پاکستان کی خسارے کی تجارت
مقامی مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنیوالا ادارہ نیشنل ٹیرف کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے
ویسے تو ہمارے حکمران آئے روز ٹی وی چینلز پر اقتصادی ترقی اور تجارتی پیشرفت کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور یہ دعوے کرتے ہیں کہ چند برسوں میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملک میں غیر ملکی سامان کی بھرمار ہے ٹائلز،کاٹن یارن، پرنٹنگ، لوہا اور جست سمیت کئی مقامی صنعتیں شدید متاثر ہوگئی ہیں۔
مقامی مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنیوالا ادارہ نیشنل ٹیرف کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک میں بھارتی، چینی اور دیگر غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار ہوگئی ہے اور ملکی مصنوعات کاٹن یارن،کولڈرول کول، بلٹ، جستی کونڈلی، وائے راڈ، پرنٹنگ، آفسٹ سیاہی، وال اینڈ فلور ٹائلز سمیت دیگر صنعتیں شامل ہیں۔
نیشنل ٹیرف کمیشن کی دستاویزات کے مطابق گزشتہ چودہ ماہ میں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کرنے کے لیے بیس کیسز دائر کیے گئے ہیں جس میں 10 کیسز چین سے درآمد کیے گئے سامان کیخلاف ہیں۔ دو کیسز بھارت ایک کیس یوکرائن، ایک کیس ملائیشیا، دوکیسز جنوبی کوریا، دو کیسز انڈونیشیا،ایک جاپان اور ایک تھائی لینڈ کیخلاف دائرکیاگیا ہے۔
ملک میں موجودہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث گزشتہ 5سالوں میں غیرقانونی سگریٹ کی تجارت کی مد میں نقصان نوے ارب روپے سے تجاوزکرگیا ہے ہرچند کہ دو درجن قوانین 13 اداروں کے باوجود عملدرآمد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے غیرقانونی تجارت میں 40 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ادھر عوام پر مہنگائی بجلی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گرتی جا رہی ہے، حال ہی میں مرغی، ایل پی جی، آٹا، دودھ اورچائے سمیت گزشتہ ہفتے 12 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ گوبھی 80 روپے کلو بک رہی ہے جو 30 روپے بھی بکے تو مہنگی قرار پائے، پاکستان میں تمام اشیائے خورونوش کی برآمد میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔
رواں مالی سال جولائی اور اگست کے دوران خوردنی اشیا کی برآمد کے مقابلے میں درآمد کے رجحانات میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کو خوردنی اشیا کی تجارت میں 48 کروڑ 81 لاکھ ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران خوردنی اشیا کی تجارت میں درپیش 25کروڑ 39 لاکھ ڈالر مالیت کے خسارے سے 23 کروڑ 42 لاکھ ڈالر زائد ہے۔ جولائی اگست 2015 کے مقابلے میں جولائی اگست 2016 کے دوران خوردنی اشیا کی برآمدات میں 15 فیصد جب کہ درآمدات میں 23 فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیا۔
سب سے نمایاں کمی چاول کی برآمدات میں ریکارڈ کی گئی۔ دو ماہ کے دوران مجموعی طور پر 15 کروڑ 95 لاکھ ڈالر مالیت کے 3 لاکھ 18 ہزار 400 ٹن چاول برآمد کیے گئے جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 21 کروڑ26 لاکھ ڈالر مالیت کے 3 لاکھ 93 ہزار 765 ٹن چاول برآمد کیے گئے تھے۔ اس طرح چاول کی برآمدات میں بلحاظ مالیت 25 فیصد جب کہ مقدارکے لحاظ سے 19 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ مچھلی اور مچھلی سے تیار خوراک کی برآمدات 9.8 فیصد کمی سے 2 کروڑ 94 لاکھ ڈالر رہی۔
گزشتہ سال کے اسی عرصے میں سمندری غذا کی برآمدات 3 کروڑ 26 لاکھ ڈالر رہی ہے۔ سبزیوں کی برآمدات کی مالیت کے لحاظ سے 43 فیصد اور مقدار کے لحاظ سے 42 فیصد کمی کے ساتھ ایک کروڑ 88 لاکھ ڈالر تک محدود رہی۔گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 3 کروڑ 31لاکھ ڈالرکی سبزیاں برآمد کی گئی تھیں۔
گوشت اور گوشت سے تیار خوراک کی برآمدات مالیت کے لحاظ سے 38 فیصد جب کہ مقدار کے لحاظ سے 46 فیصد کم رہی، دو ماہ کے دوران 3 کروڑ 15 لاکھ ڈالر مالیت کا 7 ہزار 840 ٹن گوشت اور گوشت کی خوراک برآمد کی گئی جب کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے 5 کروڑ 11 لاکھ ڈالر مالیت کا 14 ہزار 559 ٹن گوشت اور گوشت سے تیار خوراک برآمد کی گئی۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال خشک دودھ، خشک میوہ جات، مصالحہ جات، سویا بین آئل، پام آئل اور چائے کی درآمدات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تصویر کے دوسرے رخ پہ اگر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ برآمد وہ اشیا کی جاتی ہیں جو اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بعد زائد پیداوار ہوں۔ ہمارے تجارتی میں سب سے زیادہ اس بار خسارہ چاول کی برآمدات میں ہوا ہے۔
ایک جانب ہم بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، برما، ویتنام اورفلپائن سے عالمی تجارت میں چاول کم قیمت میں فروخت نہیں کرپائے جس کی وجہ سے ہمارے چاول کی برآمدات میں کمی ہوئی اس لیے کہ چاول کی پیداوار پہ خرچ زیادہ ہوئے اور لاگت زیادہ پڑنے پر سستی قیمت میں بیچ نہیں پائے۔ ہم کسانوں کو بجلی،کھاد، بیج اور پانی کم قیمت پر مہیا نہیں کر پاتے ہیں۔
ہندوستان اپنے کسانوں کو بلا سود زرعی بینک سے قرضے دیتا ہے، بجلی کا بل برائے نام وصول کرتا ہے،کھاد اور بیج رعایتی قیمتوں میں فراہم کرتا ہے پھر وہاں پانی کی کمی نہیں۔ ویتنام، فلپائن، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش کے دفاعی اخراجات بہت کم ہیں اور وہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ زراعت پر خرچ کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ہندوستانی پنجاب کے کسانوں نے اپنے مطالبات کے لیے زبردست ہڑتال کی، 5روز پنجاب میں ریلوے کی آمدورفت معطل تھی۔ کسانوں نے وزیر اعلیٰ بادل سنگھ اور ان کی پنجاب اسمبلی کا گھیراؤ کیا۔
پاکستان میں چاول 70 روپے سے 170 روپے کلو تک میں فروخت ہوتا ہے۔ اگر اس کی قیمت میں 50 فیصد کمی کردی جائے تو ملک کے اندر ہی چاول کی کھپت بڑھ جائے گی۔ اس کے لیے زراعت کے شعبے میں کسانوں کو رعایتیں دینی ہونگی اور یہ رعایت تب ہی دی جاسکتی ہے جب جاگیرداری ختم کی جائے، زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے اور سرکاری اختیار میں زرعی فارمز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یقینا دفاعی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے کسانوں کو یہ رعایتیں دی جاسکتی ہیں۔
ہمارے بجٹ کا بیشتر حصہ آئی ایم ایف کے قرضے اتارنے اور دفاع پر خرچ ہوجاتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے لیے برائے نام ہی رقم رہ جاتی ہے۔ سامراجی ادارے ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں حکومت صحت پر جی ڈی پی کا 0.90 فیصد اور تعلیم پر 2.5 فیصد خرچ کرتی ہے، اب رفتہ رفتہ یہ اخراجات بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔ اساتذہ، ینگ ڈاکٹرز اور نرسز بلاوجہ سڑکوں پر نہیں آئے۔
پہلے کہیں نہ کہیں سے ان شعبوں کے لیے مزید رقوم مختص کرنے کا دباؤ ہوتا تھا مگر اب چونکہ سیاست اور ریاست کی اشرافیہ کا کوئی دھڑا بھی ان شعبوں کو ریاستی تحویل میں چلانے پر یقین نہیں رکھتا، اس لیے مروجہ سیاست میں ان شعبوں پر مزید رقوم کے اضافے کا سوال ہی غائب سا ہوکر رہ گیا ہے۔ الٹا ان شعبوں کی نجکاری ایجنڈے پر ہے ہمارے وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے صرف 20 ارب اور تعلیم کے لیے 71 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور باقی کام صوبائی بجٹوں پر ڈال دیا گیا ہے۔
علاج اور کسی حد تک تعلیم کے دو ہی فیشن اور رجحان غالب آچکے ہیں۔ ایک طرف خیراتی اسپتالوں کا بہت واویلا ہے لیکن خیراتی اسپتالوں میں علاج کروانیوالوں کو تجربہ ہوتا ہے کہ یہاں علاج کی فراہمی کتنی خیراتی ہے۔ دوسری جانب ان شعبوں میں سب سے زیادہ نجی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نجی شعبہ سرکاری علاج وتعلیم کو ختم کرتا جارہا ہے یعنی آبادی کا وسیع حصہ ان بنیادی سہولیات سے مزید دور ہوتا چلا جارہا ہے۔
زیادہ تر سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اشرافیہ کے بڑے حصے خود ان شعبوں میں سرمایہ کاری اورمنافع خوری میں ملوث ہوں تو پھر سرکاری شعبے میں ان سہولیات کی فراہمی ان کے لیے تو نقصان دہ ثابت ہوگی، لہٰذا سرکاری تحویل میں ان سہولیات کی برائے نام فراہمی بھی حکمرانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اسی طرح سرکاری شعبے میں اس لالچ اور مالیاتی ہوس کے رجحانات کے غلبے میں کام کرنے والے سینئر ڈاکٹرز اور دوسرے اہلکار متوازی نجی علاج معالجے کا کاروبار چلاتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ممکن ہے۔
مقامی مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنیوالا ادارہ نیشنل ٹیرف کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک میں بھارتی، چینی اور دیگر غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار ہوگئی ہے اور ملکی مصنوعات کاٹن یارن،کولڈرول کول، بلٹ، جستی کونڈلی، وائے راڈ، پرنٹنگ، آفسٹ سیاہی، وال اینڈ فلور ٹائلز سمیت دیگر صنعتیں شامل ہیں۔
نیشنل ٹیرف کمیشن کی دستاویزات کے مطابق گزشتہ چودہ ماہ میں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کرنے کے لیے بیس کیسز دائر کیے گئے ہیں جس میں 10 کیسز چین سے درآمد کیے گئے سامان کیخلاف ہیں۔ دو کیسز بھارت ایک کیس یوکرائن، ایک کیس ملائیشیا، دوکیسز جنوبی کوریا، دو کیسز انڈونیشیا،ایک جاپان اور ایک تھائی لینڈ کیخلاف دائرکیاگیا ہے۔
ملک میں موجودہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث گزشتہ 5سالوں میں غیرقانونی سگریٹ کی تجارت کی مد میں نقصان نوے ارب روپے سے تجاوزکرگیا ہے ہرچند کہ دو درجن قوانین 13 اداروں کے باوجود عملدرآمد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے غیرقانونی تجارت میں 40 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ادھر عوام پر مہنگائی بجلی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گرتی جا رہی ہے، حال ہی میں مرغی، ایل پی جی، آٹا، دودھ اورچائے سمیت گزشتہ ہفتے 12 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ گوبھی 80 روپے کلو بک رہی ہے جو 30 روپے بھی بکے تو مہنگی قرار پائے، پاکستان میں تمام اشیائے خورونوش کی برآمد میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔
رواں مالی سال جولائی اور اگست کے دوران خوردنی اشیا کی برآمد کے مقابلے میں درآمد کے رجحانات میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کو خوردنی اشیا کی تجارت میں 48 کروڑ 81 لاکھ ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران خوردنی اشیا کی تجارت میں درپیش 25کروڑ 39 لاکھ ڈالر مالیت کے خسارے سے 23 کروڑ 42 لاکھ ڈالر زائد ہے۔ جولائی اگست 2015 کے مقابلے میں جولائی اگست 2016 کے دوران خوردنی اشیا کی برآمدات میں 15 فیصد جب کہ درآمدات میں 23 فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیا۔
سب سے نمایاں کمی چاول کی برآمدات میں ریکارڈ کی گئی۔ دو ماہ کے دوران مجموعی طور پر 15 کروڑ 95 لاکھ ڈالر مالیت کے 3 لاکھ 18 ہزار 400 ٹن چاول برآمد کیے گئے جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 21 کروڑ26 لاکھ ڈالر مالیت کے 3 لاکھ 93 ہزار 765 ٹن چاول برآمد کیے گئے تھے۔ اس طرح چاول کی برآمدات میں بلحاظ مالیت 25 فیصد جب کہ مقدارکے لحاظ سے 19 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ مچھلی اور مچھلی سے تیار خوراک کی برآمدات 9.8 فیصد کمی سے 2 کروڑ 94 لاکھ ڈالر رہی۔
گزشتہ سال کے اسی عرصے میں سمندری غذا کی برآمدات 3 کروڑ 26 لاکھ ڈالر رہی ہے۔ سبزیوں کی برآمدات کی مالیت کے لحاظ سے 43 فیصد اور مقدار کے لحاظ سے 42 فیصد کمی کے ساتھ ایک کروڑ 88 لاکھ ڈالر تک محدود رہی۔گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 3 کروڑ 31لاکھ ڈالرکی سبزیاں برآمد کی گئی تھیں۔
گوشت اور گوشت سے تیار خوراک کی برآمدات مالیت کے لحاظ سے 38 فیصد جب کہ مقدار کے لحاظ سے 46 فیصد کم رہی، دو ماہ کے دوران 3 کروڑ 15 لاکھ ڈالر مالیت کا 7 ہزار 840 ٹن گوشت اور گوشت کی خوراک برآمد کی گئی جب کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے 5 کروڑ 11 لاکھ ڈالر مالیت کا 14 ہزار 559 ٹن گوشت اور گوشت سے تیار خوراک برآمد کی گئی۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال خشک دودھ، خشک میوہ جات، مصالحہ جات، سویا بین آئل، پام آئل اور چائے کی درآمدات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تصویر کے دوسرے رخ پہ اگر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ برآمد وہ اشیا کی جاتی ہیں جو اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بعد زائد پیداوار ہوں۔ ہمارے تجارتی میں سب سے زیادہ اس بار خسارہ چاول کی برآمدات میں ہوا ہے۔
ایک جانب ہم بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، برما، ویتنام اورفلپائن سے عالمی تجارت میں چاول کم قیمت میں فروخت نہیں کرپائے جس کی وجہ سے ہمارے چاول کی برآمدات میں کمی ہوئی اس لیے کہ چاول کی پیداوار پہ خرچ زیادہ ہوئے اور لاگت زیادہ پڑنے پر سستی قیمت میں بیچ نہیں پائے۔ ہم کسانوں کو بجلی،کھاد، بیج اور پانی کم قیمت پر مہیا نہیں کر پاتے ہیں۔
ہندوستان اپنے کسانوں کو بلا سود زرعی بینک سے قرضے دیتا ہے، بجلی کا بل برائے نام وصول کرتا ہے،کھاد اور بیج رعایتی قیمتوں میں فراہم کرتا ہے پھر وہاں پانی کی کمی نہیں۔ ویتنام، فلپائن، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش کے دفاعی اخراجات بہت کم ہیں اور وہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ زراعت پر خرچ کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ہندوستانی پنجاب کے کسانوں نے اپنے مطالبات کے لیے زبردست ہڑتال کی، 5روز پنجاب میں ریلوے کی آمدورفت معطل تھی۔ کسانوں نے وزیر اعلیٰ بادل سنگھ اور ان کی پنجاب اسمبلی کا گھیراؤ کیا۔
پاکستان میں چاول 70 روپے سے 170 روپے کلو تک میں فروخت ہوتا ہے۔ اگر اس کی قیمت میں 50 فیصد کمی کردی جائے تو ملک کے اندر ہی چاول کی کھپت بڑھ جائے گی۔ اس کے لیے زراعت کے شعبے میں کسانوں کو رعایتیں دینی ہونگی اور یہ رعایت تب ہی دی جاسکتی ہے جب جاگیرداری ختم کی جائے، زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے اور سرکاری اختیار میں زرعی فارمز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یقینا دفاعی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے کسانوں کو یہ رعایتیں دی جاسکتی ہیں۔
ہمارے بجٹ کا بیشتر حصہ آئی ایم ایف کے قرضے اتارنے اور دفاع پر خرچ ہوجاتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے لیے برائے نام ہی رقم رہ جاتی ہے۔ سامراجی ادارے ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں حکومت صحت پر جی ڈی پی کا 0.90 فیصد اور تعلیم پر 2.5 فیصد خرچ کرتی ہے، اب رفتہ رفتہ یہ اخراجات بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔ اساتذہ، ینگ ڈاکٹرز اور نرسز بلاوجہ سڑکوں پر نہیں آئے۔
پہلے کہیں نہ کہیں سے ان شعبوں کے لیے مزید رقوم مختص کرنے کا دباؤ ہوتا تھا مگر اب چونکہ سیاست اور ریاست کی اشرافیہ کا کوئی دھڑا بھی ان شعبوں کو ریاستی تحویل میں چلانے پر یقین نہیں رکھتا، اس لیے مروجہ سیاست میں ان شعبوں پر مزید رقوم کے اضافے کا سوال ہی غائب سا ہوکر رہ گیا ہے۔ الٹا ان شعبوں کی نجکاری ایجنڈے پر ہے ہمارے وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے صرف 20 ارب اور تعلیم کے لیے 71 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور باقی کام صوبائی بجٹوں پر ڈال دیا گیا ہے۔
علاج اور کسی حد تک تعلیم کے دو ہی فیشن اور رجحان غالب آچکے ہیں۔ ایک طرف خیراتی اسپتالوں کا بہت واویلا ہے لیکن خیراتی اسپتالوں میں علاج کروانیوالوں کو تجربہ ہوتا ہے کہ یہاں علاج کی فراہمی کتنی خیراتی ہے۔ دوسری جانب ان شعبوں میں سب سے زیادہ نجی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نجی شعبہ سرکاری علاج وتعلیم کو ختم کرتا جارہا ہے یعنی آبادی کا وسیع حصہ ان بنیادی سہولیات سے مزید دور ہوتا چلا جارہا ہے۔
زیادہ تر سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اشرافیہ کے بڑے حصے خود ان شعبوں میں سرمایہ کاری اورمنافع خوری میں ملوث ہوں تو پھر سرکاری شعبے میں ان سہولیات کی فراہمی ان کے لیے تو نقصان دہ ثابت ہوگی، لہٰذا سرکاری تحویل میں ان سہولیات کی برائے نام فراہمی بھی حکمرانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اسی طرح سرکاری شعبے میں اس لالچ اور مالیاتی ہوس کے رجحانات کے غلبے میں کام کرنے والے سینئر ڈاکٹرز اور دوسرے اہلکار متوازی نجی علاج معالجے کا کاروبار چلاتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ممکن ہے۔