تلواروں کو ہل میں بدل دو

عام انسانوں یا عورتوں کا بھلا ہو یا نہ ہو، اشتہاری ایجنسیوں اور اخباروں کا ضرور بھلا ہوتا ہے۔

zahedahina@gmail.com

10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن۔ یہ دن ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اس دن کے حوالے سے لکھی جانے والی تحریریں عموماً نہیں شایع ہوتی تھیں لیکن اب کچھ دنوں سے زمانہ بدل چکا ہے۔ 10 دسمبر اور 8مارچ اب منتخب حکومتوں کے تحت سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ اخباروں میں خصوصی ایڈیشن شایع ہوتے ہیں۔

عام انسانوں یا عورتوں کا بھلا ہو یا نہ ہو، اشتہاری ایجنسیوں اور اخباروں کا ضرور بھلا ہوتا ہے۔ دو دن پہلے یہ دن گزر گیا۔ اس روز اخباروں میں جو اشتہارات شایع ہوئے ان میں سے ایک محکمۂ انسانی حقوق، حکومت سندھ کا تھا۔ اس اشتہار میں ایک پُر اثر جملہ لکھا ہوا تھا اوروہ یہ کہ 'آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی... کل کے تصام کا سبب ہے'۔ اگر اس جملے کی رمزیت اور معنویت پر سوچ بچار کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے ہم مختلف قومیتوں، لسانی اکائیوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والوں کے انسانی حقوق کی جس بے دردی سے پامالی کرتے رہے ہیں، آج کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور قتل و غارت اسی کا بڑا سبب ہے۔

آج میں اس شخص کو یاد کرنا چاہتی ہوں جسے 10 دسمبر 1961کو 1960کا نوبیل امن انعام دیا گیا تھا۔ اس کا نام البرٹ جون لوٹولی تھا اور اس کا تعلق افریقا کے زولو سردار قبیلے سے تھا۔ وہ 1898میں پیدا ہوا، انیسویں صدی کے اس بیٹے نے بیسویں صدی کے افریقا کی سیاست اور نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ افریقی نیشنل کانگریس جس کے عظیم رہنما اور عالمی سطح پر محترم دانشور اور مدبر نیلسن منڈیلا کی حالت ان دنوں نازک بیان کی جاتی ہے، لوٹولی نے اسی افریقی نیشنل کانگریس کی رکنیت اختیار کی۔

جنوبی افریقا پر قابض نو آبادیاتی طاقتوں نے جن میں ولندیزی، پرتگیزی، فرانسیسی اور برطانوی سب ہی شامل تھے، 17 ویں صدی سے علاقے کے اصل باشندوں کے خلاف اقتصادی، سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے وہ پہاڑ کھڑے کیے جس کا نتیجہ سفید فاموں سے شدید نفرت کی صورت میں نکلا۔ قابض سفید فاموں کے جبر اور سیاہ فاموں کی جدوجہد دوچار برس پر نہیں صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس شاندار جدوجہد میں بے شمار نام آتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نام البرٹ لوٹولی کا ہے۔

جنوبی افریقا پر قبضہ کرنے والے آباد کاروںنے سیاہ فام اکثریت کو عیسائی بنایا لیکن یہ ایک المناک بات تھی کہ جس کلیسا میں سفید فام یسوع مسیح کی مصلوب شبیہ کے سامنے سر جھکاتے تھے اسی میں سیاہ فام مسیحیوں کو عبادت تو دور کی بات ہے اندر قدم رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ جنوبی افریقیوں نے دہائیوں تک ہر نوعیت کے ظلم کا مقابلہ عدم تشدد کے رویے سے کیا۔ لوٹولی دسمبر 1952میں افریکن نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور انھوں نے بھی سفید فام حکومت کے تشدد کے سامنے عدم تشدد کی راہ اختیار کی۔ اس راہ میں سیکڑوں نہیں ہزاروں افریقی جان سے گئے اور انھوں نے بلا کی ذلت، غربت اور توہین برداشت کی۔

البرٹ لوٹولی نے غیر قانونی قرار دی جانے والی افریکن نیشنل کانگریس کی رہنمائی کے دوران بڑے مصائب سہے۔ وہ اقوام متحدہ کے عالمی حقوق انسانی کے علمبردار رہے اور متحارب فریقوں کے درمیان انصاف کو قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی یہی کوششیں تھیں جن کی بناء پر انھیں 1960 میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔

10 دسمبر 1961کے دن جب وہ ناروے کے شہر اوسلو میں سوئیڈن کے بادشاہ سے اپنا یہ انعام لینے آئے تو زولو سردار کے روایتی لباس میں تھے۔ ٹوپی چیتے کی کھال سے بنی ہوئی تھی اور گلے میں شیر کے دانتوں کی مالا تھی۔ اس روز انھوں نے جو خطبہ دیا اس سے پہلے کیوں نہ اس خط کو یاد کیا جائے جو انھوں نے جنوبی افریقا کے وزیر اعظم کو لکھا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ''ہم ایسے سماج پر یقین رکھتے ہیں جس میں سفید فام اور غیر سفید فام دونوں ہم آہنگی سے رہ سکیں۔ برابری سے زندگی کی تمام نعمتوں میں شریک ہوں، ہمارے ملک میں جس کی بہتات ہے اور اپنے اجداد کے مشترکہ ملک کے لیے کام کرسکیں۔ہم عوام کے بھائی چارے اور ہر فرد کی انفرادی قدر اور احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ میری کانگریس نے کسی بھی نسل کے لیے کبھی کسی قسم کی نفرت کا اظہار نہیں کیا۔''


60کی دہائی کا زمانہ تھا جب افریقی اپنے شرف انسانی کی بحالی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ انھیں یقین تھا کہ آج نہیں تو چند برس بعد سہی 10 دسمبر کا کوئی ایسا دن ضرور آئے گا جب ان کی قوم بھی آزاد اور خود مختار قوموں کی صف میں ہوگی۔ ہزاروں سیاہ فام عوام اور ان کے رہنمائوں کی بے مثال قربانیوں کے بعد وہ دن آیا تو سہی لیکن اس دوران جانے کتنے لوگ اپنی جان سے گزر گئے۔ امن نوبیل انعام لینے کی شاندار تقریب میں لوٹولی نے اس تضاد کا واضح الفاظ میں ذکر کیا کہ ''یہ ایک تضاد ہے کہ افریقا کو اپنے ہنگامے اور انقلاب کے زمانے میں انعام کا حقدار سمجھا گیا ہے۔

کتنا عظیم ہے یہ تضاد اور کتنابڑا ہے یہ اعزاز، کہ امن اور بھائی چارے کے لیے دیا جانے والا انعام ایک ایسے شخص کو ملے جو ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں بھائی چارہ ایک غیر قانونی نظریہ ہو، ممنوع ہو، جس پر سنسر ہو، جہاں آدمی کی بھلائی کے لیے بات کرنا، کام کرنا، مہم چلانا، خطرناک اور قابل سزاہو، جس پر انسانوں کو قید کیا جاتا ہو، بغیر مقدمے کے، جہاں پچھلے 300 سو برس سے نسلی مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کیے جانے کے لیے جمہوری طریقے اختیار نہ کیے گئے ہوں اور جہاں سفید فام اقلیت افریقا کی سب سے بڑی اسلحہ بردار فوج کے بل پر قابض ہو۔ یہ ہے جنوبی افریقا۔

یہاںبھی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سفید فام لوگوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ بہتری کے بارے میں ، افریقا کی آزادی کی جدوجہد کے بارے میں، انسان کی برابری کے بارے میں اور آزادی کے مطالبے کے بارے میں نہیں سوچیں گے ۔ ان آدرشوں کے لیے جدوجہد کے دوران اپنے بے شمار ہم وطن افراد کے ساتھ مجھے بے حدب پریشان کیا گیا حتیٰ کہ قید میں ڈال دیا گیا مگر ہم نے عہد کیا ہے کہ نئے دور کی تلاش میں جس میں ہم امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہ سکیں، ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔''

جنوبی افریقا کے لوگوں اور ان کے لیڈروں نے نئے دور کی تلاش ، اور امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہنے کے جس خواب کی تعبیر چاہی تھی، وہ بڑی حد تک پورا ہوا ہے۔ آج 2012میں جب انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ دنیا کے اربوں لوگ ان حقوق کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ لوٹولی نے غلط نہیں کہا تھا کہ ''تنازعات کی ماری دنیا جو انسان کے بنائے ہوئے جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر تباہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ تاریخ کے فرمان اور چیلنج کے جواب میں ایک آزاد اور خود مختار افریقا تعمیر ہورہا ہے۔ ''اٹھو اور چمکو، کہ تمہاری روشنی طلوع ہوگئی ہے''۔

ایک بار پھر دوسری قوموں کی معیت میں، مشرق اور مغرب کے درمیان ثالثی کی یہ آخری امید ہے اور یہ حق دار ہے بڑی طاقتوں سے اس مطالبے کا 'تلواروں کو ہلوں میں بدل دو' اس لیے کہ بنی نوع انسان کا دو تہائی حصہ بھوکا اور ناخواندہ ہے۔ تاکہ انسانی قوت ، انسانی ہنرمندی اور انسانی قابلیت امن کی خدمت میںمصروف ہوجائے کہ اس کا متبادل ناقابل تصور ہے۔ یعنی جنگ، تباہی اور ویرانی تاکہ ایک کمیونٹی تشکیل پائے جو کروڑوں مردوں اور عوررتوں کی یادگار بن سکے۔ داگ ہیمرشولڈ جیسے مخلص و جانثار اور ممتاز عالمی باشندوں کی یادگار۔ جنہوں نے اس کے لیے اپنی جانیں نثار کردیں کہ ہم امن اور خوشحالی کے ماحول میں زندگی گزار سکیں۔

اس عالی شان کام کے لیے افریقا کی قابلیت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ اس کی جنگ کبھی اس کی اپنی نہیں تھی۔ یہ زمین کی فتح کی جنگ تھی، نہ دولت کا انبار لگانے اور نہ لوگوں پر غلبہ پانے کی جنگ تھی، یہ جنگ تھی انسانی حقوق کے اعتراف اور ان کے تحفظ اور حقیقی طورپر آزاد عوام کے لیے ایک آزاد دنیا کے قیام کے لیے۔

اس وقت ہم پاکستان میں تشدد اور انتہا پسندی کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں۔ انتہا پسندوں اور بندوق کی نوک پر اپنی بات منوانے والوں کو برا بھلا کہنا بہت آسان ہے لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب تک ہم لوگوں کو بلا امتیاز انسانی حقوق اور انصاف فراہم نہیں کریں گے اس وقت تک ایک روادار پُر امن اور انسان دوست سماج کی تعمیر ممکن نہیں۔
Load Next Story