سرجیکل اسٹرائیک کا مضحکہ خیز دعویٰ

بھارت کی دشمنی اور جارحانہ رویے نے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات انتہائی پست سطح تک پہنچا دیے ہیں

PESHAWAR:
بھارت کی دشمنی اور جارحانہ رویے نے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات انتہائی پست سطح تک پہنچا دیے ہیں۔ ایک کشمیری نوجوان برہان وانی کی حالیہ شہادت نے کشمیر میں بدترین تشدد کو بھڑکا دیا ہے۔

بھارت نے ان احتجاجی مظاہروں کا الزام پاکستان پر عاید کر دیا جب کہ ہندو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر کا تعلق میزو رام' ناگا لینڈ اور دیگر مشرقی ریاستوں سے ہے' گزشتہ ایک ماہ میں100 سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس کے لیے پیلٹ گن کے استعمال سے سیکڑوں لوگوں کو اندھا کر دیا گیا ہے تاہم بعدازاں پیلٹ گن کے بجائے انھوں نے ایسے کارتوس استعمال کیے جن میں سرخ مرچوں کا بُرادہ بھرا ہوا ہے۔

بھارتی حکومت نے بین الاقوامی اور اندرون ملک کی رائے عامہ کا رخ بدلنے کے لیے 29 ستمبر کو اُڑی کے علاقے پر حملے کا ڈرامہ رچایا جس سے بھارتی میڈیا بپھر کر اڑی حملے کا بدلہ لینے کے لیے سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا شور مچانے لگا۔

بھارتی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے، جو کہ بھارتی میڈیا کے اس مطالبے پر پہلے ہی خجالت کا شکار تھے کہ اگر حملہ آوروں کے قبضے سے برآمد ہونے والے اسلحہ پر پاکستانی ساخت کے نشانات تھے تو اس بارے میں ثبوت فراہم کیے جائیں گے۔

رنبیر سنگھ کا دعویٰ تھا کہ حملہ آور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے آئے تھے جو وہاں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے بارے میں بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ بھارتی کمانڈو کنٹرول لائن کے پاس 3 کلو میٹر تک اندر چلے گئے جہاں انھوں نے مبینہ اکثریت پسندوں کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی جس میں درجنوں دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

تقریباً 40 مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کو دو مقامات پر لے جایا گیا جنہوں نے مقامی آبادی سے پوچھ گچھ کی تو انھیں بتایا گیا کہ کنٹرول لائن پر معمول کی فائرنگ کے تبادلے کے علاوہ یہاں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ بھارتی دعوے کو تو پاکستان نے فوراً ہی مسترد کر دیا کیونکہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیک کا تاثر بھارتی خفیہ ایجنسی را نے دینے کی کوشش کی تاکہ اس سے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کیا جا سکے۔

بھارتی میڈیا نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کے تبادلے کو سرجیکل اسٹرائیک ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ آزاد کشمیر کا یہ علاقہ جہاں فوج کی بھاری نفری متعین ہوتی ہے یہاں اس قسم کا واقعہ سرزد ہونا ممکن ہی نہیں تاہم پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر پاکستانی سرزمین پر واقعی سرجیکل اسٹرائیک کی کوشش کی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بھارتی میڈیا نے اڑی کے واقعے کے فوری بعد سرجیکل اسٹرائیک کا شور مچانا شروع کر دیا تھا۔

بھارتی میڈیا کو اس مقصد کے لیے سرکار کی طرف سے ہدایات دی جا رہی تھیں۔ یہ سارا ڈرامہ جعلی فلیگ آپریشن کے مترادف تھا جس کو ''را'' کے زیراہتمام عمل میں لایا گیا تاکہ بھارتی عوام کے غیظ و غضب کو کم کیا جا سکے جو کہ اڑی حملے میں 18بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث پیدا ہو گیا تھا چنانچہ بھارت نے دنیا کی توجہ کشمیریوں پر کیے جانے والے ظلم و تشدد سے منعطف کرنے کے لیے یہ ڈرامہ


رچایا۔ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی بڑے بھونڈے انداز میں اور بے وقت طور پر کی گئی جو مکمل طور پر غیر موثر رہی اس جعلسازی کا انکشاف خود بھارتی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے' جو بھارتی فوج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، کیا اور کہا کہ کنٹرول لائن کے کے پار کارروائی میں فضائیہ استعمال نہیں کی گئی جس سے بھارت کا یہ دعویٰ باطل ہو گیا کہ بھارتی کمانڈوز کو یا تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے جایا گیا یا وہ پیرا شوٹ کے ذریعے پاکستانی علاقے میں اترے لیکن کنٹرول لائن کو عبور کرنا بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کے مترادف نہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارتی فوج کی طرف سے پاکستان پر لگایا جانے والا بہتان بے نقاب ہو گیا۔ اڑی کے واقعے کے بعد انڈین ایکسپریس نے بھارتی فوج کے دعوے کو چیلنج کر دیا جس پر ڈی جی ایم او خجالت میں مبتلا ہو گئے اور انھوں نے خود ہی اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔ اس پر بھارتی وزارت دفاع سخت مشتعل ہو گئی جس نے تمام میڈیا ہاؤسز کو حکم دیا کہ وہ کسی خبر کی اشاعت سے پہلے وزارت دفاع سے اس کی تصدیق کرائیں جس کا صاف مطلب ہے کہ میڈیا کی آزادی کے بارے میں بھارت کا دعویٰ بھی باطل ہے۔

یہ حیرت کی بات نہیں کہ بھارتی فوج اس نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے بارے میں کوئی شواہد پیش نہیں کر سکی سوائے اس کے کہ میڈیا میں پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ بھارتی جھوٹ کا بھانڈا اس وقت بھی پھوٹا جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کی ترجمان سٹیفنی ڈوجارک نے یو این مشن میں رپورٹروں کو بتایا کہ کنٹرول لائن کی نگرانی کرنے والے مبصرین نے کنٹرول لائن پر اس قسم کی کوئی کارروائی نہیں دیکھی۔

پاکستان کے لیے جو چیز تشویش کا باعث ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کے اس کھلے اعتراف کے باوجود کہ اس نے ایک قوم کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی ہے عالمی برادری چپ سادھے ہوئے ہے۔ اب یہ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اپنی خود مختاری کے تحفظ اور کسی ممکنہ جارحیت سے بچنے کے لیے نہایت موثر اقدامات کرے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جس قسم کی زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ بذات خود جارحیت کے زمرے میں آتی ہے جب کہ کنٹرول لائن پر بھی بھارت کی مخاصمت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ بڑھتے بڑھتے بین الاقوامی سرحد تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

دوسری طرف بھارت نے سفارتی طور پر بڑی کامیابی سے اسلام آباد میں نومبر 2016ء میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کروا لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سارک کے رکن تین چھوٹے ممالک بھی بھارت کے ہم نوا ہو گئے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی چارا نہیں تھا۔ سری لنکا نے بھی شرکت سے انکار کر دیا جس کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے مناسب نہیں۔

مودی کی کابینہ میں عقابی فطرت کے حامل وزراء سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی تجاویز دے رہے ہیں تا کہ پاکستان کو دریائے سندھ سے ملنے والے پانی سے محروم کیا جا سکے۔ یہ اسقدر خطرناک بات ہے کہ اسے کھلی جنگ کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے چونکہ دریائے سندھ کا منبع چین میں ہے اور دریائے برہما پترا کا کنٹرول بھی چین کے پاس ہے جو کہ وہاں سے بھارت میں بہتا ہوا بنگلہ دیش تک پہنچتا ہے جب کہ ان دونوں ملکوں کی بقا کا دارومدار اسی دریا پر ہے لہٰذا حالات اگر اور زیادہ خراب ہو جائیں تو اس کے مضمرات بے حد خطرناک ہونگے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ نریندر مودی بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری دونوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور کشمیر میں اپنی ظالمانہ کارروائیوں کی پردہ پوشی کے لیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عاید کر رہا ہے۔ اس حوالے سے میں نے نومبر 2015ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''مودی اور اس کی بی جے پی حکومت'' جو کہ ہندو فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے۔

اس حوالے سے اس کی حکومت بے حد غیرمستحکم ہے جو کہ آر ایس ایس کی ہندو فرقہ پرستی کی ہدایات پر چلتی ہے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس کے بھارت کے ساتھ طویل المدت مفادات وابستہ ہیں لہٰذا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت کی حمایت پر مجبور ہے حالانکہ کوئی باشعور شخص جنوبی ایشیاء میں جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر پاکستان کے خلاف کوئی حرکت کی گئی تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دینے کا مکمل طور پر اہل ہے۔
Load Next Story