لاہور کی ایک نسل
وہ گرمی جس نے لاہوریوں کا گھر دیکھ لیا تھا اسے چھوڑنے پر تیار نہیں تھی
وہ گرمی جس نے لاہوریوں کا گھر دیکھ لیا تھا اسے چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔ یہاں تک کہ میں جو نیم سرد پہاڑی علاقے کا جم پل ہوں اس قدر گھبرا گیا کہ کاروبار صحافت معطل کر کے گاؤں لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا اور اس سے قبل کہ میں اپنے اس ارادے پر عمل کرنے کی کوشش کرتا یعنی زندگی کے کم از کم ایک ارادے پر عمل کرنے کا تہیہ کر لیا قدرت نے اہل لاہور کی سن لی اور مغل ملکاؤں شہزادیوں اور انارکلیوں کا یہ شہر گرمی کی شدت سے کچھ بچ نکلا۔
ہوا یوں کہ بزور بدھ 3 محرم الحرام 1438ھ بمطابق 5 اکتوبر 2016ء اور 20 اسوج 2073ب کی سہ پہر کو کسی نے پگھلتے مجسم حسن کی فریاد سن لی اور کہیں سے قدرے ٹھنڈی ہوا کے چند جھونکے اس گرمی میں نہ جانے کس راستے سے داخل ہو گئے اور موسم کا رنگ ہی بدل گیا اور ملکہ عالم نور جہاں کی یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یعنی لاہور کو بلاشبہ ہم نے جان کے برابر ہدیہ دے کر خریدا اور یوں جاں دے کر ہم نے ایک دوسری جنت خرید لی۔ اس دن کی سہ پہر کو لاہور کا موسم اچانک ہی بدل گیا لاہور کی ملکائیں اور شہزادیاں کھل اٹھیں اور یوں لگا کہ ہم نے اپنی جاں کے عوض ایک نئی جنت خرید لی۔
لاہور جیسے نادر روز گار شہر کو اس کے شہریوں نے ایک بے ہنگم ہجوم میں بدل دیا تھا لیکن لاہور کے کچھ شہری اپنے اس محبوب شہر کی یہ بے حرمتی برداشت نہ کر سکے اور کسی 'انارکلی' کی فریاد اور واویلے نے موسم بدل دیا۔ میں تو خیر کیا نہ جانے کتنے ہی لاہوری بمشکل گرمی کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکے اور ان کا یہ شہر قدرے خنک شہر میں بدل گیا اس کی ہوا قابل برداشت ہو گئی لاہوریوں کی آنکھوں میں امید لہرانے لگی اور لاہور شہر ان کے لیے وہی شہر بن گیا جو کبھی ملکہ عالم نور جہاں کے لیے تھا کہ یعنی 'لاہور را بجان برابر خریدہ ایم'۔
لاہور صرف کسی ایک ملکہ اور شہزادی کا بھی دلپسند شہر نہ تھا یہ درویشوں اور صوفیوں کے لیے بھی ایک پسندیدہ شہر تھا ملکہ نور جہاں کا مزار تو آج ایک غیر آباد اور اداس مقام ہے جو اپنے عاشق شہنشاہ جہانگیر کے قریب اپنے ماضی پر اشک فشاں رہتا ہے لیکن اس شہر کے ہزاروں لاکھوں وہ لوگ بھی ہیں جو اس شہر میں کسی صوفی کی درگاہ کی دہلیز پر دن رات کسی امید پر زندہ رہتے ہیں یعنی جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم۔
لاہور شہر حسن کے پرستاروں کا شہر ہے۔ اس کے کونے کونے میں آپ کو کسی کا مزار دکھائی دے گا جو اپنے عقیدت مندوں کے ہجوم میں آباد ہو گا۔ ان عقیدت مندوں کی امیدیں بر لانے میں اپنے رب کے حضور میں کیا فریادیں کرتے ہوں گے۔ کچھ ہی وقت ہوا ایک صاحب بتانے لگے کہ میں حسب معمول لاہور پہنچتے ہی حضرت داتا کے حضور حاضر ہوا میں سفر میں بہت تھک گیا تھا کہ مسجد میں لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔
تھوڑی ہی دیر میں کوئی صاحب آئے اور مجھے دبانے لگے اور انھوں نے میری تکان میرے جسم سے نچوڑ لی۔ میں نے اپنے اس محسن سے ان کا پتہ پوچھا تو جواب ملا کہ وہ پرانے لاہور کے ایک محلے میں رہتے ہیں اور انھیں آپ کی خدمت میں حاضری کا حکم ہوا تھا۔ اب اجازت۔ لاہور شہر صوفیوں کے عقیدت مندوں کا شہر ہے اور اس شہر کے مزار ان کے عقیدت مندوں کے مرکز اور ٹھکانے ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
جس شہر کو حضرت داتا گنج بخشؒ نے تبلیغ کے لیے پسند فرمایا ہو اور اپنی کرامات اس شہر پر نچھاور کر دی ہوں۔ اس کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ گستاخی معاف یہ شہر ایک زندہ شہر ہے اور اس کے گلی کوچوں میں نئی زندگی آباد ہے۔ ایک ایسی جو ہر وقت اپنے معجزے دکھاتی ہو اور اس شہر کے مکینوں کو زندہ رکھتی ہو۔ لیکن میں کہیں پڑھ رہا تھا کسی صوفی کا قول کہ جو لوگ لاہور آتے ہیں وہ کسی بڑے مقصد اور اگر روٹی روز گار کے لیے آتے ہوں تو الگ بات ہے لیکن ان کو اس شہر میں مستقل قیام کی اجازت نہیں ملتی۔
یہ شہر منتخب لوگوں کے لیے ایک منفرد آبادی ہے جس میں وہ ایک مدت معینہ تک قیام کر سکتے ہیں اس کے بعد وہ رخصت ہو جاتے ہیں اور ان کی نئی منزل جہاں سے طے ہوتی ہے وہاں سے ان کو معلوم ہو جاتی ہے اور وہ اس منزل کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں مگر ان درویشوں کا رخت سفر ہوتا ہی کیا۔
روایت ہے کہ مٹھہ ٹوانہ شہر کی ایک مسجد میں کسی درویش فقیر نے نماز کے بعد کھڑے ہو کر اپنے لیے رشتہ مانگا۔ اس حالت میں کہ انھوں نے مسجد کی ایک چھوٹی سی چٹائی صرف کمرے کے ساتھ پردہ پوشی کے لیے رکھی تھی۔ امام مسجد کو نہ جانے کیا القاء ہوا کہ اس نے اعلان کیا میں آپ کو رشتہ دوں گا۔ پھر اس سے ایک نسل آگے چلی۔ درویشوں اور صوفیوں کی نسل۔
ہوا یوں کہ بزور بدھ 3 محرم الحرام 1438ھ بمطابق 5 اکتوبر 2016ء اور 20 اسوج 2073ب کی سہ پہر کو کسی نے پگھلتے مجسم حسن کی فریاد سن لی اور کہیں سے قدرے ٹھنڈی ہوا کے چند جھونکے اس گرمی میں نہ جانے کس راستے سے داخل ہو گئے اور موسم کا رنگ ہی بدل گیا اور ملکہ عالم نور جہاں کی یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یعنی لاہور کو بلاشبہ ہم نے جان کے برابر ہدیہ دے کر خریدا اور یوں جاں دے کر ہم نے ایک دوسری جنت خرید لی۔ اس دن کی سہ پہر کو لاہور کا موسم اچانک ہی بدل گیا لاہور کی ملکائیں اور شہزادیاں کھل اٹھیں اور یوں لگا کہ ہم نے اپنی جاں کے عوض ایک نئی جنت خرید لی۔
لاہور جیسے نادر روز گار شہر کو اس کے شہریوں نے ایک بے ہنگم ہجوم میں بدل دیا تھا لیکن لاہور کے کچھ شہری اپنے اس محبوب شہر کی یہ بے حرمتی برداشت نہ کر سکے اور کسی 'انارکلی' کی فریاد اور واویلے نے موسم بدل دیا۔ میں تو خیر کیا نہ جانے کتنے ہی لاہوری بمشکل گرمی کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکے اور ان کا یہ شہر قدرے خنک شہر میں بدل گیا اس کی ہوا قابل برداشت ہو گئی لاہوریوں کی آنکھوں میں امید لہرانے لگی اور لاہور شہر ان کے لیے وہی شہر بن گیا جو کبھی ملکہ عالم نور جہاں کے لیے تھا کہ یعنی 'لاہور را بجان برابر خریدہ ایم'۔
لاہور صرف کسی ایک ملکہ اور شہزادی کا بھی دلپسند شہر نہ تھا یہ درویشوں اور صوفیوں کے لیے بھی ایک پسندیدہ شہر تھا ملکہ نور جہاں کا مزار تو آج ایک غیر آباد اور اداس مقام ہے جو اپنے عاشق شہنشاہ جہانگیر کے قریب اپنے ماضی پر اشک فشاں رہتا ہے لیکن اس شہر کے ہزاروں لاکھوں وہ لوگ بھی ہیں جو اس شہر میں کسی صوفی کی درگاہ کی دہلیز پر دن رات کسی امید پر زندہ رہتے ہیں یعنی جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم۔
لاہور شہر حسن کے پرستاروں کا شہر ہے۔ اس کے کونے کونے میں آپ کو کسی کا مزار دکھائی دے گا جو اپنے عقیدت مندوں کے ہجوم میں آباد ہو گا۔ ان عقیدت مندوں کی امیدیں بر لانے میں اپنے رب کے حضور میں کیا فریادیں کرتے ہوں گے۔ کچھ ہی وقت ہوا ایک صاحب بتانے لگے کہ میں حسب معمول لاہور پہنچتے ہی حضرت داتا کے حضور حاضر ہوا میں سفر میں بہت تھک گیا تھا کہ مسجد میں لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔
تھوڑی ہی دیر میں کوئی صاحب آئے اور مجھے دبانے لگے اور انھوں نے میری تکان میرے جسم سے نچوڑ لی۔ میں نے اپنے اس محسن سے ان کا پتہ پوچھا تو جواب ملا کہ وہ پرانے لاہور کے ایک محلے میں رہتے ہیں اور انھیں آپ کی خدمت میں حاضری کا حکم ہوا تھا۔ اب اجازت۔ لاہور شہر صوفیوں کے عقیدت مندوں کا شہر ہے اور اس شہر کے مزار ان کے عقیدت مندوں کے مرکز اور ٹھکانے ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
جس شہر کو حضرت داتا گنج بخشؒ نے تبلیغ کے لیے پسند فرمایا ہو اور اپنی کرامات اس شہر پر نچھاور کر دی ہوں۔ اس کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ گستاخی معاف یہ شہر ایک زندہ شہر ہے اور اس کے گلی کوچوں میں نئی زندگی آباد ہے۔ ایک ایسی جو ہر وقت اپنے معجزے دکھاتی ہو اور اس شہر کے مکینوں کو زندہ رکھتی ہو۔ لیکن میں کہیں پڑھ رہا تھا کسی صوفی کا قول کہ جو لوگ لاہور آتے ہیں وہ کسی بڑے مقصد اور اگر روٹی روز گار کے لیے آتے ہوں تو الگ بات ہے لیکن ان کو اس شہر میں مستقل قیام کی اجازت نہیں ملتی۔
یہ شہر منتخب لوگوں کے لیے ایک منفرد آبادی ہے جس میں وہ ایک مدت معینہ تک قیام کر سکتے ہیں اس کے بعد وہ رخصت ہو جاتے ہیں اور ان کی نئی منزل جہاں سے طے ہوتی ہے وہاں سے ان کو معلوم ہو جاتی ہے اور وہ اس منزل کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں مگر ان درویشوں کا رخت سفر ہوتا ہی کیا۔
روایت ہے کہ مٹھہ ٹوانہ شہر کی ایک مسجد میں کسی درویش فقیر نے نماز کے بعد کھڑے ہو کر اپنے لیے رشتہ مانگا۔ اس حالت میں کہ انھوں نے مسجد کی ایک چھوٹی سی چٹائی صرف کمرے کے ساتھ پردہ پوشی کے لیے رکھی تھی۔ امام مسجد کو نہ جانے کیا القاء ہوا کہ اس نے اعلان کیا میں آپ کو رشتہ دوں گا۔ پھر اس سے ایک نسل آگے چلی۔ درویشوں اور صوفیوں کی نسل۔