لہو رنگ وادی کشمیر
آزاد وطن میں زیست گزارنے والے بے حد خوش قسمت اور عدم تحفظ کے احساس سے آزاد ہوتے ہیں
آزاد وطن میں زیست گزارنے والے بے حد خوش قسمت اور عدم تحفظ کے احساس سے آزاد ہوتے ہیں، وہ قومی و مذہبی تہواروں کو سکون و مسرت کے ساتھ مناتے اور زندگی کے ادوار اور موسموں کے بدلتے رنگوں سے ہزاروں مسائل کے باوجود لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس مقبوضہ خطوں میں زندگی گزارنے والے ہر روز مرتے اور جیتے ہیں، اپنوں کے جنازوں کو کاندھا دیتے ہوئے بھی صبر سے کام لیتے ہیں، لاشوں کے انبار اور ننھے بچوں کو خون میں لتھڑا ہوا دیکھتے ہیں اور خون کے آنسو روتے ہیں۔
دنیا تماشائی اور انسانیت کی بقا کو پروان چڑھانے والے اپنے لبوں پر مہر لگائے اور آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، جیسے وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا خون اسی طرح سڑکوں شاہراہوں اور گھروں میں بہتا رہے، نوجوان سر دھڑ کی بازی لگاتے رہیں۔ یہ کیسا انصاف اور انصاف کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ لہو سب کا لال اور جذبات یکساں، رشتوں، ناتوں میں ہر شخص تسبیح کے دانوں کی طرح پرویا ہوا ہے۔
پاکستان کو بنے ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن ہمارے کشمیری بھائی ایک طویل عرصے سے اپنے لخت جگر اور نور نظر جیسی اولاد کو لحد میں اتار رہے ہیں، ظلم بڑھتا جا رہا ہے اور روشنی ختم ہو رہی ہے۔
یہ ماہ و سال شاید تاریکیوں کو دور کرنے کی نوید سنادیں، اس کی وجہ وقت کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ حکمران جاگ گئے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دھمکی آمیز بیانات سے پورے خطے کا امن و استحکام خطرے میں پڑ جائے گا، جب کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ''پاکستان اور ترکی یک جان دو قالب ہیں، ہمارا جینا مرنا آپ کے ساتھ اور آپ کا جینا مرنا ہمارے ساتھ ہے۔''
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت میں امن نہیں ہوسکتا، کشمیریوں کی نئی نسل بھارتی قبضے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، برہان وانی شہید نوجوانوں کے لیے مثال بن چکے ہیں، اقوام متحدہ کرفیو ختم کرائے اور مقبوضہ وادی کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کے لیے اقدامات کرے۔''
چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے اور راہداری منصوبہ بھی ہر حال میں مکمل ہوگا'' چین نے ببانگ دہل اعلان کردیا ہے کہ اگر بھارت جنگ مسلط کرتا ہے تو چین اسلام آباد کا ساتھ دے گا اور پاکستان کو تنہا ہرگز نہ چھوڑے گا۔
جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی، دور اندیشی اور حب الوطنی ساتھ میں ضرب عضب کی کامیابی نے دشمنوں پر ہیبت طاری کردی ہے، وہ خوفزدہ بھی ہیں اور دلیری دکھانے کے لیے کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی فوج کی فائرنگ سے ہمارے دو فوجی جوان حوالدار جمعہ خان اور نائیک امتیاز شہید ہوئے تو اس کے جواب میں پاک فوج نے چودہ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا۔
جنرل راحیل شریف نے ارکان پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ قول و فعل سے پاکستان کے دہشت گرد ہونے کا تاثر ختم کریں، لہٰذا سیاسی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو پیغام دے دیا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ہم سب کی ایک رائے ہے، پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بھارت 1965 کی جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد بے حد خوفزدہ ہے، اسی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر بھارتی فوجیوں نے زیر زمین بنکر (مورچے) بنانا شروع کردیے ہیں، برطانوی اخبار ''ٹیلی گراف'' کے مطابق ''اڑی'' کے قریب ایک فوجی چوکی کے دورے سے پتا چلا ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول کے ساتھ نہایت خاموشی کے ساتھ قلعہ بندیاں کر رہا ہے جب کہ وادی میں مکمل کرفیو لگا ہوا ہے اور بھارتی افواج نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں 10 کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا تھا، آئے دن سیکڑوں کشمیری گرفتار کیے جاتے ہیں، دوران حراست انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پیلٹ گن سے فائرنگ کی جاتی ہے ۔14 جولائی 2016 کو ایک تصویر جاری ہوئی تھی، یہ تصویر کشمیری معصوم لڑکی انشا ملک کی تھی، جوکہ سری نگر کے اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انشا ملک دونوں آنکھوں سے محروم ہوچکی ہے، اس بچی کی ہی طرح ہزاروں لوگ جن میں بچے، جوان اور بزرگ شامل ہیں، بھارت ان پر طرح طرح کے ستم کرتے نہیں تھکتا۔
بھارت کے اپنے وہ لوگ جو مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں، جن میں فنکار، سیاستدان اور قلم کار شامل ہیں، حال ہی میں بھارتی اداکار اوم پوری کو حقیقت کا انکشاف کرنے پر غدار قرار دے دیا گیا، تعلیمی شعبوں میں بھی مسلم طلبا سے نفرت و تعصب کی مثالیں ہمارے سامنے ہر روز آشکارا ہوتی ہیں، طلبا تعلیم چھوڑنے یا دوسرے اداروں میں جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، بعض اوقات نفرت کی چنگاریاں اس قدر بھڑک جاتی ہیں کہ ان کی زد میں کشمیری نوجوان آکر جھلس جاتے ہیں۔ یہ کہانی برسوں سے دہرائی جارہی ہے۔
انڈین ناول نگار ارون دھتی رائے نے ''آؤٹ لک'' میں اپنی تحریر کے حوالے سے کہا ہے کہ ''اگر ہم واقعی مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں، وادی میں موت کا کھیل روکنا چاہتے ہیں تو تھوڑا سا اخلاص درکار ہوگا، دیانت داری سے مکالمہ کرنا ہوگا جس کا موضوع آزادی ہو۔ نقشے کب سے اس قدر مقدس ہوگئے ہیں؟ کشمیریوں کے لیے آزادی کا کیا مطلب ہے؟ اس پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی، لوگوں کا حق خودارادیت کیوں ہر قیمت پر کچلنا ضروری ہے، کیا بھارت کے لوگ اپنے ضمیر پر ہزاروں کشمیریوں کے خون کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ درحقیقت اہمیت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟''
ارون دھتی رائے نے 1992 میں The God of Small Thing لکھ کر بے پناہ شہرت حاصل کی تھی اور انھوں نے گجرات کا واقعہ درد مندی کے ساتھ قلم بند کیا تھا۔ 2008 میں Times of India کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیریوں کو ان کا حق ضرور ملنا چاہیے۔
یکم جنوری 1954 کو کلکتہ میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران پنڈت نہرو نے کشمیر میں رائے شماری کے انعقاد سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے بارے میں کہا کہ ''ہم نے مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا ہے اور اس کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے اپنا قول دیا ہے اور ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم اپنے اس قول سے پھر نہیں سکتے، ہم نے یہ مسئلہ اب کشمیری عوام پر چھوڑ دیا ہے، لہٰذا اس بارے میں کشمیری عوام جو فیصلہ بھی کریں گے ہم اس کے پابند رہیں گے۔''
بھارتی حکومت کی منافقانہ پالیسی و غاصبانہ رویہ سب کے سامنے ہے کہ اسے اپنی بات کا پاس ہرگز نہیں، اسے انسانوں سے زیادہ زر، زمین سے پیار ہے اور یہ پیار جنون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
دنیا تماشائی اور انسانیت کی بقا کو پروان چڑھانے والے اپنے لبوں پر مہر لگائے اور آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، جیسے وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا خون اسی طرح سڑکوں شاہراہوں اور گھروں میں بہتا رہے، نوجوان سر دھڑ کی بازی لگاتے رہیں۔ یہ کیسا انصاف اور انصاف کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ لہو سب کا لال اور جذبات یکساں، رشتوں، ناتوں میں ہر شخص تسبیح کے دانوں کی طرح پرویا ہوا ہے۔
پاکستان کو بنے ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن ہمارے کشمیری بھائی ایک طویل عرصے سے اپنے لخت جگر اور نور نظر جیسی اولاد کو لحد میں اتار رہے ہیں، ظلم بڑھتا جا رہا ہے اور روشنی ختم ہو رہی ہے۔
یہ ماہ و سال شاید تاریکیوں کو دور کرنے کی نوید سنادیں، اس کی وجہ وقت کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ حکمران جاگ گئے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دھمکی آمیز بیانات سے پورے خطے کا امن و استحکام خطرے میں پڑ جائے گا، جب کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ''پاکستان اور ترکی یک جان دو قالب ہیں، ہمارا جینا مرنا آپ کے ساتھ اور آپ کا جینا مرنا ہمارے ساتھ ہے۔''
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت میں امن نہیں ہوسکتا، کشمیریوں کی نئی نسل بھارتی قبضے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، برہان وانی شہید نوجوانوں کے لیے مثال بن چکے ہیں، اقوام متحدہ کرفیو ختم کرائے اور مقبوضہ وادی کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کے لیے اقدامات کرے۔''
چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے اور راہداری منصوبہ بھی ہر حال میں مکمل ہوگا'' چین نے ببانگ دہل اعلان کردیا ہے کہ اگر بھارت جنگ مسلط کرتا ہے تو چین اسلام آباد کا ساتھ دے گا اور پاکستان کو تنہا ہرگز نہ چھوڑے گا۔
جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی، دور اندیشی اور حب الوطنی ساتھ میں ضرب عضب کی کامیابی نے دشمنوں پر ہیبت طاری کردی ہے، وہ خوفزدہ بھی ہیں اور دلیری دکھانے کے لیے کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی فوج کی فائرنگ سے ہمارے دو فوجی جوان حوالدار جمعہ خان اور نائیک امتیاز شہید ہوئے تو اس کے جواب میں پاک فوج نے چودہ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا۔
جنرل راحیل شریف نے ارکان پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ قول و فعل سے پاکستان کے دہشت گرد ہونے کا تاثر ختم کریں، لہٰذا سیاسی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو پیغام دے دیا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ہم سب کی ایک رائے ہے، پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بھارت 1965 کی جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد بے حد خوفزدہ ہے، اسی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر بھارتی فوجیوں نے زیر زمین بنکر (مورچے) بنانا شروع کردیے ہیں، برطانوی اخبار ''ٹیلی گراف'' کے مطابق ''اڑی'' کے قریب ایک فوجی چوکی کے دورے سے پتا چلا ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول کے ساتھ نہایت خاموشی کے ساتھ قلعہ بندیاں کر رہا ہے جب کہ وادی میں مکمل کرفیو لگا ہوا ہے اور بھارتی افواج نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں 10 کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا تھا، آئے دن سیکڑوں کشمیری گرفتار کیے جاتے ہیں، دوران حراست انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پیلٹ گن سے فائرنگ کی جاتی ہے ۔14 جولائی 2016 کو ایک تصویر جاری ہوئی تھی، یہ تصویر کشمیری معصوم لڑکی انشا ملک کی تھی، جوکہ سری نگر کے اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انشا ملک دونوں آنکھوں سے محروم ہوچکی ہے، اس بچی کی ہی طرح ہزاروں لوگ جن میں بچے، جوان اور بزرگ شامل ہیں، بھارت ان پر طرح طرح کے ستم کرتے نہیں تھکتا۔
بھارت کے اپنے وہ لوگ جو مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں، جن میں فنکار، سیاستدان اور قلم کار شامل ہیں، حال ہی میں بھارتی اداکار اوم پوری کو حقیقت کا انکشاف کرنے پر غدار قرار دے دیا گیا، تعلیمی شعبوں میں بھی مسلم طلبا سے نفرت و تعصب کی مثالیں ہمارے سامنے ہر روز آشکارا ہوتی ہیں، طلبا تعلیم چھوڑنے یا دوسرے اداروں میں جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، بعض اوقات نفرت کی چنگاریاں اس قدر بھڑک جاتی ہیں کہ ان کی زد میں کشمیری نوجوان آکر جھلس جاتے ہیں۔ یہ کہانی برسوں سے دہرائی جارہی ہے۔
انڈین ناول نگار ارون دھتی رائے نے ''آؤٹ لک'' میں اپنی تحریر کے حوالے سے کہا ہے کہ ''اگر ہم واقعی مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں، وادی میں موت کا کھیل روکنا چاہتے ہیں تو تھوڑا سا اخلاص درکار ہوگا، دیانت داری سے مکالمہ کرنا ہوگا جس کا موضوع آزادی ہو۔ نقشے کب سے اس قدر مقدس ہوگئے ہیں؟ کشمیریوں کے لیے آزادی کا کیا مطلب ہے؟ اس پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی، لوگوں کا حق خودارادیت کیوں ہر قیمت پر کچلنا ضروری ہے، کیا بھارت کے لوگ اپنے ضمیر پر ہزاروں کشمیریوں کے خون کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ درحقیقت اہمیت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟''
ارون دھتی رائے نے 1992 میں The God of Small Thing لکھ کر بے پناہ شہرت حاصل کی تھی اور انھوں نے گجرات کا واقعہ درد مندی کے ساتھ قلم بند کیا تھا۔ 2008 میں Times of India کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیریوں کو ان کا حق ضرور ملنا چاہیے۔
یکم جنوری 1954 کو کلکتہ میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران پنڈت نہرو نے کشمیر میں رائے شماری کے انعقاد سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے بارے میں کہا کہ ''ہم نے مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا ہے اور اس کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے اپنا قول دیا ہے اور ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم اپنے اس قول سے پھر نہیں سکتے، ہم نے یہ مسئلہ اب کشمیری عوام پر چھوڑ دیا ہے، لہٰذا اس بارے میں کشمیری عوام جو فیصلہ بھی کریں گے ہم اس کے پابند رہیں گے۔''
بھارتی حکومت کی منافقانہ پالیسی و غاصبانہ رویہ سب کے سامنے ہے کہ اسے اپنی بات کا پاس ہرگز نہیں، اسے انسانوں سے زیادہ زر، زمین سے پیار ہے اور یہ پیار جنون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔