ملک کا گہرا اثر بھی بھوٹان پر سایہ فگن ہے جب کہ بنگلہ دیش میں مذہبی لگاؤ اور پاکستان میں میل ملاپ ایک قریبی تعلق ہے۔ مگر بھلا کون ہے جو سفارتکاری کے مشترک راستوں کو یکجا کرے مگر مذہبی راستہ جہاں ایک طرف بہت مضبوط راستہ ہوتا ہے وہیں دوسری جانب علاقائی دوری بھی ہے۔ مگر افغانستان کا راستہ تو جغرافیائی اعتبار سے تو نسبتاً قریب تر ہے مگر صورتحال موجودہ حالات میں ایسی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں کشیدگی میں خاصا اضافہ ہوا ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے مدمقابل پہنچ چکے ہیں اور موجودہ تناظر میں تو صورتحال ایسی ہو گئی کہ پراکسی جنگ (Proxy War) کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
لہٰذا یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تناؤ کافی بڑھ گیا ہے محض پراکسی وار کا مسئلہ نہیں بلکہ فاٹا کے ملحقہ علاقوں میں بھی جہاں ضرب عضب چل رہی ہے، وہاں پر مولانا فضل الرحمن بھی دبے الفاظ میں مخالفت کر رہے ہیں ایسا ہی کچھ عمل محمود خان اچکزئی کا بھی ہے مگر ان سب لوگوں میں پاکستانی لیڈر عمران خان بالکل الگ سوچ کے حامل ہیں۔ مانا کہ وہ جو خود کو بے نظیر شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کے طرفدار کہتے تھے وہ لوگ ویسی سیاست نہیں کر رہے جو ان کی ماضی میں سیاست ہوتی تھی۔
پاکستان میں جو لوگ سیاست دان ہیں ان میں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جو چند لاکھ لوگ جمع کر سکے یہ عمران خان ہیں جو واضح سیاست کے طرفدار ہیں۔ اسی لیے عمران خان لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیڈر حضرات بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ عوام کے حامی ہیں اور پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں مگر اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ عوام دشمن ہیں۔ پاکستان کے عوام کراچی کے رہنے والے ہوں یا کے پی کے کے ان میں کوئی تعصب بالکل نہیں اور اپنے صوبے کے عوام کی بہتری چاہتے ہیں۔
عمران خان نے ایک اور واضح اعلان کیا کہ جب تک انسانی حقوق کے مسائل حل نہ ہوں گے ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ کا خطرہ باقی رہے گا۔ آر ایس ایس کس بنیاد پر انسان کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتی مگر اب جنگ ایسی نہ ہو گی کہ ایک بچ جائے گا اور دوسرا مر جائے اب جنگوں میں کوئی جاندار نہ بچ سکے گا بلکہ انسان کے جوتوں کے نشان بھی باقی نہ بچیں گے۔
عمران خان کی جماعت کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں کوئی مسئلہ حل پذیر نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ یہی عمران خان نے کہا تھا۔ درحقیقت فکری اور فطری اعتبار سے کوئی مسئلہ حل نہ ہو گا۔ اس کے لیے مشترکہ اجلاس میں کوئی مسئلہ حل نہ ہو گا۔ عمران خان کے موجودہ مباحثے سے کوئی ایسی سبیل نکالی جانے کا امکان ممکن ہے نکل آئے تو انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہوں۔ تو بہتر یہی ہے۔ بعض ایسے لوگ ہیں جو جنگ سے مسائل کا حل چاہتے ہیں مگر جنگ کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔
عمران خان نے رفتہ رفتہ جو کئی جلوس اور جلسے کیے، شروع میں کئی جلوسوں میں جو تعداد ہوا کرتی تھی اب وہ تعداد پہلے ہی جلوسوں میں وہ اہداف پورے کر لیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب جلوس عوام میں مقبول تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر آپ ذرا غور فرمائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عمران خان ہر صوبے میں یکساں مقبول ہیں اور پی پی پی کی جو بلندی اور مقبولیت تھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی پی اپنے مشن اور اپنے منشور سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
کبھی کبھی غریب، ہاری، مزدورکی آواز ان کے پنڈال سے آ جاتی تھی مگر اب یہ آوازیں یہاں سے نہیں آتیں بلکہ اب اچھے کپڑے فیشن اور زیبائش کی آواز بلاول بھٹو کے اسٹیج سے آتی ہے اور عمران خان کے اسٹیج سے پرجوش نعرے لگتے ہیں اور ہر طبقے کے لوگ عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔
مشترکہ اجلاس میں سیریس لوگ نظر نہیں آتے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف سنجیدہ انداز میں نظر آتے ہیں مگر چند قراردادیں جس کی توقع تھی وہ نظر نہیں آتیں۔ اور مفکرانہ جستجو، مانا کہ اجلاس میں جب عمران خان نہیں ہوتے تو اجلاس میں وہ وسعت اور وہ گفتگو نہیں ہوتی۔ ویسے تو قائد حزب اختلاف تو خورشید شاہ ہیں لیکن عملی طور پر حزب اختلاف کے تمام اوصاف عمران خان میں موجود ہیں۔ جب انھوں نے رائیونڈ میں تقریر کی تھی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے امن و آتشی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ جنگ ممکن نہیں کیونکہ دونوں ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اور اگر خدانخواستہ جنگ ہوئی تو یہ تاریخی المیہ ہو گا۔