لاس اینجلس سے ڈیٹرائٹ تک
اپنی بے تکلف مزاحیہ طبیعت اور پہلوانی ڈیل ڈول کے باوجود وہ سرتا پا فنافی الادب ہیں
امریکا میں زندگی گزارنے کا ایک اپنا ہی ڈھب ہے جو مقامی احباب کی تمام تر وضاحتوں کے باوجود میری سمجھ میں پوری طرح سے نہیں آ سکا اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس نفسانفسی کے پس پشت کارفرما فلسفہ مجھے قائل نہیں کر سکا کہ ہفتے کے پانچ دن آپ روبوٹس بنے رہیں اور ویک اینڈ کے دو دن ایک ایسی آزادی کے تصور میں گزاریں جو بقول غالبؔ ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے'' ایسے میں ''منگل'' کے روز یعنی روبوٹ والے عرصۂ حیات میں جیتے جاگتے انسانوں کو کسی ادبی تقریب اور وہ بھی ''چیریٹی مشاعرے'' میں جمع کر لینا ایک دیوانے کے خواب سے کم نہیں تھا لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ یہ مشاعرہ برادرم عرفان مرتضیٰ کی ادبی تنظیم کے تعاون سے منعقد کیا جا رہا ہے تو ''دیوانے'' کی معنویت اور زیادہ بڑھ گئی کہ موصوف اس القاب کے صحیح معنوں میں حقدار ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کی ''دیوانگی'' کا تعلق ذہنی اختلال سے نہیں بلکہ شعر و ادب کے ساتھ اس غیر معمولی محبت سے ہے جو ان کی نس نس میں سمائی ہوئی ہے۔
اپنی بے تکلف مزاحیہ طبیعت اور پہلوانی ڈیل ڈول کے باوجود وہ سرتا پا فنافی الادب ہیں۔ ان سے L.A کے علاوہ سنگاپور میں بھی ملاقات رہی ہے اور ہر بار فضا میں ایک خوشگوار تاثر قائم رہا ہے۔ انھوں نے مجھ سمیت چند ادیب دوستوں سے خیالی اور تصوراتی ملاقاتوں کا احوال بھی تحریر کیا ہے جو ایک نیا تجربہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور پرلطف بھی ہے۔ لاس اینجلس کے پرانے ملاقاتیوں، یعنی آپا نیر جہاں، مجید اختر، امجد جعفری اور ریحانہ قمر سے ملاقات نہیں ہو سکی کہ چاروں کسی نہ کسی سبب سے تقریب میں شامل نہ ہو سکے۔
البتہ برادرم فارغ بخاری مرحوم کے صاحبزادے ظفر عباس اپنی بیگم اور پرخلوص مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ حاضرین، منتظمین کی توقع سے زیادہ تھے۔ سو ان کے چہرے کِھلے پڑتے تھے کہ یہ کم و بیش ایک انہونی بات تھی۔ یہاں میں نے خاص طور پر اپنی نظم ''روبوٹ'' سنائی کہ اس محفل کے لیے یہ بہت زیادہ بامعنی اور برمحل تھی۔
مجھے فطرت کے حسن بے نہائت سے محبت ہے
کہ میں خود اس کا حصہ ہوں
اسی کی بے کناری میں مجھے حیران رہنے دو
مجھے روبوٹ بننے سے بہت ہی خوف آتا ہے
نہ چھینوں مجھ سے میرے خواب کی یہ ان بنی دنیا
مرے رشتے، مرے ہم دم
کتابیں، شاعری، موسم
مجھے روبوٹ کی صورت مشینی زندگی کی بے ثمر
بھٹی مت ڈالو
مری پہچان رہنے دو!... مجھے انسان رہنے دو!!!
اگلا پڑاؤ ڈیٹرائٹ تھا اور یہ اس پروگرام میں شامل واحد شہر تھا جس میں مشاعرہ نہیں تھا (یہ اور بات ہے کہ برادرم شاہد حیات کے ڈنر کے بعد حاضرین کی فرمائش پر ایک منی مشاعرہ پھر بھی ہو گیا) شاہد حیات اس وقت Helping Hand تنظیم کے تین اعلیٰ ترین عہدیداران میں سے ہیں اور ڈیٹرائٹ میں قائم اس تنظیم کے ہیڈآفس کے انچارج اور سربراہ بھی، جس کی عمارت حال میں تعمیر کی گئی ہے۔ سو سب سے پہلے ہمیں دفتر کی مختلف شعبے اور حصے دکھائے گئے۔
یہ شہر کینیڈا سے اس قدر قریب ہے کہ عملے کے ایک صاحب ہر روز وہاں سے ڈیوٹی دینے کے لیے آتے ہیں۔ شاہد حیات صاحب سے 2012ء میں بھی اس وقت نیوجرسی میں ملاقات رہی تھی جب میں اور انور مسعود برادرم میاں عبدالشکور کے الفلاح ایجوکیشن پروگرام کی فنڈ ریزنگ کے لیے آئے تھے اور اسی کے دوران شکور بھائی کی اوپن ہارٹ سرجری بھی ہوئی تھی۔ دفتر کے ماحول میں سادگی اور ایک حد تک مذہبیت کا غلبہ تھا مگر شاہد حیات سمیت زیادہ تر لوگوں کی طبیعت بہت پرخلوص، گرمجوش اور بے ساختہ تھی۔ جب سے امریکا میں قدم رکھا تھا پہلا دن تھا جو ہوائی اڈے کی زیارت کے بغیر گزرا۔
ہوٹل میں آ کر ٹی وی لگایا تو ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک گھنٹے کا براہ راست انٹرویو چل رہا تھا، اگرچہ اپنی گفتگو، خیالات اور وضع قطع کے اعتبار سے یہ شخص کسی صورت امریکا کا صدر ہونے کا اہل دکھائی نہیں دیتا مگر وہاں کی فضا کے اعتبار سے اگر وہ ہیلری کلنٹن کے برابر نہیں تو اس سے کچھ کم مقبول بھی نہیں تھا۔
یہ اور بات ہے کہ بیشتر پڑھے لکھے اور بالخصوص امریکا میں مقیم وہاں کے غیر سفید فام شہری اس سے بہت نالاں نظر آئے کہ ان کے خیال میں وہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرح ایک کم عقل اور متعصب شخص تھا۔ عمومی عوامی رائے اگرچہ ہیلری کے حق میں تھی لیکن کوئی بھی ٹرمپ کو رائٹ آف کرنے پر تیار نہیں تھا کہ اس وقت میڈیا کے دباؤ نے سب کی مت مار رکھی ہے اور نفرت کی سیاست ساری دنیا میں زور پکڑ چکی ہے۔
البتہ جہاں تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی بات ہے تو اس ضمن میں عمومی رائے یہی تھی کہ صدر کوئی بھی ہے ان کی ریاستی پالیسیاں بہت کم تبدیل ہوتی ہیں۔ سو فی الوقت امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے وہ جاری رہے گا کہ اس کا تعلق انصاف کے بجائے سیاسی اور معاشی مفادات سے ہے اور بقول شخصے طاقتور ملک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آپس میں کتنی بھی مختلف کیوں نہ ہو مگر نوالہ توڑتے وقت ایک ہو جاتی ہیں۔
ہمارا اگلا اسٹیشن کولمبس اوہائیو تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ گزشتہ مشاعرہ یعنی اورنج کاؤنٹی لاس اینجلس والا پہلی بار ویک اینڈ کے علاوہ کسی دن ہوا تھا اور اسے اگلا ایک ایسے شہر میں تھا جہاں اس سطح کا مشاعرہ ہو ہی پہلی بار رہا تھا یعنی وہاں کے منتظمین بھی اسی مخمصے میں مبتلا تھے کہ لوگوں کا رسپانس کیا ہو گا؟ امریکا رقبے میں اتنا بڑا ہے کہ نزدیکی بڑے شہروں کے درمیان بھی آٹھ سے دس گھنٹے کا زمینی فاصلہ ہے۔ سو مجبوراً ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنا پڑتا ہے۔
دورے کے آغاز سے پہلے میں نے اور انور مسعود نے منتظمین سے زور دے کر کہا تھا کہ وہ کوشش کر کے پروگرام کو اس طرح سے ترتیب دیں کہ ہم سے زیادہ سفر بذریعہ کار کر سکیں لیکن صرف دو مقامات پر اس کی گنجائش نکل سکی جن میں سے پہلا ڈیٹرائٹ سے کولمبس اوہائیو کے درمیان تھا کہ یہ مسافت تقریباً چار گھنٹے پر محیط تھی۔ شاہد حیات نے ناخدائی کا بیڑا اٹھایا اور یوں اس سفر کے دوران پہلی مرتبہ امریکا کے کم و بیش ایک جیسے شہروں کی بے منظر نما یک منظری کے علاوہ بھی کچھ دیکھنے کا موقع ملا۔
اس شہر کے نام کے ساتھ ''کولمبس'' کی رعائت موجود ہے تو اس رعائت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بے مثال کارٹون کا ذکر بہت برمحل ہو گیا ہے۔ کارٹون کچھ یوں تھا کہ ساحل سمندر پر ایک ٹیلے کے پیچھے دو ریڈ انڈین دور سے کولمبس کے جہاز کو آتا دیکھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے تاحد نظر ویرانی ہی ویرانی ہے اور کہیں بھی آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ایسے میں ایک ریڈ انڈین آتے ہوئے جہاز کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔
''لو بھائی، ہمسائیگی کا مزا تو گیا''
اپنی بے تکلف مزاحیہ طبیعت اور پہلوانی ڈیل ڈول کے باوجود وہ سرتا پا فنافی الادب ہیں۔ ان سے L.A کے علاوہ سنگاپور میں بھی ملاقات رہی ہے اور ہر بار فضا میں ایک خوشگوار تاثر قائم رہا ہے۔ انھوں نے مجھ سمیت چند ادیب دوستوں سے خیالی اور تصوراتی ملاقاتوں کا احوال بھی تحریر کیا ہے جو ایک نیا تجربہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور پرلطف بھی ہے۔ لاس اینجلس کے پرانے ملاقاتیوں، یعنی آپا نیر جہاں، مجید اختر، امجد جعفری اور ریحانہ قمر سے ملاقات نہیں ہو سکی کہ چاروں کسی نہ کسی سبب سے تقریب میں شامل نہ ہو سکے۔
البتہ برادرم فارغ بخاری مرحوم کے صاحبزادے ظفر عباس اپنی بیگم اور پرخلوص مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ حاضرین، منتظمین کی توقع سے زیادہ تھے۔ سو ان کے چہرے کِھلے پڑتے تھے کہ یہ کم و بیش ایک انہونی بات تھی۔ یہاں میں نے خاص طور پر اپنی نظم ''روبوٹ'' سنائی کہ اس محفل کے لیے یہ بہت زیادہ بامعنی اور برمحل تھی۔
مجھے فطرت کے حسن بے نہائت سے محبت ہے
کہ میں خود اس کا حصہ ہوں
اسی کی بے کناری میں مجھے حیران رہنے دو
مجھے روبوٹ بننے سے بہت ہی خوف آتا ہے
نہ چھینوں مجھ سے میرے خواب کی یہ ان بنی دنیا
مرے رشتے، مرے ہم دم
کتابیں، شاعری، موسم
مجھے روبوٹ کی صورت مشینی زندگی کی بے ثمر
بھٹی مت ڈالو
مری پہچان رہنے دو!... مجھے انسان رہنے دو!!!
اگلا پڑاؤ ڈیٹرائٹ تھا اور یہ اس پروگرام میں شامل واحد شہر تھا جس میں مشاعرہ نہیں تھا (یہ اور بات ہے کہ برادرم شاہد حیات کے ڈنر کے بعد حاضرین کی فرمائش پر ایک منی مشاعرہ پھر بھی ہو گیا) شاہد حیات اس وقت Helping Hand تنظیم کے تین اعلیٰ ترین عہدیداران میں سے ہیں اور ڈیٹرائٹ میں قائم اس تنظیم کے ہیڈآفس کے انچارج اور سربراہ بھی، جس کی عمارت حال میں تعمیر کی گئی ہے۔ سو سب سے پہلے ہمیں دفتر کی مختلف شعبے اور حصے دکھائے گئے۔
یہ شہر کینیڈا سے اس قدر قریب ہے کہ عملے کے ایک صاحب ہر روز وہاں سے ڈیوٹی دینے کے لیے آتے ہیں۔ شاہد حیات صاحب سے 2012ء میں بھی اس وقت نیوجرسی میں ملاقات رہی تھی جب میں اور انور مسعود برادرم میاں عبدالشکور کے الفلاح ایجوکیشن پروگرام کی فنڈ ریزنگ کے لیے آئے تھے اور اسی کے دوران شکور بھائی کی اوپن ہارٹ سرجری بھی ہوئی تھی۔ دفتر کے ماحول میں سادگی اور ایک حد تک مذہبیت کا غلبہ تھا مگر شاہد حیات سمیت زیادہ تر لوگوں کی طبیعت بہت پرخلوص، گرمجوش اور بے ساختہ تھی۔ جب سے امریکا میں قدم رکھا تھا پہلا دن تھا جو ہوائی اڈے کی زیارت کے بغیر گزرا۔
ہوٹل میں آ کر ٹی وی لگایا تو ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک گھنٹے کا براہ راست انٹرویو چل رہا تھا، اگرچہ اپنی گفتگو، خیالات اور وضع قطع کے اعتبار سے یہ شخص کسی صورت امریکا کا صدر ہونے کا اہل دکھائی نہیں دیتا مگر وہاں کی فضا کے اعتبار سے اگر وہ ہیلری کلنٹن کے برابر نہیں تو اس سے کچھ کم مقبول بھی نہیں تھا۔
یہ اور بات ہے کہ بیشتر پڑھے لکھے اور بالخصوص امریکا میں مقیم وہاں کے غیر سفید فام شہری اس سے بہت نالاں نظر آئے کہ ان کے خیال میں وہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرح ایک کم عقل اور متعصب شخص تھا۔ عمومی عوامی رائے اگرچہ ہیلری کے حق میں تھی لیکن کوئی بھی ٹرمپ کو رائٹ آف کرنے پر تیار نہیں تھا کہ اس وقت میڈیا کے دباؤ نے سب کی مت مار رکھی ہے اور نفرت کی سیاست ساری دنیا میں زور پکڑ چکی ہے۔
البتہ جہاں تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی بات ہے تو اس ضمن میں عمومی رائے یہی تھی کہ صدر کوئی بھی ہے ان کی ریاستی پالیسیاں بہت کم تبدیل ہوتی ہیں۔ سو فی الوقت امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے وہ جاری رہے گا کہ اس کا تعلق انصاف کے بجائے سیاسی اور معاشی مفادات سے ہے اور بقول شخصے طاقتور ملک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آپس میں کتنی بھی مختلف کیوں نہ ہو مگر نوالہ توڑتے وقت ایک ہو جاتی ہیں۔
ہمارا اگلا اسٹیشن کولمبس اوہائیو تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ گزشتہ مشاعرہ یعنی اورنج کاؤنٹی لاس اینجلس والا پہلی بار ویک اینڈ کے علاوہ کسی دن ہوا تھا اور اسے اگلا ایک ایسے شہر میں تھا جہاں اس سطح کا مشاعرہ ہو ہی پہلی بار رہا تھا یعنی وہاں کے منتظمین بھی اسی مخمصے میں مبتلا تھے کہ لوگوں کا رسپانس کیا ہو گا؟ امریکا رقبے میں اتنا بڑا ہے کہ نزدیکی بڑے شہروں کے درمیان بھی آٹھ سے دس گھنٹے کا زمینی فاصلہ ہے۔ سو مجبوراً ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنا پڑتا ہے۔
دورے کے آغاز سے پہلے میں نے اور انور مسعود نے منتظمین سے زور دے کر کہا تھا کہ وہ کوشش کر کے پروگرام کو اس طرح سے ترتیب دیں کہ ہم سے زیادہ سفر بذریعہ کار کر سکیں لیکن صرف دو مقامات پر اس کی گنجائش نکل سکی جن میں سے پہلا ڈیٹرائٹ سے کولمبس اوہائیو کے درمیان تھا کہ یہ مسافت تقریباً چار گھنٹے پر محیط تھی۔ شاہد حیات نے ناخدائی کا بیڑا اٹھایا اور یوں اس سفر کے دوران پہلی مرتبہ امریکا کے کم و بیش ایک جیسے شہروں کی بے منظر نما یک منظری کے علاوہ بھی کچھ دیکھنے کا موقع ملا۔
اس شہر کے نام کے ساتھ ''کولمبس'' کی رعائت موجود ہے تو اس رعائت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بے مثال کارٹون کا ذکر بہت برمحل ہو گیا ہے۔ کارٹون کچھ یوں تھا کہ ساحل سمندر پر ایک ٹیلے کے پیچھے دو ریڈ انڈین دور سے کولمبس کے جہاز کو آتا دیکھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے تاحد نظر ویرانی ہی ویرانی ہے اور کہیں بھی آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ایسے میں ایک ریڈ انڈین آتے ہوئے جہاز کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔
''لو بھائی، ہمسائیگی کا مزا تو گیا''