محرم الحرام مذہبی و معاشرتی ذمے داریاں

اتحاد و اتفاق، امن و امان اور تحمل کو فروغ دیجیے۔

شریعت اسلامی نے اہل ایمان کو کفار کی مشابہت سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ فوٹو: فائل

امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے کہ 17ہجری میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ جو یمن کے گورنر تھے، نے حضرت عمرؓ بن خطاب کی اس طرف توجہ مبذول کرائی کہ آپؓ کے جو سرکاری خطوط ہماری طرف آتے ہیں ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی، مناسب ہوگا اگر تاریخ کے اندراج کا اہتمام بھی کرلیا جائے۔

چناں چہ صحابہ کرامؓ کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ اسلامی سن کا آغاز واقعہ ہجرت کو بنایا جائے۔ نیز مورخین کی وضاحت کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ صحابہؓ کا اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ سال کی ابتدا ماہ محرم سے کی جائے۔ چناں چہ محرم ہی سے اسلامی سال کا آغاز ہونے لگا۔

ماہ محرم اپنی فضیلت و عظمت، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی دور میں اس کے اعزاز و اکرام میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا۔

قرآن کریم میں ارشاد ربا نی ہے، اس میں قتال کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔

اسے حر مت والے مہینوں میں سے بھی شمار کیا گیا ہے۔ ارشاد با ری ہے، مہینوں کی گنتی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک با رہ مہینے ہے، ان میں چار مہینے ادب کے ہیں۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، زمانے کی رفتار وہی ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے۔


یوں تو اس ماہ میں کی جانے والے ہر عبادت قابل قدر اور باعث اجر ہے مگر احادیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ چناں چہ صحیح مسلم میں آپؐ کا فرمان مبارک موجود ہے، رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہتر ین روزے اﷲ کے مہینہ ''محرم'' کے روزے ہیں۔

غنیۃ الطالبین میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت ذکر فرمائی ہے، جو محرم کے ایک دن کا روزہ رکھے ا س کو ایک مہینہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔

اﷲ رب العزت نے '' یوم عاشورہ '' کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا ہے۔ یہ دن بہت سے فضائل کا حامل اور نیکیوں کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

شریعت اسلامی نے اہل ایمان کو کفار کی مشابہت سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا ہے، اس تناظر میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ دسویں محرم کا روزہ چوں کہ یہود بھی رکھتے ہیں اس لیے ہم دسویں تاریخ کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ بھی رکھیں تا کہ سنت بھی ادا ہوجائے اور شریعت پر عمل بھی ہوجائے۔ مسند احمد میں حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ کی روایت موجود ہے کہ تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔

دسویں محرم کے دن اپنی استطاعت کے مطابق حلال آمدنی سے اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے میں وسعت کرنا برکت رزق کا ذریعہ اور فقر و فاقہ سے نجات کا سبب ہے۔ امام ابن عبدالبر مالکیؒ نے الاستذکار میں حضرت جابرؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا، جو شخص اپنے آپ پر اور اپنے گھر والوں پر عاشورہ کے دن ( کھا نے پینے میں ) وسعت کرے گا اﷲ تعالی اس پر پورے سال وسعت فرمائیں گے۔

محرم الحرام کا شمار ان مہینوں میں ہوتا ہے جن کی عظمت و تقدس قرآن و حدیث اور معتبر تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ عبادت، مالی وسعت، فراخ دلی اور تحمل برداشت کا مہینہ ہے۔ اس لیے محرم الحرام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم سب نے مل کر اس نئے اسلامی سال کا خیر مقدم کرنا ہے اور یہ عزم کرنا ہے کہ فرقہ واریت، دہشت گردی، تخریب کاری اور عدم برداشت کی حوصلہ شکنی کر کے اتحاد و اتفاق، امن و امان اور تحمل کو فروغ دیں گے۔
Load Next Story