حج 2016 آنکھوں دیکھا حال چھٹی قسط
اگر حج پر تہیہ کرلیا جائے کہ کچھ نہیں لینا تو سفر بھی آرام سے گزرتا ہے اور اللہ کی یاد کے لئے وقت بھی خوب بچتا ہے۔
11 ذی الحجہ جمرات
11 ذی الحجہ، 13 ستمبر بروز منگل، ہم نے آج تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی تھیں۔ زوال کے بعد کا وقت افضل ہے۔ زوال کے بعد سب نکلنے لگے تو مکتب کے دروازے بند تھے۔ شُرطے نے بتایا کہ آپ کو حکومت کی طرف سے عصر کے بعد کا وقت ملا ہے۔ 5:30 کا۔
عبداللہ اپنے خیمے میں چلا گیا کہ کچھ نفل پڑھ لے۔ کچھ ساتھی طوافِ وداع کا بہانہ بنا کر چلے گئے۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ جھوٹ بول کے سچا کام کیسے کیا جا سکتا ہے؟
5:30 بجے سب ایک گروپ کی صورت میں گئے۔ جمرات مکتب نمبر 1 سے واکنگ Distance پر ہے۔ آج کنکریاں ایسے پڑ رہی تھیں جیسے بارش برستی ہو۔ مووی کیمرہ بھی تھے اور سیلفی والوں کا ہجوم بھی۔ آج پہلے دن والا ولولہ نہ تھا۔ شاید لوگ تھکے ہوئے تھے۔ نفس کی لڑائی میں بھی بندہ تھک جاتا ہے۔ چاہے کہ کچھ دن آرام کرلیا کرے۔ عبداللہ نے گروپ کے ساتھ واپسی کی راہ لی۔ آج تینوں شیطانوں کو 7,7 کنکریاں مار کے گویا وہ اپنے زندگی بھر کے گناہ ان کے سر تھوپ آیا تھا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ شیطان نے آج رات شاید مجلسِ شوریٰ بلائی ہو اور کہا ہو، "کتنے آدمی تھے"۔ وہ اب سب کی کنکریاں واپس ان پر مارنے کی پلانگ کر رہا ہو۔
عبداللہ واپسی پر سوچنے لگا کہ عاجزی کیا ہے؟ کیا ہم نیکیاں کرکے عاجز کہلا سکیں گے؟ یا گناہ سے رک کے یا گناہ کرکے؟
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پہلی قسط)
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (تیسری قسط)
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (چوتھی قسط)
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پانچویں قسط)
عاجزی
عاجزی پتہ نہیں کسے کہتے ہیں؟ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جنہیں ملتی ہے، جن کے ساتھ رہتی ہے، جن سے نباہ کرتی ہے۔ پتہ نہیں اب ایسے لوگ پائے بھی جاتے ہیں یا مفقود ہوگئے؟ ہماری سمجھ میں تو یہ آج تک نہ آئی۔ نہ ہی کوئی ایسی خوش فہمی یا اُمید ہے کہ زندگی میں کبھی آسکے گی۔ لوگوں کو طلب ہوتی ہے۔ کیوں جھوٹ بولیں۔ یہاں تو وہ بھی نہیں۔
جی حضرت کہنے سے اگر عاجزی آسکتی تو آدھا پاکستان ولی اللہ ہوتا۔ پتہ تو اس دن چلتا ہے جب یہ "حضرت جی" آپ کی مرضی و منشا کے خلاف کچھ بول دیں۔ اگلے دن حضرت جی کی چھٹی۔ ان کے عقائد سے لے کر ظاہر و پوشیدہ حالات پر وہ تنقید کہ اللہ کی پناہ۔ ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ جس فلٹر سے لوگوں کی شخصیت کو چھانتے ہیں اس میں سے تو شاید نبوت ہی باہر نکلے۔ کسی سے عقیدت کریں تو ابدال ثابت کرکے چھوڑیں اور تنقید پر آئیں تو ملحد و کافر کے درجات تو معمولی باتیں ہیں۔
نام نہاد عاجزوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو زمین پر جھک جھک کے چلتا ہے۔ آواز اتنی ضعیف نکالتا ہے کہ ایڈز کے مریض کا گمان ہو اور ہر بات پر کہتا ہے کہ بھائی میں تو عاجز بندہ ہوں۔ پتا نہیں یہ عاجزی کا مریض و بیمار لوگوں سے کیا تعلق ہے اور زبانی تکرار سے اپنے عاجز ہونے کا یقین کسِے دلاتے ہیں؟
اور کچھ ایسے بھی کہ جوتوں کو سیدھا کر دیں تو عاجزی کے علمبردار ٹھہریں۔ کیا پتہ کون عاجزی میں کرے، تو کوئی میرے جیسا کہ میں اتنا بڑا آدمی اور مسجد میں لوگوں کے جوتے سیدھے کر رہا ہوں۔ کیا بات ہے، واہ بھئی واہ۔ لوگوں کا تریاق، میرے لیے زہر۔
جس کا نفس عاجزی سے موٹا ہوجائے، جس کا کبر عاجزی پر پلے، وہ کہاں جا کے دہائی دے؟ مئے کا نشہ ایک رات میں اتر جاتا ہے، "میں" کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔ تربیت تو وہاں ہو جہاں نفس پر چوٹ لگے۔ بابا صاحبا، میاں جی، پیر صاحب کے نعروں میں تو بندہ عاجزی سے عاجز ہوجائے۔
میرے دوست طارق بلوچ صحرائی صاحب کہتے ہیں کہ "خدا جب کسی کو عاجز کرنا چاہے تو اس سے عاجزی چھین لیتے ہیں"۔ عمر بھر میں یہ جملہ سمجھ آجائے تو بہت ہے۔
پتہ نہیں کہاں سے ملے گی یہ عاجزی؟ پھٹے پُرانے کپڑے، بوسیدہ کھانا اور بڑھے ہوئے بال۔ داڑھی نہیں جھاڑی ہوگئی۔ اگر یہ عاجزی ہے تو بھکاری کسے کہتے ہیں؟
کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ بندہ عاجزی رکھتا ہو اور فقیر نہ ہو؟ دے سکتا ہو مانگے نہ؟ حق رکھتا ہو اور چھوڑ دے؟ اختیار رکھتا ہو اور سہہ جائے؟ سچ بولے اور کاذب ٹھہرے؟ عاجز ہو اور مغرور کہلائے؟ ہونا تو ایسا ہی چاہئے۔
بات عاجزی کی ہو رہی ہے تو چلیں، آئیں سرنڈر کر دیتے ہیں۔
اے اللہ سائیں! میں عاجز آگیا ہوں تیرے عاجز لوگوں سے۔ ربِ کریم اُمت میں ہر شخص ریڈی میڈ شہادت چاہتا ہے، ایمان پر مرنا چاہتا ہے۔ میں ایمان پر جینا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگ دکھا جو جینے کی بات کریں۔ اُمید دلائیں۔ زندگی کی بات کریں۔ آسمانوں کو مسخر کریں، زمین کی قناطیں کھینچیں۔ مجھے سمجھ کچھ نہیں آتا۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میرا ہاتھ پکڑ، مجھے پار لگا۔ غلط سمت دوڑنے سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی صحیح سمت منہ کرکے کھڑا ہوجائے سو میں تیری طرف دیکھ رہا ہوں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں عاجز ہوں اپنے آپ کو گناہوں سے روکنے سے، عاجز ہوں کہ جھوٹ سے باز آؤں، عاجز ہوں کہ ظلم نہ کروں۔ اپنے آپ پر روز ظلم کرتا ہوں۔ اپنے آپ سے روز جھوٹ بولتا ہوں۔ یا ذوالجلالِ و الاکرام! میں عاجز ہوں اِس بات سے کہ غرور نہ کروں۔ میں روز آئینہ دیکھتا ہوں اور اپنی پوشاک اور جسم پر ناز کرتا ہوں۔ میں عاجز ہوں اس بات سے کہ تیری مان کر چلوں اور میں عاجز رہا اس بات سے کہ عاجز بن کے رہوں، عاجزی اختیار کروں۔
اے اختیار والے اللہ! ایسا اختیار جس پر عجز کوئی نہیں۔ معاف کردے مجھے کہ میری عاجزی لُٹ گئی میرے اپنے نفس کے ہاتھوں۔
اے دیکھنے اور سننے والے السمیع و البصیر اللہ! رحم فرما ان پر جن کی اُمید مرگئی، آرزو تمام ہوئی اور ہمت جواب دے گئی۔ اے اختیار والے اللہ، تو چاہے تو مسل دے، چاہے تو بچا لے۔ تیری راہ میں منتظر، عجز کی روح کو سمجھنے سے قاصر، نالائق و نافرمان، خاک کے پتلے، عاجزی کا ڈھونگ رچائیں تو بھی کس بات کا؟
بس تو بے سبب بخش دے۔ آمین!
انہی سوچوں میں گم وہ آج واپس سیدھا منیٰ کے خیمے میں پہنچ گیا بجائے ہوٹل جانے کے۔
کچھ لوگوں نے آج مغرب کے بعد تاریخ بدلنے کا عذر بنا کر 12 ذی الحجہ کو کنکریاں بھی مار لیں اور کچھ نے 11 ذی الحجہ کو لیٹ کنکریاں مارنے کی اجازت کے ساتھ 14,14 کنکریاں دونوں دنوں کی مِلا کر اکٹھی مار لیں۔ جائز ناجائز کی بات تو مفتی بتائیں گے مگر جب اتنی دور اتنی مشقت سے آئے ہیں تو آخری کچھ گھنٹوں کی بچت کرکے کیوں حج کو خطرے میں ڈالیں؟
کچھ لوگ آج صبح ہی صبح پھر سے احرام پہن کر عمرے کے لئے نکل گئے۔ یہ شاید جائز بھی نہیں اور رش کی وجہ سے باقی لوگوں کی تکلیف کا باعث بھی بنے گا۔ عبداللہ نے طوافِ زیارت میں ایک 96 سالہ بوڑھے کو دیکھا جو چُوزے کی اسپیڈ سے طواف کر رہا تھا۔ لاٹھی کے سہارے، جھکی کمر کے ساتھ، ننگے پاؤں سے چوتھی منزل پر۔ آپ کی وجہ سے اگر کسی ایسے شخص کو صحن میں جگہ نہ ملی تو ذمہ دار کون ہوگا؟
ثواب سمیٹنے کے چکر میں عقیدت کے اندھے بنیادی انسانیت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
12 ذی الحجہ
12 ذی الحجہ، 14 ستمبر بروز بدھ ہم زوال سے تھوڑا پہلے رمی کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ ہزاروں لوگ زوال کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم سب سے آگے تھے لہٰذا کافی بچے رہے۔ یکایک 50 کے قریب عربی لڑکوں نے بھاگنا شروع کردیا۔ عورتیں تو رونے لگیں کہ شاید بھگدڑ مچ گئی ہے مگر اللہ کا کرم ہوا۔ سعودی فوج کے جوانوں نے سچوئیشن کو بخوبی سنبھالا۔
رمی کے بعد ہم نے ہوٹل کی راہ لی۔ عبداللہ ان دو دنوں میں حرم نہیں گیا۔ ایک تو رش دوسرا دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ دینے کی فکر۔
پانی کا ایک گھونٹ
جمرات سے واپسی پر عبداللہ کو شدید زکام تھا۔ ٹنل سے پیدل چل کر ہوٹل پہچنا تھا۔ ایک ساتھی نے اس کے منہ میں کوئی اسپرے کردیا کہ ایئرویز کُھل جائیں۔
عبداللہ کو شدید پیاس محسوس ہوئی۔ اس نے ساتھ چلنے والے ایک حاجی سے کہا۔ ایک کپ پانی دے دیں مگر حاجی صاحب نے صاف منع کردیا کہ انہوں نے پوری بوتل اپنے لئے رکھی ہے۔
پہلے تو عبداللہ کو بڑا غصہ آیا مگر بعد میں وہ سوچنے لگا کہ آج 600 میٹر کی ٹنل کراس کرنی ہے تو کوئی ایک گھونٹ پانی نہیں دے رہا تو حشر میں کوئی اپنی نیکیاں کیسے دے گا؟ صرف وہ رب ہے جو پالتا ہے جو رزق دیتا ہے۔
عبداللہ سوچنے لگا رب کسے کہتے ہیں۔
من رَبُّکَ؟
تمہارا رب کون ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو ہر اِنسان و جن سے کم از کم ایک بار ضرور ہوگا۔ سوچنا چاہیے کہ ربّ کا مطلب کیا ہے اور یہ سوال صِفتِ ربّ کے ساتھ ہی کیوں مخصوص ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ پوچھا جائے تمہارا اللہ کون ہے یا تمہارا خالق کون ہے یا مالک کون ہے؟
غور کیا جائے تو کائنات میں اِلٰہیہ کا سوال تو کبھی رہا ہی نہیں۔ ہر ایک کم و بیش ایک سپریم طاقت پر یقین رکھتا ہے۔ مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ یہ بت ہیں جو ہمیں رزق، اولاد اور بارش دیتے ہیں، مصیبتوں سے بچاتے ہیں۔ ہندو کہتے ہیں فلاں فلاں بت ہمیں فلاں فلاں چیزیں دیتے ہیں اور خدا کے اوتار ہیں۔
مسئلہ تو ربوبیت کا ہے کہ کون ہے جو اسبابِ زندگی مہیا کرتا ہے؟ کون ہے جو پالنہار ہے، کون ہے جو مصیبتوں میں بچاتا ہے، کون ہے جو بیڑہ پار لگاتا ہے، کون ہے جو پُکار سنتا ہے، کون ہے جو مراد بَر لاتا ہے، کون ہے جو رزق دیتا ہے، کون ہے جو گنہگاروں کو بخش دیتا ہے، کون ہے جو اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے، کون ہے جو راتوں کو تڑپنے والوں کی سنتا ہے اور کون ہے جو زندگی کو زندگی بخشتا ہے؟
یہاں جا کے ہم مار کھاتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے اُن کا ربّ اُن کی عقل ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم سیلف میڈ ہیں۔ سب کچھ اپنی عقل سے کمایا اور اِس مقام تک پہنچے۔ کسی کے لئے اُن کا ربّ ان کی زبان کہ جب چاہا جیسے چاہا سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ کر دکھایا اور دنیا سے خوب داد اور پیسہ کمایا۔ کسی کے لئے اُن کا ربّ ان کی اعلی ذات ہوتی ہے تو کسی کے لئے تعلقات، کسی کے اثر و رسوخ، کسی کی دولت، کسی کی بیوی تو کسی کی نوکری۔ زندگی گزر جاتی ہے اِن جھوٹے خُداوں کے بیچ اور جب سوال ہوتا ہے کہ من الرَبّکَ؟ تو زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ دراصل دل و دماغ کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ کسے ربّ کہیں؟ انہیں جنہیں زندگی بھر پوجتے آئے تھے یا اُسے جس کا حق ہے؟
بندہ اگر اللہ سُبحانَ و تعالی کو ربّ مان لے، جیسے کہ اُس کا حق ہے تو زندگی بھر کی پریشانیاں اور مایوسیاں چھٹ جاتی ہیں۔ ربّ وہ ہوتا ہے جو بندے کو درجہ بدرجہ سکھاتا رہے، منزلیں چڑھاتا رہے۔ حتی کہ کامل کر دے۔
شاپنگ
حج کی مصروفیات تھمیں تو لوگ شاپنگ پر ٹوٹ پڑے۔ ہر وہ چیز جو ملک میں کم نرخوں میں دستیاب ہے وہ بھی لینے لگے کہ مکہ مدینہ کا تبرک کہلائے گا۔ کسی کو رشتہ داروں کا خوف کہ زم زم کم نہ پڑ جائے تو کسی کو آفس کی ٹینشن کہ کھجور اور تسبیح کے بغیر کیسے جائے گا۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام باتیں بس یوں ہی ہیں آپ تہیہ کرلیں کہ کچھ نہیں لینا تو سفر بھی آرام سے گزرتا ہے اور اللہ کی یاد کے لئے وقت بھی خوب بچتا ہے۔
سادے لوگ
ہمارے اکثر لوگ بڑے سادے ہوتے ہیں اِن پر کمنٹ نہیں کرنا چائیے۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے گاؤں سے زندگی میں پہلی بار نکلے ہوتے ہیں۔ پہلی فلائٹ ہوتی ہے۔ کراچی اسلام آباد تو کیا کبھی کوئی شاپنگ مال نہیں دیکھا ہوتا۔ کئی ایک لوگوں کو خودکار زینوں پر گرتے دیکھا۔ انہیں چاہئے کہ حج پر آنے سے پہلے Metro بس اور ایک آدھ شاپنگ پلازہ گھوم کر آئیں تاکہ یہاں آ کر آنکھیں خِیرہ نہ ہوجائیں۔
13 ذی الحجہ: طوافِ وداع
13 ذی الحجہ، 15 ستمبر، بروز جمعرات عبداللہ نے سارا وقت حرم میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آج طوافِ وداع کے لئے نکل گیا۔ پھر وہی ٹیکسی، پھر وہی حاجی افورڈ نہیں کرسکتا کی تکرار اور پیدل مسافت طے کی۔
آج اُسے صحن کعبہ میں جگہ مل گئی۔ آج رش یوں تو زیادہ تھا مگر 10 ذی الحج جتنا نہیں۔ کچھ اس کی طبیعت بھی آرام کے بعد بہتر تھی اور جسم میں توانائی زیادہ تھی۔ آج اس نے سوچا کہ وہ حجرِ اَسود کو بوسہ دے کر ہی آئے گا۔ ابھی وہ پہلے چکر میں تھا کہ ایک افریقی لڑکا کوئی 22 ,20 برس کا تیر کی طرح ہجوم کو چیرتا ہوا مقام ابراہیم ؑکی طرف لپکا، عبداللہ کو اس کے جذبے پر بڑا رشک آیا۔ وہ بھی مقام ابراہیمؑ کے ساتھ کھڑا تھا۔ لڑکے نے پہنچتے ہی ایک ہاتھ مقام ابراہیم ؑ میں رکھا۔ پوز بنایا۔ دوسرے ہاتھ میں موبائل سے سیلفیاں لیں اور اسی رفتار سے غائب ہوگیا۔
عبداللہ نے قدم ہلکے ہلکے اندرونی سرکل کی طرف بڑھائے۔ اب اس کے اور خانہ کعبہ کی دیوار کے بیچ دو تین قطاریں رہ گئیں۔ ابھی وہ حجرِ اسود کے پاس جانا ہی چاہتا تھا کہ عورتوں کے ریلے میں پھنس گیا۔ کسی نے اِدھر سے دھکا دیا۔ کسی نے اُدھر سے وہ فٹ بال کی طرح کافی دیر اُچھلتا کودتا رہا اور جب ہوش ٹھکانے آئے تو وہ اندرونی سرکل سے کئی باہر تھا۔
متعدد لوگوں نے لکھا کہ طواف میں نہ کوئی مرد ہوتا ہے نہ کوئی عورت۔ یا تو سب نے جھوٹ لکھا اور ایک دوسرے کی نقل ماری یا ان سب کی عمریں 90 سے اوپر تھیں۔ عورت طواف میں بھی عورت ہی رہتی ہے۔ جب ہری بھری عربی عورت آپ سے ٹکراتی ہے تو پورے جسم کو پتہ لگتا ہے کہ عورت ٹکرائی ہے۔ عبداللہ کو چند لمحوں کے لئے تو بیت اللہ غائب ہوتا نظر آیا۔ عورت سامنے رہ گئی۔ عبداللہ نے اپنی اور حج کی حرمت اِسی میں جانی کہ باہر باہر سے حجرِ اسود کا اِستلام کرکے طواف مکمل کرے۔ آج اس نے پاکستان کے لئے خوب دعائیں مانگیں۔
ہمارا حال
رہنمائے حج نامی حکومتی کتابچے میں وزیر مذہبی امور اور سیکرٹری صاحب نے تمام حاجیوں سے ملک خداداد کے لئے خصوصی دعاؤں کا کہا ہے۔ عبداللہ بھی خوب دعائیں مانگ رہا تھا۔ حج ایک بار ہوجائے تو پھر ذی الحج کے یہ 5 دن ویسے نہیں رہتے۔ پوری زندگی میں کیسے ممکن ہو کہ 9 ذی الحج آئے اور آپ کو میدان عرفات اور مزدلفہ کی رات بھول جائے۔ 10 ذی الحج آئے اور جمرات، قرانی، حلق، طوافِ زیارت بھول جائے۔ آج کل تو ہر دوسرے گھر میں حاجی ہوتا ہے۔ عبداللہ روز رات کو اپنے آئی فون پر جیو نیوز ویب سائٹ کی ایک جھلک ضرور دیکھ لیتا کہ وہاں کے لوگ حج والوں کا کیسے ساتھ دے رے ہیں۔ مندرجہ ذیل اصل خبریں ہیں جو ان دنوں میں ویب پیج پر سب سے اوپر تھیں۔
8 ذی الحج: دیپکا اور وین ڈزل کی وائرل ویڈیوز نے فیس بک پر دُھوم مچا دی۔
9 ذی الحج (یوم عرفہ): زندگی کتنی حسین ہے کا پریمیئر
10 ذی الحج: پاکستانی سینما چھا رہا ہے۔
11 ذی الحج: فیس بک نے میسجز پر پیسے لینے کی سہولت شروع کردی۔
12 ذی الحج: شاہدکپور نے فلموں میں Content کی بہتری پر زور دیا ہے۔
13 ذی الحج: سلمان خان اور کترینہ کیف پھر ایک بار ساتھ ساتھ۔
14 ذی الحج: AR رحمان نے کہا ہے کہ نصرت فتح علی خان اُن کی انسپائریشن ہیں۔
جیو نیوز عوام کو بالی وڈ کا منجن بیچتا رہا۔ قوم فیس بک پر بکروں کے ساتھ سیلفیاں شیئر کرتی رہی اور ہم دعائیں مانگ مانگ کے ہلکان ہوتے رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔