’بائیکاٹ کا فیصلہ‘  

مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعہ پانامہ لیکس پر عمران خان کی احتجاجی مہم ٹھنڈی پڑ جائے گی

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کی اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جب تک وزیراعظم نوازشریف پانامہ لیکس پر خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کریں گے، ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں نہیں آئے گی۔ اس طرح حکومت کی یہ توقع پوری نہیں ہو سکی کہ مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعہ پانامہ لیکس پر عمران خان کی احتجاجی مہم ٹھنڈی پڑ جائے گی، یا ان کے موقف میں کوئی نرمی آ جائے گی۔

پیپلزپارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور پارلیمانی پارٹیوں کا سربراہی اجلاس بلاول بھٹو زرداری کی تجویز پر ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو نے پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں جب یہ کہا کہ وہ حکومت کی کشمیر پالیسی کی مکمل حمایت کرتے ہیں تو بعض سیاسی قائدین مسکرائے بغیر نہ رہ سکے، کیونکہ چند ہی ہفتے پہلے انھی بلاول بھٹو نے آزادکشمیر میں 'مودی کا جو یار ہے، غدار غدار ہے' کے جذباتی نعرے لگوائے تھے۔

بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ اور پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس سے پہلے اور بعد میں جس لب و لہجہ میں عمران خان پر تنقید کی ہے، وہ یہ ظاہرکرنے کے لیے کافی ہے کہ آصف زرداری، خورشید شاہ اور رضا ربانی پانامہ لیکس پر بلاول بھٹوکو رام کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور اس مسئلہ پر حکومت کے خلاف کسی احتجاجی تحریک میں اعتزاز احسن کا عمران خان اوربلاول بھٹو کو ایک صفحہ پر لانے کا خواب پورا ہونے والا نہیں۔

دھرنا تحریک کے دنوں میں بھی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پیپلزپارٹی ہی کی تجویز پر بلایا گیا تھا، اور اعتزاز احسن اور خورشید شاہ آج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ہی نواز شریف حکومت دھرنا تحریک سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس تناظر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا پی ٹی آئی کا فیصلہ قابل فہم ہے اور عمران خان نے کہا بھی ہے کہ اس مرحلہ پر جب کہ پانامہ لیکس پر وزیراعظم کے خلاف ان کی پارٹی کی احتجاجی مہم فیصلہ کن مرحلہ میں ہے، ایسے حکومتی اجلاس میں ان کی شرکت سے ان کی احتجاجی مہم کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس ہی کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں بھی نہیں گئے ۔کہا جاتا ہے، وہ شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری کو بھجوانے کے حق میں بھی نہیں تھے، مگر پھر اپنے دست راست شیخ رشید احمد اور پارٹی کے کچھ عہدیداروں کے زور دینے پر وہ انھیں بھجوانے پر راضی ہو گئے۔

شیخ رشید احمد کا ذکرآیا ہے تو یہ کہنے میں ہرج نہیں کہ پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں انھیںمدعو نہ کر کے حکومت نے قومی یکجہتی اجلاس میں پارٹی نمایندگی کے لیے مقرر کیے گئے اپنے اصول کی خود ہی خلاف ورزی کر دی۔ پارلیمنٹ میں اعجازالحق کی مسلم لیگ ضیا الحق اور شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ دونوں کی ایک ایک نشست ہے۔ اعجازالحق کو دعوت دی گئی، شیخ رشید احمد کودعوت نہیں دی گئی۔

پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں تنہا عمران خان نے نہیں، مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر چوہدری پرویزالٰہی نے بھی شرکت نہیں کی اور ان کی نمایندگی کامل علی آغا نے کی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس کے ضمن میں جو تحفظات عمران خان کے تھے، وہی تحفظات پرویزالٰہی کے بھی تھے۔ ان کا بھی خیال تھا کہ اس طرح کے حکومتی اجلاس بلائے جانے کا مقصد وزیراعٖظم پر سے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا دباو کم کرنا ہے۔

پنجاب میں عمران خان کی طرح پرویزالٰہی بھی بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور اپنے دور میں صوبہ کی سطح پر تعلیم صحت اور امن و امان کے شعبہ جات میں جو انقلابی اصلاحات انھوں کی تھیں، ان کا عمران خان اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں بھرپور اعتراف کرتے ہیں اور خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی حکومت ان سے استفادہ بھی کر رہی ہے۔ ٹیلی فونک رابطوں کے بعد پچھلے دنوں جہانگیر ترین کے گھر پر عمران خان اور چوہدری برادران کی براہ راست ملاقات بھی ہو چکی ہے۔


اگرچہ یہ پہلی ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پنجاب میں عمران خان اور پرویزالٰہی اگر ن لیگ کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں اورآیندہ الیکشن میں اس کے مقابلہ میں متبادل انتخابی قوت بن کر سامنے آنا چاہتے ہیں تو جلد یا بدیر ان کو اکٹھے ہونا ہے اور جو لوگ اس میں رکاوٹ بن رہے ہیں، حقیقتاً وہ پنجاب میں ن لیگ ہی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

اب ستم یہ ہے کہ اس میں بڑی رکاوٹ وہ سیاست دان ہیں، جو ق لیگ سے نقل مکانی کر کے پی ٹی آئی میں آئے ہیں اور اب پرویزالٰہی اور عمران خان کو اکٹھے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ میری اطلاع یہ ہے کہ چوہدری برادران اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود راے ونڈ مارچ میںپارٹی وفد بھیجنے پر تیار ہو گئے تھے، لیکن عین آخری مرحلہ میں پی ٹی آئی کے اندر ہی سے کچھ لوگوں نے ایسی غلط فہمیاں پیدا کر دیں کہ ان کا پارٹی وفد راے ونڈ مارچ میں شرکت کے لیے نہ پہنچ سکا۔

یہ اطلاع اس لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ اس سے پہلے لاہور ریلی میں پی ٹی آئی اور ق لیگ اکٹھی نظر آ رہی تھیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جس دن پنجاب میں عمران خان اور پرویزالٰہی مل کر چلنے پر تیار ہو گئے، پنجاب میں نوازشریف حکومت کا اپوزیشن کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس کے بارے میں عمران خان اور پرویز الٰہی کی ایک جیسی سوچ اور ایک جیسی حکمت عملی ظاہر کرتی ہیں کہ دونوں اپوزیشن رہ نماوں کے درمیان باہمی رابطے مستقبل میں حکومت کے خلاف کسی مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق راے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں ۔

پنجاب میں نوازشریف حکومت کے خلاف اپوزیشن کے محاذ پر تیسری پارٹی جو سرگرم ہے اور اس کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو رہی ہے، وہ طاہرالقادری کی عوامی تحریک ہے۔ دھرنا تحریک کی ناکامی کے بعد طاہرالقادری نے پوری کوشش کی کہ کسی ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے وہ بھی اپنی پارٹی کو پارلیمانی پارٹیوں کی صف میں شامل کرا لیں۔ لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔

اس طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس یا پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں ان کو شرکت کی دعوت نہ دینے کے لیے حکومت کے پاس جواز موجود تھا۔ لیکن اس ضمن میں اگر شیخ رشید احمد کی پارلیمانی پارٹی کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو پارلیمانی پارٹی کا درجہ حاصل کر لینے کے بعد بھی طاہرالقادری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ یا پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت ملنے کا امکان نہیں تھا۔

اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اتفاق راے پیدا کرنے کے نام پر حکومت نے پارلیمانی پارٹیوں کا جو سربراہی اجلاس طلب کیا تھا، اس میں اپوزیشن کے خلاف احتجاجی سیاست کرنے والی چار پارٹیوں میںسے دو پارٹی قائدین نے خود سے شرکت نہیں کی، تیسری پارٹی کے سربراہ کو دعوت نہیں دی گئی، جب کہ چوتھی پارٹی کے سربراہ تکنیکی بنیادوں پر شرکت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کشمیر میں بھارتی جارحیت یا پاک بھارت کشیدگی پر اپوزیشن کی یہ پارٹیاں باقی پارٹیوں کے ساتھ نہیں، جیسا کہ حکومت تاثر دے رہی ہے۔

عمران خان، چوہدری برادران، شیخ رشید احمد اور طاہرالقادری واضح کر چکے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور پاک بھارت کشیدگی پر ان کا موقف بھی وہی ہے، جو پارلیمنٹ اور پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں شریک باقی پارٹیوں کا ہے۔

بہرحال رایونڈ مارچ کے بعد نوازشریف حکومت نے جس انداز میں پہلے پاک بھارت کشیدگی پر پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کا اجلاس بلایا اور اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا اور ان میں پیپلزپارٹی نے جس پرجوش انداز میں نوازشریف حکومت کی تائیدوحمایت کی اور عملی طور پر اپنے آپ کو پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست سے الگ کر لیا، اس کو سیاسی محاذ پر نوازشریف حکومت کی بہت بڑی کامیابی کہا جا سکتاہے؛ لیکن یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ اس کے نتیجہ میں اپوزیشن کی ان پارٹیوں میں بھی ہم آہنگی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے، جو پنجاب میں نوازشریف حکومت کے خلاف احتجاجی سیاست کی بھرپور طاقت رکھتی ہیں اور دھرنا تحریک میں اس کا ثبوت فراہم کر چکی ہیں۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے حکومت کو پیغام دے دیا ہے کہ محرم کے بعد وہ نوازشریف حکومت کے بھرپور احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، اور اب کی بار ان کی اتحادی پارٹیاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی۔ شاعر نے کہا تھا،

اب بھی اعلان سحر کرتا ہوا مست کوئی
داغِ دل کر کے فروزاں سرِ شام آتا ہے
Load Next Story